Surah hashr Ayat 19 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾
[ الحشر: 19]
اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے۔ یہ بدکردار لوگ ہیں
Surah hashr Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی اللہ نے بطور جزا انہیں ایسا کر دیا کہ وہ ایسے عملوں سے غافل ہوگئے جن میں ان کا فائدہ تھا اور جن کے ذریعے سے وہ اپنے نفسوں کو عذاب الٰہی سے بچا سکتے تھے۔ یوں انسان خدا فراموشی سے خود فراموشی تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کی عقل، اس کی صحیح رہنمائی نہیں کرتی، آنکھیں اس کو حق کا راستہ نہیں دکھاتیں اور اس کے کان حق کے سننے سے بہرے ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً اس سے ایسے کام سرزد ہوتے ہیں جس میں اس کی اپنی تباہی وبربادی ہوتی ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
اجتماعی اور خیر کی ایک نوعیت اور انفرادی اعمال خیر حضرت جریر ؓ فرماتے ہیں کہ ہم دن چڑھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ کچھ لوگ آئے جو ننگے بدن اور کھلے پیر تھے۔ صرف چادروں یا عباؤں سے بدن چھپائے ہوئے تلواریں گردنوں میں حمائل کئے ہوئے تھے یہ تمام لوگ قبیلہ مضر میں سے تھے، ان کی اس فقرہ فاقہ کی حالت نے رسول اللہ ﷺ کے چہرے کی رنگت کو متغیر کردیا، آپ گھر میں گئے پھر باہر آئے پھر حضرت بلال کو اذان کہنے کا حکم دیا اذان ہوئی پھر اقامت ہوئی آپ نے نماز پڑھائی پھر خطبہ شروع کیا اور آیت ( ترجمہ ) الخ، تلاوت کی پھر سورة حشر کی آیت ( ترجمہ ) الخ، پڑھی اور لوگوں کو خیرات دینے کی رغبت دلائی جس پر لوگوں نے صدقہ دینا شروع کیا بہت سے درہم دینار کپڑے لتے کھجوریں وغیرہ آگئیں آپ برابر تقریر کئے جاتے تھے یہاں تک کہ فرمایا اگر آدھی کھجور بھی دے سکتے ہو تو لے آؤ، ایک انصاری ایک تھیلی نقدی کی بھری ہوئی بہت وزنی جسے بمشکل اٹھا سکتے تھے لے آئے پھر تو لوگوں نے لگاتار جو کچھ پایا لانا شروع کردیا یہاں تک کہ ہر چیز کے ڈھیر لگ گئے اور حضور ﷺ کا اداس چہرہ بہت کھل گیا اور مثل سونے کے چمکنے لگا اور آپ نے فرمایا جو بھی کسی اسلامی کار خیر کر شروع کرے اسے اپنا بھی اور اس کے بعد جو بھی اس کام کو کریں سب کا بدلہ ملتا ہے لیکن بعد والوں کے اجر گھٹ کر نہیں، اسی طرح جو اسلام میں کسی برے اور خلاف شروع طریقے کو جاری کرے اس پر اس کا اپنا گناہ بھی ہوتا ہے اور پھر جتنے لوگ اس پر کاربند ہوں سب کو جتنا گناہ ملے گا اتنا ہی اسے بھی ملتا ہے مگر ان کے گناہ گھٹتے نہیں ( مسلم ) آیت میں پہلے حکم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچاؤ کی صورت پیدا کرو یعنی اس کے احکام بجا لا کر اور اس کی نافرمانیوں سے بچ کر، پھر فرمان ہے کہ وقت سے پہلے اپنا حساب آپ لیا کرو دیکھتے رہو کہ قیامت کے دن جب اللہ کے سامنے پیش ہو گے تب کام آنے والے نیک اعمال کا کتنا کچھ ذخیرہ تمہارے پاس ہے، پھر تاکید ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ تمہارے تمام اعمال و احوال سے اللہ تعالیٰ پورا باخبر ہے نہ کوئی چھوٹا کام اس سے پوشیدہ نہ بڑا نہ چھپا نہ کھلا۔ پھر فرمان ہے کہ اللہ کے ذکر کو نہ بھولو ورنہ وہ تمہارے نیک اعمال جو آخرت میں نفع دینے والے ہیں بھلا دے گا اس لئے کہ ہر عمل کا بدلہ اسی کے جنس سے ہوتا ہے اسی لئے فرمایا کہ یہی لوگ فاسق ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل جانے والے اور قیامت کے دن نقصان پہنچانے والے اور ہلاکت میں پڑنے والے یہی لوگ ہیں، جیسے اور جگہ ارشاد ہے۔ ( ترجمہ ) مسلمانو ! تمہیں تمہارے مال و اولاد یاد اللہ سے غافل نہ کریں جو ایسا کریں وہ سخت زیاں کار ہیں، طبرانی میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ نہ کے ایک خطبہ کا مختصر سا حصہ یہ منقول ہے کہ آپ نے فرمایا، کیا تم نہیں جانتے ؟ کہ صبح شام تم اپنے مقررہ وقت کی طرف بڑھ رہے ہو، پس تمہیں چاہئے کہ اپنی زندگی کے اوقات اللہ عزوجل کی فرمانبرداری میں گذارو، اور اس مقصد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے کوئی شخص صرف اپنی طاقت و قوت سے حاصل نہیں کرسکتا، جن لوگوں نے اپنی عمر اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے سوا اور کاموں میں کھپائی ان جیسے تم نہ ہونا، اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان جیسے بننے سے منع فرمایا ہے ( ترجمہ ) خیال کرو کہ تمہاری جان پہچان کے تمہارے بھائی آج کہاں ہیں ؟ انہوں نے اپنے گزشتہ ایام میں جو اعمال کئے تھے ان کا بدلہ لینے یا ان کی سزا پانے کے لئے وہ دربار اہلیہ میں جا پہنچے، یا تو انہوں نے سعادت اور خوش نصیبی پائی یا نامرادی اور شقاوت حاصل کرلی، کہاں ہیں ؟ وہ سرکش لوگ جنہوں نے بارونق شہر بسائے اور ان کے مضبوط قلعے کھڑے کئے، آج وہ قبروں کے گڑھوں میں پتھروں تلے دبے پڑے ہیں، یہ ہے کتاب اللہ قرآن کریم تم اس نور سے مضبوط قلعے کھڑے کئے، آج وہ قبروں کے گڑھوں میں پتھروں تلے دبے پڑے ہیں، یہ ہے کتاب اللہ قرآن کریم تم اس نور سے روشنی حاصل کرو جو تمہیں قیامت کے دن کی اندھیروں میں کام آسکے، اس کی خوبی بیان سے عبرت حاصل کرو اور بن سنور جاؤ، دیکھو اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا اور ان کی اہل بیت کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا ( ترجمہ ) یعنی وہ نیک کاموں میں سبقت کرتے تھے اور بڑے لالچ اور سخت خوف کے ساتھ ہم سے دعائیں کیا کرتے تھے اور ہمارے سامنے جھکے جاتے تھے، سنو وہ بات بھلائی سے خالی ہے جس سے اللہ کی رضامندی مقصود نہ ہو، وہ مال خیرو و برکت والا نہیں جو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا جاتا ہو، وہ شخص نیک بختی سے دور ہے جس کی جہالت بردباری پر غالب ہو اس طرح وہ شخص بھی نیکی سے خالی ہاتھ ہے جو اللہ کے احکام کی تعمیل میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوف کھائے۔ اس کی اسناد بہت عمدہ ہیں اور اس کے راوی ثقہ ہیں، گو اس کے ایک راوی نعیم بن نمحہ ثقابت یا عدم ثقاہت سے معرف نہیں، لیکن امام ابو داؤد سجستانی ؒ کا یہ فیصلہ کافی ہے کہ جریر بن عثمان کے تمام استاد ثقہ ہیں اور یہ بھی آپ ہی کے استاذہ میں سے ہیں اور اس خطبہ کے اور شواہد بھی مروی ہیں، واللہ علم۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جہنمی اور جنتی اللہ تعالیٰ کے نزدیک یکساں نہیں، جیسے فرمان ہے ( ترجمہ ) الخ، یعنی کیا بدکاروں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں باایمان نیک کار لوگوں کے مثل کردیں گے ان کا جینا اور مرنا یکساں ہے ان کا یہ دعویٰ بالکل غلط اور برا ہے اور جگہ ہے ( ترجمہ ) الخ، اندھا اور دیکھتا ایماندار صالح اور بدکار برابر نہیں، تم بہت ہی کم نصیحت اصل کر رہے ہو، اور ( ترجمہ ) الخ کیا ہم ایمان لانے اور نیک اعمال کرنے والوں کو فساد کرنے والوں جیسا بنادیں گے یا پرہیزگاروں کو مثل فاجروں کے بنادیں گے ؟ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں، مطلب یہ ہے کہ نیک کار لوگوں کا اکرام ہوگا اور بدکار لوگوں کو رسوا کن عذاب ہوگا۔ یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ جنتی لوگ فائز بمرام اور مقصدور، کامیاب اور فلاح و نجات یافتہ ہیں اللہ عزوجل کے عذاب سے بال بال بچ جائیں گے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 19{ وَلَا تَـکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰٹہُمْ اَنْفُسَہُمْ } ” اور اے مسلمانو دیکھنا ! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں اپنے آپ سے غافل کردیا۔ “ { اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔ } ” یہی لوگ ہیں جو فاسق ہیں۔ “ ہمارے لیے اس آیت کی اہمیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ علامہ اقبال کے بیان کے مطابق انہوں نے اپنا فلسفہ خودی اسی آیت سے اخذ کیا تھا۔ علامہ کے اس بیان کے راوی سید نذیر نیازی ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں اس حوالے سے ایک واقعہ رقم کیا ہے۔ یہ واقعہ انہوں نے ہمارے ہاں قرآن کانفرنس میں اپنے ایک لیکچر میں بھی بیان کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ انہوں نے علامہ اقبال سے ان کے فلسفہ خودی کے ماخذ کے بارے میں سوال کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے فلسفہ خودی کے ماخذ کے بارے میں بہت چہ میگوئیاں ہوتی ہیں۔ کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ آپ نے یہ فلسفہ نطشے سے لیا ہے ‘ کوئی اس حوالے سے کسی دوسرے مغربی فلاسفر کا نام لیتا ہے۔ بہتر ہوگا آپ خود واضح فرما دیں کہ آپ کے اس فلسفہ کا ماخذ کیا ہے ؟ یہ سن کر علامہ اقبال نے انہیں فرمایا کہ آپ کل فلاں وقت میرے پاس آئیں ‘ میں آپ کو اس کے ماخذ کے بارے میں بتائوں گا۔ اس پر وہ بہت خوش ہوئے کہ شاعر مشرق اور حکیم الامت انہیں یہ اعزاز بخش رہے ہیں کہ انہیں اس موضوع پر تفصیلی ڈکٹیشن دیں گے۔ لیکن اگلے دن جب وہ کاپی پنسل ہاتھ میں لیے مقررہ وقت پر حاضر خدمت ہوئے تو علامہ نے انہیں دیکھتے ہی کہا کہ ذرا قرآن مجید اٹھا لائو۔ پھر انہوں نے کہا کہ سورة الحشر کی یہ آیت آیت 19 نکال کر تلاوت کرو ! اور انہیں مخاطب ہو کر کہا کہ یہ ہے میرے فلسفہ خودی کا ماخذ ! اب آیئے فَاَنْسٰٹہُمْ اَنْفُسَہُمْ کے مفہوم پر غور کریں۔ کیا کوئی شخص اپنے آپ کو اس طرح بھول سکتا ہے کہ وہ خوداپنی شخصیت سے ہی واقف نہ رہے ؟ کیا کوئی انسان ایسا بھی ہوسکتا ہے جسے اپنے پیٹ کا خیال نہ رہے ؟ یا جسے اپنی کوئی بیماری یاد نہ رہے ؟ ظاہر ہے کوئی انسان اپنے جسم اور اس کے تقاضوں سے غافل نہیں ہوسکتا۔ تو معلوم ہوا کہ حیوانی جسم کے علاوہ انسان کی کوئی اور حیثیت بھی ہے جسے وہ بھول جاتا ہے اور وہ ہے انسان کی اصل حقیقت یعنی اس کی ” روح “۔ جہاں تک انسان کے اللہ کو بھلانے کا تعلق ہے اس کا ذکر سورة المجادلة کی آیت 19 میں بھی آیا ہے : { اِسْتَحْوَذَ عَلَیْھِمُ الشَّیْطٰنُ فَاَنْسٰٹھُمْ ذِکْرَ اللّٰہِط } ” شیطان نے ان پر قابو پا لیا ہے ‘ پس انہیں اللہ کی یاد سے غافل کردیا ہے “۔ اب آیت زیر مطالعہ میں ایسے لوگوں کی اس سزا کا ذکر ہے جو انہیں دنیوی زندگی میں ہی مل جاتی ہے۔ یعنی جو لوگ شیطان کے بہکاوے میں آکر اللہ کو بھول جاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ان کی اصل حقیقت سے غافل کردیتا ہے۔ پھر ان لوگوں کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ وہ انسان ہیں ‘ اشرف المخلوقات ہیں یا اللہ کے بندے ہیں۔ انہیں بس یہی یاد رہ جاتا ہے کہ بہت سے حیوانات کی طرح وہ بھی ایک حیوان ہیں۔ آج ہماری جدید تہذیب بھی مختلف انداز سے ہمیں یہی سبق پڑھانے کی کوشش میں ہے کہ انسان محض ایک حیوان ہے۔ اس فلسفے کو متعارف کرانے اور پروان چڑھانے میں بنیادی کردار ڈارون کے نظریہ ارتقاء Evolution Theory نے ادا کیا ہے۔ اس تھیوری کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک حیوان اور انسان میں بنیادی فرق صرف ارتقاء کے مراحل اور مدارج کا ہے۔ جیسے گدھے اور گھوڑے میں صرف یہ فرق ہے کہ گدھا نچلے درجے کا rough coarse جانور ہے ‘ جبکہ گھوڑا ارتقاء کا ایک مزید مرحلہ طے کر کے نسبتاً بہتر درجے میں چلا گیا ہے اور ایک refined اور تمکنت والاجانور ہے ‘ اسی طرح کا فرق ایک گوریلے chimpanzee اور انسان میں ہے۔ یعنی گوریلے کے مقابلے میں انسان نسبتاً بہتر قسم کا جانور ہے ‘ باقی ان دونوں کے جبلی تقاضے instincts اور محرکات motives میں کوئی فرق نہیں ہے۔۔۔۔ - جدید سائیکالوجی بھی انہی خطوط پر چل رہی ہے۔ چناچہ آج کے سائیکالوجسٹ کو بھی محرکاتِ عمل کے حوالے سے انسان اور حیوان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ تو جب یہ فرق مٹ گیا اور انسان اپنی اصلیت کو بھلا کر حیوان بن گیا تو گویا وہ ہر قسم کی اخلاقی پابندیوں سے بھی آزاد ہوگیا۔ انیسویں صدی کے فرنچ لٹریچر میں بنیادی طور پر اسی نکتے کو فوکس کیا گیا ہے کہ حیوانات کی زندگی فطرت کے عین مطابق ہے ‘ اس لیے ہم انسانوں کو ان سے سبق لیتے ہوئے اپنی زندگی کو خواہ مخواہ کے تکلفات سے آزاد کرلینا چاہیے۔ مثلاً تمام حیوانات لباس سے بےنیاز ہیں ‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ لباس فطرت کا تقاضا نہیں ہے ‘ انسان کی اپنی ایجاد ہے۔ اسی طرح بیوی ‘ بیٹی اور ماں کی تمیز بھی حیوانات میں نہیں پائی جاتی ‘ یہ پابندی بھی انسان نے اپنے اوپر خود ہی عائد کی ہے۔ یہ ہے آج کے انسان کا المیہ ! بہرحال یہ آیت ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کرتی ہے کہ جو انسان اللہ کو بھلا دیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کی حقیقت سے غافل کردیتا ہے۔ انسان کی روح خود اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر پھونکی ہے اور اسی کی وجہ سے وہ ” انسان “ کے مرتبے پر فائز ہوا ہے۔ چناچہ جب کوئی انسان اپنی روح اور اس کے تقاضوں سے غافل ہوجاتا ہے تو وہ انسان کے درجے سے گر کر حیوان بن جاتا ہے۔ اس حوالے سے اپنشد کا یہ جملہ بہت اہم ہے : Man in his ignorance identifies himself with the material sheeths that encompass his real self.اسی real self کا دوسرانام ” انا “ ہے ‘ لیکن اس سے اصل مراد انسان کی ” روح “ ہی ہے ‘ جسے علامہ اقبال نے فلسفیانہ انداز میں ” خودی “ کا نام دیا ہے : ؎ نقطہ نوری کہ نام او خودی ست زیر خاک ما شرار زندگی ست ؎ ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں غافل تو نرا صاحب ِادراک نہیں ہے ! اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان حیوانی جسم اور روح کا مرکب ہے۔ بقول شیخ سعدی :آدمی زادہ طرفہ معجون است از فرشتہ سرشتہ وز حیوان یعنی آدمی ایک ایسی معجونِ مرکب ہے جس میں فرشتہ اور حیوان دونوں ُ گندھے ہوئے ہیں۔ فرشتے سے مراد یہاں وہ نورانی روح ہے جو عالم امر کی چیز ہے : { وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلاَّ قَلِیْلاً۔ } بنی اسرائیل ” اور اے نبی ﷺ ! یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں روح کے بارے میں۔ آپ فرما دیجیے کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے اور تمہیں نہیں دیا گیا علم مگر تھوڑا سا “۔ چناچہ انسان کی روح نورانی چیز ہے اور اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے۔ اگر انسان اللہ کو بھلا دے گا تو اپنی روح یعنی اپنی اصلیت سے بیگانہ ہو کر محض ایک حیوان بن کر رہ جائے گا۔ اس کے بعد اس کی نظر میں اچھے برے اور حلال و حرام کی کوئی تمیز نہیں رہے گی۔ انسانی معاشرے کے ایسے ہی افراد آیت زیر مطالعہ کے حکم ” اُولٰٓـئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ “ کے مصداق ہیں۔
ولا تكونوا كالذين نسوا الله فأنساهم أنفسهم أولئك هم الفاسقون
سورة: الحشر - آية: ( 19 ) - جزء: ( 28 ) - صفحة: ( 548 )Surah hashr Ayat 19 meaning in urdu
اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے اُنہیں خود اپنا نفس بھلا دیا، یہی لوگ فاسق ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- جس نے خدا کے ساتھ اور معبود مقرر کر رکھے تھے۔ تو اس کو سخت
- اور بعض اہلِ کتاب ایسے بھی ہیں جو خدا پر اور اس (کتاب) پر جو
- اور اس عورت نے ان کا قصد کیا اور انہوں نے اس کا قصد کیا۔
- یا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی تھی تو یہ اس
- خدا (جو معبود برحق ہے اس) کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تو مومنوں
- اور ہم جو پیغمبروں کو بھیجا کرتے ہیں تو صرف اس لئے کہ (لوگوں کو
- اور ہم نے کوئی بستی ہلاک نہیں کی۔ مگر اس کا وقت مرقوم ومعین تھا
- وہ اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا ہوا ہے
- تو ایسے نمازیوں کی خرابی ہے
- عرش کا مالک بڑی شان والا
Quran surahs in English :
Download surah hashr with the voice of the most famous Quran reciters :
surah hashr mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter hashr Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers