Surah Anfal Ayat 38 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُوا إِن يَنتَهُوا يُغْفَرْ لَهُم مَّا قَدْ سَلَفَ وَإِن يَعُودُوا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ﴾
[ الأنفال: 38]
(اے پیغمبر) کفار سے کہہ دو کہ اگر وہ اپنے افعال سے باز آجائیں تو جو ہوچکا وہ انہیں معاف کردیا جائے گا۔ اور اگر پھر (وہی حرکات) کرنے لگیں گے تو اگلے لوگوں کا (جو) طریق جاری ہوچکا ہے (وہی ان کے حق میں برتا جائے گا)
Surah Anfal Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) باز آجانے کا مطلب، مسلمان ہونا ہے، جس طرح حدیث میں بھی ہے ( جس نے اسلام قبول کر کے نیکی کا راستہ اپنا لیا، اس سے اس کے گناہوں کی باز پرس نہیں ہوگی جو اس نےجاہلیت میں کیے ہونگے اور جس نےاسلام لا کر بھی برائی نہ چھوڑی، اس سے اگلےپچھلے سب عملوں کا مؤاخذہ ہوگا۔ (صحيح بخاري، كتاب استتابة المرتدين- وصحيح مسلم- كتاب الإيمان، باب هل يؤاخذ بأعمال الجاهلية ) ایک اور حدیث میں ہے «الإسْلامُ يَجُبُّ مَا قَبْلَهُ» ( مسند أحمد ۔ جلد 4، ص 199 ) ” اسلام ماقبل کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے “۔
( 2 ) یعنی اگر وہ اپنے کفر وعناد پر قائم رہے تو جلد یا بہ دیر عذاب الٰہی کے مورد بن کر رہیں گے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
فتنے کے اختتام تک جہاد جاری رکھو کافروں سے کہہ دے کہ اگر وہ اپنے کفر سے اور ضد سے باز آ جائین، اسلام اور اطاعت قبول کر لین، رب کی طرف جھک جائیں تو ان سے جو ہوچکا ہے سب معاف کردیا جائے گا، کفر بھی، خطا بھی گناہ بھی۔ حدیث میں ہے جو شخص اسلام لا کر نیکیاں کرے وہ اپنے جاہلیت کے اعمال پر پکڑا نہ جائے گا اور اسلام میں بھی پھر برائیاں کرے تو الگی پجھلی تمام خطاؤں پر اس کی پکڑ ہوگی اور حدیث میں ہے اسلام سے پہلے کے سب گناہ معاف ہیں توبہ بھی اپنے سے پہلے کے گناہ کو مٹا دیتی ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ نہ مانین اور اپنے کفر پر قائم رہیں تو وہ اگلوں کی ہالت دیکھ لیں کہ ہم نے انہیں ان کے کفر کی وجہ سے کیسا غارت کیا ؟ ابھی بدری کفار کا حشر بھی ان کے سامنے ہے۔ جب تک فتنہ باقی ہے تم جنگ جاری رکھو۔ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے کہا کہ آیت ( وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ فَاِنْ فَاۗءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ ) 49۔ الحجرات:9) ، کو پیش نظر رکھ کر آپ اس وقت کی باہمی جنگ میں شرکت کیوں نہیں کرتے ؟ آپ نے فرمایا تم لوگوں کا یہ طعنہ اس سے بہت ہلکا ہے کہ میں کسی مومن کو قتل کر کے جہنمی بن جاؤں جیسے فرمان الٰہی ہے ومن یقتل مومنا متعمدا الخ، اس نے کہا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ فتنہ باقی ہو تب تک لڑائی جاری رکھو۔ آپ نے فرمایا یہی ہم نے آنحضرت ﷺ کے زمانے میں کیا۔ اس وقت مسلمان کم تھے، انہیں کافر گرفتار کرلیتے تھے اور دین میں فتنے ڈالتے تھے یا تو قتل کر ڈالتے تھے یا قید کرلیتے تھے۔ جب مسلمان بڑھ گئے وہ فتنہ جاتا رہا۔ اس نے جب دیکھا کہ آپ مانتے نہیں تو کہا اچھا حضرت علی اور حضرت عثمان کے بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا حضرت عثمان کو اللہ نے معاف فرمایا لیکن تمہیں اللہ کی وہ معافی بری معلوم ہوتی ہے۔ حضرت علی آنحضرت ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے اور آپ کے داماد تھے، یہ ہیں آپ کی صاحبزادی، یہ کہتے ہوئے ان کے مکان کی طرف اشارہ کیا۔ ابن عمر ایک مرتبہ لوگوں کے پاس آئے تو کسی نے کہا کہ اس فتنے کے وقت کی لڑائی کی نسبت جناب کا کیا خیال ہے ؟ آپ نے فرمایا جانتے بھی ہو فتنے سے کیا مراد ہے ؟ آنحضرت ﷺ کافروں سے جنگ کرتے تھے، اس وقت ان کا زور تھا، ان میں جانا فتنہ تھا، تمہاری تو یہ ملکی لڑائیاں ہیں اور روایت میں ہے کہ حضرت ابن زبیر کے زمانے میں دو شخص حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں وہ آپ کے سامنے ہے آپ حضرت عمر کے صاحبزادے اور رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں۔ آپ کیوں میدان جنگ میں نہیں اترے ؟ فرمایا اس لئے کہ اللہ نے ہر مومن کا خون حرام کردیا ہے انہوں نے کہا کیا فتنے کے باقی رہنے تک لڑنا اللہ کا حکم نہیں ؟ آپ نے فرمایا ہے اور ہم نے اسے نبھایا بھی یہاں تک کہ فتنہ دور ہوگیا اور دین سب اللہ ہی کا ہوگیا، اب تم اپنی اس باہمی جنگ سے فتنہ کھڑا کرنا اور غیر اللہ کے دین کے لئے ہوجانا جاہتے ہو۔ ذوالسطبین حضرت اسامہ بن زید ؓ کا فرمان ہے میں ہرگز اس شخص سے جنگ نہ کروں گا جو لا الہ الہ اللہ کا قائل ہو۔ حضرت سعد بن مالک ؓ نے یہ سن کر اس کی تائید کی اور فرمایا میں بھی یہی کہتا ہوں تو ان پر بھی یہی آیت پیش کی گئی اور یہی جواب آپ نے بھی دیا۔ بقول ابن عباس وعیرہ فتنہ سے مراد شرک ہے اور یہ بھی کہ مسلمانوں کی کمزوری ایسی نہ رہے کہ کوئی انہیں ان کے سچے دین سے مرتد کرنے کی طاقت رکھے۔ دین سب اللہ کا ہوجائے یعنی توحید نکھر جائے لا الہ الا اللہ کا کلمہ زبانوں پر چڑھ جائے شرک اور معبود ان باطل کی پرستش اٹھ جائے۔ تمہارے دین کے ساتھ کفر باقی نہ رہے۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں مجھے حکم فرمایا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد جاری رکھوں یہاں تک کہ وہ لا الہ اللہ کہہ لیں جب وہ اسے کہہ لیں گے تو مجھ سے اپنی جانیں اور اپنے مال بچا لیں گے ہاں حق اسلام کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے بخاری مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول مقبول ﷺ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص اپنی بہادری کیلئے، ایک شخص غیرت کیلئے، ایک شخص ریا کاری کیلئے لڑائی کر رہا ہے تو اللہ کی راہ میں ان میں سے کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کی غرض سے جہاد کرے وہ اللہ کی راہ میں ہے۔ پھر فرمایا کہ اگر تمہارے جہاد کی وجہ سے یہ اپنے کفر سے باز آجائیں تو تم ان سے لڑائی موقوف کردو ان کے دلوں کا حال سپرد رب کردو۔ اللہ ان کے اعمال کا دیکھنے والا ہے۔ جیسے فرمان ہے ( فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) 9۔ التوبة:5) ، یعنی اگر یہ توبہ کرلیں اور نمازی اور زکوٰۃ دیین والے بن جائیں تو ان کی راہ چھوڑ دو ، ان کے راستے نہ روکو، اور آیت میں ہے کہ اس صورت میں وہ تمہارے دینی بھأای ہیں اور آیت میں ہے کہ ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کا ہوجائے پھر اگر وہ باز آجائیں تو زیادتی کا بدلہ تو صرف ظالموں کے لئے ہی ہے۔ ایک صحیح رویت میں ہے کہ حضرت اسامہ ایک شخص پر تلوار لے کر چڑھ گئے جب وہ زد میں آگیا اور دیکھا کہ تلوار چلا جاہتی ہے تو اس نے جلدی سے لا الہ الا اللہ کہہ دیا لیکن اس کے سر پر تلوار پڑگئی اور وہ قتل ہوگیا۔ جب حضور ﷺ سے اس واقعہ کا بیان ہوا تو آپ نے حضرت اسامہ ؓ سے فرمایا کیا تو نے اسے اس کے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کیا ؟ تو لا الہ الا اللہ کے ساتھ قیامت کے دن کیا کرے گا ؟ حضرت اسامہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ تو اس نے صرف اپنے بچاؤ کیلئے کہا تھا۔ آپ نے فرمایا کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا ؟ بتا کون ہوگا جو قیامت کے دن لا الہ الا اللہ کا مقابلہ کرے۔ بار بار آپ یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ حضرت اسامہ ؓ فرماتے ہیں میرے دل میں خیال آنے لگا کہ کاش کہ میں آج کے دن سے پہلے مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا ؟ پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ اب بھی باز نہ رہیں تمہاری مخالفت اور تم سے لڑائی نہ چھوڑیں تو تم یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارا موالا، تمہارا مالک، تمہارا مددگار اور ناصر ہے۔ وہ تمہیں ان پر غالب کرے گا۔ وہ بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے۔ ابن جریری ہے کہ عبدالملک بن مروان نے حضرت عروہ سے کچھ باتیں دریافت کی تھیں جس کے جواب میں آپ نے انہیں لکھا سلام علیک کے بعد میں آپ کیس امنے اس اللہ کی تعریفیں کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ بعد حمد و صلوۃ کے آپ کا خط ملا آپ نے ہجرت رسول اللہ ﷺ کی بابت مجھ سے سوال کیا ہے میں آپ کو اس واقعہ کی خبر لکھتا ہوں۔ اللہ ہی کی مدد پر خیر کرنا اور شر سے روکنا موقوف ہے مکہ شریف سے آپ کے تشریف لے جانے کا واقعہ یوں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ٰ نے آپ کو نبوت دی، سبحان اللہ کیسے اچھے پیشوا بہترین رہنما تھے، اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ہمیں جنت میں آپ کی زیارت نصیب فرمائے ہمیں آپ ہی کے دین پر زندہ رکھے اسی پر موت دے اور اسی پر قیامت کے دن کھڑا کرے، آمین۔ جب آپ نے اپنی قوم کو ہدایت اور نور کی طرف دعوت دی جو اللہ نے آپ کو عطا فرمایا تھا تو شروع شروع تو انہیں کچھ زیادہ برا نہی معلوم ہوا بلکہ قریب تھا کہ آپ کی باتین سننے لگیں مگر جب ان کے معوبد ان باطل کا ذکر آیا اس وقت وہ بگڑے بیٹھے، آپ کی باتوں کا برا ماننے لگے، آپ پر سختی کرنے لگے، اسی زمانے میں طائف کے چند قریشی مال لے کر پہنچے وہ بھی ان کے شریک حال ہوگئے، اب آپ کی باتوں کے ماننے والے مسلمانوں کو طرح طرح سے ستانے لگے جس کی وجہ سے عام لوگ آپ کے اس آنے جانے سے ہٹ گئے بجز ان چند ہستیوں کے جو اللہ کی حفاظت میں تھیں یہی حالت ایک عرصے تک رہی جب تک کہ مسلمانوں کی تعداد کی کمی زیادتی کی حد تک نہیں پہنچی تھی۔ پھر سرداران کفر نے آپ میں مشورہ کیا کہ جتنے لوگ ایمان لا چکے ہیں ان پر اور زیادہ سختی کی جائے جو جس کا رشتہ دار اور قریبی ہو وہ اسے ہر طرح تنگ کرے تاکہ وہ رسول اکرم ﷺ کا ساتھ چھوڑ دیں اب فتنہ بڑھ گیا اور بعض لوگ ان کی سزاؤں کی تاب نہ لا کر ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے۔ کھرے اور ثابت قدم لوگ دین حق پر اس مصیبت کے زمانے میں بھی جمے رہے اور اللہ نے انہیں مضبوط کردیا اور محفوظ رکھ لیا۔ آخر جب تکلیفیں حد سے گذر نے لگین تو رسول مقبول ﷺ نے انہیں حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کی اجازت دے دی۔ حبشہ کا بادشاہ نجاشی ایک نیک آدمی تھا اس کی سلطنت ظلم و زیادتی سے خالی تھی ہر طرف اس کی تعریفیں ہو رہی تھیں۔ یہ جگہ قریش کی تجارتی منڈی تھی جہاں ان کے تاجر رہا کرتے تھے اور بےخوف و خطر بڑی بڑی تجارتیں کیا کرتے تھے۔ پس جو لوگ یہاں مکہ شریف میں کافروں کے ہاتھوں بہت تنگ آگئے تھے اور اب مصیبت جھیلنے کے قابل نہیں رہے تھے اور ہر وقت انہیں اپنے دین کے اپنے ہاتھ سے چھوٹ جانے کا خطرہ لگا رہتا تھا وہ سب حبشہ چلے گئے۔ لیکن خود حضور ﷺ یہیں ٹھہرے رہے۔ اس پر بھی جب کئی سال گذر گئے تو یہاں اللہ کے فضل سے مسلمانوں کی تعداد خاصی ہوگئی اسلام پھیل گیا اور شریف اور سردار لوگ بھی اسلامی جھنڈے تلے آگئے یہ دیکھ کر کفر کو اپنی دشمنی کا جوش ٹھنڈا کرنا پڑا۔ وہ ظلم و زیادتی سے بالکل تو نہیں لیکن کچھ نہ کچھ رک گئے۔ پس وہ فتنہ جس کے زلزلوں نے صحابہ کو وطن چھوڑ نے اور حبشہ جانے پر مجبور کیا تھا اس کے کچھ دب جانے کی خبروں نے مہاجرین حبشہ کو پھر آمادہ کیا کہ وہ مکہ شریف واپس چلے آئیں۔ چناچہ وہ بھی تھوڑے بہت آگئے اسی اثناء میں مدینہ شریف کے چند انصار ملسمان ہوگئے۔ ان کی وجہ سے مدینہ شریف میں بھی اشاعت اسلام ہونے لگی۔ ان کا مکہ شریف آنا جانا شروع ہوا اس سے مکہ والے کچھ بگڑے اور بپھر کر ارادہ کرلیا کہ دوبارہ سخت سختی کریں چناچہ دوسری مرتبہ پھر فتنہ شروع ہوا۔ ہجرت حبش پر پہلے فتنے نے آمادہ کیا واپسی پر پھر فتنہ پھیلا۔ اب ستر بزرگ سردار ان مدینہ یہاں آئے اور مسلمان ہو کر آنحضرت رسول مقبول ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ موسم حج کے موقعہ پر یہ آئے تھے۔ قبہ میں انہوں نے بیعت کی، عہدو پیمان، قول و قرر ہوئے کہ ہم آپ کے اور آپ ہمارے۔ اگر کوئی بھی آپ کا آدمی ہمارے ہاں آجائے تو ہم اس کے امن وامان کے ذمے دار ہیں خود آپ اگر تشریف لائیں تو ہم جان مال سے آپ کے ساتھ ہیں۔ اس چیز نے قریش کو اور بھڑکا دیا اور انہوں نے ضعیف اور کمزور مسلمانوں کو اور ستانا شروع کردیا۔ ان کی سزائیں بڑھا دیں اور خون کے پیاسے ہوگئے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے انہیں اجازت دے دی کہ وہ مدینہ شریف کی طرف ہجرت کر جائیں یہ تھا آخری اور انتہائی فتنہ جس نے نہ صرف صحابہ کرام ؓ کو ہی نکالا بلکہ خود اللہ کے محترم رسول ﷺ بھی مکہ کو خالی کر گئے۔ یہی ہے وہ جسے اللہ فرماتا ہے ان سے جہاد جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ مٹ جائے اور سارا دین اللہ کا ہی ہوجائے۔ الحمد اللہ نویں پارے کی تفسیر بھی ختم ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 38 قُلْ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ یَّنْتَہُوْا یُغْفَرْ لَہُمْ مَّا قَدْ سَلَفََ ج۔یعنی اب بھی موقع ہے کہ ایمان لے آؤ تو تمہاری پہلی تمام خطائیں معاف کردی جائیں گی۔وَاِنْ یَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْاَوَّلِیْنَ ۔انہیں سب معلوم ہے کہ جن قوموں نے اپنے رسولوں کا انکار کیا تھا ان کا کیا انجام ہو اتھا۔ سورة الأنفال سے پہلے مکی قرآن تو پورے کا پورا نازل ہوچکا تھا ‘ سورة الأنعام اور سورة الأعراف بھی نازل ہوچکی تھیں۔ لہٰذا قوم نوح علیہ السلام ‘ قوم ہود علیہ السلام ‘ قوم صالح علیہ السلام ‘ قوم شعیب علیہ السلام اور قوم لوط علیہ السلام کے عبرتناک انجام کی تفصیلات سب کو معلوم ہوچکی تھیں۔
قل للذين كفروا إن ينتهوا يغفر لهم ما قد سلف وإن يعودوا فقد مضت سنة الأولين
سورة: الأنفال - آية: ( 38 ) - جزء: ( 9 ) - صفحة: ( 181 )Surah Anfal Ayat 38 meaning in urdu
اے نبیؐ، ان کافروں سے کہو کہ اگر اب بھی باز آ جائیں تو جو کچھ پہلے ہو چکا ہے اس سے درگزر کر لیا جائے گا، لیکن اگر یہ اسی پچھلی روش کا اعادہ کریں گے تو گزشتہ قوموں کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے وہ سب کو معلوم ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- پھر تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑ لیا
- فرمایا کہ موسیٰ اسے ڈال دو
- شروع الله کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
- کہو کہ (اے منکرین رسالت) ملک میں چلو پھرو پھر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا
- اے قوم آج تمہاری ہی بادشاہت ہے اور تم ہی ملک میں غالب ہو۔ (لیکن)
- اور کہتے ہیں اگر تم سچے ہو تو یہ فیصلہ کب ہوگا؟
- پوچھو کہ بھلا تمہارے شریکوں میں کون ایسا ہے کہ حق کا رستہ دکھائے۔ کہہ
- ہم عنقریب ان کو اطراف (عالم) میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی
- اور صبح وشام اپنے پروردگار کا نام لیتے رہو
- (وہ بھی) پھٹکارے ہوئے۔ جہاں پائے گئے پکڑے گئے اور جان سے مار ڈالے گئے
Quran surahs in English :
Download surah Anfal with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Anfal mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Anfal Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers