Surah Ad Duha Ayat 1 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ الضحى کی آیت نمبر 1 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Ad Duha ayat 1 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿وَالضُّحَىٰ﴾
[ الضحى: 1]

Ayat With Urdu Translation

آفتاب کی روشنی کی قسم

Surah Ad Duha Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) چاشت ( ضُحًى ) اس وقت کو کہتے ہیں، جب سورج بلند ہوتا ہے۔ یہاں مراد پورا دن ہے۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


مسند احمد میں ہے کہ حضور ﷺ بیمار ہوگئے اور ایک یا دو راتوں تک آپ تہجد کی نماز کے لیے نہ اٹھ سکے تو ایک عورت کہنے لگی کہ تجھے تیرے شیطان نے چھوڑ دیا اس پر یہ اگلی آیتیں نازل ہوئیں ( بخاری مسلم وغیرہ ) حضرت جندب فرماتے ہیں کہ جبرائیل کے آنے میں کچھ دیر ہوئی تو مشرکین کہنے لگے کہ یہ تو چھوڑ دئیے گئے تو اللہ تعالیٰ نے والضحٰی سے ماقلفی تک کی آیتیں اتاریں، اور روایت میں ہے کہ حضور ﷺ کی انگلی پر پتھر مارا گیا تھا جس سے خون نکلا اور جس پر آپ نے فرمایا :ھل انت الا اصبع دمیت وفی سبیل اللہ ما لقیت یعنی تو صرف ایک انگلی ہے اور راہ اللہ میں تجھے یہ زخم لگا ہے۔ طبعیت کچھ ناساز ہوجانے کی وجہ سے دو تین رات آپ بیدار نہ ہوئے جس پر اس عورت نے وہ ناشائستہ الفاظ نکالے اور یہ آیتیں نازل ہوئیں کہا گیا ہے کہ یہ عورت ابو لہب کی بیوی ام جمیل تھی اس پر اللہ کی مار، آپ کی انگلی کا زخمی ہونا، اور اس موزوں کلام کا بےساختہ زبان مبارک سے ادا ہونا تو بخاری و مسلم میں بھی ثابت ہے لیکن ترک قیام کا سبب اسے بتانا اور اس پر ان آیتوں کا نازل ہونا یہ غریب ہے، ابن جریر میں ہے کہ حضرت خدیجہ ؓ نے کہا تھا کہ آپ کا رب آپ سے نہیں ناراض نہ ہوگیا ہو ؟ اس پر یہ آیتیں اتریں۔ اور روایت میں ہے کہ جبرائیل ؑ کے آنے میں دیر ہوئی حضور ﷺ بہت گھبرائے اس پر حضرت خضرت خدیجہ نے یہ سبب بیان کیا اور اس پر یہ آیتیں اتریں، یہ دونوں آیتیں مرسل ہیں اور حضرت خدیجہ کا نام تو اس میں محفوظ نہیں معلوم ہوتا ہاں یہ ممکن ہے کہ ام المومنین نے افسوس اور رنج کے ساتھ یہ فرمایا، واللہ اعلم، ابن اسحاق اور بعض سلف نے فرمایا ہے کہ جب حضرت جبرائیل اپنی اصلی صورت میں ظاہر ہوئے تھے اور بہت ہی قریب ہوگئے تھے اس وقت اسی سورت کی وحی نازل فرمائی تھی۔ ابن عباس کا بیان ہے کہ وحی کے رک جانے کی بنا پر مشرکین کے اس ناپاک قول کی تردید میں یہ آیتیں اتریں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نیدھوپ پڑھنے کے وقت دن کی روشنی، اور رات کے سکون اور اندھیرے کی قسم کھائی جو قدرت اور خلق خالق کی صاف دلیل ہے۔ جیسے اور جگہ ہے۔ ( وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى ۙ ) 92۔ اللیل :1) اور جگہ ہے ( فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ۚ 96؀ )الأنعام:96) ، مطلب یہ ہے کہ اپنی اس قدرت کا یہاں بھی بیان کیا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ تیرے رب نے نہ تو تجھے چھوڑا نہ تجھ سے دشمنی کی، تیرے لیے آخرت اس دنیا سے بہت بہتر ہے۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ دنیا میں سب سے زیادہ زاہد تھے۔ اور سب سے زیادہ تارک دنیا تھے، آپ کی سیرت کا مطالعہ کرنے والے پر یہ بات ہرگز مخفی نہیں رہ سکتی۔ مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ بورئیے پر سوئے، جسم مبارک پر بورئیے کے نشان پڑگئے۔ جب بیدار ہوئے تو میں آپ کی کروٹ پر ہاتھ پھیر نے لگا اور کہا حضور ﷺ ہمیں کیوں اجازت نہیں دیتے کہ اس بورئیے پر کچھ بچھا دیا کریں۔ حضور ﷺ نے فرمایا مجھے دنیا سے کیا واسطہ ؟ میں کہاں دنیا کہاں ؟ میری اور دنیا کی مثال تو اس راہرو سوار کی طرح ہے جو کسی درخت تلے ذرا سی دیر ٹھہر جائے پھر اسے چھوڑ کر چل دے۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور حسن ہے پھر فرمایا تیرا رب تجھے آخرت میں تیری امت کے بارے میں اس قدر نعمتیں دے گا کہ خوش ہوجائے ان کی بڑی تکریم ہوگی اور آپ کو خاص کر کے حوض کوثر عطا فرمایا جائے گا۔ جس کے کا نرے کھوکھوکھلے موتیوں کے خیمے ہوں گے جس کی مٹی خالص مشک کی ہوگی، یہ حدیثیں عنقریب آرہی ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ ایک روایت میں ہے کہ جو خزانے آپ کی امت کو ملنے والے تھے وہ ایک ایک کرکے آپ کو بتا دئیے گئے۔ آپ بہت خوش ہوئے اس پر یہ آیت اتری۔ جب ایک ہزار محل آپ کو دئیے گئے ہر ہر محل میں پاک بیویاں اور بہترین غلام ہیں۔ ابن عباس تک اس کی سند صحیح ہے اور بہ ظاہر ایسی بات بغیر حضور ﷺ سے سنے روایے نہیں ہوسکتی۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں حضور ﷺ کی رضامندی میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کے اہل بیت میں سے کوئی دوزخ میں نہ جائے۔ حسن فرماتے ہیں اس سے مراد شفاعت ہے۔ ابن ابی شیبہ میں ہے، حضور ﷺ نے فرمایا ہم وہ لوگ ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے آخرت دنیا پر پسند کرلی ہے، پھر آپ نے آیت ولسوف کی تلاوت فرمائی۔ کہ آپ کی یتیمی کی حالت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کا بچاؤ کیا۔ اور آپ کی حفاظت کی اور پرورش کی اور مقام و مرتبہ عنایت فرمایا۔ آپ کے والد کا انتقال تو آپ کی پیدائش سے پہلے ہی ہوچکا تھا یعض کہتے ہیں ولادت کے بعد ہوا چھ سال کی عمر میں والدہ صاحبہ کا بھی انتقال ہوگیا۔ اب آپ دادا کی کفالت میں تھے لیکن جب آٹھ سال کی آپ کی عمر ہوئی تو دادا کا سایہ بھی اٹھ گیا۔ اب آپ اپنے چچا ابو طالب کی پرورش میں آئے، ابو طالب دل و جان سے آپ کی نگرانی اور امداد میں رہے۔ آپ کی پوری عزت و توقیر کرتے اور قوم کی مخالفت کے چڑھتے طوفان کو روکتے رہتے تھے اور اپنی جان کو بطور ڈھال کے پیش کردیا کرتے تھے۔ کیونکہ چالیس سال کی عمر میں آپ کو نبوت مل چکی تھی اور قریش سخت تر مخالفت بلکہ دشمن جان ہوگئے تھے ابو طالب باوجود بت پرست مشرک ہونے کے آپ کا ساتھ دیتا تھا۔ اور مخالفین سے لڑتا بھڑتا رہتا تھا۔ یہ تھی منجانب اللہ حسن تدبیر کہ آپ کی یتیمی کے ایام اسی طرح گذرے اور مخالفین سے آپ کی خدمت اس طرح لی، یہاں تک کہ ہجرت سے کچھ پہلے ابو طالب بھی فوت ہوگئے، اب سفہاء و جہلا قریش اٹھ کھڑے ہوئے تو پروردگار عالم نے آپ کو مدینہ تشریف کی طرف ہجرت کرنے کی رخصت عطا فرمائی اور اوس و خزرج جیسی قوموں کو آپ کا انصاد بنادیا۔ ان بزرگون نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو جگہ دی۔ مدد کی، حفاظت کی اور مخالفین سے سینہ سپر ہو کر مردانہ وار لڑائیاں کیں۔ اللہ ان سب سے خوش رہے۔ یہ سب کا سب اللہ کی حفاظت اور اس کی عنایت احسان اور اکرام سے تھا۔ پھر فرمایا کہ راہ بھولا پاکر صحیح راستہ دکھا دیا جیسے اور جگہ ہے ما کنت تدری ما الکتاب ولا الایمان الخ یعنی اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے تمہاری طرف روح کی وحی کی۔ تم یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ایمان کیا ہے ؟ تمہیں نہ کتاب کی خبر تھی بلکہ ہم نے اسے نور بنا کر جسے چاہا ہدایت کردی۔ بعض کہتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ حضور ﷺ بچپن میں مکہ کی گلیوں میں گم ہوگئے تھے اس وقت اللہ نیلوٹا دیا۔ بعض کہتے ہیں شام کی طرف اپنے چچا کے ساتھ جاتے ہوئے رات کو شیطان نے آپ کی اونٹنی کی نکیل پکڑ کر راہ سے ہٹا کر جنگل میں ڈال دیا۔ پس جبرائیل ؑ آئے اور پھونک مار کر شیطان کو تو حبشہ میں ڈال دیا اور سواری کو راہ لگا دیا۔ بگوی نے یہ دونوں قول نقل کئے ہیں پھر فرماتا ہے کہ بال بچوں والے ہوتے ہوئے تنگ دست پاکر ہم نے آپ کو غنی کردیا، پس فقیر صابر اور غنی شاکر ہونے کے درجات آپ کو مل گئے۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں یہ سب حال نبوت سے پہلے کے ہیں بخاوی و مسلم وغیرہ میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تونگری مال و اسباب کی زیادتی سے نہیں بلکہ حقیقی تونگری وہ ہے جس کا دل بےپرواہ ہو۔ صحیح مسلم شریف میں ہے اس نے فلاح پالی جسے اسلام نصیب ہوا اور جو کافی ہوا، اتنا رزت بھی ملا اللہ کے دئیے ہوئے پر قناعت کی توفیق بھی ملی، پھر فرمایا ہے کہ یتیم کو حقیر جان کر نہ ڈانٹ ڈپٹ کر بلکہ اس کے ساتھ احسان و سلوک کر اور اپنی یتیمی کو نہ بھول، قتادہ فرماتے ہیں یتیم کے لیے ایسا ہوجانا چاہیے جیسے سگا باپ اولاد پر مہربان ہوتا ہے، سائل کو نہ جھڑک جس طرح تم بےراہ تھے اور اللہ نے ہدایت دی تو اب جو تم سے علمی باتیں پوچھے صحیح راستہ دریافت کرے تو تم اسے ڈانٹ ڈپٹ نہ کرو، غریب مسکین ضعیف بندوں پر تکبر تجبر نہ کرو، انہیں ڈانٹو ڈپٹو نہیں برا بھلا نہ کہو سخت سست نہ بولو، اگر مسکین کو کچھ نہ کرو، تو بھی بھلا اچھا جواب دے۔ نرمی اور رحم کا سلوک کر، پھر فرمایا کہ اپنے رب کی نعمتیں بیان کرتے رہو۔ یعنی جس طرح تمہاری فقیری کو ہم نے تونگری سے بدل دیا، تم بھی ہماری ان نعمتوں کو بیان کرتے رہو، اسی لیے حضور ﷺ کی دعاؤں میں یہ بھی تھا واجعلنا شاکرین لنعمتک مثنین بھا علیک قابیلھا واتمھا علینا یعنی اللہ ہمیں اپنی نعمتوں کی شکر گذاری کرنے والا ان کی وجہ سے تیری ثنا بیان کرنے والا ان کا اقرار کرنے والا کردے اور ان نعمتوں کو ہم پورا کر دے۔ ابو نضرہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کا یہ خیال تھا کہ تنعمتوں کی شکر گذاری میں یہ بھی داخل ہے کہ ان کا بیان ہو، مسند احمد کی حدیث میں ہے جس نے تھوڑے پر شکر نہ ادا کیا اس نے زیادہ پر بھی شکر نہیں کیا۔ جس نے لوگوں کی شکر گذاری نہ کی اس نے اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کیا۔ نعمتوں کا بیان بھی شکر ہے اور ان کا بیان نہ کرنا بھی ناشکری ہے، جماعت کے ساتھ رہنا رحمت کا سبب ہے اور تفرقہ عذاب کا باعث ہے، اس کی اسناد ضعیف ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت انس سے مروی ہے کہ مہاجرین نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! انصار سارا کا سارا اجر لے گئے فرمایا نہیں جب تک کہ تم ان کے لیے دعا کیا کرو اور ان کی تعریف کرتے رہو، ابو داؤد میں ہے اس نے اللہ کا شکر ادا نہ کیا جس نے بندوں کا شکر ادا نہ کیا۔ ابو داؤد کی حدیث میں ہے کہ جسے کوئی نعمت ملی اور اس نے اسے بیان کیا تو وہ شکر گذار ہے اور جس نے اسے چھپا یا اس نے ناشکری کی۔ اور روایت میں ہے کہ جسے کوئی عطیہ دیا جائے اسے چاہیے کہ اگر ہو سکے تو بدلہ اتار دے اگر نہ ہو سکے تو اس کی ثنا بیان کرے جس نے ثنا کی وہ شکر گذا ہوا اور جس نے اس نعمت کا اظہار نہ کیا اس نے ناشکری کی۔ ( ابو داؤد ) مجاہد فرماتے ہیں یہاں نعمت سے مراد نبوت ہے، ایک روایت میں ہے کہ قرآن مراد ہے، حضرت علی فرماتے ہیں طلب یہ ہے کہ جو بھلائی کی باتیں آپ کو معلوم ہیں وہ اپنے بھائیوں سے بھی بیان کرو، محمد بن اسحاق کہتے ہیں جو نعمت و کرامت نبوت کی تمہیں ملی ہے اسے بیان کرو اس کا ذکر کرو اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دو۔ چناچہ حضور ﷺ نے اپنے والوں میں سے جن پر آپ کو اطمینان ہوتا در پردہ سب سے پہلے پہل دعوت دینی شروع کی اور آپ کر نماز فرض ہوئی جو آپ نے ادا کی۔ سورة الضحیٰ کی تفسیر ختم ہوئی اللہ کے احسان پر اس کا شکر ہے۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 21{ وَلَسَوْفَ یَرْضٰی۔ } ” اور وہ عنقریب راضی ہوجائے گا۔ “ یہاں پر یَرْضٰی کی ضمیر کا اشارہ بیک وقت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی ہے اور اس شخصیت کی طرف بھی جس کی صفات کا ذکر ان آیات میں ہو رہا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ بھی راضی ہوجائے گا اور ابوبکر صدیق رض بھی راضی ہوجائیں گے۔ گویا یہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ جیسی بشارت ہے کہ اگر اللہ کا یہ بندہ اپنا مال صرف اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے لٹارہا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس سے راضی ہوجائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ اس کو آخرت میں اتنا کچھ عطا کرے گا کہ وہ بھی خوش ہوجائے گا۔ یہاں یہ اہم نکتہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ معنوی اعتبار سے اس آیت کا اگلی سورت سورۃ الضحیٰ کی آیت 5 کے ساتھ خصوصی ربط وتعلق ہے جس کی وضاحت سورة الضحیٰ کے مطالعہ کے دوران کی جائے گی۔ یہاں پر زیر مطالعہ سورتوں سورۃ الشمس ‘ سورة اللیل ‘ سورة الضحیٰ اور سورة الانشراح کے مرکزی مضمون کے اہم نکات ایک دفعہ پھر اپنے ذہن میں تازہ کر لیجیے۔ سورة الشمس کی ابتدائی آٹھ آیات قسموں پر مشتمل ہیں۔ اس کے بعد مقسم علیہ کے طور پر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ نفس انسانی کے اندر نیکی اور بدی کا شعور ودیعت کردیا گیا ہے ‘ اور پھر اس کے بعد دو آیات میں اس حوالے سے کامیابی اور ناکامی کا معیار بھی بتادیا گیا ہے : { قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰٹہَا - وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰٹہَا۔ } کہ جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کرلیا وہ کامیاب ٹھہرا اور جس نے اسے مٹی میں دفن کردیا وہ ناکام ہوگیا۔ اگلی سورت یعنی سورة اللیل میں نفس کو سنوارنے اور بگاڑنے کے طریقوں یا راستوں کے بارے میں مزید وضاحت کردی گئی ہے کہ جو انسان اعطائے مال ‘ تقویٰ اور تصدیق بالحسنیٰ کے اوصاف اپنائے گا وہ صدیقیت اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے راستے پر گامزن ہوجائے گا۔ اس کے برعکس بخل ‘ استغناء حلال و حرام اور جائز و ناجائز سے متعلق لاپرواہی اور حق کی تکذیب کی راہ پر چلنے والا انسان بالآخر خود کو جہنم کے گڑھے میں گرائے گا۔ پھر کامیابی کے راستے کی مثال کے طور پر امت کی ایک ایسی شخصیت کی طرف اشارہ بھی کردیا گیا جسے پہلے تین اوصاف کو اپنانے کے باعث اعلیٰ مدارج و مراتب سے نوازا گیا۔ لیکن ظاہر ہے اس منزل کا بلند ترین مقام تو محمد رسول اللہ ﷺ کے لیے مختص ہے جو معراجِ انسانیت ہیں۔ چناچہ اس مضمون کے حوالے سے اب اگلی دو سورتوں کا تعلق خصوصی طور پر حضور ﷺ کی ذات اقدس سے ہے۔ اسی نسبت سے ان سورتوں کا مطالعہ سیرت النبی ﷺ کے بعض پہلوئوں کو سمجھنے کے لیے بھی مفید ہے۔ متقدمین میں سے تصوف کا ذوق رکھنے والے اکثر مفسرین نے ان سورتوں میں بعض باطنی حقائق کی نشاندہی بھی کی ہے۔ متعلقہ آیات کے مطالعہ کے دوران جہاں جس حد تک ممکن ہوا ایسے کچھ نکات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ ظاہر ہے موجودہ دور کے ” عقلیت پسند “ مفسرین نہ تو تصوف کا ذوق رکھتے ہیں اور نہ ہی انہیں ایسے موضوعات سے دلچسپی ہے۔ الا ماشاء اللہ !

والضحى

سورة: الضحى - آية: ( 1 )  - جزء: ( 30 )  -  صفحة: ( 596 )

Surah Ad Duha Ayat 1 meaning in urdu

قسم ہے روز روشن کی


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. پوچھو کہ یہ بہتر ہے یا بہشت جاودانی جس کا پرہیزگاروں سے وعدہ ہے۔ یہ
  2. اور ان سے عہد لینے کو ہم نے ان پر کوہ طور اٹھا کھڑا کیا
  3. اور اگر وہ نکلنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے لیے سامان تیار کرتے
  4. تو جب بڑی آفت آئے گی
  5. جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم
  6. (چنانچہ ایسا ہی کیا گیا) اور جادوگر فرعون کے پاس آپہنچے اور کہنے لگے کہ
  7. اور جب ہم نے (ان سے) کہا کہ اس گاؤں میں داخل ہو جاؤ اور
  8. اس وقت قرعہ ڈالا تو انہوں نے زک اُٹھائی
  9. تو یہ کیوں خدا کے آگے توبہ نہیں کرتے اور اس سے گناہوں کی معافی
  10. وہ کہیں گے بلکہ تم ہی ایمان لانے والے نہ تھے

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Ad Duha with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Ad Duha mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Ad Duha Complete with high quality
surah Ad Duha Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Ad Duha Bandar Balila
Bandar Balila
surah Ad Duha Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Ad Duha Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Ad Duha Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Ad Duha Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Ad Duha Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Ad Duha Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Ad Duha Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Ad Duha Fares Abbad
Fares Abbad
surah Ad Duha Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Ad Duha Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Ad Duha Al Hosary
Al Hosary
surah Ad Duha Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Ad Duha Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Tuesday, July 16, 2024

Please remember us in your sincere prayers