Surah baqarah Ayat 191 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 191 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah baqarah ayat 191 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّىٰ يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ﴾
[ البقرة: 191]

Ayat With Urdu Translation

اور ان کو جہاں پاؤ قتل کردو اور جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے (یعنی مکے سے) وہاں سے تم بھی ان کو نکال دو۔ اور (دین سے گمراہ کرنے کا) فساد قتل وخونریزی سے کہیں بڑھ کر ہے اور جب تک وہ تم سے مسجد محترم (یعنی خانہ کعبہ) کے پاس نہ لڑیں تم بھی وہاں ان سے نہ لڑنا۔ ہاں اگر وہ تم سے لڑیں تو تم ان کو قتل کرڈالو۔ کافروں کی یہی سزا ہے

Surah baqarah Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) مکہ میں مسلمان چوں کہ کمزور اور منتشر تھے، اس لئے کفار سے قتال ممنوع تھا، ہجرت کے بعد مسلمانوں کی ساری قوت مدینہ میں مجتمع ہوگئی تو پھر ان کو جہاد کی اجازت دے دی گئی۔ ابتداء میں آپ صرف ان ہی سے لڑتے جو مسلمانوں سے لڑنے میں پہل کرتے، اس کے بعد اس میں مزید توسیع کردی گئی اور مسلمانوں نے حسب ضرورت کفار کے علاقوں میں بھی جا کر جہاد کیا۔ قرآن کریم نے«اعْتِدَاءٌ» ( زیادتی کرنے ) سے منع فرمایا، اس لئے نبی کریم ( صلى الله عليه وسلم ) نے اپنے لشکر کو تاکید فرماتے کہ خیانت، بدعہدی اور مثلہ نہ کرنا، نہ بچوں، عورتوں اور گرجوں میں مصروف عبادت درویشوں کو قتل کرنا۔ اسی طرح درختوں کے جلانے اور حیوانات کو بغیر کسی مصلحت کے مارنے سے بھی منع فرماتے ( ابن کثیر۔ بحوالہ صحیح مسلم وغیرہ ) «حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ» ( جہاں بھی پاؤ ) کا مطلب ہے ” تَمَكَّنْتُمْ مِنْ قِتَالِهِم “ ان کو قتل کرنے کی قدرت تمہیں حاصل ہوجائے ( ایسرالتفاسیر ) «مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ» یعنی جس طرح کفار نے تمہیں مکہ سے نکالا تھا، اسی طرح تم بھی ان کو مکہ سے نکال باہر کرو۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد جو لوگ مسلمان نہیں ہوئے انہیں مدت معاہدہ ختم ہونے کے بعد وہاں سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا۔ فتنہ سے مراد، کفر وشرک ہے۔ یہ قتل سے بھی زیادہ سخت ہے، اس لئے اس کو ختم کرنے کے لئے جہاد سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
( 2 ) حدود حرم میں قتال منع ہے، لیکن اگر کفار اس کی حرمت کو ملحوظ نہ رکھیں اور تم سے لڑیں تو تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


حکم جہاد اور شرائط حضرت ابو العالیہ ؒ فرماتے ہیں کہ مدینہ شریف میں جہاد کا پہلا حکم یہی نازل ہوا ہے، حضور ﷺ اس آیت کے حکم کی رو سے صرف ان لوگوں سے ہی لڑتے تھے جو آپ سے لڑیں جو آپ سے نہ لڑیں خود ان سے لڑائی نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ سورة برأت نازل ہوئی، بلکہ عبدالرحمن بن زید بن سلام ؒ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ ہے اور ناسخ آیت ( فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ )التوبة:5) ہے یعنی جہاں کہیں مشرکین کو پاؤ انہیں قتل کرو، لیکن اس بارے میں اختلاف ہے اس لئے کہ اس سے تو مسلمانوں کو رغبت دلانا اور انہیں آمادہ کرنا ہے کہ اپنے ایسے دشمنوں سے کیوں جہاد نہ کروں جو تمہارے اور تمہارے دین کے کھلے دشمن ہیں، جیسے وہ تم سے لڑتے ہیں تم بھی ان سے لڑو جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَاۗفَّةً ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ )التوبة:36) یعنی مل جل کر مشرکوں سے جہاد کرو جس طرح وہ تم سے سب کے سب مل کر لڑائی کرتے ہیں چناچہ اس آیت میں بھی فرمایا انہیں قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں وہاں سے نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے مطلب یہ ہے کہ جس طرح ان کا قصد تمہارے قتل کا اور تمہیں جلا وطن کرنے کا ہے تمہارا بھی اس کے بدلے میں یہی قصد رہنا چاہئے۔ پھر فرمایا تجاوز کرنے والے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا، یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرو ناک کان وغیرہ نہ کاٹو، خیانت اور چوری نہ کرو، عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کرو، ان بوڑھے بڑے لوگوں کو بھی نہ مارو جو نہ لڑنے کے لائق ہیں نہ لڑائی میں دخل دیتے ہیں درویشوں اور تارک دنیا لوگوں کو بھی قتل نہ کرو بلکہ بلا مصلحت جنگی نہ درخت کاٹو نہ حیوانوں کو ضائع کرو، حضرت ابن عباس ؓ حضرت عمر بن عبدالعزیز حضرت مقاتل بن حیان وغیرہ نے اس آیت کی تفسیر میں یہی فرمایا ہے، صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ ﷺ مجاہدین کو فرمان دیا کرتے تھے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرو خیانت نہ کرو، بدعہدی سے بچو، ناک کان وگیرہ اعضاء نہ کاٹو، بچوں کو اور زاہد لوگوں کو جو عبادت خانوں میں پڑے رہتے ہیں قتل نہ کرو۔ مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے اللہ کا نام لے کر نکلو اللہ کی راہ میں جہاد کرو کفار سے لڑو ظلم و زیادتی نہ کرو دھوکہ بازی نہ کرو۔ دشمن کے اعضاء بدن نہ کاٹو درویشوں کو قتل نہ کرو، بخاری ومسلم میں ہے کہ ایک مرتبہ ایک غزوے میں ایک عورت قتل کی ہوئی پائی گئی حضور ﷺ نے اسے بہت برا مانا اور عورتوں اور بچوں کے قتل کو منع فرما دیا، مسند احمد میں ہے کہ حضور ﷺ نے ایک، تین، پانچ، سات، نو، گیارہ مثالیں دیں ایک تو ظاہر کردی باقی چھوڑ دیں فرمایا کہ کچھ لوگ کمزور اور مسکین تھے کہ ان پر زور آور مالدار دشمن چڑھ آیا اللہ تعالیٰ نے ضعیفوں کی مدد کی اور ان طاقتوروں پر انہیں غالب کردیا اب ان لوگوں نے ان پر ظلم و زیادتی شروع کردی جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے ان ضعیفوں کی مدد کی اور ان طاقتوروں پر انہیں غالب کردیا اب ان لوگوں نے ان پر ظلم و زیادتی شروع کردی جس کے باعث اللہ تعالیٰ ان پر قیامت تک کے لئے ناراض ہوگیا۔ یہ حدیث اسناداً صحیح ہے، مطلب یہ ہے کہ جب یہ کمزور قوم غالب آگئی تو انہوں نے ظلم و زیادتی شروع کردی فرمان باری تعالیٰ کا کوئی لحاظ نہ کیا اس کے باعث پروردگار عالم ان سے ناراض ہوگیا، اس بارے میں احادیث اور آثار بکثرت ہیں جن سے صاف ظاہر ہے کہ ظلم و زیادتی اللہ کو ناپسند ہے اور ایسے لوگوں سے اللہ ناخوش رہتا ہے، چونکہ جہاد کے احکام میں بظاہر قتل وخون ہوتا ہے اس لئے یہ بھی فرما دیا کہ ادھر اگر قتل وخون ہے تو ادھر اللہ کے ساتھ کفر و شرک ہے اور اس مالک کی راہ سے اس کی مخلوق کو روکنا ہے اور یہ فتنہ قتل سے بہت زیادہ سخت ہے، ابو مالک فرماتے ہیں تمہاری یہ خطا کاریاں اور بدکاریاں قتل سے زیادہ زبوں تر ہیں۔ پھر فرمان جاری ہوتا ہے کہ بیت اللہ میں ان سے لڑائی نہ کرو جیسے بخاری ومسلم میں ہے کہ یہ شہر حرمت والا ہے آسمان و زمین کی پیدائش کے زمانے سے لے کر قیامت تک باحرمت ہی ہے صرف تھوڑے سے وقت کے لئے اللہ تعالیٰ نے میرے لئے اسے حلال کردیا تھا لیکن وہ آج اس وقت بھی حرمت والا ہے اور قیامت تک اس کا یہ احترام اور بزرگی باقی رہے گی اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور اس کے کانٹے نہ اکھیڑے جائیں اگر کوئی شخص اس میں لڑائی کو جائز کہے اور میری جنگ کو دلیل میں لائے تو تم کہہ دینا اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے رسول ﷺ کو تھوڑے سے وقت کے لیے اجازت دی تھی لیکن تمہیں کوئی اجازت نہیں۔ آپ کے اس فرمان سے مراد فتح مکہ کا دن ہے جس دن آپ نے مکہ والوں سے جہاد کیا تھا اور مکہ کو فتح کیا تھا چند مشرکین بھی مارے گئے تھے۔ گو بعض علماء کرام یہ بھی فرماتے ہیں کہ مکہ صلح سے فتح ہوا حضور ﷺ نے صاف ارشاد فرما دیا تھا کہ جو شخص اپنا دروازہ بند کرلے وہ امن میں ہے جو مسجد میں چلا جائے امن میں ہے جو ابو سفیان کے گھر میں چلا جائے وہ بھی امن ہے۔ پھر فرمایا کہ ہاں اگر وہ تم سے یہاں لڑائی شروع کردیں تو تمہیں اجازت ہے کہ تم بھی یہیں ان سے لڑو تاکہ یہ ظلم دفع ہو سکے، چناچہ آنحضرت ﷺ نے حدیبیہ والے دن اپنے اصحاب سے لڑائی کی بیعت لی جب قریشیوں نے اپنے ساتھیوں سے مل کر یورش کی تھی تب آپ ﷺ نے درخت تلے اپنے اصحاب سے بیعت لی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس لڑائی کو دفع کردیا چناچہ اس نعمت کا بیان اس آیت میں ہے کہ وہ آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ) 48۔ الفتح:24) پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر یہ کفار حرم میں لڑائی بند کردیں اور اس سے باز آجائیں اور اسلام قبول کرلیں تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف فرما دے گا گو انہوں نے مسلمانوں کو حرم میں قتل کیا ہو باری تعالیٰ ایسے بڑے گناہ کو بھی معاف فرما دے گا۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ ان مشرکین سے جہاد جاری رکھو تاکہ یہ شرک کا فتنہ مٹ جائے اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب اور بلند ہوجائے اور تمام دین پر ظاہر ہوجائے، جیسے بخاری ومسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص اپنی بہادری جتانے کے لئے لڑتا ہے ایک شخص حمیت و غیرت قومی سے لڑتا ہے، ایک شخص ریاکاری اور دکھاوے کے طور پر لڑتا ہے تو فرمائیے کہ ان میں سے کون شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا وہی ہے جو صرف اس کے لئے لڑے کہ اللہ تعالیٰ کی بات بلند ہو اس کے دین کا بول بالا ہو، بخاری ومسلم کی ایک اور حدیث میں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں ان کی جان ومال کا تحفظ میرے ذمہ ہوگا مگر اسلامی احکام اور ان کے باطنی حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ پھر فرمایا کہ اگر یہ کفار شرک و کفر سے اور تمہیں قتل کرنے سے باز آجائیں تو تم بھی ان سے رک جاؤ اس کے بعد جو قتال کرے گا وہ ظالم ہوگا اور ظالموں کو ظلم کا بدلہ دینا ضروری ہے یہی معنی ہیں۔ حضرت مجاہد کے اس قول کے کہ جو لڑیں ان سے ہی لڑا جائے، یا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ان حرکات سے رک جائیں تو وہ ظلم یعنی شرک سے ہٹ گئے پھر کوئی وجہ نہیں کہ ان سے جنگ وجدال ہو، یہاں لفظ عدوان جو کہ زیاتی کے معنی میں ہے وہ زیادتی کے مقابلہ میں زیادتی کے بدلے کے لئے ہے حقیقتا وہ زیادتی نہیں جیسے فرمایا آیت ( فمن اعتدی علیکم فاعتدو علیہ بمثل ما اعتدی علیکم ) یعنی تم پر جو زیادتی کرے تم بھی اس پر اس جیسی زیادتی کرلو اور جگہ ہے آیت ( جَزَاۗءُ سَـيِّئَةٍۢ بِمِثْلِهَا ۙ وَتَرْهَقُھُمْ ذِلَّةٌ ) 10۔ يونس:27) یعنی برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جگہ فرمان ہے آیت ( وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ ) 16۔ النحل:126) یعنی اگر تم سزا اور عذاب کرو تو اسی مثل سزا کرو جو تم کئے گئے ہو، پاس ان تینوں جگہوں میں زیادتی برائی اور سزا " بدلے " کے طور پر کہا گیا ہے ورنہ فی الواقع وہ زیادتی برائی اور سزا و عذاب نہیں، حضرت عکرمہ اور حضرت قتادہ کا فرمان ہے اصلی ظالم وہی ہے جو لا الہ الا اللہ کو تسلیم کرنے سے انکار کرے، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو گھیر کر کہا کہ لوگ تو مر کٹ رہے ہیں آپ حضرت عمر ؓ کے صاحبزادے ہیں رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں کیوں اس لڑائی میں شامل نہیں ہوتے ؟ آپ ؓ نے فرمایا سنو اللہ تعالیٰ نے مسلمان بھائی کا خون حرام کردیا ہے، انہوں نے کہا کیا جناب باری کا یہ فرمان نہیں کہ ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے آپ نے جواب دیا کہ ہم تو لڑتے رہے یہاں تک کہ فتنہ دب گیا اور اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین غالب آگیا لیکن اب تم چاہتے ہو کہ تم لڑو تاکہ فتنہ پیدا ہو اور دوسرے مذاہب ابھر آئیں۔ ایک اور روایت میں ہے کہ کسی نے آپ سے پوچھا کہ اے ابو عبدالرحمن آپ نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا کیوں چھوڑ رکھا ہے اور یہ کیا اختیار کر رکھا ہے کہ حج پر حج کر رہے ہو ہر دوسرے سال حج کو جایا کرتے ہو حالانکہ جہاد کے فضائل آپ سے مخفی نہیں آپ نے فرمایا بھتیجے سنو ! اسلام کی بنائیں پانچ ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، پانچوں وقتوں کی نماز ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا، زکوٰۃ دینا، بیت اللہ شریف کا حج کرنا، اس نے کہا کیا قرآن پاک کا یہ حکم آپ نے نہیں سنا کہ ایمان والوں کی دو جماعتیں اگر آپس میں جھگڑیں تو تم ان میں صلح کرا دو اگر پھر بھی ایک گروہ دوسرے پر بغاوت کرے تو باغی گروہ سے لڑو یہاں تک کہ وہ پھر سے اللہ کا فرمانبردار بن جائے، اور جگہ ارشاد ہے ان سے لڑو تاوقتیکہ فتنہ مٹ جائے آپ نے فرمایا ہم نے حضور ﷺ کے زمانہ میں اس کی تعمیل کرلی جبکہ اسلام کمزور تھا اور مسلمان تھوڑے تھے جو اسلام قبول کرتا تھا اس پر فتنہ آپڑتا تھا یا تو قتل کردیا جاتا یا سخت عذاب میں پھنس جاتا یہاں تک کہ یہ پاک دین پھیل گیا اور اس کے حلقہ بگوش بہ کثرت ہوگئے اور فتنہ برباد ہوگیا اس نے کہا اچھا تو پھر فرمائیے کہ حضرت علی اور حضرت عثمان ؓ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے فرمایا عثمان ؓ کو تو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا گو تم اس معافی سے برا مناؤ اور علی تو رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی اور آپ کے داماد تھے اور یہ دیکھو ان کا مکان یہ رہا جو تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 191 وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْہُمْ وَاَخْرِجُوْہُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْکُمْ مہاجرین مکہ مکرمہ سے نکالے گئے تھے ‘ وہاں پرٌ محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھی اہل ایمان پر قافیہ حیات تنگ کردیا گیا تھا۔ تبھی تو آپ ﷺ نے ہجرت کی۔ اب حکم دیا جا رہا ہے کہ نکالو انہیں وہاں سے جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے۔ وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ج ۔ کفار و مشرکین سے قتال کے ضمن میں کہیں یہ خیال نہ آئے کہ قتل اور خونریزی بری بات ہے۔ یاد رکھو کہ فتنہ اس سے بھی زیادہ بری بات ہے۔ فتنہ کیا ہے ؟ ایسے حالات جن میں انسان خدائے واحد کی بندگی نہ کرسکے ‘ اسے غلط کاموں پر مجبور کیا جائے ‘ وہ حرام خوری پر مجبور ہوگیا ہو ‘ یہ سارے حالات فتنہ ہیں۔ تو واضح رہے کہ قتل اور خونریزی اتنی بری شے نہیں ہے جتنی فتنہ ہے۔ وَلاَ تُقٰتِلُوْہُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوْکُمْ فِیْہِ ج فَاِنْ قٰتَلُوْکُمْ فَاقْتُلُوْہُمْ ط پھر اگر وہ تم سے جنگ کریں تو ان کو قتل کرو۔

واقتلوهم حيث ثقفتموهم وأخرجوهم من حيث أخرجوكم والفتنة أشد من القتل ولا تقاتلوهم عند المسجد الحرام حتى يقاتلوكم فيه فإن قاتلوكم فاقتلوهم كذلك جزاء الكافرين

سورة: البقرة - آية: ( 191 )  - جزء: ( 2 )  -  صفحة: ( 30 )

Surah baqarah Ayat 191 meaning in urdu

ان سے لڑو جہاں بھی تمہارا اُن سے مقابلہ پیش آئے اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے، اس لیے کہ قتل اگرچہ برا ہے، مگر فتنہ اس سے بھی زیادہ برا ہے اور مسجد حرام کے قریب جب تک وہ تم سے نہ لڑیں، تم بھی نہ لڑو، مگر جب وہ وہاں لڑنے سے نہ چُوکیں، تو تم بھی بے تکلف انہیں مارو کہ ایسے کافروں کی یہی سزا ہے


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. یہی ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول خدا کے پاس (رہتے) ہیں ان
  2. تو انہوں نے دعا کی کہ اے پروردگار ہماری مسافتوں میں بُعد (اور طول پیدا)
  3. ان سے پہلے نوحؑ کی قوم نے بھی تکذیب کی تھی تو انہوں نے ہمارے
  4. اے مومنو! شیطان کے قدموں پر نہ چلنا۔ اور جو شخص شیطان کے قدموں پر
  5. (خدا نے) فرمایا (تم سب بہشت سے) اتر جاؤ (اب سے) تم ایک دوسرے کے
  6. کوئی متنفس نہیں جانتا کہ اُن کے لئے کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی
  7. اس نے کہا کہ میں نے ایسی چیز دیکھی جو اوروں نے نہیں دیکھی تو
  8. پھر باوجود اس کے کہ وہ لوگ نشان دیکھ چکے تھے ان کی رائے یہی
  9. پھر یہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی
  10. تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لیے حلال ہیں (ان

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :

surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
surah baqarah Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah baqarah Bandar Balila
Bandar Balila
surah baqarah Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah baqarah Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah baqarah Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah baqarah Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah baqarah Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah baqarah Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah baqarah Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah baqarah Fares Abbad
Fares Abbad
surah baqarah Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah baqarah Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah baqarah Al Hosary
Al Hosary
surah baqarah Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah baqarah Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Friday, May 10, 2024

لا تنسنا من دعوة صالحة بظهر الغيب