Surah Al Anbiya Ayat 107 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ﴾
[ الأنبياء: 107]
اور (اے محمدﷺ) ہم نے تم کو تمام جہان کے لئے رحمت (بنا کر) بھیجا ہے
Surah Al Anbiya Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کی رسالت پر ایمان لے آئے گا اس نے گویا اس رحمت کو قبول کر لیا اور اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کیا۔ نتیجتًا دنیا و آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہوگا اور اور چونکہ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کی رسالت پورے جہان کے لیے ہے اس لیے آپ ( صلى الله عليه وسلم ) پورے جہان کے لیے رحمت بن کر یعنی اپنی تعلیمات کے ذریعے سے دین و دنیا کی سعادتوں سے ہمکنار کرنے کے لیے آئے ہیں بعض لوگوں نے اس اعتبار سے بھی نبی ( صلى الله عليه وسلم ) کو جہان والوں کے لیے رحمت قرار دیا ہے کہ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کی وجہ سے یہ امت بالکلیہ تباہی و بربادی سے محفوظ کر دی گئی جیسے پچھلی قومیں اور امتیں حرف غلط کی طرح مٹا دی جاتی رہیں امت محمدیہ ( جو امت اجابت اور امت دعوت کے اعتبار سے پوری نوع انسانی پر مشتمل ہے ) پر اس طرح کا کلی عذاب نہیں آئے اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کے لیے بد دعا نہ کرنا یہ بھی آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کی رحمت کا ایک حصہ تھا۔ «إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا بُعِثْتُ رَحْمَةً» ( صحيح مسلم نمبر:2006 ) اسی طرح غصے میں کسی مسلمان کو لعنت یا سب وشتم کرنے کو بھی قیامت والے دن رحمت کا باعث قرار دینا آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کی رحمت کا حصہ ہے ( مسند أحمد 5/ 437 أبو داود نمبر 4659 والأحاديث الصحيحة للألباني نمبر1758 ) اسی لیے ایک حدیث میں آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے فرمایا «إِنَّمَا أَنَا رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ» ( صحيح الجامع الصغير نمبر2345 ) میں رحمت مجسم بن کر آیا ہوں جو اللہ کی طرف سے اہل جہان کے لیے ایک ہدیہ ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
سچافیصلہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جس طرح آخرت میں دے گا اسی طرح دنیا میں بھی انہیں ملک ومال دیتا ہے، یہ اللہ کا حتمی وعدہ اور سچا فیصلہ ہے۔ جیسے فرمان آیت ( اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ ڐ يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ ۭوَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ01208 ) 7۔ الأعراف:128) زمین اللہ کی ہے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے، انجام کار پرہیزگاروں کا حصہ ہے۔ اور فرمان ہے ہم اپنے رسولوں کی اور ایمانداروں کی دنیا میں اور آخرت میں مدد فرماتے ہیں اور فرمان ہے کہ تم میں سے ایمان داروں اور نیک لوگوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ انہیں زمین میں غالب بنائے گا جیسے کہ ان سے اگلوں کو بنایا اور ان کے لئے ان کے دین کو قوی کردے گا جس سے وہ خوش ہے۔ اور فرمایا کہ یہ شرعیہ اور قدریہ کتابوں میں مرقوم ہے، یقینا ہو کر ہی رہے گا۔ زبور سے مراد بقول سعید بن جبیر ؒ تورات انجیل اور قرآن ہے۔ مجاہد کہتے ہیں زبور سے مراد کتاب ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ زبور اس کتاب کا نام ہے جو حضرت داؤد ؑ پر اتری تھی۔ ذکر سے مراد یہاں پر توراۃ ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں ذکر سے مراد قرآن ہے سعید فرماتے ہیں ذکر وہ ہے جو آسمانوں میں ہے یعنی اللہ کے پاس کی ام الکتاب جو سب سے پہلی کتاب ہے یعنی لوح محفوظ۔ یہ بھی مروی ہے کہ زبور اور وہ آسمانی کتابیں جو پیغمبروں پر نازل ہوئیں اور ذکر مراد پہلی کتاب یعنی لوح محفوظ۔ فرماتے ہیں توراۃ زبور اور علم الٰہی میں پہلے ہی یہ فیصلہ ہوگیا تھا کہ امت محمد زمین کی بادشاہ بنے گی اور نیک ہو کر جنت میں جائے گی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین سے مراد جنت کی زمین۔ ابو درداء فرماتے ہیں صالح لوگ ہم ہی ہیں۔ مراد اس سے باایمان لوگ ہیں اس قرآن میں جو نبی آخرالزماں ﷺ پر اتارا گیا ہے پوری نصیحت و کفایت ہے ان کے لئے جو ہمارے عبادت گزار بندے ہیں۔ جو ہماری مانتے ہیں اپنی خواہش کو ہمارے نام پر قربان کردیتے ہیں پھر فرماتا کہ ہم نے اپنے اس نبی کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے پس اس نعمت کی شکر گزاری کرنے والا دنیاوآخرت میں شادماں ہے اور ناقدری کرنے والا دونوں جہاں میں برباد وناشاد ہے۔ جیسے ارشاد ہے کہ کیا تم نے انہیں دیکھا جنہوں نے نعمت ربانی کی ناشکری کی اور اپنی قوم کو غارت کردیا۔ اس قرآن کی نسبت فرمایا کہ یہ ایمان والوں کے لئے ہدایت وشفا ہے بےایمان بہرے اندھے ہیں صحیح مسلم میں ہے کہ ایک موقع پر اصحاب رسول ﷺ نے عرض کی کہ حضور ﷺ ان کافروں کے لئے بدعا کیجئے آپ نے فرمایا کہ میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اور حدیث میں ہے آپ فرماتے ہیں میں تو صرف رحمت و ہدایت ہوں۔ اور روایت میں اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ مجھے ایک قوم کی ترقی اور دوسری کے تنزل کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ طبرانی میں ہے کہ اے قریشیو ! محمد یثرب میں چلا گیا ہے اپنے طلائیے کے لشکر ادھرادھر تمہاری جستجو میں بھیج رہا ہے۔ دیکھو ہوشیار رہنا وہ بھوکے شیر کی طرح تاک میں ہے وہ خار کھائے ہوئے ہے کیونکہ تم نے اسے نکال دیا ہے واللہ اس کے جادوگر بےمثال ہیں میں تو اسے یا اس کے ساتھیوں میں سے جس کسی کو دیکھتا ہوں تو مجھے ان کے ساتھ شیطان نظر آتے ہیں تم جانتے ہو کہ اوس اور خزرج ہمارے دشمن ہیں اس دشمن کو ان دشمنوں نے پناہ دی ہے اس پر مطعم بن عدی کہنے لگے ابو الحکم سنو تمہارے اس بھائی سے جسے تم نے اپنے ملک سے جلاوطن کردیا ہے میں نے کسی کو زیادہ سچا اور زیادہ وعدے کا پورا کرنے والا نہیں پایا اب جب کہ ایسے بھلے آدمی کے ساتھ تم یہ بدسلوکی کرچکے ہو تو اب تو اسے چھوڑو تمہیں چاہئے اس سے بالکل الگ تھلک رہو۔ اس پر ابو سفیان بن حارث کہنے لگا نہیں تمہیں اس پر پوری سختی کرنی چاہئے یاد رکھو اگر اس کے طرفدار تم پر غالب آگئے تو تم کہیں کے نہ رہوگے وہ رشتہ دیکھیں گے نہ کنبہ میری رائے میں تو تمہیں مدینے والوں کو تنگ کردینا چاہئے کہ یا تو وہ محمد کو نکال دیں اور وہ بیک بینی دوگوش تن تنہا رہ جائے یا ان مدینے والوں کا صفایا کردینا چاہیے اگر تم تیار ہوجاؤ تو میں مدینے کہ کونے کونے پر لشکر بٹھادوں گا اور انہیں ناکوں چنے چبوا دونگا۔ جب حضور ﷺ کو یہ باتیں پہنچیں تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم جس کہ ہاتھ میری جان ہے میں ہی انہیں قتل و غارت کروں گا اور قید کر کے پھر احسان کرکے چھوڑوں گا میں رحمت ہوں میرا بھیجنے والا اللہ ہے وہ مجھے اس دنیا سے نہ اٹھائے گا جب تک اپنے دین کو دنیا پر غالب نہ کردے۔ میرے پانچ نام ہیں محمد، احمد، ماحی، یعنی میری وجہ سے اللہ کفر کو مٹادے گا، حاشر اس لئے کہ لوگ میرے قدموں پر جمع کئے جائیں گے اور عاقب۔ مسند احمد میں ہے حضرت حذیفہ ؓ مدائن میں تھے بسا اوقات احادیث رسول کا مذاکرہ رہا کرتا تھا ایک دن حضرت حذیفہ ؓ حضرت سلمان کے پاس آئے تو حضرت سلمان ؓ نے فرمایا اے حذیفہ ایک دن رسول ﷺ نے اپنے خطبے میں فرمایا کہ جسے میں نے غصے میں برا بھلا کہہ دیا ہو یا اس پر لعنت کردی ہو تو سمجھ لو کہ میں بھی تم جیسا ایک انسان ہی ہوں تمہاری طرح مجھے بھی غصہ آجاتا ہے۔ ہاں البتہ میں چونکہ رحمتہ اللعالمین ہوں تو میری دعا ہے کہ اللہ میرے ان الفاظ کو بھی ان لوگوں کے لئے موجب رحمت بنادے۔ رہی یہ بات کہ کفار کے لئے آپ رحمت کیسے تھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ابن جریر میں حضرت ابن عباس ؓ سے اسی آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ مؤمنوں کے لئے تو آپ دنیا وآخرت میں رحمت تھے اور غیر مؤمنوں کے لئے آپ دنیا میں رحمت تھے کہ وہ زمین میں دھنسائے جانے سے، آسمان سے پتھر برسائے جانے سے بچ گئے۔ جیسے کہ اگلی امتوں کے منکروں پر عذاب آئے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 107 وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ” یعنی آپ ﷺ کی بعثت صرف جزیرہ نمائے عرب تک محدود نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو جزیرۂ نمائے عرب میں اسلام کے عملی طور پر غلبے کے بعد آپ ﷺ کی بعثت کا مقصد پورا ہوچکا ہوتا ‘ مگر آپ ﷺ تو تمام اہل عالم کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ چناچہ آپ ﷺ کی بعثت کا مقصد قرآن میں تین مقامات التوبہ : 33 ‘ الفتح : 28 اور الصف : 9 پر ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے : ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ”وہی ذات ہے جس نے اپنے رسول ﷺ کو بھیجا الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ تاکہ اسے غالب کر دے تمام ادیان پر “۔ گویا آپ ﷺ کی بعثت کا مقصد تب پورا ہوگا جب دین اسلامُ کل روئے زمین پر غالب ہوجائے گا۔ اسی مضمون کو اقبالؔ نے یوں بیان کیا ہے : وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے !نور توحید کا اتمام یعنی اسلام کا بطور دین کلی غلبہ جزیرہ نمائے عرب کی حد تک تو حضور ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی ہوگیا تھا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ کے دور میں دین اسلام کے اس اقتدار کو مزید وسعت دینے کا سلسلہ بڑی شد و مد سے شروع ہوا مگر دور عثمانی میں ایک یہودی عبداللہ بن سبا نے سازش کے ذریعے عالم اسلام میں ” الفتنۃ الکبرٰی “ کھڑا کردیا۔ اس کے نتیجے میں حضرت عثمان رض شہید کردیے گئے اور پھر مسلمانوں کی باہمی خانہ جنگی کے نتیجے میں ایک لاکھ کے قریب مسلمان ایک دوسرے کی تلواروں سے ہلاک ہوگئے۔ اس فتنہ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ نہ صرف غلبہ اسلام کی مزید تصدیر و توسیع کا عمل رک گیا ‘ بلکہ بعض علاقوں سے مسلمانوں کو پسپائی بھی اختیار کرنا پڑی۔ حضور ﷺ کی بعثت چونکہ تا قیام قیامتُ کل روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے لیے ہے اور آپ ﷺ کی بعثت کا مقصد ” اِظہار دین 1 لحق “ دین حق کا غلبہ ہے ‘ اس لیے یہ دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک آپ ﷺ کی بعثت کا یہ مقصد بہ تمام و کمال پورا نہ ہو اور دین اسلامُ کل عالم انسانی پر غالب نہ ہوجائے۔ اس کا صغریٰ و کبریٰ قرآن سے ثابت ہے اور اس کی تفصیلات کتب احادیث میں موجود ہیں۔
Surah Al Anbiya Ayat 107 meaning in urdu
اے محمدؐ، ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور ظاہر اور پوشیدہ ہر طرح سمجھاتا رہا
- اور خدا کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ان لوگوں کے پاس نہیں آتی مگر
- اور ہم نے ان کو عذاب میں پکڑا تو بھی انہوں نے خدا کے آگے
- اور جس کا نامہ (اعمال) اس کے بائیں ہاتھ میں یاد جائے گا وہ کہے
- پس تم صبر کرو بیشک خدا کا وعدہ سچا ہے اور (دیکھو) جو لوگ یقین
- جس وقت تم (مدینے سے) قریب کے ناکے پر تھے اور کافر بعید کے ناکے
- اور اپنے ہاتھ کو نہ تو گردن سے بندھا ہوا (یعنی بہت تنگ) کرلو (کہ
- پھر افسوس ہے تجھ پر پھر افسوس ہے
- (یعنی) خدا کو جو تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادا کا پروردگار ہے
- کہ یہ (قرآن) فرشتہٴ عالی مقام کی زبان کا پیغام ہے
Quran surahs in English :
Download surah Al Anbiya with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Anbiya mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Anbiya Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers