Surah Al Araaf Ayat 127 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ أَتَذَرُ مُوسَىٰ وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ۚ قَالَ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ﴾
[ الأعراف: 127]
اور قومِ فرعون میں جو سردار تھے کہنے لگے کہ کیا آپ موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑ دیجیے گا کہ ملک میں خرابی کریں اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں۔ وہ بولے کہ ہم ان کے لڑکوں کو قتل کرڈالیں گے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیں گے اور بےشک ہم ان پر غالب ہیں
Surah Al Araaf Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یہ ہر دور کے مفسدین کا شیوہ رہا ہے کہ وہ اللہ والوں کو فسادی اور ان کی دعوت ایمان وتوحید کو فساد سے تعبیر کرتے ہیں۔ فرعونیوں نے بھی یہی کہا۔
( 2 ) فرعون کو بھی اگرچہ دعوائے ربوبیت تھا ” فَقَالَ أَنَا۠ رَبُّكُمُ ٱلۡأَعۡلَىٰ “ [ النازعات: 24 ].
” میں تمہارا بڑا رب ہوں “ ( وہ کہا کرتا تھا ) لیکن دوسرے چھوٹے چھوٹے معبود بھی تھے جن کے ذریعے سے لوگ فرعون کا تقرب حاصل کرتے تھے ۔
( 3 ) ہمارے اس انتظام میں یہ رکاوٹ نہیں ڈال سکتے۔ قتل ابناء کا یہ پروگرام فرعونیوں کے کہنے سے بنایا گیا اس سے قبل بھی، جب موسیٰ علیہ السلام کی ولادت نہیں ہوئی تھی، موسیٰ علیہ السلام کے بعد از ولادت خاتمے کے لیے اس نے بنی اسرائیل کے نومولود بچوں کو قتل کرنا شروع کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے بعد ان کو بچانے کی یہ تدبیر کی کہ موسیٰ علیہ السلام کو خود فرعون کے محل میں پہنچوا کر اسی کی گود میں ان کی پرورش کروائی۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
آخری حربہ بغاوت کا الزام فرعون اور فرعونیت نے حضرت موسیٰ اور مسلمانوں کے خلاف جو منصوبے سوچے ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ایک دوسرے کو ان مسلمانوں کے خلاف ابھارتے رہے کہنے لگے یہ تو آپ کی رعایا کو بہکاتے ہیں بغاوت پھیلا دیں گے ملک میں بد امنی پیدا کریں گے ان کا ضرور اور جلد کوئی انتظام کرنا چاہئے، اللہ کی شان دیکھئے کیا مصلح بنے ہوئے ہیں کہ اللہ کے رسول اور مومنوں کے فساد سے دنیا کو بچانا چاہتے ہیں حالانکہ مفسد اور بد نفس خود ہیں۔ آیت ( ویذرک ) میں بعض تو کہتے ہیں واؤ حالیہ ہے یعنی در آنحالیکہ موسیٰ اور قوم موسیٰ نے تیری پرستش چھوڑ رکھی ہے پھر بھی تو انہیں زندہ رہنے دیتا ہے ؟ حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں ہے آیت ( وقد ترکوک ان یعبدوا الھتک ) اور قول ہے کہ واؤ عاطفہ ہے یعنی تو نے انہیں چھوڑ رکھا ہے۔ جس فساد کو یہ برپا کر رہے ہیں اور تیرے معبودوں کے چھوڑنے پر اکسا رہے ہیں۔ بعض کی قرأت الاھتک ہے یعنی تیری عبادت سے، بعض کا بیان ہے کہ فرعون بھی کسی کو پوجا کرتا تھا۔ ایک قول ہے کہ اسے وہ پوشیدہ راز میں رکھتا تھا، ایک روایت میں ہے کہ اس کا بت اس کی گردن میں ہی لٹکتا رہتا تھا جسے یہ سجدہ کرتا تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی بہترین گائے پر فرعون کی نگاہ پڑی جاتی تو لوگوں سے کہہ دیتا کہ اس کی پرستش کرو۔ اسی لئے سامری نے بھی بنی اسرائیل کے لئے بچھڑا نکالا۔ الغرض اپنے سرداروں کی بات سن کر فرعون جواب دیتا ہے کہ اب سے ان کے لئے ہم احکام جاری کریں گے کہ ان کے ہاں جو اولاد ہو دیکھ لی جائے۔ اگر لڑکا ہو تو قتل کردیا جائے لڑکی ہو تو زندہ چھوڑ دی جائے۔ پہلے سرکش فرعون ان مساکین کے ساتھ یہی کرچکا تھا جبکہ اسے یہ منظور تھا کہ حضرت موسیٰ پیدا ہی نہ ہوں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا ارادہ غالب آیا اور حضرت موسیٰ باوجود اس کے حکم کے زندہ وسالم بجے رہے اب دوبارہ اس نے یہی قانون جاری کردیا تاکہ بنی اسرائیل کی جمعیت ٹوٹ جائے، یہ کمزور پڑجائیں اور بالاخر ان کا نام مٹ جائے لیکن قدرت نے اس کا بھی خلاف کر دکھایا، اسی کو اور اس کی قوم کو غارت کردیا اور بنی اسرائیل کو اوج و ترقی پر پہنچا دیا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے اس تکبر کے مقابلے میں تحمل اور اس کے ظلم کے مقابلے میں صبر سے کام لیا اپنی قوم کو سمجھایا اور بتایا کہ اللہ فرما چکا ہے کہ لحاظ سے تم ہی اچھے رہو گے تم اللہ سے مدد چاہو اور صبر کرو۔ قوم والوں نے کہا اے اللہ کے نبی آپ کی نبوت سے پہلے بھی ہم اس طرح ستائے جاتے رہے، اسی ذلت و اہانت میں مبتلا رہے اور اب پھر یہی نوبت آئی ہے۔ آپ نے مزید تسلی دی اور فرمایا کہ گھبراؤ نہیں۔ یقین مانو کہ تمہارا بدخواہ ہلاک ہوگا اور تم کو اللہ تعالیٰ اوج پر پہنچائے گا۔ اس وقت وہ دیکھے گا کہ کون کتنا شکر بجا لاتا ہے ؟ تکلیف کا ہٹ جانا راحت کامل جانا انسان کو نہال نہال کردیتا ہے یہ پورے شکریئے کا وقت ہوتا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 127 وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰی وَقَوْمَہٗ لِیُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَیَذَرَکَ وَاٰلِہَتَکَ ط جس نئے نظریے کا پرچار وہ کر رہے ہیں اگر وہ لوگوں میں مقبول ہوتا گیا اور اس نظریے پر لوگ اکٹھے اور منظم ہوگئے تو ہمارے خلاف بغاوت پھوٹ پڑے گی۔ اس طرح ملک میں فساد پھیلنے کا سخت اندیشہ ہے۔یہاں پہ قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ قوم فرعون کے معبود بھی تھے۔ ان کا سب سے بڑا الٰہ تو سورج تھا۔ لہٰذا معاملہ یہ نہیں تھا کہ وہ خدا صرف فرعون کو مانتے تھے۔ فرعون کی خدائی سیاسی تھی ‘ اس کا دعویٰ تھا کہ حکومت میری ہے ‘ اقتدارو اختیار sovereignty کا مالک میں ہوں۔ نمرود کی خدائی کا دعویٰ بھی اسی طرح کا تھا۔ باقی پوجا پاٹ کے لیے کچھ معبود فرعون اور اس کی قوم نے بھی بنا رکھے تھے جن کے چھوٹ جانے کا انہیں خدشہ تھا۔ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَآءَ ہُمْ وَنَسْتَحْیٖ نِسَآءَ ہُمْ ج یہ آزمائش ان پر ایک دفعہ پہلے بھی آچکی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے قبل جو فرعون برسر اقتدار تھا اس نے ایک خواب دیکھا تھا جس کی تعبیر میں اس کے نجومیوں نے اسے بتایا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچے کی پیدائش ہونے والی ہے جو بڑا ہو کر آپ کی حکومت ختم کر دے گا۔ چناچہ اس خدشے کے پیش نظر فرعون نے حکم دیا تھا کہ بنی اسرائیل کے ہاں پیدا ہونے والے ہر لڑکے کو پیدا ہوتے ہی قتل کردیا جائے اور صرف لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے۔ تقریباً چالیس ‘ پینتالیس سال بعد اب پھر یہ مرحلہ آگیا کہ جب موجودہ فرعون کے سرداروں نے اس کی توجہ اس طرف دلائی کہ جسے تم مشت غبار سمجھ رہے ہو وہ بڑھتے بڑھتے اگر طوفان بن گیا تو پھر کیا کرو گے ؟ اگر اس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو تمہارے خلاف ایک تحریک کی شکل میں منظم کرلیا تو پھر ان کو دبانا مشکل ہوجائے گا۔ لہٰذا وہ چاہتے تھے کہ nip the evil in the bud کے اصول کے تحت حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کردیا جائے ‘ لیکن فرعون کے دل میں اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے محبت ڈالی ہوئی تھی۔ کیونکہ یہ وہی فرعون تھا جس کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھائیوں کا سا رشتہ تھا ‘ جس کی وجہ سے اس کے دل میں آپ علیہ السلام کے لیے طبعی محبت ابھی بھی موجود تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے آپ علیہ السلام کو قتل کرنے کے بارے میں نہیں سوچا ‘ بلکہ اس کے بجائے اس نے بنی اسرائیل کو دبانے کے لیے پھر سے اپنے باپ کا پرانا حکم نافذ کرانے کا عندیہ دے دیا کہ ہم ان کے لڑکوں کو قتل کرتے رہیں گے تاکہ موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قوم سے اجتماعی افرادی قوت مہّیا نہ ہو سکے۔وَاِنَّا فَوْقَہُمْ قٰہِرُوْنَ ۔ گویا اب درباریوں اور امراء کا حوصلہ بڑھانے کے انداز میں کہا جا رہا ہے کہ تم کیوں گھبراتے ہو ‘ ہم پوری طرح ان پر چھائے ہوئے ہیں ‘ یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
وقال الملأ من قوم فرعون أتذر موسى وقومه ليفسدوا في الأرض ويذرك وآلهتك قال سنقتل أبناءهم ونستحيي نساءهم وإنا فوقهم قاهرون
سورة: الأعراف - آية: ( 127 ) - جزء: ( 9 ) - صفحة: ( 165 )Surah Al Araaf Ayat 127 meaning in urdu
فرعون سے اُس کی قوم کے سرداروں نے کہا "کیا تو موسیٰؑ اور اُس کی قوم کو یونہی چھوڑ دے گا کہ ملک میں فساد پھیلائیں اور وہ تیری اور تیرے معبودوں کی بندگی چھوڑ بیٹھے؟" فرعون نے جواب دیا "میں اُن کے بیٹوں کو قتل کراؤں گا اور اُن کی عورتوں کو جیتا رہنے دوں گا ہمارے اقتدار کی گرفت ان پر مضبوط ہے"
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور تم زمین میں (خدا کو) عاجز نہیں کرسکتے۔ اور خدا کے سوا نہ تمہارا
- اور ہر رستے پر مت بیٹھا کرو کہ جو شخص خدا پر ایمان نہیں لاتا
- جب اس نے (تمہاری) تسکین کے لیے اپنی طرف سے تمہیں نیند (کی چادر) اُڑھا
- وہ بولے کیا تم ہمارے پاس (واقعی) حق لائے ہو یا (ہم سے) کھیل (کی
- اور جو پیغمبر ہم نےتم سے پہلے بھیجے ان کی طرف یہی وحی بھیجی کہ
- اور آسمان اور زمین کی بادشاہی خدا کے لئے ہے۔ اور خدا ہی کی طرف
- اور تم نے دیکھ لیا کہ لوگ غول کے غول خدا کے دین میں داخل
- ہم عنقریب اس کی ناک پر داغ لگائیں گے
- اور جب ابراہیم اور اسمٰعیل بیت الله کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے (تو دعا
- کہ جس بات کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ ہو کر رہے گی
Quran surahs in English :
Download surah Al Araaf with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Araaf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Araaf Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers