Surah Al Araaf Ayat 166 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿فَلَمَّا عَتَوْا عَن مَّا نُهُوا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ﴾
[ الأعراف: 166]
غرض جن اعمال (بد) سے ان کو منع کیا گیا تھا جب وہ ان (پراصرار اور ہمارے حکم سے) گردن کشی کرنے لگے تو ہم نے ان کو حکم دیا کہ ذلیل بندر ہوجاؤ
Surah Al Araaf Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) ” عَتَوْا “ کے معنی ہیں، جنہوں نے اللہ کی نافرمانی میں حد سے تجاوز کیا۔ مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ نجات پانے والے صرف وہی تھے، جو منع کرتے تھے اور باقی دونوں عذاب الٰہی کی زد میں آئے؟ یا زد میں آنے والے صرف معصیت کار تھے؟ اور باقی دو جماعتیں نجات پانے والی تھیں؟ امام ابن کثیر نے دوسری رائے کو ترجیح دی ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
اصحاب سبت جس بستی کے لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے ان کے تین گروہ ہوگئے تھے ایک تو حرام شکار کھیلنے والا اور حیلے حوالوں سے مچھلی پکڑنے والا۔ دوسرا گروہ انہیں روکنے والا اور ان سے بیزاری ظاہر کر کے ان سے الگ ہوجانے والا اور تیسرا گروہ چپ چاپ رہ کر نہ اس کام کو کرنے والا نہ اس سے روکنے والا جیسے کہ سورة بقرہ کی تفسیر میں ہم خلاصہ وار بیان کر آئے ہیں۔ جو لوگ خاموش تھے نہ برائی کرتے تھے نہ بروں کو برائی سے روکتے تھے انہوں نے روکنے والوں کو سمجھانا شروع کیا کہ میاں ان لوگوں کو کہنے سننے سے کیا فائدہ ؟ انہوں نے تو اللہ کے عذاب مول لے لئے ہیں رب کے غضب کیلئے تیار ہوگئے ہیں اب تم ان کے پیچھے کیوں پڑے ہو ؟ تو اس پاک گروہ نے جواب دیا کہ اس میں دو فائدے ہیں ایک تو یہ کہ اللہ کے پاس ہم معذرت خواہ ہوجائیں کہ ہم اپنا فرض برابر ادا کرتے رہے انہیں ہر وقت سمجھاتے بجھاتے رہے۔ معذرت کے پیش سے بھی ایک قرأت ہے تو گوایا ھذا کا لفظ یہاں مقرر مانا یعنی انہوں نے کہا یہ ہماری معذرت ہے اور زبر کی قرأت پر یہ مطلب ہے کہ ہم جو انہیں روک رہے ہیں یہ کام بطور اس کے کر رہے ہیں کہ اللہ کے ہاں ہم پر الزام نہ آئے کیونکہ اللہ کا حکم ہے کہ ہمیشہ نیکی کا حکم کرتے رہو اور برائی سے روکتے رہو، دوسرا فائدہ اس میں یہ ہے کہ بہت ممکن ہے کسی وقت کی نصیحت ان پر اثر کر جائے یہ لوگ اپنی اس حرام کاری سے باز آجائیں اللہ سے توبہ کریں تو اللہ تعالیٰ بھی ان پر مہربانی کرے اور ان کے گناہ معاف فرما دے۔ آخر کار ان کی نصیحت خیر خواہی بھی بےنتیجہ ثابت ہوئی۔ ان بدکاروں نے ایک نہ مانی تو ہم نے اس مسلم گروہ کو تو جو برابر ان سے نالاں رہا ان سے الگ رہا اور انہیں سمجھتا بجھتا رہا نجات دے دی اور باقی کے ظالموں کو جو ہماری نافرمانیوں کے مرتکب تھے اپنے بدترین عذابوں سے پکڑ لیا۔ عبارت کی عمدگی ملاحظہ ہو کہ روکنے والوں کی نجات کا کھلے لفظوں میں اعلان کیا ظالموں کی ہلاکت کا بھی غیر مشتبہ الفاظ میں بیان کیا اور چپ رہنے والوں کے حالات سے سکوت کیا گیا، اس لئے کہ ہر عمل کی جزا اسی کی ہم جنس ہے۔ یہ لوگ نہ تو اس ظلم عظیم میں شریک تھے کہ ان کی مذمت اعلانیہ کی جائے نہ دلیری سے روکتے تھے کہ صاف طور پر قابل تعریف ٹھہریں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جو گروہ ممانعت کرنے کے بعد تھک کر بیٹھ گیا تھا اور پھر روکنا جھوڑ دیا تھا اللہ کا عذاب جب آیا تو یہ گروہ بھی اس عذاب سے بچ گیا صرف وہی ہلاک ہوئے جو گناہ میں مبتلا تھے۔ آپ کے شاگرد حضرت عکرمہ کا بیان ہے کہ پہلے حضرت ابن عباس کو اس میں بڑا تردد تھا کہ آیا یہ لوگ ہلاک ہوئے یا بچ گئے یہاں تک کہ ایک روز میں آیا تو دیکھا کہ قرآن گود میں رکھے ہوئے رو رہے ہیں۔ اول اول تو میرا حوصلہ نہ پڑا کہ سامنے آؤں لیکن دیر تک جب یہی حالت رہی تو میں نے قریب آکر سلام کیا بیٹھ گیا اور رونے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا دیکھو یہ سورة اعراف ہے اس میں ایلہ کے یہودیوں کا ذکر ہے کہ انہیں ہفتے کے روز مچھلی کے شکار کی ممانعت کردی گئی اور ان کی آزمائش کے لئے مچھلیوں کو حکم ھوا کہ وہ صرف ہفتے کے دن ہی نکلیں ہفتے کے دن دریا مچھلیوں سے بھرے رہتے تھے۔ ترو تازہ موٹی اور عمدہ بکثرت مچھلیاں پانی کے اوپر اجھلتی کودتی رہتی تھیں اور دنوں میں سخت کوشش کے باوجود بھی نہ ملتی تھیں۔ کچھ دنوں تو ان کے دلوں کے اندر حکم الٰہی کی عظمت رہی اور یہ ان کے پکڑنے سے رکے رہے لیکن پھر شیطان نے ان کے دل میں یہ قیاس ڈال دیا کہ اس دن منع کھانے سے ہے تم نے آج کھانا نہیں۔ پکڑ لو اور جائز دن کھا لینا۔ سچے مسلمانوں نے انہیں اس حیلہ جوئی سے ہرچند روکا اور سمجھایا کہ دیکھو شکار کھیلنا شروع نہ کرو شکار اور کھانا دونوں منموع ہیں۔ اگلے جمعہ کے دن جو جماعت شیطانی پھندے میں پھنس چکی تھی وہ اپنے بال بچوں سمیت شکار کو نکل کھڑی ہوئی۔ باقی کے لوگوں کی دو جماعتیں بن گئیں ایک ان کے دائیں ایک بائیں۔ دائیں جانب والی تو برابر انہیں روکتی رہی کہ اللہ سے ڈرو اور اللہ کے عذابوں کے لئے تیاری نہ کرو۔ بائیں والوں نے کہا میاں تمہیں کیا پڑی ؟ یہ تو خراب ہونے والے ہیں اب تم انہیں نصیحت کر کے کیا لو گے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ خیر اللہ کے ہاں ہم تو چھوٹ جائیں گے اور ہمیں تو اب تک مایوسی بھی نہیں کیا عجب کہ یہ لوگ سنور جائیں تو ہلاکت اور عذاب سے محفوظ رہیں۔ ہماری تو عین منشا یہ ہے لیکن یہ بدکار اپنی بےایمانی سے باز نہ آئے اور نصیحت انہیں کار گر نہ ہوئی تو دائیں طرف کے لوگوں نے کہا تم نے ہمارا کہا نہ مانا۔ اللہ کی نافرمانی کی، ارتکاب حرمت کیا۔ عجب نہیں راتوں رات تم پر کوئی عذاب رب آئے۔ اللہ تمہیں زمین میں دھنسا دے یا تم پر پتھر برسا دے یا کسی اور طرح تمہیں سزا دے۔ رات ہم تو یہیں گذاریں گے تمہارے ساتھ شہر میں نہیں رہیں گے۔ جب صبح ہوگئی اور شہر کے دروازے نہ کھلے تو انہوں نے کواڑ کھٹ کھٹائے، آوازیں دیں لیکن کوئی جواب نہ آیا آخر سیڑھی لگا کر ایک شخص کو قلعہ کی دیوار پر چڑھایا اس نے دیکھا تو حیران ہوگیا کہ سب لوگ بندر بنا دیئے گئے۔ اس نے ان سب مسلمانوں کو خبر دی۔ یہ دروازے توڑ کر اندر گئے تو دیکھا کہ سب دم دار بندر بن گئے ہیں یہ تو کسی کو پہچان نہ سکے لیکن وہ پہچان گئے ہر بندر اپنے اپنے رشتے دار کے قدموں میں لوٹنے لگا ان کے کپڑے پکڑ پکڑ کر رونے لگا تو انہوں نے کہا دیکھو ہم تو تمہیں منع کر رہے تھے لیکن تم نے مانا ہی نہیں۔ وہ اپنا سر ہلاتے تھے کہ ہاں ٹھیک ہے ہمارے اعمال کی شامت نے ہی ہمیں برباد کیا ہے۔ تو اب یہ تو قرآن میں ہے کہ روکنے والے نجات یافتہ ہوئے لیکن یہ بیان نہیں کہ جو روکنے والوں کو منع کرتے تھے ان کا کیا حشر ہوا ؟ اب ہم بھی بہت سی خلاف باتیں دیکھتے ہیں اور کچھ نہیں کرسکتے، میں نے آپ سے یہ سن کر کہا اللہ مجھے آپ پر نثار کر دے آپ یہ تو دیکھئے کہ وہ لوگ ان کے اس فعل کو برا سمجھتے رہے تھے ان کی مخالفت کرتے تھے جانتے تھے کہ یہ ہلاک ہونے والے ہیں ظاہر ہے کہ یہ بچ گئے، آپ کی سمجھ میں آگیا اور اسی وقت حکم دیا کہ مجھے دو چادریں انعام میں دی جائیں۔ الغرض اس بیچ کی جماعت کی نسبت ایک قول تو یہ ہے کہ عذاب سے بچ گئی دوسرا قول یہ ہے کہ عذاب ان پر بھی آیا۔ ابن رومان فرماتے ہیں کہ ہفتے والے دن خوب مچھلیاں آتیں پانی ان سے بھر جاتا پھر بیچ کے کسی دن نظر نہ آتیں دوسرے ہفتے کو پھر یہی حال ہوتا، سب سے پہلے ایک شخص نے یہ حیلہ نکالا کہ ڈور اور کانٹا تیار کیا، مچھلی کو اس میں ہفتے کے دن پھنسا لیا اور پانی میں ہی چھوڑ دیا اتوار کی رات کو جا کر نکال لیں بھونا لوگوں کو مچھلی کی خوشبو پہنچی تو سب نے گھیر لیا۔ ہرچند پوچھا لیکن اول تو یہ سختی سے انکار کرتا رہا آخر اسنے بات بنادی کہ دراصل ایک مچھلی کا چھلکا مجھے مل گیا تھا میں نے اسے بھونا تھا، دوسرے ہفتے کے دن اس نے اسی طرح دو مچھلیاں پھانس لیں اتوار کی رات کو نکال کر بھوننے لگا لوگ آگئے تو اس نے کہا میں نے ایک ترکیب نکال لی ہے جس سے نافرمانی بھی نہ ہو اور کام بھی نہ رکے اب جو حیلہ بیان کیا تو ان سب نے اسے پسند کیا اور اکثر لوگ یونہی کرنے لگے۔ یہ لوگ رات کو شہر پناہ کے پھاٹک بند کر کے سوتے تھے جس رات عذاب آیا حسب دستور یہ شہر پناہ کے پھاٹک لگا کر سوئے تھے۔ صبح کو جب باہر والے شہر میں داخل ہونے کو آئے تو خلاف معمول اب تک دروازے بند پائے آوازیں دیں کوئی جواب نہ ملا قلعہ پر چڑھ گئے دیکھا تو بندر بنا دیئے گئے ہیں کھول کر اندر گئے تو بندر اپنے اپنے رشتہ داروں کے قدموں میں لوٹنے لگے اس سے پہلے سورة بقرہ کی ایسی ہی آیت کی تفسیر کے موقعہ پر بالتفصیل ان واقعات کو اچھی طرح بیان کرچکے ہیں وہیں دیکھ لیجئے۔ فالحمد اللہ، دوسرا قول یہ ہے کہ جو چپ رہے تھے وہ بھی ان گنہگاروں کے ساتھ ہلاک ہوئے، ابن عباس سے منقول ہے کہ پہلے ہفتہ کے دن کی تعظیم بطور بدعت خود ان لوگوں نے نکالی اب اللہ کی طرف سے بطور آزمائش کے وہ تعظیم ان پر ضروری قرار دے دی گئی اور حکم ہوگیا کہ اس دن مجھلی کا شکار نہ کرو پھر مچھلیوں کا اس دن نمایاں ہونا اور دنوں میں نہ نکلنا وغیرہ بیان فرما کر فرمایا کہ پھر ان میں سے ایک شخص نے ایک مچھلی ہفتے کے دن پکڑی اس کی ناک میں سوراخ کرکے ڈور باندھ کر ایک کیل کنارے گاڑ کر اس میں ڈور اٹکا کر مچھلی کو دریا میں ڈال دیا دوسرے دن جا کر پانی میں سے نکال لایا اور بھون کر کھالی سوائے اس پاک باز حق گو جماعت کے لوگوں کے کسی نے نہ اسے روکا نہ منع کیا نہ سمجھایا لیکن ان کی نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اس ایک کی دیکھا دیکھی اور بھی یہی کام کرنے لگے یہاں تک کہ بازاروں میں مچھلی آنے لگی اور اعلانیہ یہ کام ہونے لگا۔ ایک اور جماعت کے لوگوں نے اس حق والی جماعت سے کہا کہ تم ان لوگوں کو کیوں وعظ کرتے ہو اللہ تو انہیں ہلاک کرنے والا سخت عذاب کرنے والا ہے تو انہوں نے وہ جواب دیا یعنی اللہ کا فرمان دہرایا۔ لیکن لوگ فرمان ربانی کو بھول بیٹھے اور عذاب رب کے خود شکار ہوگئے۔ یہ تین گروہوں میں بٹ گئے تھے ایک تو شکار کھیلنے والا، ایک منع کرنے والا، ایک ان منع کرنے والوں سے کہنے والا کہ اب نصیحت بیکار ہے۔ بس وہ تو بچ گئے جو برابر روکتے رہے تھے اور دونوں جماعتیں ہلاک کردی گئیں۔ سند اس کی نہایت عمدہ ہے لیکن حضرت ابن عباس کا حضرت عکرمہ کے قول کی طرف رجوع کرنا اس قول کے کہنے سے اولیٰ ہے اس لئے کہ اس قول کے بعد ان پر ان کے حال کی حقیقت کھل گئی واللہ اعلم۔ پھر فرمان ہے کہ ہم نے ظالموں کو سخت عذابوں سے دبوچ لیا۔ مفہوم کی دلالت تو اس بات پر ہے کہ جو باقی رہے بچ گئے۔ ( بئیس ) کی کئی ایک قرأتیں ہیں اس کے معنی سخت کے، دردناک کے، تکلیف دہ کے ہیں اور سب کا مطلب قریب قریب یکساں ہے۔ ان کی سرکشی اور ان کے حد سے گذر جانے کے باعث ہم نے ان سے کہہ دیا کہ تم ذلیل حقیر اور ناقدرے بندر بن جاؤ چناچہ وہ ایسے ہی ہوگئے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 166 فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّا نُہُوْا عَنْہُ قُلْنَا لَہُمْ کُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِءِیْنَ آخر کار ان پر عذاب اس صورت میں آیا کہ ان کی انسانی شکلیں مسخ کر کے انہیں بندر بنا دیا گیا اور پھر انہیں ہلاک کردیا گیا۔ یہ اس واقعہ کی تفصیل ہے جس کا اجمالی ذکر سورة البقرة اور سورة المائدۃ میں بھی آچکا ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ عذاب ان گروہوں میں سے صرف اس گروہ پر آیا تھا جو گناہ میں براہ راست ملوث تھا۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ نہی عن المنکر کرنے والے لوگوں کے بارے میں واضح طور پر بتادیا گیا : اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْہَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ کہ ہم نے ان کو بچالیا جو بدی سے روک رہے تھے اور جو گناہگار تھے ان کے بارے میں بھی صراحت سے بتادیا گیا : وَاَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍم بَءِیْسٍم کہ ہم نے پکڑ لیا ان لوگوں کو جو گناہ میں ملوث تھے ایک بہت ہی برے عذاب میں۔ جب کہ تیسرے گروہ کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا ہے۔ اس طرح ان لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر کوئی شخص براہ راست کسی گناہ کا ارتکاب کرنے سے بچا رہتا ہے تو فریضہ نہی عن المنکر میں کوتاہی ہونے کی صورت میں بھی وہ دنیا میں اس گناہ کی پاداش میں آنے والے عذاب سے بچ جائے گا۔ یہ نظریہ در اصل بہت بڑی غلط فہمی پر مبنی ہے اور اس کے پیچھے وہ انسانی نفسیات کار فرما ہے جس کے تحت انسان ذمہ داری سے فرار چاہتا ہے اور پھر اس کے لیے دلیلیں ڈھونڈتا اور بہانے تراشتا ہے۔ اسی طرح کی بات کا تذکرہ سورة المائدۃ کی آیت 105 کی تشریح کے ضمن میں بھی ہوچکا ہے۔ اس آیت کے حوالے سے حضرت ابوبکر صدیق رض کو خصوصی خطبہ ارشاد فرمانا پڑا تھا کہ لوگو ! تم عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْج لاَ یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَیْتُمْ ط کا بالکل غلط مفہوم سمجھ رہے ہو۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ دعوت و تبلیغ ‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تمہاری ذمہ داری نہیں ہے ‘ بلکہ اس کا تو یہ مطلب ہے کہ تم اس سلسلے میں اپنی پوری کوشش کرو ‘ اپنا فرض ادا کرو ‘ لیکن اس کے باوجود بھی اگر لوگ کفر یا گناہ پر اڑے رہیں تو پھر ان کا وبال تم پر نہیں ہوگا۔یہاں اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ نہی عن المنکر نص قرآنی کے مطابق فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس ماحول میں اللہ تعالیٰ کے کسی واضح حکم کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہو تو ان حالات میں گناہ کا ارتکاب کرنے والوں کو نہ روکنا ‘ نہی عن المنکر کا فرض ادانہ کرنا ‘ بذات خود ایک جرم ہے۔ لہٰذا اس واقعہ میں اَلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا کے زمرے میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اگرچہ براہ راست تو گناہ میں ملوث نہیں تھے ‘ لیکن مجرموں کو گناہ کرتے ہوئے دیکھ کر خاموش تھے۔ اس طرح یہ لوگ اللہ کی نافرمانی سے لوگوں کو نہ روکنے کے جرم کے مرتکب ہو رہے تھے۔ اس ضمن میں نص قطعی کے طور پر ایک حدیث قدسی بھی موجود ہے اور ایک بہت واضح قرآنی حکم بھی۔ پہلے حدیث ملاحظہ فرمائیں ‘ یہ حدیث مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنے مرتب کردہ خطبات جمعہ میں شامل کی ہے۔ حضرت جابر رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اَوْحَی اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِلٰی جِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ اَنِ اقْلِبْ مَدِیْنَۃَ کَذَا وَکَذَا بِاَھْلِھَا۔ قَالَ : یَا رَبِّ اِنَّ فِیْھِمْ عَبْدَکَ فُلاَناً لَمْ یَعْصِکَ طَرْفَۃَ عَیْنٍ قَالَ : فَقَالَ : اِقْلِبْھَا عَلَیْہِ وَ عَلَیْہِمْ ‘ فَاِنَّ وَجْھَہٗ لَمْ یَتََمَعَّرْ فِیَّ سَاعَۃً قَطُّ 1 اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو وحی کی کہ فلاں فلاں شہر کو اس کے باسیوں پر الٹ دو۔ جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ پروردگار ‘ اس میں تو تیرا فلاں بندہ بھی ہے جس نے کبھی پلک جھپکنے کی دیر بھی تیری معصیت میں نہیں گزاری۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ الٹو اس بستی کو پہلے اس پر اور پھر دوسروں پر ‘ اس لیے کہ اس کے چہرے کا رنگ کبھی ایک لمحے کے لیے بھی میری غیرت کی وجہ سے متغیر نہیں ہوا۔ یعنی اس کے سامنے میرے احکام پامال ہوتے رہے ‘ شریعت کی دھجیاں بکھرتی رہیں اور یہ اپنی ذاتی پرہیزگاری کو سنبھال کر ذکر اذکار ‘ نوافل اور مراقبوں میں مصروف رہا۔ یہ دوسروں سے بڑھ کر مجرم ہے !اب اس سلسلے میں نص قرآنی کے طور پر سورة الأنفال کی آیت 25 کا یہ واضح حکم بھی ملاحظہ کرلیجئے : وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لاَّ تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً ج اور ڈرو اس فتنہ عذاب سے جو خصوصیت کے ساتھ انہی لوگوں پر واقع نہیں ہوگا جو تم میں سے گنہگار ہیں۔ یعنی جب کسی قوم میں بحیثیت مجموعی منکرات پھیل جائیں اور اس وجہ سے ان کے لیے اس دنیا میں کسی اجتماعی سزا کا فیصلہ ہوجائے تو پھر ایسی سزا کی لپیٹ میں صرف گنہگار لوگ ہی نہیں آئیں گے۔ اس لحاظ سے یہ بہت تشویش ناک بات ہے۔ مگر آیت زیر مطالعہ میں اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْہَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ کے الفاظ میں امید دلائی گئی ہے کہ جو لوگ اپنی استطاعت کے مطابق ‘ آخری وقت تک امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے رہیں گے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے انہیں بچا لے گا۔
فلما عتوا عن ما نهوا عنه قلنا لهم كونوا قردة خاسئين
سورة: الأعراف - آية: ( 166 ) - جزء: ( 9 ) - صفحة: ( 172 )Surah Al Araaf Ayat 166 meaning in urdu
پھر جب وہ پوری سرکشی کے ساتھ وہی کام کیے چلے گئے جس سے انہیں روکا گیا تھا، تو ہم نے کہا کہ بندر ہو جاؤ ذلیل اور خوار
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور ان کی مدد کی تو وہ غالب ہوگئے
- خدا نے فرمایا میں تم پر ضرور خوان نازل فرماؤں گا لیکن جو اس کے
- اور جو وعدہ ہم ان سے کر رہے ہیں ہم تم کو دکھا کر ان
- اور اپنے پروردگار کو دل ہی دل میں عاجزی اور خوف سے اور پست آواز
- اور ہم نے ہر انسان کے اعمال کو (بہ صورت کتاب) اس کے گلے میں
- یہ اس لئے کہ خدا نے جو چیز نازل فرمائی انہوں نے اس کو ناپسند
- اس کا تمہیں کچھ گناہ نہیں کہ (حج کے دنوں میں بذریعہ تجارت) اپنے پروردگار
- بےشک یہ لوگ اس روز اپنے پروردگار (کے دیدار) سے اوٹ میں ہوں گے
- یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے
- یا جب ان کو عذاب کا ڈر پیدا ہوگیا ہو تو ان کو پکڑلے۔ بےشک
Quran surahs in English :
Download surah Al Araaf with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Araaf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Araaf Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers