Surah Abasa Ayat 15 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿بِأَيْدِي سَفَرَةٍ﴾
[ عبس: 15]
لکھنے والوں کے ہاتھوں میں
Surah Abasa Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) سَفَرَةٍ، سَافِرٌ کی جمع ہے، یہ سفارت سے ہے۔ مراد یہاں وہ فرشتے ہیں جو اللہ کی وحی اس کےرسولوں تک پہنچاتے ہیں۔ یعنی اللہ اور اس کےرسول کے درمیان سفارت کا کام کرتے ہیں۔ یہ قرآن ایسے سفیروں کے ہاتھوں میں ہےجو اسے لوح محفوظ سے نقل کرتے ہیں۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
تبلیغ دین میں فقیر و غنی سب برابر بہت سے مفسرین سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ قریش کے سرداروں کو اسلامی تعلیم سمجھا رہے تھے اور مشغولی کے ساتھ ان کی طرف متوجہ تھے دل میں خیال تھا کہ کیا عجب اللہ انہیں اسلام نصیب کر دے ناگہاں حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ آپ ﷺ کے پاس آئے، پرانے مسلمان تھے عموماً حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے اور دنیا اسلام کی تعلیم سیکھتے رہتے تھے اور مسائل دریافت کیا کرتے تھے، آج بھی حسب عادت آتے ہی سوالات شروع کئے اور آگے بڑھ بڑھ کر حضور ﷺ کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا آپ ﷺ چونکہ اس وقت ایک اہم امر دینی میں پوری طرح مشغول تھے ان کی طرف توجہ نہ فرمائی بلکہ ذرا گراں خاطر گزرا اور پیشانی پر بل پڑگئے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ آپ ﷺ کی بلند شان اور اعلیٰ اخلاق کے لائق یہ بات نہ تھی کہ اس نابینا سے جو ہمارے خوف سے دوڑتا بھاگتا آپ ﷺ کی خدمت میں علم دین سیکھنے کے لئے آئے اور آپ ﷺ اس سے منہ پھیر لیں اور ان کی طرف متوجہ ہیں جو سرکش ہیں اور مغرور و متکبر ہیں، بہت ممکن ہے کہ یہی پاک ہوجائے اور اللہ کی باتیں سن کر برائیوں سے بچ جائے اور احکام کی تعمیل میں تیار ہوجائے، یہ کیا کہا آپ ﷺ ان بےپرواہ لوگوں کی جانب تمام تر توجہ فرما لیں ؟ آپ ﷺ پر کوئی ان کو راہ راست پر لا کھڑا کرنا ضروری تھوڑے ہی ہے ؟ وہ اگر آپ ﷺ کی باتیں نہ مانیں تو آپ ﷺ پر ان کے اعمال کی پکڑ ہرگز نہیں، مطلب یہ ہے کہ تبلیغ دین میں شریف و ضعیف، فقیر و غنی، آزاد و غلام، مرد و عورت، چھوٹے بڑے سب برابر ہیں، آپ ﷺ سب کو یکساں نصیحت کیا کریں ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے، وہ اگر کسی کو راہ راست سے دور رکھے تو اس کی حکمت وہی جانتا ہے جسے اپنی راہ لگا لے اسے بھی وہی خوب جانتا ہے، حضرت ابن ام مکتوم کے آنے کے وقت حضور ﷺ کا مخاطب ابی بن خلف تھا اس کے بعد حضور ﷺ ابن ام مکتوم کی بڑی تکریم اور آؤ بھگت کیا کرتے تھے ( مسند ابو یعلی ) حضرت انس ؓ فرماتے ہیں میں نے ابن ام مکتوم کو قادسیہ کی لڑائی میں دیکھا ہے، زرہ پہنے ہوئے تھے اور سیاہ جھنڈا لئے ہوئے تھے، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب یہ آئے اور کہنے لگے کہ حضرت محمد ﷺ مجھے بھلائی کی باتیں سکھایئے اس وقت رؤساء قریش آپ ﷺ کی جلس میں تھے آپ ﷺ نے ان کی طرف پوری توجہ نہ فرمائی انہیں سمجھاتے جاتے تھے اور فرماتے تھے کہو میری بات ٹھیک ہے وہ کہتے جاتے تھے ہاں حضرت درست ہے، ان لوگوں میں عتبہ بن ربیعہ، ابو جہل بن ہشام، عباس بن عبدالمطلب تھے آپ ﷺ کی بڑی کوشش تھی اور پوری حرص تھی کہ کس طرح یہ لوگ دین حق کو قبول کرلیں ادھر یہ آگئے اور کہنے لگے حضور ﷺ قرآن پاک کی کوئی آیت مجھے سنایئے اور اللہ کی باتیں سکھایئے، آپ ﷺ کو اس وقت ان کی بات ذرا بےموقع لگی اور منہ پھیرلیا اور ادھر ہی متوجہ رہے، جب ان سے باتیں پوری کر کے آپ ﷺ گھر جانے لگے تو آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا اور سر نیچا ہوگیا اور یہ آیتیں اتریں، پھر تو آپ ﷺ ان کی بڑی عزت کیا کرتے تھے اور پوری توجہ سے کان لگا کر ان کی باتیں سنا کرتے تھے آتے جاتے ہر وقت پوچھتے کہ کچھ کام ہے کچھ حاجت ہے کچھ کہتے ہو کچھ مانگتے ہو ؟ ( ابن جریر وغیرہ ) یہ روایت غریب اور منکر ہے اور اس کی سند میں بھی کلام ہے، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ بلال رات رہتے ہوئے اذان دیا کرتے ہیں تو تم سحری کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان سنو یہ وہ نابینا ہیں جن کے بارے میں آیت ( عَبَسَ وَتَوَلّىٰٓ ۙ اَنْ جَاۗءَهُ الْاَعْمٰى ۭ ) عبس اتری تھی، یہ بھی موذن تھے بینائی میں نقصان تھا جب لوگ صبح صادق دیکھ لیتے اور اطلاع کرتے کہ صبح ہوئی تب یہ اذان کہا کرتے تھے ( ابن ابی حاتم ) ابن ام مکتوم کا مشہور نام تو عبداللہ ہے بعض نے کہا ہے ان کا نام عمرو ہے، واللہ اعلم، انھا تذکرہ یعنی یہ نصیحت ہے اس سے مراد یا تو یہ سورت ہے یا یہ مساوات کہ تبلیغ دین میں سب یکساں ہیں مراد ہے، سدی کہتے ہیں مراد اس سے قرآن ہے، جو شخص چاہے اسے یاد کرلے یعنی اللہ کو یاد کرے اور اپنے تمام کاموں میں اس کے فرمان کو مقدم رکھے، یا یہ مطلب ہے کہ وحی الٰہی کو یاد کرلے، یہ سورت اور یہ وعظ و نصیحت بلکہ سارے کا سارا قرآن موقر معزز اور معتبر صحیفوں میں ہے جو بلند قدر اور اعلیٰ مرتبہ والے ہیں جو میل کچیل اور کمی زیادتی سے محفوظ اور پاک صاف ہیں، جو فرشتوں کے پاس ہاتھوں میں ہیں اور یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ اصحاب رسول ﷺ کے پاکیزہ ہاتھوں میں ہے۔ حضرت قتادہ کا قول ہے کہ اس سے مراد قاری ہیں۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ نبطی زبان کا لفظ ہے معنی ہیں قاری، امام ابن جریر فرماتے ہیں صحیح بات یہی ہے کہ اس سے مراد فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان سفیر ہیں، سفیر اسے کہتے ہیں کہ جو صلح اور بھلائی کے لیے لوگوں میں کوشش کرتا پھرے، عرب شاعر کے شعر میں بھی یہی معنی پائے جاتے ہیں، امام بخاری ؒ فرماتے ہیں اس سے مراد فرشتے ہیں جو فرشتے اللہ کی جانب سے وحی وغیرہ لے کر آتے ہیں وہ ایسے ہی ہیں جیسے لوگوں میں صلح کرانے والے سفیر ہوتے ہیں، وہ ظاہر باطن میں پاک ہیں، وجیہ خوش رو شریف اور بزرگ ظاہر میں، اخلاق و افعال کے پاکیزہ باطن میں۔ یہاں سے یہ بھی معلوم کرنا چاہیے کہ قرآن کے پڑھنے والوں کو اعمال و اخلاق اچھے رکھنے چاہئیں، مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جو قرآن کو پڑھے اور اس کی مہارت حاصل کرے وہ بزرگ لکھنے والے فرشتوں کیساتھ ہوگا اور جو باوجود مشقت کبھی پڑھے اسے دوہرا اجر ملے گا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 13{ فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ۔ } ” یہ قرآن ایسے صحیفوں میں درج ہے جو باعزت ہیں۔ “ یہ مضمون مختلف انداز اور مختلف الفاظ میں قرآن حکیم کے متعدد مقامات پر آیا ہے۔ سورة الزخرف میں فرمایا گیا : { وَاِنَّہٗ فِیْٓ اُمِّ الْـکِتٰبِ لَدَیْنَا لَـعَلِیٌّ حَکِیْمٌ۔ } ” اور یہ اُمّ الکتاب میں ہے ہمارے پاس بہت بلند وبالا ‘ بہت حکمت والی ! “ سورة الواقعة میں ارشاد ہوا کہ یہ قرآن ایک مخفی کتاب کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ میں درج ہے : { اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ - فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ۔ } ” یقینا یہ بہت عزت والا قرآن ہے۔ ایک چھپی ہوئی کتاب میں ہے “۔ پھر سورة البروج میں فرمایا گیا : { بَلْ ہُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ - فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ۔ } ” بلکہ یہ تو قرآن ہے بہت عزت والا ‘ لوحِ محفوظ میں “۔ بہرحال اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ اصل قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک خاص مقام پر محفوظ ہے۔ صحف ِمکرمہ ‘ اُمّ الکتاب ‘ کتابِ مکنون اور لوح محفوظ اسی مقام خاص کے مختلف نام ہیں۔
Surah Abasa Ayat 15 meaning in urdu
معزز اور نیک کاتبوں کے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور اگر تم سمجھو تو یہ بڑی قسم ہے
- جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کے لیے خوشحالی اور عمدہ ٹھکانہ
- اور خدائے (برحق) ان کی خواہشوں پر چلے تو آسمان اور زمین اور جو ان
- خدا نے) فرمایا کہ اے ابلیس جس شخص کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا
- اگر تم ان کو سیدھے رستے کی طرف بلاؤ تو تمہارا کہا نہ مانیں۔ تمہارے
- اور جب ہم نے موسٰی کی طرف حکم بھیجا تو تم (طور کی) غرب کی
- اور ان پر جھلڑ کے جھلڑ جانور بھیجے
- ص۔ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے (کہ تم حق پر
- اور الیاس بھی پیغمبروں میں سے تھے
- اور وہ بخشنے والا اور محبت کرنے والا ہے
Quran surahs in English :
Download surah Abasa with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Abasa mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Abasa Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers