Surah Hujurat Ayat 15 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ﴾
[ الحجرات: 15]
مومن تو وہ ہیں جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر شک میں نہ پڑے اور خدا کی راہ میں مال اور جان سے لڑے۔ یہی لوگ (ایمان کے) سچے ہیں
Surah Hujurat Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) نہ کہ وہ جو صرف زبان سے اسلام کا اظہار کردیتے ہیں اور مذکورہ اعمال کا سرے سے کوئی اہتمام ہی نہیں کرتے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
ایمان کا دعویٰ کرنے والے اپنا جائزہ تو لیں کچھ اعرابی لوگ اسلام میں داخل ہوتے ہی اپنے ایمان کا بڑھا چڑھا کر دعویٰ کرنے لگتے تھے حالانکہ دراصل ان کے دل میں اب تک ایمان کی جڑیں مضبوط نہیں ہوئی تھیں ان کو اللہ تعالیٰ اس دعوے سے روکتا ہے یہ کہتے تھے ہم ایمان لائے۔ اللہ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ ان کو کہئے اب تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا تم یوں نہ کہو کہ ہم ایمان لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم مسلمان ہوئے یعنی اسلام کے حلقہ بگوش ہوئے نبی کی اطاعت میں آئے ہیں اس آیت نے یہ فائدہ دیا کہ ایمان اسلام سے مخصوص چیز ہے جیسے کہ اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے جبرائیل ؑ والی حدیث بھی اسی پر دلالت کرتی ہے جبکہ انہوں نے اسلام کے بارے میں سوال کیا پھر ایمان کے بارے میں پھر احسان کے بارے میں۔ پس وہ زینہ بہ زینہ چڑھتے گئے عام سے خاص کی طرف آئے اور پھر خاص سے اخص کی طرف آئے۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور ﷺ نے چند لوگوں کو عطیہ اور انعام دیا اور ایک شخص کو کچھ بھی نہ دیا اس پر حضرت سعد نے فرمایا یا رسول اللہ ﷺ آپ نے فلاں فلاں کو دیا اور فلاں کو بالکل چھوڑ دیا حالانکہ وہ مومن ہے حضور ﷺ نے فرمایا مسلمان ؟ تین مرتبہ یکے بعد دیگرے حضرت سعد نے یہی کہا اور حضور ﷺ نے بھی یہی جواب دیا پھر فرمایا اے سعد میں لوگوں کو دیتا ہوں اور جو ان میں مجھے بہت زیادہ محبوب ہوتا ہے اسے نہیں دیتا ہوں، دیتا ہوں اس ڈر سے کہ کہیں وہ اوندھے منہ آگ میں نہ گرپڑیں۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے پس اس حدیث میں بھی حضور ﷺ نے مومن و مسلم میں فرق کیا اور معلوم ہوگیا کہ ایمان زیادہ خاص ہے بہ نسبت اسلام کے۔ ہم نے اسے مع دلائل صحیح بخاری کی کتاب الایمان کی شرح میں ذکر کردیا ہے فالحمد للہ۔ اور اس حدیث میں اس بات پر بھی دلالت ہے کہ یہ شخص مسلمان تھے منافق نہ تھے اس لئے کہ آپ نے انہیں کوئی عطیہ عطا نہیں فرمایا اور اسے اس کے اسلام کے سپرد کردیا۔ پس معلوم ہوا کہ یہ اعراب جن کا ذکر اس آیت میں ہے منافق نہ تھے تھے تو مسلمان لیکن اب تک ان کے دلوں میں ایمان صحیح طور پر مستحکم نہ ہوا تھا اور انہوں نے اس بلند مقام تک اپنی رسائی ہوجانے کا ابھی سے دعویٰ کردیا تھا اس لئے انہیں ادب سکھایا گیا۔ حضرت ابن عباس اور ابراہیم نخعی اور قتادہ کے قول کا یہی مطلب ہے اور اسی کو امام ابن جریر نے اختیار کیا ہے ہمیں یہ سب یوں کہنا پڑا کہ حضرت امام بخاری فرماتے ہیں کہ یہ لوگ منافق تھے جو ایمان ظاہر کرتے تھے لیکن دراصل مومن نہ تھے ( یہ یاد رہے ایمان و اسلام میں فرق اس وقت ہے جبکہ اسلام اپنی حقیقت پر نہ ہو جب اسلام حقیقی ہو تو وہی اسلام ایمان ہے اور اسوقت ایمان اسلام میں کوئی فرق نہیں اس کے بہت سے قوی دلائل امام الائمہ حضرت امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں کتاب الایمان میں بیان فرمائے ہیں اور ان لوگوں کا منافق ہونا اس کا ثبوت بھی موجود ہے واللہ اعلم۔ (مترجم ) حضرت سعید بن جبیر، حضرت مجاہد، حضرت ابن زید فرماتے ہیں یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بلکہ تم ( اسلمنا ) کہو اس سے مراد یہ ہے کہ ہم قتل اور قید بند ہونے سے بچنے کے لئے تابع ہوگئے ہیں، حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ یہ آیت بنو اسد بن خزیمہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کے بارے میں اتری ہے جو ایمان لانے کا دعویٰ کرتے تھے حالانکہ اب تک وہاں پہنچے نہ تھے پس انہیں ادب سکھایا گیا اور بتایا گیا کہ یہ اب تک ایمان تک نہیں پہنچے اگر یہ منافق ہوتے تو انہیں ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی اور ان کی رسوائی کی جاتی جیسے کہ سورة برات میں منافقوں کا ذکر کیا گیا لیکن یہاں تو انہیں صرف ادب سکھایا گیا۔ پھر فرماتا ہے اگر تم اللہ اور اسی کے رسول ﷺ کے فرماں بردار رہو گے تو تمہارے کسی عمل کا اجر مارا نہ جائے گا۔ جیسے فرمایا آیت ( وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ كُلُّ امْرِی بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ 21 ) 52۔ الطور:21) ہم نے ان کے اعمال میں سے کچھ بھی نہیں گھٹایا۔ پھر فرمایا جو اللہ کی طرف رجوع کرے برائی سے لوٹ آئے اللہ اس کے گناہ معاف فرمانے والا اور اس کی طرف رحم بھری نگاہوں سے دیکھنے والا ہے پھر فرماتا ہے کہ کامل ایمان والے صرف وہ لوگ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر دل سے یقین رکھتے ہیں پھر نہ شک کرتے ہیں نہ کبھی ان کے دل میں کوئی نکما خیال پیدا ہوتا ہے بلکہ اسی خیال تصدیق پر اور کامل یقین پر جم جاتے ہیں اور جمے ہی رہتے ہیں اور اپنے نفس اور دل کی پسندیدہ دولت کو بلکہ اپنی جانوں کو بھی راہ اللہ کے جہاد میں خرچ کرتے ہیں۔ یہ سچے لوگ ہیں یعنی یہ ہیں جو کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں یہ ان لوگوں کی طرح نہیں جو صرف زبان سے ہی ایمان کا دعویٰ کر کے رہ جاتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے نبی ﷺ فرماتے ہیں دنیا میں مومن کی تین قسمیں ہیں 001 وہ جو اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لائے شک شبہ نہ کیا اور اپنی جان اور اپنے مال سے راہ اللہ میں جہاد کیا 002 وہ جن سے لوگوں نے امن پا لیا نہ یہ کسی کا مال ماریں نہ کسی کی جان لیں 003 وہ جو طمع کی طرف جب جھانکتے ہیں اللہ عزوجل کی یاد کرتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ کیا تم اپنے دل کا یقین و دین اللہ کو دکھاتے ہو ؟ وہ تو ایسا ہے کہ زمین و آسمان کا کوئی ذرہ اس سے مخفی نہیں وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ پھر فرمایا جو اعراب اپنے اسلام لانے کا بار احسان تجھ پر رکھتے ہیں ان سے کہہ دو کہ مجھ پر اسلام لانے کا احسان نہ جتاؤ تم اگر اسلام قبول کرو گے میری فرماں برداری کرو گے میری مدد کرو گے تو اس کا نفع تمہیں کو ملے گا۔ بلکہ دراصل ایمان کی دولت تمہیں دینا یہ اللہ ہی کا احسان ہے اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔ ( اب غور فرمائیے کہ کیا اسلام لانے کا احسان پیغمبر اللہ پر جتانے والے سچے مسلمان تھے ؟ پس آیات کی ترتیب سے ظاہر ہے کہ ان کا اسلام حقیقت پر مبنی نہ تھا اور یہی الفاظ بھی ہیں کہ ایمان اب تک ان کے ذہن نشین نہیں ہوا اور جب تک اسلام حقیقت پر مبنی نہ ہو تب تک بیشک وہ ایمان نہیں لیکن جب وہ اپنی حقیقت پر صحیح معنی میں ہو تو پھر ایمان اسلام ایک ہی چیز ہے۔ خود اس آیت کے الفاظ میں غور فرمائیے ارشاد ہے اپنے اسلام کا احسان تجھ پر رکھتے ہیں حالانکہ دراصل ایمان کی ہدایت اللہ کا خود ان پر احسان ہے۔ پس وہاں احسان اسلام رکھنے کو بیان کر کے اپنا احسان ہدایت ایمان جتانا بھی ایمان و اسلام کے ایک ہونے پر باریک اشارہ ہے، مزید دلائل صحیح بخاری شریف وغیرہ ملاحظہ ہوں مترجم ) پس اللہ تعالیٰ کا کسی کو ایمان کی راہ دکھانا اس پر احسان کرنا ہے جیسے کہ رسول اللہ ﷺ نے حنین والے دن انصار سے فرمایا تھا میں نے تمہیں گمراہی کی حالت میں نہیں پایا تھا ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے تم میں اتفاق دیا تم مفلس تھے میری وجہ سے اللہ نے تمہیں مالدار کیا جب کبھی حضور ﷺ کچھ فرماتے وہ کہتے بیشک اللہ اور اس کا رسول ﷺ اس سے بھی زیادہ احسانوں والے ہیں بزار میں ہے کہ بنو اسد رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ﷺ ہم مسلمان ہوئے عرب آپ سے لڑتے رہے لیکن ہم آپ سے نہیں لڑے حضور ﷺ نے فرمایا ان میں سمجھ بہت کم ہے شیطان ان کی زبانوں پر بول رہا ہے اور یہ آیت ( يَمُنُّوْنَ عَلَيْكَ اَنْ اَسْلَمُوْا ۭ قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَيَّ اِسْلَامَكُمْ ۚ بَلِ اللّٰهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ لِلْاِيْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 17 ) 49۔ الحجرات:17) ، نازل ہوئی پھر دوبارہ اللہ رب العزت نے اپنے وسیع علم اور اپنی سچی باخبری اور مخلوق کے اعمال سے آگاہی کو بیان فرمایا کہ آسمان و زمین کے غیب اس پر ظاہر ہیں اور وہ تمہارے اعمال سے آگاہ ہے الحمد اللہ سورة حجرات کی تفسیر ختم ہوئی اللہ کا شکر ہے۔ توفیق اور ہمت اسی کے ہاتھ ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 15 { اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا } ” مومن تو بس وہی ہیں جو ایمان لائے اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ‘ پھر شک میں ہرگز نہیں پڑے “ یعنی ایسے لوگوں کا ایمان ان کے دلوں میں راسخ ہو کر یقین کی ایسی صورت اختیار کر گیا ہے کہ ان کے دلوں کے اندر شک کی کوئی گنجائش رہی ہی نہیں۔ جیسے قبل ازیں آیت 7 میں صحابہ رض کے بارے میں فرمایا گیا : { وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ } ” لیکن اے نبی ﷺ کے ساتھیو ! اللہ نے تمہارے نزدیک ایمان کو بہت محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں کے اندر رچا بسا دیا ہے۔ “ جب تک ایمان دل میں راسخ نہیں ہوا اور ابھی صرف زبان پر ہے آمَنْتُ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ… تو یہ اسلام ہے۔ اسی لیے اسلام کی بنیاد جن پانچ چیزوں پر بتائی گئی ہے : بُنِیَ الاِْسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ…الحدیث ان میں یقین قلبی شامل نہیں ہے ‘ بلکہ نظریاتی طور پر صرف توحید و رسالت کی گواہی دے کر اور اس کے بعد نماز ‘ روزہ ‘ زکوٰۃ اور حج کا التزام کر کے اسلام کا تقاضا پورا ہوجاتا ہے۔ لیکن ایمان اس سے اوپر کی منزل ہے۔ گویا مذکورہ پانچ شرائط پہلی شرط کا تعلق نظریے سے جبکہ باقی چار کا تعلق عمل سے ہے پوری کر کے جو شخص ” مسلمان “ ہوگیا اسے ” مومن “ بننے کے لیے کچھ اضافی شرائط بھی پوری کرنا ہوں گی اور آیت زیر مطالعہ کی رو سے یہ اضافی دو شرائط ہیں ‘ یعنی ” شہادت “ کے ساتھ یقین قلبی لَمْ یَرْتَابُوْا کی کیفیت کا اضافہ ہوگا اور اعمال کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کا : { وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ } ” اور انہوں نے جہاد کیا اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں۔ “ { اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ } ” یہی لوگ ہیں جو اپنے دعوائے ایمان میں سچے ہیں۔ “ گویا کسی شخص کو ” حقیقی مومن “ بننے کے لیے مذکورہ ساتوں شرائط پوری کرنا ہوں گی۔ پہلی پانچ شرائط ” اسلام “ میں داخل ہونے کے لیے جبکہ آخری دو شرائط ” ایمان “ کی منزل حاصل کرنے کے لیے۔ اسلام اور ایمان کے اس فرق کو اس طرح بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ ایک مومن لامحالہ ” مسلم “ تو ہوگا ہی لیکن ہر ” مسلم “ مومن نہیں ہوسکتا۔ اسلام اور ایمان کی اس بحث میں لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ زبان سے : ” آمَنْتُ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ… “ کا دعویٰ کرنا تو آسان ہے مگر دل میں حقیقی ایمان پیدا کرنا اور پھر اس ایمان کے تقاضے پورے کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی ” ایمانی کیفیت “ کا جائزہ لیتا رہے۔ خصوصی طور پر اس حوالے سے یہ حقیقت تو ہمیں کسی لمحے بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ہم باطل نظام کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس حالت میں اگر ہم اس نظام کو ذہنی طور پر قبول کر کے اس کی چاکری کرنا شروع کردیں گے ‘ یعنی اس نظام کے تحت اپنی معیشت کی ترقی اور اپنے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کی فکر میں لگ جائیں گے تو ایسی صورت میں ہمیں اپنے ایمان کی خبر لینے کی ضرورت ہوگی۔ دراصل کسی ملک یا معاشرے میں غلبہ باطل کی صورت میں ایک بندہ مومن کے لیے لازم ہے کہ وہ اس نظام کے تحت حالت احتجاج میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرے۔ اور اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ 1 کے مصداق باطل نظام کے تحت وہ ایسے رہے جیسے ایک قیدی جیل کے اندر رہتا ہے۔ یعنی اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات پوری کرنے میں وہ اپنی کم سے کم توانائی صرف کرے اور ان ضروریات کو بھی کم سے کم معیار subsistance level پر رکھے ‘ جبکہ اپنا باقی وقت اور اپنی بہترین صلاحیتیں نظام باطل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور اللہ کے دین کو غالب کرنے کی جدوجہد میں کھپا دے۔ ع ” گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں ! “ اگر باطل نظام کے تحت رہتے ہوئے ایک مرد مسلمان کی زندگی کے شب و روز کا نقشہ ایسا نہیں تو بیشک قانونی طور پر وہ اپنے ملک کا ایک مسلمان شہری ہے ‘ اپنے مسلمان باپ کی وراثت کا حقدار ہے ‘ مسلمان عورت سے شادی کرسکتا ہے اور اس طرح کے دوسرے تمام قانونی حقوق سے بھی مستفید ہوسکتا ہے ‘ لیکن ایسا ” مسلمان “ اللہ کے ہاں ” مومن “ شمار نہیں ہوسکتا۔ اس آیت کے بارے میں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ اس کا آغاز ” اِنّما “ سے ہو رہا ہے اور آخر پر ” اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ “ کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی آیت کا آغاز بھی اسلوبِ حصر سے ہو رہا ہے اور اختتام پر بھی اسلوبِ حصر آیا ہے۔ اس اعتبار سے آیت کا مفہوم یوں ہوگا کہ مومن تو ہیں ہی صرف وہ لوگ جن کے دلوں میں ایمان نے ” یقین “ کی شکل اختیار کرلی اور پھر انہوں نے اپنے جان و مال کو اللہ کی راہ میں کھپا دیا۔ اور صرف یہی لوگ ہیں جو اپنے ایمان کے دعوے میں سچے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ‘ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ۔ آمین ‘ ثم آمین ! آیت کے آخر میں ان مومنین کو جو سر ٹیفکیٹ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ عطا ہوا ہے اس کی اہمیت کو سورة التوبة کی آیت 119 کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سورة التوبة کی مذکورہ آیت میں اہل ایمان کو صادقین کے ساتھ شامل ہونے کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ کا حکم دیا گیا ہے ‘ جبکہ آیت زیر مطالعہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ ” صادقین “ کون ہیں۔ اس نکتے کو اس طرح سمجھیں کہ آیت زیر مطالعہ میں مومنین صادقین کی دو نشانیاں ایمان حقیقی اور جہاد فی سبیل اللہ ہماری راہنمائی کے لیے بتائی گئی ہیں کہ مسلمانو ! اٹھو ‘ اس ” چراغ “ کی روشنی میں ” مومنین ِصادقین “ کو تلاش کرو اور پھر ان کے مشن کی جدوجہد میں ان کے دست وبازو بن جائو ! حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔ امیر معاویہ رض روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لاَ یَزَالُ مِنْ اُمَّتِیْ اُمَّۃٌ قَائِمَۃٌ بِاَمْرِ اللّٰہِ ، لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَذَلَھُمْ وَلَا مَنْ خَالَفَھُمْ ، حَتّٰی یَاْتِیَ اَمْرُ اللّٰہِ وَھُمْ عَلٰی ذٰلِکَ 1 ” میری امت میں سے ایک گروہ اللہ کے حکم کو قائم کرنے والا ہمیشہ موجود رہے گا۔ ان کا ساتھ چھوڑ دینے والے اور ان کی مخالفت کرنے والے ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے ‘ یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے گا ‘ اور وہ اسی پر قائم ہوں گے “۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ” مومنین صادقین “ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم انہیں تلاش کریں اور { کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ } کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے ان کے جھنڈے تلے جمع ہوجائیں تاکہ { مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِط وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ } الفتح : 29 کی طرز پر ایک مضبوط ” حزب اللہ “ تشکیل پا سکے۔ ظاہر ہے افراد کے اتحاد کے بغیر نہ تو کوئی جمعیت وجود میں آسکتی ہے ‘ نہ اقامت دین کی جدوجہد آگے بڑھ سکتی ہے اور نہ ہی ” اظہارِ دین حق “ کی شان تکمیلی کا ظہور ممکن ہوسکتا ہے۔
إنما المؤمنون الذين آمنوا بالله ورسوله ثم لم يرتابوا وجاهدوا بأموالهم وأنفسهم في سبيل الله أولئك هم الصادقون
سورة: الحجرات - آية: ( 15 ) - جزء: ( 26 ) - صفحة: ( 517 )Surah Hujurat Ayat 15 meaning in urdu
حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا وہی سچے لوگ ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- خدا نے فرمایا کہ تمہاری دعا قبول کرلی گئی تو تم ثابت قدم رہنا اور
- کون ہے جو خدا کو (نیت) نیک (اور خلوص سے) قرض دے تو وہ اس
- جو متقی ہیں وہ باغوں اور چشموں میں ہوں گے
- اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی
- مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے (لوگوں کے) گھروں میں گھر والوں سے اجازت لئے
- ہم تمہیں ان لوگوں (کے شر) سے بچانے کے لیے جو تم سے استہزاء کرتے
- اور ایسا خیال نہ کرنا کہ تم پر کافر لوگ غالب آجائیں گے (وہ جا
- اس وقت خدا نے فرمایا کہ عیسیٰ! میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری
- اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننا اور نہ ان کے تکلیف دینے پر
- یا ان کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں عنایت فرماتا ہے۔ اور جس کو چاہتا ہے
Quran surahs in English :
Download surah Hujurat with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Hujurat mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Hujurat Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers