Surah An Nahl Ayat 115 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾
[ النحل: 115]
اس نے تم پر مُردار اور لہو اور سور کا گوشت حرام کردیا ہے اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے (اس کو بھی) ہاں اگر کوئی ناچار ہوجائے تو بشرطیکہ گناہ کرنے والا نہ ہو اور نہ حد سے نکلنے والا تو خدا بخشنے والا مہربان ہے
Surah An Nahl Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اس کا مطلب یہ ہوا کہ حلال وطیب چیزوں سے تجاوز کر کے حرام اور خبیث چیزوں کا استعمال اور اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرنا، یہ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری ہے۔
( 2 ) یہ آیت اس سے قبل تین مرتبہ پہلے بھی گزر چکی ہے۔ ( البقرۃ:173 )۔ ( المائدہ:3 )۔ ( الانعام:145 ) میں۔ یہ چوتھا مقام ہے۔ جہاں اللہ نے اسے پھر بیان فرمایا ہے۔ اس میں لفظ إِنَّمَا حصر کے لئے ہے۔ لیکن یہ حصر حقیقی نہیں بلکہ اضافی ہے۔ یعنی مخاطبین کے عقیدے اور خیال کو سامنے رکھتے ہوئے فرمایا گیا ہے۔ ورنہ دوسرے جانور اور درندے وغیرہ بھی حرام ہیں، البتہ ان آیات سے یہ واضح ہے کہ ان میں جن چار محرکات کا ذکر ہے، اللہ تعالٰی ان سے مسلمانوں کو نہایت تاکید کے ساتھ بچانا چاہتا ہے۔ اس کی ضروری تشریح گزشتہ مقامات پر کی جا چکی ہے، تاہم اس میں وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ( جس چیز پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا جائے ) جو چوتھی قسم ہے۔ اس کے مفہوم میں تاویلات رکیکہ اور توجیہات بعیدہ سے کام لے کر کر شرک کے لئے چور دروازہ تلاش کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس کی مزید وضاحت پیش خدمت ہے۔ جو جانور غیر اللہ کے لیے نامزد کر دیا جائے اس کی مختلف صورتیں ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ غیر اللہ کے تقرب اور اس کی خوشنودی کے لیے اسے ذبح کیا جائے اور ذبح کرتے وقت نام بھی اسی بت یا بزرگ کا لیا جائے بزعم خویش جس کو راضی کرنا مقصود ہے دوسری صورت یہ ہے کہ مقصود تو غیر اللہ کا تقرب ہی ہو۔ لیکن ذبح اللہ کے نام پر ہی کیا جائے جس طرح کہ قبر پرستوں میں یہ سلسلہ عام ہے۔ وہ جانوروں کو بزرگوں کیلیے نامزد تو کرتے ہیں مثلا یہ بکرا فلاں پیر کا ہے یہ گائے فلاں پیر کی ہے، یہ جانور گیارہویں کے لیے یعنی شیخ عبدالقادر جیلانی کے لیے ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اور ان کو وہ بسم اللہ پڑھ کر ہی ذبح کرتے ہیں۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ پہلی صورت تو یقیناً حرام ہے لیکن یہ دوسری صورت حرام نہیں بلکہ جائز ہے کیونکہ یہ غیر اللہ کے نام پر ذبح نہیں کیا گیا ہے اور یوں شرک کا راستہ کھول دیا گیا ہے۔ حالانکہ فقہاء نے اس دوسری صورت کو بھی حرام قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ یہ بھی وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ میں داخل ہے چنانچہ حاشیہ بیضاوی میں ہے ” ہر وہ جانور جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے حرام ہے اگرچہ ذبح کے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا جائے، اس لیے کہ علماء کا اتفاق ہے کہ کوئی مسلمان اگر غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی غرض سے جانور ذبح کرے گا تو وہ مرتد ہو جائے گا اور اس کا ذبیح مرتد کا ذبیحہ ہوگا “ اور فقہ حنفی کی مشہور کتاب درمختار میں ہے کہ ” کسی حاکم اور کسی طرح کسی بڑے کی آمد پر( حسن خلق یا شرع ضیافت کی نیت سے نہیں بلکہ اس کی رضامندی اور اس کی تعظیم کے طور پر ) جانور ذبح کیا جائے تو وہ حرام ہوگا اس لیے کہ وہ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ میں داخل ہے اگرچہ اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو اور علامہ شامی نے اس کی تائید کی ہے “۔( کتاب الذبائح طبع قدیم 1277ھ ص277۔ فتاویٰ شامی ج 5 ، ص 203، مطبع میمنیہ، مصر ) البتہ بعض فقہاء اس دوسری صورت کو وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ کا مدلول اور اس میں داخل نہیں سمجھتے اور اشتراک علت ( تقرب لغیر اللہ ) کی وجہ سے اسے حرام سمجھتے ہیں۔ گویا حرمت میں کوئی اختلاف نہیں صرف استدلال و احتجاج کے طریقے میں اختلاف ہے۔ علاوہ ازیں یہ دوسری صورت ” وَمَا ذُبِحَ عَلَى ٱلنُّصُبِ “ ( جو بتوں کے پاس یا تھانوں پر ذبح کیے جائیں ) بھی داخل ہے، جسے سورۃ المائدہ میں محرمات میں ذکر کیا گیا ہے اور احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آستانوں درباروں اور تھانوں پر ذبح کیے گئے جانور بھی حرام ہیں اس لیے کہ وہاں ذبح کرنے کا یا وہاں لے جا کر تقسیم کرنے کا مقصد تَقَرُّبٌ لِغَيْرِ اللهِ ہی ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے ایک شخص نے آ کر رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) سے کہا کہ میں نے نذر مانی ہے کہ میں بوانہ جگہ میں اونٹ ذبح کروں گا۔ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے پوچھا کہ کیا وہاں زمانہ جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی پرستش کی جاتی تھی؟ لوگوں نے بتلایا نہیں پھر آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے پوچھا کہ وہاں ان کی عیدوں میں سے کوئی عید تو نہیں منائی جاتی تھی؟ لوگوں نے اس کی بھی نفی کی، تو آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے سائل کو نذر پوری کرنے کا حکم دیا۔( ابو داود، كتاب الإيمان والنذور باب ما يؤمر به من وفاء النذر ) اس سے معلوم ہوا کہ بتوں کے ہٹائے جانے کے بعد بھی غیر آباد آستانوں پر جا کر جانور ذبح کرنا جائز نہیں ہے۔ چہ جائیکہ ان آستانوں اور درباروں پر جا کر ذبح کیے جائیں جو پرستش اور نذر ونیاز کے لیے مرجع عوام ہیں۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
حلال و حرام صرف اللہ کی طرف سے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو اپنی دی ہوئی پاک روزی حلال کرتا ہے اور شکر کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ اس لئے کہ نعمتوں کا داتا وہی ہے، اسی لئے عبادت کے لائق بھی صرف وہی ایک ہے، اس کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں۔ پھر ان چیزوں کا بیان فرما رہا ہے جو اس نے مسلمانوں پر حرام کردی ہیں جس میں ان کے دین کا نقصان بھی ہے اور ان کی دنیا کا نقصان بھی ہے جیسے از خود مرا ہوا جانور اور بوقت ذبح کیا جائے۔ لیکن جو شخص ان کے کھانے کی طرف بےبس، لاچار، عاجز، محتاج، بےقرار ہوجائے اور انہیں کھالے تو اللہ بخشش و رحمت سے کام لینے والا ہے۔ سورة بقرہ میں اسی جیسی آیت گزر چکی ہے اور وہیں اس کی کامل تفسیر بھی بیان کردی اب دوبارہ دہرانے کی حاجت نہیں فالحمد اللہ پھر کافروں کے رویہ سے مسلمانوں کو روک رہا ہے کہ جس طرح انہوں نے از خود اپنی سمجھ سے حلت حرمت قائم کرلی ہے تم نہ کرو آپس میں طے کرلیا کہ فلاں کے نام سے منسوب جانور حرمت و عزت والا ہے۔ بحیرہ، سائبہ، وصیلہ، حام وغیرہ تو فرمان ہے کہ اپنی زبانوں سے جھوٹ موٹ اللہ کے ذمے الزام رکھ کر آپ حلال حرام نہ ٹھہرا لو۔ اس میں یہ بھی داخل ہے کہ کوئی اپنی طرف سے کسی بدعت کو نکالے جس کی کوئی شرعی دلیل نہ ہو۔ یا اللہ کے حرام کو حلال کرے یا مباح کو حرام قرار دے اور اپنی رائے اور تشبیہ سے احکام ایجاد کرے۔ لما تصف میں ما مصدریہ ہے یعنی تم اپنی زبان سے حلال حرام کا جھوٹ وصف نہ گھڑ لو۔ ایسے لوگ دنیا کی فلاح سے آخرت کی نجات سے محروم ہوجاتے ہیں دنیا میں گو تھوڑا سا فائدہ اٹھا لیں لیکن مرتے ہی المناک عذابوں کا لقمہ بنیں گے۔ یہاں کچھ عیش و عشرت کرلیں وہاں بےبسی کے ساتھ سخت عذاب برداشت کرنے پڑیں گے۔ جیسے فرمان الٰہی ہے اللہ پر جھوٹ افترا کرنے والے نجات سے محروم ہیں۔ دنیا میں چاہے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لیں پھر ہم ان کے کفر کی وجہ سے انہیں سخت عذاب چکھائیں گے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌیعنی انتہائی مجبوری کی حالت میں جان بچانے کے لیے وقتی طور پر بقدر ضرورت ان حرام اشیاء کو استعمال میں لا کر جان بچائی جاسکتی ہے مگر نہ تو دل میں ان کی طلب ہو نہ اللہ سے سرکشی کا ارادہ اور نہ ہی ایسی حالت میں وہ چیز ضرورت سے زیادہ کھائی جائے۔
إنما حرم عليكم الميتة والدم ولحم الخنـزير وما أهل لغير الله به فمن اضطر غير باغ ولا عاد فإن الله غفور رحيم
سورة: النحل - آية: ( 115 ) - جزء: ( 14 ) - صفحة: ( 280 )Surah An Nahl Ayat 115 meaning in urdu
اللہ نے جو کچھ تم پر حرام کیا ہے وہ ہے مُردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو البتہ بھوک سے مجبور ہو کر اگر کوئی اِن چیزوں کو کھا لے، بغیر اس کے کہ وہ قانون الٰہی کی خلاف ورزی کا خواہش مند ہو، یا حد ضرورت سے تجاوز کا مرتکب ہو، تو یقیناً اللہ معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور وہی تو ہے جو اپنی رحمت (یعنی مینھ) سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری (بنا
- وہ بولے کیا ہم نے تم کو سارے جہان (کی حمایت وطرفداری) سے منع نہیں
- اور جن کے وزن ہلکے ہوں گے تو یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے تئیں
- تو جب ان پر ہمارا عذاب آتا رہا کیوں نہیں عاجزی کرتے رہے۔ مگر ان
- اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو (بھیجا) تو اُنہوں نے کہا کہ
- جب آسمان پھٹ جائے گا
- اور تم پہاڑوں کو دیکھتے ہو تو خیال کرتے ہو کہ (اپنی جگہ پر) کھڑے
- مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھے کام کئے تو ایسے لوگوں
- اور تمہارا پروردگار تو غالب اور مہربان ہے
- کہہ دو کہ اگر خدا کے اولاد ہو تو میں (سب سے) پہلے (اس کی)
Quran surahs in English :
Download surah An Nahl with the voice of the most famous Quran reciters :
surah An Nahl mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter An Nahl Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers