Surah Luqman Ayat 12 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ لقمان کی آیت نمبر 12 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Luqman ayat 12 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ ۚ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ﴾
[ لقمان: 12]

Ayat With Urdu Translation

اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی۔ کہ خدا کا شکر کرو۔ اور جو شخص شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے۔ اور جو ناشکری کرتا ہے تو خدا بھی بےپروا اور سزاوار حمد (وثنا) ہے

Surah Luqman Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) حضرت لقمان، اللہ کے نیک بندے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حکمت یعنی عقل وفہم اور دینی بصیرت میں ممتاز مقام عطا فرمایا تھا۔ ان سے کسی نےپوچھا تمہیں یہ فہم وشعور کس طرح حاصل ہوا؟ انہوں نے فرمایا، راست بازی، امانت کے اختیار کرنے اور بے فائدہ باتوں سے اجتناب اور خاموشی کی وجہ سے۔ ان کا حکمت ودانش پر مبنی ایک واقعہ یہ بھی مشہور ہے کہ یہ غلام تھے، ان کے آقا نے کہا کہ بکری ذبح کرکے اس کے سب سے بہترین دو حصے لاؤ، چنانچہ وہ زبان اور دل نکال کر لے گئے۔ ایک دوسرے موقعے پر آقا نے ان سے کہا کہ بکری ذبح کرکے اس کے سب سے بدترین حصے لاؤ۔ وہ پھر وہی زبان اور دل لے کر چلے گئے۔ پوچھنے پر انہوں نے بتلایا کہ زبان اور دل، اگر صحیح ہوں تو یہ سب سے بہتر ہیں اور اگر یہ بگڑ جائیں تو ان سے بدتر کوئی چیز نہیں۔ ( ابن کثیر )۔
( 2 ) شکر کا مطلب ہے، اللہ کی نعمتوں پر اس کی حمد وثنا اور اس کے احکام کی فرماں برداری۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


حضرت لقمان نبی تھے یا نہیں ؟ اس میں سلف کا اختلاف ہے کہ حضرت لقمان نبی تھے یا نہ تھے ؟ اکثر حضرات فرماتے ہیں کہ آپ نبی نہ تھے پرہیزگار ولی اللہ اور اللہ کے پیارے بزرگ بندے تھے۔ ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ آپ حبشی غلام تھے اور بڑھئی تھے۔ حضرت جابر سے جب سوال ہوا تو آپ نے فرمایا حضرت لقمان پستہ قد اونچی ناک والے موٹے ہونٹ والے نبی تھے۔ سعد بن مسیب فرماتے ہیں آپ مصر کے رہنے والے حبشی تھے۔ آپ کو حکمت عطا ہوئی تھی لیکن نبوت نہیں ملی تھی آپ نے ایک مرتبہ ایک سیاہ رنگ غلام حبشی سے فرمایا اپنی رنگت کی وجہ سے اپنے تئیں حقیر نہ سمجھ تین شخص جو تمام لوگوں سے اچھے تھے تینوں سیاہ رنگ تھے۔ حضرت بلال ؓ جو حضور رسالت پناہ کے غلام تھے۔ حضرت مجع جو جناب فاروق اعظم کے غلام تھے اور حضرت لقمان حکیم جو حبشہ کے نوبہ تھے۔ حضرت خالد ربعی کا قول ہے کہ حضرت لقمان جو حبشی غلام بڑھی تھے ان سے ایک روز ان کے مالک نے کہا بکری ذبح کرو اور اس کے دو بہترین اور نفیس ٹکڑے گوشت کے میرے پاس لاؤ۔ وہ دل اور زبان لے گئے کچھ دنوں بعد ان کے مالک نے کہا کہ بکری ذبح کرو اور دو بدترین گوشت کے ٹکڑے میرے پاس لاؤ آپ آج بھی یہی دو چیزیں لے گئے مالک نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ بہترین مانگے تو بھی یہی لائے گئے اور بدترین مانگے گئے تو بھی یہی لائے گئے یہ کیا بات ہے ؟ آپ نے فرمایا جب یہ اچھے رہے تو ان سے بہترین جسم کا کوئی عضو نہیں اور جب یہ برے بن جائے تو پھر سبب سے بدتر بھی یہی ہیں۔ حضرت مجاہد کا قول ہے کہ حضرت لقمان نبی نہ تھے نیک بندے تھے۔ سیاہ فام غلام تھے موٹے ہونٹوں والے اور بھرے قدموں والے اور بزرگ سے بھی یہ مروی ہے کہ بنی اسرائیل میں قاضی تھے۔ ایک اور قول ہے کہ آپ حضرت داؤد ؑ کے زمانے میں تھے۔ ایک مرتبہ آپ کسی مجلس میں وعظ فرما رہے تھے کہ ایک چروا ہے نے آپ کو دیکھ کر کہا کیا تو وہی نہیں ہے جر میرے ساتھ فلاں فلاں جگہ بکریاں چرایا کرتا تھا ؟ آپ نے فرمایا ہاں میں وہی ہوں اس نے کہا پھر تجھے یہ مرتبہ کیسے حاصل ہوا ؟ فرمایا سچ بولنے اور بیکار کلام نہ کرنے سے۔ اور روایت میں ہے کہ آپ نے اپنی بلندی کی وجہ یہ بیان کی کہ اللہ کا فضل اور امانت ادائیگی اور کلام کی سچائی اور بےنفع کاموں کو چھوڑ دینا۔ الغرض ایسے ہی آثار صاف ہیں کہ آپ نبی نہ تھے۔ بعض روایتیں اور بھی ہیں جن میں گو صراحت نہیں کہ آپ نبی نہ تھے لیکن ان میں بھی آپ کا غلام ہونا بیان کیا گیا ہے جو ثبوت ہے اس امر کا کہ آپ نبی نہ تھے کیونکہ غلامی نبوت کے منافی ہے۔ انبیاء کرام عالی نسب اور عالی خاندان کے ہوا کرتے تھے۔ اسی لئے جمہور سلف کا قول ہے کہ حضرت لقمان نبی نہ تھے۔ ہاں حضرت عکرمہ سے مروی ہے کہ آپ نبی تھے لیکن یہ بھی جب کے سند صحیح ثابت ہوجائے لیکن اسکی سند میں جابر بن یزید جعفی ہیں جو ضعیف ہیں۔ واللہ اعلم۔ کہتے ہیں کہ حضرت لقمان حکیم سے ایک شخص نے کہا کیا تو بنی حسح اس کا غلام نہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ہوں۔ اس نے کہا تو بکریوں کا چرواہا نہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ہوں۔ کہا گیا تو سیاہ رنگ نہیں ؟ آپ نے فرمایا ظاہر ہے میں سیاہ رنگ ہوں تم یہ بتاؤ کہ تم کیا پوچھنا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا یہی کہ پھر وہ کیا ہے ؟ کہ تیری مجلس پر رہتی ہے ؟ لوگ تیرے دروازے پر آتے ہیں تری باتیں شوق سے سنتے ہیں۔ آپ نے فرمایا سنو بھائی جو باتیں میں تمہیں کہتا ہوں ان پر عمل کرلو تو تم بھی مجھ جیسے ہوجاؤگے۔ آنکھیں حرام چیزوں سے بند کرلو۔ زبان بیہودہ باتوں سے روک لو۔ مال حلال کھایاکرو۔ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو۔ زبان سے سچ بات بولا کرو۔ وعدے کو پورا کیا کرو۔ مہمان کی عزت کرو۔ پڑوسی کا خیال رکھو۔ بےفائدہ کاموں کو چھوڑ دو۔ انہی عادتوں کی وجہ سے میں نے بزرگی پائی ہے۔ ابو داؤد ؓ فرماتے ہیں حضرت لقمان حکیم کسی بڑے گھرانے کے امیر اور بہت زیادہ کنبے قبیلے والے نہ تھے۔ ہاں ان میں بہت سی بھلی عادتیں تھیں۔ وہ خوش اخلاق خاموش غور و فکر کرنے والے گہری نظر والے دن کو نہ سونے والے تھے۔ لوگوں کے سامنے تھوکتے نہ تھے نہ پاخانہ پیشاب اور غسل کرتے تھے لغو کاموں سے دور رہتے ہنستے نہ تھے جو کلام کرتے تھے حکمت سے خالی نہ ہوتا تھا جس دن ان کی اولاد فوت ہوئی یہ بالکل نہیں روئے۔ وہ بادشاہوں امیروں کے پاس اس لئے جاتے تھے کہ غور و فکر اور عبرت و نصیحت حاصل کریں۔ اسی وجہ سے انہیں بزرگی ملی۔ حضرت قتادۃ سے ایک عجیب اثر وارد ہے کہ حضرت لقمان کو حکمت ونبوت کے قبول کرنے میں اختیار دیا گیا تو آپ نے حکمت قبول فرمائی راتوں رات ان پُر حکمت برسادی گئی اور رگ وپے میں حکمت بھر دی گئی۔ صبح کو ان کی سب باتیں اور عادتیں حکیمانہ ہوگئیں۔ آپ سے سوال ہوا کہ آپ نے نبوت کے مقابلے میں حکمت کیسے اختیار کی ؟ تو جواب دیا کہ اگر اللہ مجھے نبی بنا دیتا تو اور بات تھی ممکن تھا کہ منصب نبوت کو میں نبھا جاتا۔ لیکن جب مجھے اختیار دیا گیا تو مجھے ڈر لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں نبوت کا بوجھ نہ سہار سکوں۔ اس لئے میں نے حکمت ہی کو پسند کیا۔ اس روایت کے ایک راوی سعید بن بشیر ہیں جن میں ضعف ہے واللہ اعلم۔ حضرت قتادہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مراد حکمت سے اسلام کی سمجھ ہے۔ حضرت لقمان نہ نبی تھے نہ ان پر وحی آئی تھی پس سمجھ علم اور عبرت مراد ہے۔ ہم نے انہیں اپنا شکر بجالانے کا حکم فرمایا تھا کہ میں نے تجھے جو علم وعقل دی ہے اور دوسروں پر جو بزرگی عطا فرمائی ہے۔ اس پر تو میری شکر گزاری کر۔ شکر گذار کچھ مجھ پر احسان نہیں کرتا وہ اپناہی بھلا کرتا ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِاَنْفُسِهِمْ يَمْهَدُوْنَ 44؀ۙ ) 30۔ الروم:44) نیکی والے اپنے لئے بھی بھلا توشہ تیار کرتے ہیں۔ یہاں فرمان ہے کہ اگر کوئی ناشکری کرے تو اللہ کو اسکی ناشکری ضرر نہیں پہنچاسکتی وہ اپنے بندوں سے بےپرواہ ہے سب اس کے محتاج ہیں وہ سب سے بےنیاز ہے ساری زمین والے بھی اگر کافر ہوجائیں تو اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے وہ سب سے غنی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ہم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کرتے۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


سورة لقمان کا یہ رکوع اپنے مضامین کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر اسے ہم نے مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب میں بھی شامل کیا ہے۔ چناچہ منتخب نصاب کے پہلے حصے جامع اسباق کا تیسرا درس اس رکوع پر مشتمل ہے۔ بنیادی طور پر اس رکوع میں حضرت لقمان کی نصیحتیں نقل ہوئی ہیں۔ ان نصیحتوں میں اس قدر جامعیت ہے کہ انسان کی نجات اخروی کے لوازمات کا ایک مکمل خاکہ ان کے اندر موجود ہے۔ حضرت لقمان نہ تو خود نبی تھے اور نہ ہی کسی نبی کے پیروکار تھے ‘ بلکہ وہ ایک سلیم الفطرت اور سلیم العقل انسان تھے۔ ان کے حوالے سے جو بہت اہم نکتہ یہاں پر واضح ہوتا ہے وہ یہ ہے اس دورۂ ترجمہ قرآن کے دوران قبل ازیں بھی یہ نکتہ بار بارزیر بحث آچکا ہے کہ ہر انسان فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے اور اگر ماحول کے منفی اثرات کے باعث اس کی فطرت مسنح نہ ہوگئی ہو تو وحی یا کسی نبی کی راہنمائی کے بغیر بھی کائنات کے کچھ حقائق تک اس کی رسائی ممکن ہوسکتی ہے۔ وہ اپنی عقل سلیم کے ذریعے بڑی آسانی سے اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ اس پوری کائنات کا خالق ایک ہے ‘ اس کی تخلیق میں اس کے ساتھ کوئی اور شریک نہیں۔ وہ ایسی ہستی ہے جو تمام صفات کمال سے بتمام و کمال متصفّ ہے۔ اسی نے اس کائنات کی تدبیر کی ہے اور وہی اس کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ اسی طرح ایک سلیم الفطرت انسان عقلی طور پر یہ حقیقت بھی سمجھ سکتا ہے کہ انسان کی زندگی صرف اس دنیا کی زندگی تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کے بعد ایک دوسری زندگی کا ہونا بھی ناگزیر ہے۔ اور یہ کہ جس خالق نے انسانوں کو پیدا کیا ہے وہ ان کا محاسبہ بھی کرے گا۔ ہر انسان کو اپنے کیے کی سزا یا جزا کے لیے اپنے خالق کے حضور ضرور حاضر ہونا پڑے گا۔ ان حقائق کے ادراک کو ” ایمان “ تو نہیں کہا جاسکتا ‘ لیکن معرفت یا حکمت کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ ” ایمان “ تو نبی کی دعوت کی تصدیق کا نام ہے ‘ جس تک انسان خود بخود رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔ البتہ معرفت اور حکمت کے یہ دو مقامات وجود باری تعالیٰ کا ادراک اور آخرت کا شعور ایسے ہیں جن تک انسان اپنی عقل سلیم کی مدد سے بھی پہنچ سکتا ہے بشرطیکہ اس کی فطرت پر غفلت اور مادیت کے پردے نہ پڑچکے ہوں۔ایک سلیم الفطرت انسان کو اس مقام معرفت پر پہنچ کر آگے بڑھنے کے لیے کسی راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی اب تک اس نے عقل کی مدد سے اپنے خالق کو پہچان تو لیا ہے لیکن اس کے خالق کا اس سے تقاضا کیا ہے اس بارے میں اسے کچھ معلوم نہیں۔ چناچہ یہاں پہنچ کر وہ مدد کے لیے پکارتا ہے۔ انسان کی فطرت سلیمہ کی اس پکار کو اللہ تعالیٰ نے الفاظ کا جامہ عطا کر کے ایک خوبصورت دعا کی صورت میں محفوظ فرما دیا ہے۔ یہ وہی دعا ہے جو ہم ہر نماز کی ہر رکعت کے اندر پڑھتے ہیں۔ لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک عام آدمی کی دعا نہیں ہے بلکہ یہ اس انسان کی فطرت کی پکار ہے جو اپنی سلامتئ طبع ‘ سلامتئ فطرت اور سلامتئ عقل کی مدد سے اللہ کی معرفت حاصل کرچکا ہے۔ اس معرفت کے بعد اس کی روح گویا بےاختیار پکار اٹھتی ہے : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ یعنی اس نے اللہ کو خالق کائنات اور رب العالمین کے طور پر پہچان لیا ہے۔ وہ اللہ کو الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ہستی کے طور پر بھی جان چکا ہے۔ اس کے بعد وہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی منطق کا قائل بھی ہوچکا ہے اور اپنی عقل سلیم ہی کی مدد سے اسے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کا فلسفہ بھی سمجھ میں آچکا ہے۔ لیکن اس سے آگے وہ کچھ نہیں جانتا۔ اسے اس حقیقت کا ادراک تو ہوگیا ہے کہ اسے اپنے رب ہی کی بندگی کرنا چاہیے اور اسی کی مرضی پر چلنا چاہیے ‘ مگر اس کی بندگی کا طریقہ کیا ہے ؟ اور اس کی مرضی ہے کیا ؟ اس بارے میں اسے کچھ معلوم نہیں۔ چناچہ یہاں وہ اسی ذات کی طرف رجوع کرتا ہے جس کی معرفت سے اس کا سینہ منور ہوا ہے اور اس سے راہنمائی کی درخواست کرتا ہے : اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ 5 غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلا الضَّآلِّیْنَ ” اے ہمارے ربّ ! ہمیں ہدایت بخش سیدھی راہ کی۔ راہ ان لوگوں کی جن پر تیرا انعام ہوا ‘ جو نہ تو مغضوب ہوئے اور نہ گمراہ۔ “ 6 حضرت لقمان ایک ایسی ہی سلیم الفطرت شخصیت تھے جو وحی یا کسی نبی کی راہنمائی کے بغیر کائنات کے مذکورہ حقائق تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ وہ حبشئ النسل تھے اور پیشے کے اعتبار سے بڑھئی تھے۔ ان کا تعلق مصر اور سوڈان کے سرحدی علاقے نوبیا Noobia سے تھا۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ حکمت و ذہانت اور سلامتی فطرت کی مدد سے نہ صرف انہیں توحید کی معرفت حاصل ہوئی بلکہ وہ اس نتیجے پر بھی پہنچ گئے کہ انسانی اعمال ضائع ہونے کی چیز نہیں ہیں۔ اس رکوع میں حضرت لقمان کی ان نصیحتوں کا ذکر ہے جو انہوں نے انتقال کے وقت اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ گویا یہ باتیں ان کی عمر بھر کی سوچ کاُ لبّ لباب ہیں۔ چونکہ وہ کسی نبی کے پیروکار نہیں تھے اور نہ ہی وحی کی تعلیمات ان تک پہنچی تھیں اس لیے ان کی نصیحتوں میں نہ تو کسی رسول کا تذکرہ ہے اور نہ ہی ان حقائق کا ذکر ہے جن کا علم صرف وحی کے ذریعے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ عرب کے لوگ حضرت لقمان کی شخصیت سے خوب واقف تھے۔ وہ نہ صرف انہیں ایک دانشور حکیم کے طور پر جانتے تھے بلکہ ان کے اقوال کو اپنے اشعار اور خطبات میں نقل quote بھی کیا کرتے تھے۔ اس پس منظر میں حضرت لقمان کے اقوال و نصائح کو قرآن میں نقل quote کر کے اللہ تعالیٰ گویا مشرکین عرب کو بتانا چاہتا ہے کہ دیکھو ! لقمان جیسا دانشور حکیم بھی اپنی سلامتی طبع اور سلامتی فکر کے باعث اسی اصول اور اسی نکتے تک پہنچا تھا جس کی دعوت آج تم لوگوں کو محمد ﷺ دے رہے ہیں۔اَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ ط ” انسان کی حکمت و دانائی اور اس کی فطرت کے ”سلیم “ ہونے کا لازمی تقاضا ہے کہ جو کوئی بھی اس کے ساتھ بھلائی کرے اس کے لیے اس کے دل میں بھلائی اور احسان مندی کے جذبات پیدا ہوں اور پھر وہ مناسب طریقے سے ان جذبات کا اظہار بھی کرے۔ چناچہ اگر کسی شخص کی فطرت بالکل ہی مسخ نہ ہوچکی ہو تو وہ اپنے محسن اعظم اور منعم حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور ہر لمحہ اور ہر مقام پر ضرور کلمہ شکر بجا لائے گا۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ اللہ کے شکر کے اظہار کے لیے بہترین کلمہ شکر ” اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ “ ہے جو قرآن مجید کا کلمہ آغاز بھی ہے۔

ولقد آتينا لقمان الحكمة أن اشكر لله ومن يشكر فإنما يشكر لنفسه ومن كفر فإن الله غني حميد

سورة: لقمان - آية: ( 12 )  - جزء: ( 21 )  -  صفحة: ( 412 )

Surah Luqman Ayat 12 meaning in urdu

ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ اللہ کا شکر گزار ہو جو کوئی شکر کرے اُس کا شکر اُس کے اپنے ہی لیے مفید ہے اور جو کوئی کفر کرے تو حقیقت میں اللہ بے نیاز اور آپ سے آپ محمود ہے


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. جب اس کو ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو اگلے
  2. انسان ہلاک ہو جائے کیسا ناشکرا ہے
  3. اور اگر میرے پروردگار کی مہربانی نہ ہوتی تو میں بھی ان میں ہوتا جو
  4. لوگو! اگر وہ چاہے تو تم کو فنا کردے اور (تمہاری جگہ) اور لوگوں کو
  5. اور زمین پر اکڑ کر (اور تن کر) مت چل کہ تو زمین کو پھاڑ
  6. ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا کر (دیوانہ
  7. اور انشاء الله نہ کہا
  8. اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو تاریکی
  9. اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے بیان کرتے ہیں اور اُسے تو
  10. اور دن کی جب اُسے چمکا دے

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Luqman with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Luqman mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Luqman Complete with high quality
surah Luqman Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Luqman Bandar Balila
Bandar Balila
surah Luqman Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Luqman Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Luqman Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Luqman Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Luqman Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Luqman Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Luqman Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Luqman Fares Abbad
Fares Abbad
surah Luqman Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Luqman Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Luqman Al Hosary
Al Hosary
surah Luqman Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Luqman Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Thursday, May 9, 2024

لا تنسنا من دعوة صالحة بظهر الغيب