Surah al imran Ayat 152 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 152 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah al imran ayat 152 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُم بِإِذْنِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَعَصَيْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاكُم مَّا تُحِبُّونَ ۚ مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ وَلَقَدْ عَفَا عَنكُمْ ۗ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ﴾
[ آل عمران: 152]

Ayat With Urdu Translation

اور خدا نے اپنا وعدہ سچا کر دیا (یعنی) اس وقت جبکہ تم کافروں کو اس کے حکم سے قتل کر رہے تھے یہاں تک کہ جو تم چاہتے تھے خدا نے تم کو دکھا دیا اس کے بعد تم نے ہمت ہار دی اور حکم (پیغمبر) میں جھگڑا کرنے لگے اور اس کی نافرمانی کی بعض تو تم میں سے دنیا کے خواستگار تھے اور بعض آخرت کے طالب اس وقت خدا نے تم کو ان (کے مقابلے) سے پھیر (کر بھگا) دیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے اور اس نے تمہارا قصور معاف کر دیا اور خدا مومنو پر بڑا فضل کرنے والا ہے

Surah al imran Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) اس وعدے سے بعض مفسرین نے تین ہزار اور ہزار فرشتوں کا نزول مراد لیا ہے لیکن یہ رائے سرے سے صحیح نہیں بلکہ صحیح یہ ہے کہ فرشتوں کا یہ نزول صرف جنگ بدر کے ساتھ مخصوص تھا۔ باقی رہا وہ وعدہ جو اس آیت میں مذکورہے تو اس سے مراد فتح ونصرت کا وہ عام وعدہ ہے جو اہل اسلام کے لئے اور اس کے رسول کی طرف سے بہت پہلے سے کیا جا چکا تھا۔ حتیٰ کہ بعض آیتیں مکہ میں نازل ہو چکی تھیں۔ اور اس کے مطابق ابتدائے جنگ میں مسلمان غالب وفاتح رہے جس کی طرف «إِذْ تَحُسُّونَهُمْ بِإِذْنِهِ» سے اشارہ کیا گیا ہے۔
( 2 ) اس تنازع اور عصیان سے مراد تیر اندازوں کاوہ اختلاف ہے جو فتح وغلبہ دیکھ کر ان کے اندر واقع ہوا اور جس کی وجہ سے کافروں کو پلٹ کر دوبارہ حملہ آور ہونے کا موقع ملا۔
( 3 ) اس سے مراد وہ فتح ہے جو ابتدا میں مسلمانوں کو حاصل ہوئی۔
( 4 ) یعنی مال غنیمت، جس کے لئے انہوں نے وہ پہاڑی چھوڑ دی جس کے نہ چھوڑنے کی انہیں تاکید کی گئی تھی۔
( 5 ) وہ لوگ ہیں جنہوں نے مورچہ چھوڑنے سے منع کیا اور نبی کریم ( صلى الله عليه وسلم ) کے فرمان کے مطابق اسی جگہ ڈٹے رہنے کا عزم ظاہر کیا۔
( 6 ) یعنی غلبہ عطا کرنے کے بعد پھر تمہیں شکست دے کر ان کافروں سے پھیر دیا تاکہ تمہیں آزمائے۔
( 7 ) اس میں صحابہ کرام ( رضي الله عنهم ) کے اس شرف وفعل کا اظہار ہے جو ان کی کوتاہیوں کے باوجود اللہ نے ان پر فرمایا۔ یعنی ان کی غلطیوں کی وضاحت کرکے آئندہ اس کا اعادہ نہ کریں، اللہ نے ان کے لئے معافی کا اعلان کر دیا تاکہ کوئی بد باطن ان پر زبان طعن دراز نہ کرے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہی قرآن کریم میں ان کے لئے عفو عام کا اعلان فرما دیا تو اب کسی کے لئے طعن وتشنیع کی گنجائش کہاں رہ گئی؟ صحیح بخاری میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک حج کے موقعے پر ایک شخص نے حضرت عثمان ( رضي الله عنه ) پر بعض اعتراضات کئے کہ وہ جنگ بدر میں، بیعت رضوان میں شریک نہیں ہوئے، نیز یوم احد میں فرار ہوگئے تھے۔ حضرت ابن عمر ( رضي الله عنه ) نے فرمایا کہ جنگ بدر میں تو ان کی اہلیہ ( بنت رسول ج ) بیمار تھیں، بیعت رضوان کے موقع پر آپ رسول ( صلى الله عليه وسلم ) کے سفیر بن کر مکہ گئے ہوئے تھے اور یوم احد کے فرار کو اللہ نے معاف فرما دیا ہے۔ ( ملخصا۔ صحیح بخاری، غزوۂ احد )

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


کافر اور منافقوں کے ارادے اور غزوہ احد کا پھر اندوہناک تذکرہ اللہ تعالیٰ اپنے ایماندار بندوں کو کافروں اور منافقوں کی باتوں کے ماننے سے روک رہا ہے اور بتارہا ہے کہ اگر ان کی مانی تو دنیا اور آخرت کی ذلت تم پر آئے گی انکی چاہت تو یہی ہے کہ تمہیں دین اسلام سے ہٹا دیں پھر فرماتا ہے مجھ ہی کو اپنا والی اور مددگار جانو مجھی سے دوستی کرو مجھی پر بھروسہ کرو مجھی سے مدد چاہو پھر فرمایا کہ ان شریروں کے دلوں میں ان کے کفر کے سبب ڈر خوف ڈال دوں گا، بخاری مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے پانچ باتیں دی گئیں ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں میری مدد مہینہ بھر کی راہ تک رعب سے کی گئی ہے میرے لئے زمین مسجد اور اس کی مٹی وضو کی پاک چیز بنائی گئی، میرے لئے غنیمت کے مال حلال کئے گئے اور مجھے شفاعت دی گئی اور ہر نبی اپنی اپنی قوم کی طرف سے مخصوص بھیجا جاتا تھا اور میری بعثت میری نبوت تمام دنیا کیلئے عام ہوئی، مسند احمد میں ہے آپ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں پر اور بعض روایتوں میں ہے تمام امتوں پر مجھے چار فضیلتیں عطا فرمائی ہیں، مجھے تمام دنیا کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا، میرے اور میری امت کیلئے تمام زمین مسجد اور پاک بنائی گئی، میرے امتی کو جہاں نماز کا وقت آجائے وہیں اس کی مسجد اور اس کا وضو ہے، میرا دشمن مجھ سے مہینہ بھر کی راہ پر ہو وہیں سے اللہ تعالیٰ اس کا دل رعب سے پُر کردیتا ہے اور وہ کانپنے لگتا ہے اور میرے لئے غنیمت کے مال حلال کئے گئے اور روایت میں ہے کہ میں مدد کیا گیا ہوں میرے رعب سے ہر دشمن پر، مسند کی ایک اور حدیث میں ہے مجھے پانچ چیزیں دی گئیں میں ہر سرخ وسفید کی طرف بھیجا گیا میرے لئے تمام زمین وضو اور مسجد بنائی گی۔ میرے لئے غنیمتوں کے مال حلال کئے گئے جو میرے پہلے کسی کے حلال نہ تھے اور میری مدد مہینہ بھر کی راہ تک رعب سے کی گئی اور مجھے شفاعت دی گئی تمام انبیاء نے شفاعت مانگ لی لیکن میں نے اپنی شفاعت کو اپنی امت کے لوگوں کیلئے جنہوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو بچار کھی ہے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ابو سفیان کے دل میں رعب ڈال دیا اور وہ لڑائی سے لوٹ گیا پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور تمہاری مدد کی اس سے بھی یہ استدلال ہوسکتا ہے کہ یہ وعدہ احد کے دن کا تھا تین ہزار دشمن کا لشکر تھا تاہم مقابلہ پر آتے ہی ان کے قدم اکھڑ گئے اور مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی لیکن پھر تیر اندازوں کی نافرمانی کی وجہ سے اور بعض حضرات کی پست ہمتی کی بناء پر وہ وعدہ جو مشروط تھا رک گیا پس فرماتا ہے کہ تم انہیں اپنے ہاتھوں سے کاٹتے تھے۔ شروع دن میں ہی اللہ نے تمہیں ان پر غالب کردیا لیکن تم نے پھر بزدلی دکھائی اور نبی کی نافرمانی کی ان کی بتائی ہوئی جگہ سے ہٹ گئے اور آپس میں اختلاف کرنے لگے حالانکہ اللہ عزوجل نے تمہیں تمہاری پسند کی چیز فتح دکھا دی تھی یعنی مسلمان صاف طور پر غالب آگئے تھے مال غنیمت آنکھوں کے سامنے موجود تھا کفار پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے تم میں سے بعض نے دنیا طلبی کی اور کفار کی ہزیمت کو دیکھ کر نبی ﷺ کے فرمان کا خیال نہ کر کے مال غنیمت کی طرف لپکے گو بعض اور نیک آخرت طلب بھی تھے لیکن اس نافرمانی وغیرہ کی بنا پر کفار کی پھر بن آئی اور ایک مرتبہ تمہاری پوری آزمائش ہوگئی غالب ہو کر مغلوب ہوگئے فتح کے بعد شکست ہوگئی لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے تمہارے اس جرم کو معاف فرما دیا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ بظاہر تم ان سے تعداد میں اور اسباب میں کم تھے خطا کا معاف ہونا بھی عفاعنکم میں داخل ہے اور یہ بھی مطلب ہے کہ کچھ یونہی سی گوشمالی کر کے کچھ بزرگوں کی شہادت کے بعد اس نے اپنی آزمائش کو اٹھا لیا اور باقی والوں کو معاف فرما دیا، اللہ تعالیٰ باایمان لوگوں پر فضل و کرم لطف و رحم ہی کرتا ہے، حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ حضور ﷺ کی مدد جیسی احد میں ہوئی ہے کہیں نہیں ہوئی اسی کے بارے میں ارشاد باری ہے کہ اللہ نے تم سے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا لیکن پھر تمہارے کرتوتوں سے معاملہ برعکس ہوگیا، بعض لوگوں نے دنیا طلبی کر کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی یعنی بعض تیر اندوزوں نے جنہیں حضور ﷺ نے پہاڑ کے درے پر کھڑا کیا تھا اور فرما دیا تھا کہ تم یہاں سے دشمنوں کی نگہبانی کرو وہ تمہاری پیٹھ کی طرف سے نہ آجائیں، اگر تم ہار دیکھو بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹنا اور اگر تم ہر طرح غالب آگئے تو بھی تم غنیمت جمع کرنے کیلئے بھی اپنی جگہ کو نہ چھوڑنا، جب حضور ﷺ غالب آگئے تو تیر اندوزوں نے حکم عدولی کی اور وہ اپنی جگہ کو چھوڑ کر مسلمانوں میں آملے اور مال غنیمت جمع کرنا شروع کردیا صفوں کا کوئی خیال نہ رہا درے کو خالی پا کر مشرکوں نے بھاگنا بند کیا اور غور و فکر کر کے اس جگہ حملہ کردیا، چند مسلمانوں کی پیٹھ کے پیچھے سے ان کی بیخبر ی میں اس زور کا حملہ کیا کہ مسلمانوں کے قدم نہ جم سکے اور شروع دن کی فتح اب شکست سے بدل گئی اور یہ مشہور ہوگیا کہ حضور ﷺ بھی شہید ہوگئے اور لڑائی کے رنگ نے مسلمانوں کو اس بات کا یقین بھی دلا دیا، تھوڑی دیر بعد جبکہ مسلمانوں کی نظریں چہرہ مبارک پر پڑیں تو وہ اپنی سب کوفت اور ساری مصیبت بھول گئے اور خوشی کے مارے حضور ﷺ کی طرف لپکے آپ ادھر آرہے تھے اور فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا سخت غضب نازل ہو ان لوگوں پر جنہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کے چہرے کو خون آلودہ کردیا، انہیں کوئی حق نہ تھا کہ اس طرح ہم پر غالب رہ جائیں، تھوڑی دیر میں ہم نے سنا کہ ابو سفیان پہاڑ کے نیچے کھڑا ہوا کہہ رہا تھا اعل ہبل اعل ھبل ہبل بت کا بول بالا ہو ابوبکر کہاں ہے ؟ عمر کہاں ہے ؟ حضرت عمر نے پوچھا حضور ﷺ اسے جواب دوں ؟ آپ ﷺ نے اجازت دی تو حضرت عمر فاروق نے اس کے جواب میں فرمایا اللہ اعلی واجل اللہ اعلی واجل اللہ بہت بلند ہے اور جلال و عزت والا ہے اللہ بہت بلند اور جلال و عزت والا ہے، وہ پوچھنے لگا بتاؤ محمد ﷺ کہاں ہیں ؟ ابوبکر کہاں ہیں ؟ عمر کہاں ہیں ؟ آپ نے فرمایا یہ ہیں رسول اللہ ﷺ اور یہ ہیں حضرت ابوبکر اور یہ ہوں میں عمر فاروق ابو سفیان کہنے لگا یہ بدر کا بدلہ ہے یونہی دھوپ چھاؤں الٹتی پلٹتی رہتی ہے، لڑائی کی مثال کنویں کے ڈول کی سی ہے، حضرت عمر نے فرمایا برابری کا معاملہ ہرگز نہیں تمہارے مقتول تو جہنم میں گئے اور ہمارے شہید جنت میں پہنچے، ابو سفیان کہنے لگا اگر یونہی ہو تو یقینا ہم نقصان اور گھاٹے میں رہے، سنو تمہارے مقتولین میں بعض ناک کان کٹے لوگ بھی تم پاؤ گے گویہ ہمارے سرداروں کی رائے سے نہیں ہوا لیکن ہمیں کچھ برا بھی نہیں معلوم ہوا، یہ حدیث غریب ہے اور یہ قصہ بھی عجیب ہے، یہ ابن عباس کی مرسلات سے ہے اور وہ یا ان کے والد جنگ احد میں موجود نہ تھے، مستدرک حاکم میں بھی یہ روایت موجود ہے ابن ابی حاتم اور بیہقی فی دلائل النبوۃ میں بھی یہ مروی ہے اور صحیح احادیث میں اس کے بعض حصوں کے شواہد بھی ہیں کہ احد والے دن عورتیں مسلمانوں کے پیچھے تھیں جو زخمیوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں تو پوری طرح یقین تھا کہ آج کے دن ہم میں کوئی ایک بھی طالب دنیا نہیں بلکہ اس وقت اگر مجھے اس بات پر قسم کھلوائی جاتی تو کھا لیتا لیکن قرآن میں یہ آیت اتری ( منکم من یرید الدنیا ) یعنی تم میں سے بعض طالب دنیا بھی ہیں، جب صحابہ سے حضور ﷺ کے حکم کے خلاف آپ کی نافرمانی سرزد ہوئی تو انکے قدم اکھڑ گئے حضور ﷺ کے ساتھ صرف سات انصاری اور دو مہاجر باقی رہ گئے جب مشرکین نے حضور ﷺ کو گھیر لیا تو آپ فرمانے لگے اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو انہیں ہٹائے تو ایک انصار اٹھ کھڑے ہوئے اور اسجم غفیر کے مقابل تن تنہا داد شجاعت دینے لگے یہاں تک کہ شہید ہوگئے پھر کفار نے حملہ کیا آپ نے یہی فرمایا ایک انصاری تیار ہوگئے اور اس بےجگری سے لڑے کہ انہیں آگے نہ بڑھنے دیا لیکن بالآخر یہ بھی شہید ہوگئے یہاں تک کہ ساتوں صحابہ اللہ کے ہاں پہنچ گئے اللہ ان سے خوش ہو، حضور ﷺ نے مہاجرین سے فرمایا افسوس ہم نے اپنے ساتھیوں سے منصفانہ معاملہ نہ کیا، اب ابو سفیان نے ہانک لگائی کہ اعل ہبل آپ نے فرمایا کہو اللہ اعلی واجل ابو سفیان نے کہا ( لنا العزی ولا عزی لکم ) ہمارا عزی بت ہے تمہاری کوئی عزی نہیں، آپ نے فرمایا کہو اللہ مولانا والکافرون لا مولی لھم اللہ ہمارا مولی ہے اور کافروں کا کوئی مولی نہیں، ابو سفیان کہنے لگا آج کے دن بدر کے دن کا بدلہ ہے کوئی دن ہمارا اور کوئی دن تمہارا، یہ تو ہاتھوں ہاتھ کا سودا ہے، ایک کے بدلے ایک ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا ہرگز برابری نہیں ہمارے شہداء زندہ ہیں وہاں رزق دے جاتے ہیں اور تمہارے مقتول جہنم میں عذاب کئے جا رہے ہیں پھر ابو سفیان بولا تمہارے مقتول میں تم دیکھو گے کہ بعض کے کان ناک وغیرہ کاٹ لئے گئے ہیں لیکن میں نے نہ یہ کہا نہ اسے روکا نہ اسے میں نے پسند کیا نہ مجھے یہ بھلا معلوم ہوا نہ برا، اب جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ حضرت حمزہ کا پیٹ چاک کردیا گیا تھا اور ہندہ نے انکا کلیجہ لے کر چبایا تھا لیکن نگل نہ سکی تو اگل دیا،حضور ﷺ نے فرمایا ناممکن تھا کہ اس کے پیٹ میں حمزہ کا ذرا سا گوشت بھی چلا جائے اللہ تعالیٰ حمزہ کے کسی عضو بدن کو جہنم میں لے جانا نہیں چاہتا چناچہ حمزہ کے جنازے کو اپنے سامنے رکھ کر نماز جنازہ ادا کی پھر ایک انصاری کا جنازہ لایا گیا وہ حضرت حمزہ کے پہلو میں رکھا گیا اور آپ نے پھر نماز جنازہ پڑھی انصاری کا جنازہ اٹھا لیا گیا لیکن حضرت حمزہ کا جنازہ وہیں رہا اسی طرح ستر شخص لائے گئے اور حضرت حمزہ کی ستر دفعہ جنازے کی نماز پڑھی گئی ( مسند ) صحیح بخاری شریف میں حضرت براء سے مروی ہے کہ احد والے دن مشرکوں سے ہماری مڈبھیڑ ہوئی حضور ﷺ نے تیر اندازوں کی ایک جماعت کو الگ جما دیا اور انکا سردار حضرت عبداللہ بن جیبر کو بنایا اور فرما دیا کہ اگر تم ہمیں ان پر غالب آیا ہوا دیکھو تو بھی یہاں سے نہ ہٹنا اور وہ ہم پر غالب آجائیں تو بھی تم اپنی جگہ نہ چھوڑنا، لڑائی شروع ہوتے ہی اللہ کے فضل سے مشرکوں کے قدم پیچھے ہٹنے لگے یہاں تک کہ عورتیں بھی تہبند اونچا کر کر کے پہاڑوں میں ادھر دوڑنے لگیں، اب تیر انداز گروہ غنیمت غنیمت کہتا ہوا نیچے اتر آیا، ان کے امیر نے انہیں ہرچند سمجھایا لیکن کسی نے ان کی نہ سنی، بس اب مشرکین مسلمانوں کی پیٹھ کی طرف سے آن پڑے اور ستر بزرگ شہید ہوگئے ابو سفیان ایک ٹیلے پر چڑھ کر کہنے لگا کیا محمد ﷺ حیات ہیں ؟ کیا ابوبکر موجود ہیں ؟ کیا عمر زندہ ہیں ؟ لیکن حضور ﷺ کے فرمان سے صحابہ خوش رہے تو وہ خوشی کے مارے اچھل پڑا اور کہنے لگا یہ سب ہماری تلواروں کے گھاٹ اتر گئے اگر زندہ ہوتے تو ضرور جواب دیتے ایک حضرت عمر کو تاب ضبط نہ رہی فرمانے لگے، اے اللہ کے دشمن تو جھوٹا ہے بحمد اللہ ہم سب موجود ہیں اور تیری تباہی اور بربادی کرنے والے زندہ ہیں، پھر وہ باتیں ہوئیں جو اوپر بیان ہوچکی ہیں، صحیح بخاری شریف میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ جنگ احد میں مشرکوں کو ہزیمت ہوئی اور ابلیس نے آواز لگائی اے اللہ کے بندو ! اپنے پیچھے کی خبر لو اگلی جماعتیں پچھلی جماعتوں پر ٹوٹ پڑیں، حضرت حذیفہ نے دیکھا کہ مسلمانوں کی تلواریں ان کے والد حضرت یمان ؓ پر برس رہی ہیں ہرچند کہتے رہے کہ اے اللہ کے بندو ! یہ میرے باپ یمان ہیں مگر کون سنتا تھا وہ یونہی شہید ہوگئے لیکن حضرت حذیفہ نے کچھ نہ کہا بلکہ فرمایا اللہ تمہیں معاف کرے، حضرت حذیفہ کی یہ بھلائی ان کے آخری دم تک ان میں رہی، سیرت ابن اسحاق میں ہے حضرت زبیر بن عوام فرماتے ہیں میں نے خود دیکھا کہ مشرک مسلمانوں کے اول حملہ میں ہی بھاگ کھڑے ہوئے یہاں تک کہ ان کی عورتیں ہندہ وغیرہ تہمد اٹھائے تیز تیز دوڑ رہی تھیں لیکن اس کے بعد جب تیر اندازوں نے مرکز چھوڑا اور کفار نے سمٹ کر پیچھے کی طرف سے ہم پر حملہ کردیا ادھر کسی نے آواز لگائی کہ حضور ﷺ شہید ہوگئے پھر معاملہ برعکس ہوگیا ورنہ ہم مشرکین کے علم برداروں تک پہنچ چکے تھے اور جھنڈا اس کے ہاتھ سے گرپڑا تھا لیکن عمرہ بن علقمہ حارثیہ عورت نے اسے تھام لیا اور قریش کا مجمع پھر یہاں جمع ہوگیا، حضرت انس بن مالک چچا حضرت انس بن نضر ؓ یہ رنگ دیکھ حضرت عمر حضرت طلحہ وغیرہ کے پاس آتے ہی اور فرماتے ہیں تم نے کیوں ہمتیں چھوڑ دیں ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ حضور ﷺ تو شہید ہوگئے۔ حضرت انس نے فرمایا پھر تم جی کر کیا کرو گے ؟ یہ کہا اور مشرکین میں گھسے پھر لڑتے رہے یہاں تک کہ اللہ رب العزت سے جا ملے ؓ ، یہ بدر والے دن جہاد میں نہیں پہنچ سکے تھے تو عہد کیا تھا کہ آئندہ اگر کوئی موقعہ آیا تو میں دکھا دوں گا چناچہ اس جنگ میں وہ موجود تھے جب مسلمانوں میں کھلبلی مچی تو انہوں نے کہا الہ میں مسلمانوں کے اس کام سے معذور ہوں اور مشرکوں کے اس کام سے بری ہوں پھر اپنی تلوار لے کر آگے بڑھ گئے راہ میں حضرت سعد بن معاذ سے ملے اور کہنے لگے کہاں جا رہے ہو ؟ مجھے تو جنت کی خوشبو کی لپٹیں احد پہاڑ سے چلی آرہی ہیں چناچہ مشرکوں میں گھس گئے اور بڑی بےجگری سے لڑے یہاں تک کہ شہادت حاصل کی اسی سے زیادہ تیرو تلوار کے زخم بدن پر آئے تھے پہچانے نہ جاتے تھے انگلی کو دیکھ کر پہچانے گئے ؓ ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایک حاجی نے بیت اللہ شریف میں ایک مجلس دیکھ کر پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ لوگوں نے کہا قریشی ہیں پوچھا ان کے شیخ کون ہیں ؟ جواب ملا حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہیں، اب وہ آیا اور کہنے لگا میں کچھ دریافت کرنا چاہتا ہوں حضرت عبداللہ نے فرمایا پوچھو اس نے کہا آپ کو اس بیت اللہ کی حرمت کی قسم کیا آپ کو علم ہے کہ ( حضرت ) عثمان بن عفان احد والے دن بھاگ گئے تھے ؟ آپ نے جواب دیا ہاں۔ کہا کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بدر والے دن بھی حاضر نہیں ہوئے تھے ؟ فرمایا ہاں، کہا کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ بیعت الرضوان میں بھی شریک نہیں ہوئے تھے ؟ فرمایا یہ بھی ٹھیک ہے، اب اس نے ( خوش ہوکر ) تکبیر کہی، حضرت عبداللہ نے فرمایا ادھر آ، اب میں تجھے پورے واقعات سناؤں، احد کے دن کا بھاگنا تو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا، بدر کے دن کی غیر حاضری کے باعث یہ ہوا کہ آپ کے گھر میں رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی تھیں اور وہ اس وقت سخت بیمار تھیں تو خود حضور ﷺ نے ان سے فرمایا تھا کہ تم نہ آؤ مدینہ میں ہی رہو تمہیں اللہ تعالیٰ اس جنگ میں حاضر ہونے کا اجر دے گا اور غنیمت میں بھی تمہارا حصہ ہے، بیعت الرضوان کا واقعہ یہ ہے کہ انہیں رسول اللہ ﷺ نے مکہ والوں کے پاس اپنا پیغام دے کر حضرت عثمان کو بھیجا تھا اس لئے کہ مکہ میں جو عزت انہیں حاصل تھی کسی اور کو اتنی نہ تھی انکے تشریف لے جانے کے بعد یہ بیعت لی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا داہنا ہاتھ کھڑا کر کے کہا یہ عثمان کا ہاتھ ہے پھر اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھا ( گویا بیعت کی ) پھر اس شخص سے کہا اب جاؤ اور اسے ساتھ لے جاؤ پھر فرمایا آیت ( او تصعدون ) الخ یعنی تم اپنے دشمن سے بھاگ کر پہاڑ چڑھ رہے تھے اور مارے خوف و دہشت کے دوسری جانب توجہ بھی نہیں کرتے تھے رسول ﷺ کو بھی تم نے وہیں چھوڑ دیا تھا وہ تمہیں آوازیں دے رہے تھے اور سمجھا رہے تھے کہ بھاگو نہیں لوٹ آؤ، حضرت سدی فرماتے ہیں مشرکین کے اس خفیہ اور پر زور اور اچانک حملہ سے مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے کچھ تو مدینہ کی طرف لوٹ آئے کچھ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے اللہ کے نبی آوازیں دیتے رہے کہ اللہ کے بندوں میری طرف آؤ اللہ کے بندو میری طرف آؤ، اس واقعہ کا بیان اس آیت میں ہے، عبداللہ بن زحری شاعر نے اس واقعہ کو نظم میں بھی ادا کیا ہے، آنحضرت ﷺ اس وقت صرف بارہ آدمیوں کے ساتھ رہ گئے تھے مسند احمد کی ایک طویل حدیث میں بھی ان تمام واقعات کا ذکر ہے، دلائل النبوۃ میں ہے کہ جب ہزیمت ہوئی تب حضور ﷺ کے ساتھ صرف گیارہ شخص رہ گئے اور ایک حضرت طلحہ بن عبید اللہ تھے، آپ پہاڑ پر چڑھنے لگے لیکن مشرکین نے آگھیرا آپ نے اپنے ساتھیوں یک طرف متوجہ ہو کر فرمایا کوئی ہے جو ان سے مقابلہ کرے، حضرت طلحہ نے اس آواز پر فوراً لبیک کہا اور تیار ہوگئے لیکن آپ نے فرمایا تم ابھی ٹھہر جاؤ اب ایک انصاری تیار ہوئے اور وہ ان سے لڑنے لگے یہاں تک کہ شہید ہوئے اسی طرح سب کے سب ایک ایک کر کے شہید ہوگئے اور اب صرف حضرت طلحہ رہ گئے گویہ بزرگ ہر مرتبہ تیار ہوجاتے تھے لیکن حضور ﷺ انہیں روک لیا کرتے تھے آخر یہ مقابلہ پر آئے اور اس طرح جم کر لڑے کہ ان سب کی لڑائی ایک طرف اور یہ ایک طرف اس لڑائی میں ان کی انگلیاں کٹ گئیں تو زبان سے حس نکل گیا آپ نے فرمایا اگر تم بسم اللہ کہہ دیتے یا اللہ کا نام لیتے تو تمہیں فرشتے اٹھا لیتے اور آسمان کی بلندی کی طرف لے چڑھتے اور لوگ دیکھتے رہتے اب نبی ﷺ اپنے صحابہ کے مجمع میں پہنچ چکے تھیں۔ صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت قیس بن حازم فرماتے ہیں میں نے دیکھا حضرت طلحہ کا وہ ہاتھ جسے انہوں نے ڈھال بنایا تھا شل ہوگیا تھا، حضعرت سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں میرے پاس حضور ﷺ نے اپنی ترکش سے احد والے دن تمام تیر پھیلا دئیے اور فرمایا تجھ پر میرے ماں باپ فدا ہوں لے مشرکین کو مار آپ اٹھا اٹھا کردیتے جاتے تھے اور میں تاک تاک کر مشرکین کو مارتا جاتا تھا اس دن میں نے دو شخصوں کو دیکھا کہ حضور ﷺ کے دائیں بائیں تھے اور سخت ترین جنگ کر رہے تھے میں نے نہ تو اس سے پہلے کبھی انہیں دیکھا تھا نہ اس کے بعد یہ دونوں حضرت جبرائیل اور حضرت میکائیل ( علیہما السلام ) تھے ایک اور روایت میں ہے کہ جو بزرگ حضور ﷺ کے ساتھ بھگدڑ کے بعد تھے اور ایک ایک ہو کر شہید ہوئے تھے انہیں آپ فرماتے جاتے تھے کہ کوئی ہے جو انہیں رو کے اور جنت میں جائے میرا رفیق ہے، ابی بن خلف نے مکہ میں قسم کھائی تھی کہ میں رسول اللہ ﷺ کو قتل کروں گا، جب حضور ﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا وہ تو نہیں بلکہ میں انشاء اللہ اسے قتل کروں گا احد والے دن یہ خبیث سرتاپا لوہے میں غرق زرہ بکتر لگائے ہوئے حضور ﷺ کی طرف بڑھا اور یہ کہتا آتا تھا کہ اگر محمد ﷺ بچ گئے تو میں اپنے تئیں ہلاک کر ڈالوں گا ادھر سے حضرت مصعب بن عمیر اس ناہنجار کی طرف بڑھے لیکن آپ شہید ہوگئے اب حضور ﷺ اس کی طرف بڑھے اس کا سارا جسم لوہے میں چھپا ہوا تھا صرف ذرا سی پیشانی نظر آرہی تھی آپ نے اپنا نیزہ تاک کر وہیں لگایا جو ٹھیک نشانے پر بیٹھا اور یہ تیورا کر گھوڑے پر سے گرا گو اس زخم سے خون بھی نہ نکلا تھا لیکن اس کی یہ حالت تھی کہ بلبلا رہا تھا لوگوں نے اسے اٹھا لیا لشکر میں لے گئے اور تشفی دینے لگے کہ ایسا کوئی کاری زخم نہیں لگا کیوں اس قدر نامردی کرتا ہے آخر ان کے طعنوں سے مجبور ہو کر اس نے کہا میں نے سنا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ہے میں ابی کو قتل کروں گا سچ مانو اب میں کبھی نہیں بچ سکتا تم اس پر نہ جاؤ کہ مجھے ذرا سی خراش ہی آئی ہے اللہ کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر کل اہل ذی المجاز کو اتنا زخم اس ہاتھ سے لگ جاتا تو سب ہلاک ہوجاتے پس یونہی تڑپتے تڑپتے اور بلکتے بلکتے اس جہنمی کی ہلاکت ہوئی اور مر کر جہنم رسید ہوا، مغازی محمد بن اسحاق میں ہے کہ جب یہ شخص حضور ﷺ کے سامنے ہوا تو صحابہ نے اس کے مقابلہ کی خواہش کی لیکن آپ نے انہیں روک دیا اور فرمایا اسے آنے دو جب وہ قریب آگیا تو آپ نے حضرت حارث بن صمہ سے نیزہ لے کر اس پر حملہ کیا حضور ﷺ کے ہاتھ میں نیزہ دیکھتے ہی وہ کانپ اٹھا ہم نے اسی وقت سمجھ لیا کہ اس کی خیر نہیں آپ نے اس کی گردن پر وار کیا اور وہ لڑکھڑا کر گھوڑے پر سے گرا، حضرت ابن عمر کا دہشت ناک شعلے اٹھتے ہوئے دیکھے اور دیکھا کہ ایک شخص کو زنجیروں میں جکڑے ہوئے اس آگ میں گھسیٹا جا رہا ہے اور وہ پیاس پیاس کر رہا ہے اور دوسرا شخص کہتا ہے اسے پانی نہ دینا یہ پیغمبر کے ہاتھ کا مارا ہوا ہے یہ ابی بن خلف ہے، بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے آپ اپنے سامنے کے چار دانتوں کی طرف جنہیں مشرکین نے احد والے دن شہید کیا تھا اشارہ کر کے فرما رہے تھے اللہ کا سخت تر غضب ان لوگوں پر ہے جنہوں نے اپنے نبی ﷺ کے ساتھ یہ کیا اور اس پر بھی اللہ تعالیٰ کا غضب ہے جسے اللہ کا رسول اللہ ﷺ کی راہ میں قتل کرے اور روایت میں یہ لفظ ہیں کہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کا چہرہ زخمی کیا، عتبہ بن ابی وقاص کے ہاتھ سے حضور ﷺ کو یہ زخم لگا تھا سامنے کے چار دانٹ ٹوٹ گئے تھے، رخسار پر زخم آیا تھا اور ہونٹ پر بھی، حضرت سعد بن ابی وقاص فرمایا کرتے تھے مجھے جس قدر اس شخص کی حرص تھی کسی اور کے قتل کی نہ تھی۔ یہ شخص بڑا بد خلق تھا اور ساری قوم سے اس کی دشمنی تھی اس کی برائی میں حضور ﷺ کا یہ فرمان کافی ہے کہ نبی ﷺ کو زخمی ہونے والے پر اللہ سخت غضبناک ہے، عبدالرزاق میں ہے حضور ﷺ نے اس کیلئے بد دعا کی کہ اے اللہ سال بھر میں یہ ہلاک ہوجائے اور کفر پر اس کی موت ہو چناچہ یہی ہوا اور یہ بدبخت کافر مرا اور جہنم واصل ہوا۔ ایک مہاجر کا بیان ہے کہ چاروں طرف سے احد والے دن حضور ﷺ پر تیروں کی بارش ہو رہی تھی لیکن اللہ کی قدرت سے وہ سب پھیر دیئے جاتے تھے، عبداللہ بن شہاب زہری نے اس دن قسم کھا کر کہا کہ مجھے محمد ﷺ کو دکھا دو وہ آج میرے ہاتھ سے بچ نہیں سکتا اگر وہ نجات پا گیا تو میری نجات نہیں اب وہ حضور ﷺ کی طرف سے لپکا اور بالکل آپ کے پاس آگیا اس وقت حضور ﷺ کے ساتھ کوئی نہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اسے حضور ﷺ نظر ہی نہ آئے جب وہ نامراد پلٹا تو صفوان نے اسے طعنہ زنی کی اس نے کہا اللہ تعالیٰ کی طرف سے محفوظ ہیں ہمارے ہاتھ نہیں لگنے کے سنو ! ہم چار شخصوں نے ان کے قتل کا پختہ مشورہ کیا تھا اور آپس میں عہدو پیمان کئے تھے ہم نے ہرچند چاہا لیکن کامیابی نہ ہوئی واقدی کہتے ہیں لیکن ثابت شدہ بات یہ ہے کہ حضور ﷺ کی پیشانی کو زخمی کرنے والا ابن قمیہ اور ہونٹ اور دانتوں پر صدمہ پہچانے والا عتبہ بن ابی وقاص تھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ میرے والد حضرت ابوبکر جب احد کا ذکر فرماتے تو صاف کہتے کہ اس دن کی تمام تر فضلیت کا سہرا حضرت طلحہ کے سر ہے میں جب لوٹ کر آیا تو میں نے دیکھا کہ ایک شخص حضور ﷺ کی حمایت میں جان ٹکائے لڑ رہا ہے میں نے کہا اللہ کرے یہ طلحہ ہو اب جو قریب آ کر دیکھا تو طلحہ ہی تھے ؓ میں نے کہا الحمد اللہ میری ہی قوم کا ایک شخص ہے میرے اور مشرکوں کے درمیان ایک شخص تھا جو مشرکین میں کھڑا ہوا تھا لیکن اسکے بےپناہ حملے مشرکوں کی ہمت توڑ رہے تھے غور سے دیکھا تو وہ حضرت عبیدہ بن جراح تھے، اب جو میں نے بغور حضور ﷺ کی طرف دیکھا تو آپ کے سامنے کے دانت ٹوٹ گئے ہیں چہرہ زخمی ہو رہا ہے اور پیشانی میں زرہ کی دو کڑیاں کھب گئی ہیں میں آپ کی طرف لپکا لیکن آپ نے فرمایا ابو طلحہ کی خبر لو میں نے چاہا کہ حضور ﷺ کے چہرے میں سے وہ دونوں کڑیاں نکالوں لیکن حضرت ابو عبیدہ نے مجھے قسم دے کر روک دیا اور خود قریب آئے اور ہاتھ سے نکالنے میں زیادہ تکلیف محسوس کر کے دانتوں سے پکڑ کر ایک کو نکال لیا لیکن اس میں ان کا دانت بھی ٹوٹ گیا میں نے اب پھر چاہا کہ دوسری میں نکال لوں لیکن حضرت ابو عبیدہ نے پھر قسم دی تو میں رک رہا انہوں نے پھر دوسری کڑی نکالی اب کی مرتبہ بھی ان کے دانت ٹوٹے اس سے فارغ ہو کر ہم حضرت طلحہ کی طرف متوجہ ہوئے ہم نے دیکھا کہ ستر سے زیادہ زخم انہیں لگ چکے ہیں انگلیاں کٹ گئی ہیں ہم نے پھر ان کی بھی خبر لی حضور ﷺ کے زخم کا خون حضرت ابو سعید خدری نے چوسا تاکہ خون تھم جائے پھر ان سے کہا گیا کہ کلی کر ڈالو لیکن انہوں نے کہا اللہ کی قسم میں کلی نہ کروں گا پھر میدان جنگ میں چلے گئے حضور ﷺ نے فرمایا اگر کوئی شخص جنتی شخص کو دیکھنا چاہتا ہو تو انہیں دیکھ لے چناچہ یہ اسی میدان میں شہید ہوئے، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضور ﷺ کا چہرہ زخمی ہوا سامنے کے دانت ٹوٹے سر کا خود ٹوٹا، حضرت فاطمہ خون دھوتی تھیں اور حضرت علی ڈھال میں پانی لالا کر ڈالتے جاتے تھے جب دیکھا کہ خون کسی طرح تھمتا ہی نہیں تو حضرت فاطمہ نے بوریا جلا کر اس کا راکھ زخم پر رکھ دی جس سے خون بند ہوا۔ پھر فرماتا ہے، تمہیں غم پر غم پہنچا ( بِغَمِّ ) کا بامعنی میں علیٰ کے ہے جیسے آیت ( فی جذوع النخل ) میں فی معنی میں علیٰ کے ہے، ایک غم تو شکست کا تھا جبکہ یہ مشہور ہوگیا کہ ( اللہ نہ کرے ) حضور ﷺ کی جان پر بن آئی، دوسرا غم مشرکوں کو پہاڑ کے اوپر غالب آکر چڑھ جانے کا جبکہ حضور ﷺ فرماتے تھے یہ بلندی کے لائق نہ تھے، حضرت عبدالرحمن بن عوف فرماتے ہیں ایک غم شکست کا دوسرا غم حضور ﷺ کے قتل کی خبر کا اور یہ غم پہلے غم سے زیادہ تھا، اسی طرح یہ بھی ہے کہ ایک غم تو غنیمت کا ہاتھ میں آکر نکل جانے کا تھا دوسرا شکست ہونے کا اسی طرح ایک اپنے بھائیوں کے قتل کا غم دوسرا حضور ﷺ کی نسبت ایسی منحوس خبر کا غم۔ پھر فرماتا ہے جو غنیمت اور فتح مندی تمہارے ہاتھ سے گئی اور جو زخم و شہادت ملی اس پر غم نہ کھاؤ اللہ سبحانہ و تعالیٰ جو بلندی اور جلال والا ہے وہ تمہارے اعمال سے خبردار ہے۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 152 وَلَقَدْ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعْدَہٗ اِذْ تَحُسُّوْنَہُمْ بِاِذْنِہٖ ج غزوۂ احد میں جو عارضی شکست ہوگئی تھی اور مسلمانوں کو زَک پہنچی تھی ‘ جس سے ان کے دل زخمی تھے اس کے ضمن میں اب یہ آیت ایک قول فیصل کے انداز میں آئی ہے کہ دیکھو مسلمانو ! تم ہم سے کوئی شکایت نہیں کرسکتے ‘ اللہ نے تم سے تائید و نصرت کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کردیا تھا جبکہ تم انہیں اللہ کے حکم سے قتل کر رہے تھے ‘ گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے تھے۔ تمہیں فتح حاصل ہوگئی تھی اور ہمارا وعدہ پورا ہوچکا تھا۔حَتّٰی اِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ فَشِلْتُمْ کا ترجمہ بعض مترجمین نے کچھ اور بھی کیا ہے ‘ لیکن میرے نزدیک یہاں نظم ڈسپلن کو ڈھیلا کرنا مراد ہے۔ اسلامی نظم جماعت میں سمع وطاعت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ‘ اور ظاہر ہے کہ سمع وطاعت میں ایک ہی شخص کی اطاعت مقصود نہیں ہوتی۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت بھی فرض تھی اور آپ ﷺ اگر کسی کو امیر مقرر کرتے تو اس کی اطاعت بھی فرض تھی۔ حضرت ابوہریرہ رض روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاع اللّٰہَ ‘ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ ‘ وَمَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ ‘ وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِیْ 1جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ‘ اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی ‘ اور جس نے میرے نامزد کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔اگرچہ رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تو انہوں نے تاویل کرلی تھی کہ حضور ﷺ نے جو یہ فرمایا تھا کہ اگر ہم سب بھی اللہ کی راہ میں قتل ہوجائیں اور تم دیکھو کہ چیلیں اور کوے ہمارا گوشت کھا رہے ہیں تب بھی یہاں سے نہ ہٹنا ‘ تو یہ شکست کی صورت میں تھا ‘ لیکن اب تو فتح ہوگئی ہے۔ چناچہ انہوں نے جان بوجھ کر اللہ کے رسول ﷺ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کی تھی۔ لیکن انہوں نے اپنے مقامی امیر لوکل کمانڈر کے حکم کی خلاف ورزی کی تھی۔ میرے نزدیک یہاں عَصَیْتُمْسے یہی حکم عدولی مراد ہے۔ اسلامی نظم جماعت میں اوپر سے لے کر نیچے تک ‘ سپہ سالار سے لے کر لوکل کمانڈر تک ‘ درجہ بدرجہ نظام سمع وطاعت کی پابندی ضروری ہے۔ فوج کا ایک سپہ سالار ہے ‘ لیکن پھر پوری فوج کے کئی حصے ہوتے ہیں اور ہر ایک کا ایک امیر ہوتا ہے۔ میسرہ ‘ میمنہ ‘ قلب اور ہراول دستہ وغیرہ ‘ ہر ایک کا ایک کمانڈر ہوتا ہے۔ اب اگر ان کمانڈروں کے احکام سے سرتابی ہوگی تو ایسی فوج کا جو انجام ہوگا وہ معلوم ہے۔ چناچہ ایک جماعت کے اندر درجہ بدرجہ جو بھی نظام سمع وطاعت ہے اس کی پوری پوری پابندی ضروری ہے۔وَعَصَیْتُم مِّنْم بَعْدِ مَآ اَرٰٹکُمْ مَّا تُحِبُّونَ ط۔عَصَیْتُمْ کے بارے میں وضاحت ہوچکی ہے کہ اس سے مراد اللہ کے رسول ﷺ کی نافرمانی نہیں ‘ بلکہ لوکل کمانڈر کی نافرمانی ہے۔ مِّنْم بَعْدِ مَآ اَرٰٹکُمْ مَّا تُحِبُّونَ ط سے اکثر مفسرین نے مال غنیمت مراد لیا ہے ‘ کہ درّے پر مامور حضرات مال غنیمت کی طلب میں درّہ چھوڑ کر چلے گئے ‘ لیکن میرے نزدیک یہ بات درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ مال غنیمت کی تقسیم کا قانون تو غزوۂ بدر کے بعد سورة الأنفال میں نازل ہوچکا تھا۔ اس کی رو سے چاہے کوئی شخص کچھ جمع کرے یا نہ کرے اسے مال غنیمت میں سے برابر کا حصہ ملے گا۔ یہاں مِّنْم بَعْدِ مَآ اَرٰٹکُمْ مَّا تُحِبُّونَ ط سے مراد دراصل فتح ہے اور اس کے لیے القرآن یفُسِّر بعضُہ بَعْضًاکی رو سے سورة الصف کی یہ آیت ہماری رہنمائی کرتی ہے : وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَاط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ط آیت 13 گویا بندۂ مؤمن کو دنیا میں فتح و نصرت محبوب تو ہوتی ہے ‘ لیکن اسے اس کو اپنا مقصود نہیں بنانا۔ اس کا مقصود اللہ کی رضا جوئی اور اپنے فرض کی ادائیگی ہے۔ باقی کامیابی یا ناکامی اللہ کی مرضی اور اس کی حکمت کے تحت ہوتی ہے۔ اللہ کب فتح لانا چاہتا ہے وہ بہتر جانتا ہے۔ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا یعنی وہ خواہش رکھتے ہیں کہ دنیا میں فتح و نصرت اور کامیابی حاصل ہوجائے ‘ ہمارا بول بالا ہوجائے ‘ ہماری حکومت قائم ہوجائے۔وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ ج ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْہُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ ج پہلے وہ بھاگ رہے تھے اور تم ان کا تعاقب کر رہے تھے ‘ اب معاملہ الٹاہو گیا کہ تم پسپا ہوگئے اور اپنی جانیں بچانے کے لیے ادھر ادھر جائے پناہ ڈھونڈنے لگے۔ تمہاری یہ پسپائی تمہارے لیے آزمائش تھی۔وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ ط۔تم میں سے جس کسی سے جو بھی خطا ہوئی اللہ نے اسے معاف فرما دیا ہے۔

ولقد صدقكم الله وعده إذ تحسونهم بإذنه حتى إذا فشلتم وتنازعتم في الأمر وعصيتم من بعد ما أراكم ما تحبون منكم من يريد الدنيا ومنكم من يريد الآخرة ثم صرفكم عنهم ليبتليكم ولقد عفا عنكم والله ذو فضل على المؤمنين

سورة: آل عمران - آية: ( 152 )  - جزء: ( 4 )  -  صفحة: ( 69 )

Surah al imran Ayat 152 meaning in urdu

اللہ نے (تائید و نصرت کا) جو وعدہ تم سے کیا تھا وہ تو اُس نے پورا کر دیا ابتدا میں اُس کے حکم سے تم ہی اُن کو قتل کر رہے تھے مگر جب تم نے کمزوری دکھائی اور اپنے کام میں باہم اختلاف کیا، اور جونہی کہ وہ چیز اللہ نے تمہیں دکھائی جس کی محبت میں تم گرفتار تھے (یعنی مال غنیمت) تم اپنے سردار کے حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھے اس لیے کہ تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے تب اللہ نے تمہیں کافروں کے مقابلہ میں پسپا کر دیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے اور حق یہ ہے کہ اللہ نے پھر بھی تمہیں معاف ہی کر دیا کیونکہ مومنوں پر اللہ بڑی نظر عنایت رکھتا ہے


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اور جتنے آدمی زمین میں ہیں (غرض) سب (کچھ دے دے) اور اپنے تئیں عذاب
  2. یہ اس لئے کہ خدا نے کتاب سچائی کے ساتھ نازل فرمائی۔ اور جن لوگوں
  3. اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھیوں کو ارشاد فرمایا کہ پہاڑوں میں اور درختوں
  4. اور خدا ان باتوں کو جو یہ اپنے دلوں میں چھپاتے ہیں خوب جانتا ہے
  5. جس دن آسمان ایسا ہو جائے گا جیسے پگھلا ہوا تانبا
  6. تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
  7. کہیں گے کہ اس سے پہلے ہم اپنے گھر میں (خدا سے) ڈرتے رہتے تھے
  8. یہ اس لئے کہ تم نے خدا کی آیتوں کو مخول بنا رکھا تھا اور
  9. جب تمہارا پروردگار فرشتوں کو ارشاد فرماتا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تم مومنوں
  10. اور جب خدا نے ان لوگوں سے جن کو کتاب عنایت کی گئی تھی اقرار

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah al imran with the voice of the most famous Quran reciters :

surah al imran mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter al imran Complete with high quality
surah al imran Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah al imran Bandar Balila
Bandar Balila
surah al imran Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah al imran Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah al imran Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah al imran Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah al imran Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah al imran Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah al imran Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah al imran Fares Abbad
Fares Abbad
surah al imran Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah al imran Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah al imran Al Hosary
Al Hosary
surah al imran Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah al imran Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Tuesday, May 14, 2024

لا تنسنا من دعوة صالحة بظهر الغيب