Surah Al Israa Ayat 110 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَٰنَ ۖ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا﴾
[ الإسراء: 110]
کہہ دو کہ تم (خدا کو) الله (کے نام سے) پکارو یا رحمٰن (کے نام سے) جس نام سے پکارو اس کے سب اچھے نام ہیں۔ اور نماز نہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ آہستہ بلکہ اس کے بیچ کا طریقہ اختیار کرو
Surah Al Israa Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) جس طرح کہ پہلے گزر چکا ہے کہ مشرکین مکہ کے لئے اللہ کا صفتی نام ” رحمٰن “ یا ” رحیم “ نامانوس تھا اور بعض آثار میں آتا ہے کہ بعض مشرکین نے نبی ( صلى الله عليه وسلم ) کی زبان مبارک سے یا رحمٰن و رحیم کے الفاظ سنے تو کہا کہ ہمیں تو یہ کہتا ہے کہ صرف ایک اللہ کو پکارو اور خود دو معبودوں کو پکار رہا ہے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی ( ابن کثیر )
( 2 ) اس کی شان نزول میں حضرت ابن عباس ( رضي الله عنه ) بیان فرماتے ہیں کہ مکے میں رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) چھپ کر رہتے تھے، جب اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تو آواز قدرے بلند فرما لیتے، مشرکین قرآن سن کر قرآن کو اور اللہ کو گالی گلوچ کرتے، اللہ تعالٰی نے فرمایا، اپنی آواز کو اتنا اونچا نہ کرو کہ مشرکین سن کر قرآن کو برا بھلا کہیں اور نہ آواز اتنی پست کرو کہ صحابہ ( رضي الله عنهم ) بھی نہ سن سکیں( البخاري- التوحيد، باب قول الله تعالى أنزله بعلمه والملائكة يشهدون- ومسلم، الصلاة، باب التوسط في القراءة )، خود نبی ( صلى الله عليه وسلم ) کا واقعہ ہے کہ ایک رات نبی ( صلى الله عليه وسلم ) کا گزر حضرت ابو بکر صدیق ( رضي الله عنه ) کی طرف سے ہوا تو وہ پست آواز سے نماز پڑھ رہے ہیں، پھر حضرت عمر ( رضي الله عنه ) کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا تو وہ اونچی آواز سے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے دونوں سے پوچھا تو حضرت ابو بکر صدیق ( رضي الله عنه )نے فرمایا میں جس سے مصروف مناجات تھا، وہ میری آواز سن رہا تھا، حضرت عمر ( رضي الله عنه ) نے جواب دیا کہ میرا مقصد سوتوں کو جگانا اور شیطان کو بھگانا تھا۔ آپ نے صدیق اکبر ( رضي الله عنه ) سے فرمایا ” اپنی آواز قدرے بلند کرو “ اور حضرت عمر ( رضي الله عنه ) سے کہا ” اپنی آواز کچھ پست رکھو “ ( مشكاة باب صلاة الليل، بحواله أبو داود ترمذي )۔ حضرت عائشہ ( رضی الله عنها ) فرماتی ہیں کہ یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ( بخاری و مسلم، بحوالہ فتح القدیر )
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
رحمن یا رحیم ؟ کفار اللہ کی رحمت کی صفت کے منکر تھے اس کا نام رحمن نہیں سمجھتے تھے تو جناب باری تعالیٰ اپنے نفس کے لئے اس نام کو ثابت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہی نہیں کہ اللہ کا نام اللہ ہو رحمن ہو یا رحیم اور بسم ان کے سوا بھی بہت سے بہترین اور احسن نام اس کے ہیں۔ جس پاک نام سے چاہو اس سے دعائیں کرو۔ سورة حشر کے آخر میں بھی اپنے بہت سے نام اس نے بیان فرمائے ہیں۔ ایک مشرک نے حضور ﷺ سے سجدے کی حالت میں یا رحمن یا رحیم سن کر کہا کہ لیجئے یہ موحد ہیں دو معبودوں کو پکارتے ہیں اس پر یہ آیت اتری۔ پھر فرماتا ہے اپنی نماز کو بہت اونچی آواز سے نہ پڑھو۔ اس آیت کے نزول کے وقت حضور ﷺ مکہ میں پوشیدہ تھے جب صحابہ کو نماز پڑھاتے اور بلند آواز سے اس میں قرأت پڑھتے تو مشرکین قرآن کو، اللہ کو، رسول کو گالیاں دیتے اس لئے حکم ہوا کہ اس قدر بلند آواز سے پڑھنے کی ضرورت نہیں کہ مشرکین سنیں اور گالیاں بکیں ہاں ایسا آہستہ بھی نہ پڑھنا کہ آپ کے ساتھی بھی نہ سن سکیں بلکہ درمیانی آواز سے قرأت کیا کرو۔ پھر جب آپ ہجرت کر کے مدینے پہنچے تو یہ تکلیف جاتی رہی اب جس طرح چاہیں پڑھیں۔ مشرکین جہاں قرآن کی تلاوت شروع ہوتی تو بھاگ کھڑے ہوتے۔ اگر کوئی سننا چاہتا تو انکے خوف کے مارے چھپ چھپ کر بچ بچا کر کچھ سن لیتا۔ لیکن جہاں مشرکوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے انہیں سخت ایذاء دہی شروع کی اب اگر بہت بلند آواز کریں تو ان کی چڑ اور ان کی گالیوں کا خیال اور اگر بہت پست کرلیں تو وہ جو چھپے لگے کان لگائے بیٹھے ہیں وہ محروم اس لئے درمیانہ آواز سے قرآت کرنے کا حکم ہوا۔ الغرض نماز کی قرأت کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ مروی ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ اپنی نماز میں پست آواز سے قرأت پڑھتے تھے اور حضرت عمر ؓ با آواز بلند قرأت پڑھا کرتے تھے۔ حضرت صدیق اکبر ؓ سے پوچھا گیا کہ آپ آہستہ کیوں پڑھتے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ اپنے رب سے سرگوشی ہے وہ میری حاجات کا علم رکھتا ہے تو فرمایا کہ یہ بہت اچھا ہے۔ حضرت عمر ؓ سے پوچھا کہ آپ بلند آواز سے کیوں پڑھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا شیطان کو بھگاتا ہوں اور سوتوں کو جگاتا ہوں تو آپ سے بھی فرمایا گیا بہت اچھا ہے لیکن جب یہ آیت اتری تو حضرت ابوبکر ؓ سے قدرے بلند آواز کرنے کو اور حضرت عمر فاروق ؓ سے قدرے پست آواز کرنے کو فرمایا گیا۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے اسی طرح ثوری اور مالک ہشام بن عروہ سے وہ اپنے باپ سے وہ حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں آپ فرماتی ہیں کہ یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے یہی قول حضرت مجاہد، حضرت سعید بن جبیر، حضرت ابو عیاض، حضرت مکحول، حضرت عروہ بن زبیر رحمہم اللہ کا بھی ہے۔ مروی ہے کہ بنو تمیم قبیلے کا ایک اعرابی جب بھی حضور ﷺ نماز سے سلام پھیرتے یہ دعا کرتا کہ اے اللہ مجھے اونٹ عطا فرما مجھے اولاد دے پس یہ آیت اتری۔ ایک دوسرا قول یہ بھی ہے کہ یہ آیت تشہد کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ نہ تو ریا کاری کرو نہ عمل چھوڑو۔ یہ بھی کرو کہ علانیہ تو عمدہ کر کے پڑھو اور خفیہ برا کر کے پڑھو۔ اہل کتاب پوشیدہ پڑھتے اور اسی درمیان کوئی فقرہ بہت بلند آواز سے چیخ کر زبان سے نکالتے اس پر سب ساتھ مل کر شور مچا دیتے تو ان کی موافقع سے ممانعت ہوئی اور جس طرح اور لوگ چھپاتے تھے اس سے بھی روکا گیا پھر اس کے درمیان کا راستہ حضرت جبرائیل ؑ نے بتلایا جو حضور ﷺ نے مسنون فرمایا ہے۔ اللہ کی حمد کرو جس میں تمام تر کمالات اور پاکیزگی کی صفتیں ہیں۔ جس کے تمام تر بہترین نام ہیں جو تمام تر نقصانات سے پاک ہے۔ اس کی اولاد نہیں، اس کا شریک نہیں، وہ واحد ہے، صمد ہے، نہ اس کے ماں باپ، نہ اولاد، نہ اس کی جنس کا کوئی اور، نہ وہ ایسا حقیر کہ کسی کی حمایت کا محتاج ہو یا وزیر و مشیر کی اسے جاجت ہو بلکہ تمام چیزوں کا خالق مالک صرف وہی ہے سب کا مدبر مقدر وہی ہے اسی کی مشیت تمام مخلوق میں چلتی ہے وہ وحدہ لا شریک لہ ہے نہ اس کی کسی سے بھائی بندی ہے نہ وہ کسی کی مدد کا طالب ہے۔ تو ہر وقت اس کی عظمت جلالت کبریائی بڑائی اور بزرگی بیان کرتا رہ اور مشرکین جو تمہیں اس پر باندھتے ہیں تو ان سے اس کی ذات کی بزرگی برائی اور پاکیزگی بیان کرتا رہ۔ یہود و نصاریٰ تو کہتے تھے کہ اللہ کی اولاد ہے۔ مشرکین کہتے تھے لبیک لا شریک لک الا شریکا ھو لک تملکہ وما ملک یعنی ہم حاضر باش غلام ہیں اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں لیکن جو خود تیری ملکیت میں ہیں تو ہی ان کا اور ان کی ملکیت کا مالک ہے۔ صابی اور مجوسی کہتے ہیں کہا اگر اولیاء اللہ نہ ہوں تو اللہ سارے انتظام آپ نہیں کرسکتا۔ اس پر یہ آیت اتری اور ان سب باطل پرستوں کی تردید کردی گئی۔ نبی کریم ﷺ اپنے گھر کے تمام چھوٹے بڑے لوگوں کو یہ آیت سکھایا کرتے تھے۔ آپ نے اس آیت کا نام آیت العز یعنی عزت والی آیت رکھا ہے۔ بعض آثار میں ہے کہ جس گھر میں رات کو یہ آیت پڑھی جائے۔ اس گھر میں کوئی آفت یا چوری نہیں ہوسکتی واللہ اعلم۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کے ساتھ نکلا میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں تھا یا آپ کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا راہ چلتے ایک شخص کو آپ نے دیکھا نہایت ردی حالت میں ہے اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ اس نے کہا حضور ﷺ بیماریوں اور نقصانات نے میری یہ درگت کر رکھی ہے آپ نے فرمایا کیا میں تمہیں کچھی وظیفہ بتادوں کہ یہ دکھ بیماری سب کچھ جاتی رہے ؟ اس نے کہا ہاں ہاں یا رسول اللہ ﷺ ضرور بتلائے احد اور بدر میں آپ کے ساتھ نہ ہونے کا افسوس میرا جاتا رہے گا اس پر آپ ہنس پڑے اور فرمایا تو بدری اور احدی صحابہ کے مرتبے کو کہاں سے پاسکتا ہے تو ان کے مقابلے میں محض خالی ہاتھ اور بےسرمایہ ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ انہیں جانے دیجئے آپ مجھے بتلا دیئجے۔ آپ نے فرمایا ابوہریرہ ؓ یوں کہو توکلت علی الذی لا یموت الحمد للہ الذی لم یتخذ ولدا الخ میں نے یہ وظیفہ پڑھنا شروع کردیا تھا چند دن گزرے تھے کہ میری حالت بہت ہی سنور گئی حضور ﷺ نے مجھے دیکھا اور پوچھا ابوہریرہ ؓ یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا ان کلمات کی وجہ سے اللہ کی طرف سے برکت ہے جو آپ نے مجھے سکھائے تھے اس کی سند ضعیف ہے اور اس کے متن میں بھی نکارت ہے۔ اسے حافظ ابو یعلی اپنی کتاب میں لائے ہیں واللہ اعلم۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰىہرخیر ہر خوبی ہر بھلائی ہر حسن ہر کمال ہر جمال جس کا تم تصور کرسکتے ہو وہ بہ تمام و کمال اللہ تعالیٰ کی ذات میں موجود ہے۔وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًاتمہاری نمازیں اور دعائیں نہ تو بہت زیادہ جہری ہوں نہ بالکل ہی سری بلکہ ان کے بین بین کی راہ اختیار کرو۔
قل ادعوا الله أو ادعوا الرحمن أيا ما تدعوا فله الأسماء الحسنى ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها وابتغ بين ذلك سبيلا
سورة: الإسراء - آية: ( 110 ) - جزء: ( 15 ) - صفحة: ( 293 )Surah Al Israa Ayat 110 meaning in urdu
اے نبیؐ، اِن سے کہو، اللہ کہہ کر پکارو یا رحمان کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو اُس کے لیے سب اچھے ہی نام ہیں اور اپنی نماز نہ بہت زیادہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ بہت پست آواز سے، ان دونوں کے درمیان اوسط درجے کا لہجہ اختیار کرو
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- بولا کہ میں اس سے بہتر ہوں (کہ) تو نے مجھ کو کو آگ سے
- کیا یہ کوئی داؤں کرنا چاہتے ہیں تو کافر تو خود داؤں میں آنے والے
- اور تم کیا سمجھے حطمہ کیا ہے؟
- کیا اُنہوں نے اپنے دل میں غور نہیں کیا۔ کہ خدا نے آسمانوں اور زمین
- جن لوگوں نے کفر کیا اور (لوگوں کو) خدا کے رستے سے روکا ہم اُن
- پھر ان کے بعد ناخلف ان کے قائم مقام ہوئے جو کتاب کے وارث بنے۔
- اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اپنے
- اور (کافر) انسان کہتا ہے کہ جب میں مر جاؤ گا تو کیا زندہ کرکے
- یہ) قرآن عربی (ہے) جس میں کوئی عیب (اور اختلاف) نہیں تاکہ وہ ڈر مانیں
- کہنے لگے کہ اے قوم! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد
Quran surahs in English :
Download surah Al Israa with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Israa mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Israa Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers