Surah baqarah Ayat 2 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 2 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah baqarah ayat 2 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ﴾
[ البقرة: 2]

Ayat With Urdu Translation

یہ کتاب (قرآن مجید) اس میں کچھ شک نہیں (کہ کلامِ خدا ہے۔ خدا سے) ڈرنے والوں کی رہنما ہے

Surah baqarah Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) اس کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے: «تَنزِيلُ ٱلۡكِتَٰبِ لَا رَيۡبَ فِيهِ مِن رَّبِّ ٱلۡعَٰلَمِينَ» ( السجدة: 2 ) بعض علما نے کہا ہے کہ یہ خبر بمعنی نہی ہے۔ أَيْ :لا تَرْتَابُوا فِيهِ ( اس میں شک نہ کرو )۔ علاوہ ازیں اس میں جو واقعات بیان کئے گئے ہیں، ان کی صداقت میں، جو احکام ومسائل بیان کئے گئے ہیں، ان سے انسانیت کی فلاح ونجات وابستہ ہونے میں اور جو عقائد ( توحید ورسالت اور معاد کے بارے میں ) بیان کئے گئے ہیں، ان کے برحق ہونے میں کوئی شک نہیں۔
( 2 ) ویسے تو یہ کتاب الٰہی تمام انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے نازل ہوئی ہے، لیکن اس چشمۂ فیض سے سیراب صرف وہی لوگ ہوں گے، جو آب حیات کے متلاشی اور خوف الٰہی سے سرشار ہوں گے۔ جن کے دل میں مرنے کے بعد اللہ کی بارگاہ میں کھڑے ہوکر جواب دہی کا احساس اور اس کی فکر ہی نہیں، جن کے اندر ہدایت کی طلب، یا گمراہی سے بچنے کا جذبہ ہی نہیں ہوگا تو انھیں ہدایت کہاں سے اور کیوں کر حاصل ہوسکتی ہے؟

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


تحقیقات کتاب حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہاں ذالک معنی میں " ھذا " کے ہیں۔ مجاہد، عکرمہ، سعید، جیبہ سدی، مقاتل بن حباب، زید بن اسلم اور ابن جریج کا بھی یہی قول ہے۔ یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کے قائم مقام عربی زبان میں اکثر آتے رہتے ہیں۔ حضرت امام بخاری ؒ نے ابو عبیدہ سے بھی یہی نقل کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ذالک اصل میں ہے تو دور کے اشارے کے لئے جس کے معنی ہیں " وہ " لیکن کبھی نزدیک کے لئے بھی لاتے ہیں اس وقت اس کے معنی ہوتے ہیں " یہ " یہاں بھی اس معنی میں ہے۔ زمخشری کہتے ہیں اس سے اشارہ الم کی طرف ہے۔ جیسے اس آیت میں ہے آیت ( قَالَ اِنَّهٗ يَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَّلَا بِكْرٌ ۭ عَوَانٌۢ بَيْنَ ذٰلِكَ ۭ فَافْعَلُوْا مَا تُـؤْمَرُوْنَ ) 2۔ البقرۃ :68) یعنی نہ تو وہ گائے بڑھیا ہے نہ بچہ ہے بلکہ اس کے درمیانی عمر کی جوان ہے۔ دوسری جگہ فرمایا آیت ( ذٰلِكُمْ حُكْمُ اللّٰهِ ۭ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ ) 60۔ الممتحنة:10) یہ ہی ہے اللہ کا حکم جو تمہارے درمیان حکم کرتا ہے۔ اور جگہ فرمایا آیت ( ذالکھم اللہ ) یہ ہی ہے اللہ تعالیٰ اور اس کی مثال اور مواقع پہلے گزر چکے۔ واللہ اعلم۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ اشارہ قرآن کریم کی طرف ہے جس کے اتارنے کا وعدہ رسول اللہ ﷺ سے ہوا تھا۔ بعض نے توراۃ کی طرف کسی نے انجیل کی طرف بھی اشارہ بتایا ہے اور اسی طرح کے دس قول ہیں لیکن ان کو اکثر مفسرین نے ضعیف کہا ہے۔ واللہ اعلم۔ کتاب سے مراد قرآن کریم ہے جن لوگوں نے کہا ہے کہ آیت ( ذلک الکتاب ) کا اشارہ توراۃ اور انجیل کی طرف ہے انہوں نے انتہائی بھول بھلیوں کا راستہ اختیار کیا، بڑی تکلیف اٹھائی اور خواہ مخواہ بلا وجہ وہ بات کہی جس کا انہیں علم نہیں۔ ریب کے معنی ہیں شک و شبہ۔ حضرت ابن عباس، حضرت ابن مسعود اور کئی ایک صحابہ سے یہی معنی مروی ہیں۔ ابو درداء، ابن عباس، مجاہد، سعید بن جبیر، ابو مالک نافع جو ابن عمر کے مولا ہیں، عطا، ابو العالیہ، ربیع بن انس، مقاتل بن حیان، سدی، قتادہ، اسماعیل بن ابو خالد سے بھی یہی مروی ہے۔ ابن ابی حاتم فرماتے ہیں مفسرین میں اس میں اختلاف نہیں۔ ریب کا لفظ عرب شاعروں کے شعروں میں تہمت کے معنی میں بھی آیا ہے اور حاجت کے معنی میں بھی اس کا استعمال ہوا ہے۔ اس جملہ کے معنی یہ ہوئے کہ اس قرآن کو اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کچھ شک نہیں۔ جیسے سورة سجدہ میں ہے۔ آیت ( الۗمّۗ ۚ تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۭ ) 32۔ السجدة:2۔۔ 1) یعنی بیشک یہ قرآن کریم تمام جہانوں کے پالنے والے اللہ کی طرف سے ہے یعنی اس میں شک نہ کرو بعض قاری لا ریب پر وقف کرتے ہیں اور آیت ( فیہ ھدی للمتقین ) کو الگ جملہ پڑھتے ہیں۔ لیکن آیت ( لاریب فیہ ) پر ٹھہرنا بہت بہتر ہے کیونکہ یہی مضمون اسی طرح سورة سجدہ کی آیت میں موجود ہے اور اس میں بہ نسبت فیہ ھدی کے زیادہ مبالغہ ہے۔ ھدی نحوی اعتبار سے صفت ہو کر مرفوع ہوسکتا ہے اور حال کی بنا پر منصوب بھی ہوسکتا ہے۔ اس جگہ ہدایت کو متقیوں کے ساتھ مخصوص کیا گیا جیسے دوسری جگہ فرمایا آیت ( قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَاۗءٌ ۭ وَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ فِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرٌ وَّهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ۭ اُولٰۗىِٕكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ ) 41۔ فصلت :44) یعنی یہ قرآن ہدایت اور شفا ہے ایمان والوں کے لئے اور بےایمانوں کے کان بوجھل ہیں اور آنکھیں اندھی ہیں یہ بہت دور سے پکارتے ہیں اور فرمایا آیت ( وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ) 17۔ الإسراء:82) یعنی یہ قرآن ایمان داروں کے لئے شفا اور رحمت ہے اور ظالم لوگ تو اپنے خسارے میں ہی بڑھتے جاتے ہیں۔ اسی مضمون کی اور آیتیں بھی ہیں ان سب کا مطلب یہ ہے کہ گو قرآن کریم خود ہدایت اور محض ہدایت ہے اور سب کے لیے ہے لیکن اس ہدایت سے نفع اٹھانے والے صرف نیک بخت لوگ ہیں۔ جیسے فرمایا آیت ( يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ ڏ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ) 10۔ يونس:57) تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی نصیحت اور سینے کی بیماریوں کی شفاء آچکی جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے اور ابن عباس ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ سے مروی ہے کہ ہدایت سے مراد نور ہے ابن عباس فرماتے ہیں۔ متقین کی تعریف ٭٭ متقی وہ ہیں جو ایمان لا کر شرک سے دور رہ کر اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لائیں۔ ایک اور روایت میں ہے متقی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عذابوں سے ڈر کر ہدایت کو نہیں چھوڑتے اور اس کی رحمت کی امید رکھ کر اس کی طرف سے جو نازل ہوا اسے سچا جانتے ہیں۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں " متقی وہ ہے جو حرام سے بچے اور فرائض بجا لائے۔ " حضرت اعمش حضرت ابوبکر بن عیاش سے سوال کرتے ہیں۔ " متقی کون ہے ؟ " آپ یہی جواب دیتے ہیں پھر میں نے کہا " ذرا حضرت کلبی سے بھی تو دریافت کرلو ! " وہ کہتے ہیں متقی وہ ہیں جو کبیرہ گناہوں سے بچیں۔ اس پر دونوں کا اتفاق ہوتا ہے۔ قتادہ فرماتے ہیں متقی وہ ہے جس کا وصف اللہ تعالیٰ نے خود اس آیت کے بعد بیان فرمایا کہ آیت ( الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ ) 2۔ البقرۃ :3) امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ یہ سب اوصاف متقیوں میں جمع ہوتے ہیں۔ ترمذی اور ابن ماجہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں بندہ حقیقی متقی نہیں ہوسکتا جب تک کہ ان چیزوں کو نہ چھوڑ دے جن میں حرج نہیں اس خوف سے کہ کہیں وہ حرج میں گرفتار نہ ہوجائے۔ امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں ابن ابی حاتم میں ہے۔ حضرت معاذ ؓ فرماتے ہیں جبکہ لوگ ایک میدان میں قیامت کے دن روک لئے جائیں گے، اس وقت ایک پکارنے والا پکارے گا کہ متقی کہاں ہیں ؟ اس آواز پر وہ کھڑے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے بازو میں لے لے گا اور بےحجاب انہیں اپنے دیدار سے مشرف فرمائے گا۔ ابو عفیف نے پوچھا حضرت متقی کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا جو لوگ شرک اور بت پرستی سے بچیں اور اللہ کی خالص عبادت کریں وہ اسی عزت کے ساتھ جنت میں پہنچائے جائیں گے۔ ہدایت کی وضاحت٭٭ ہدایت کے معنی کبھی تو دل میں ایمان پیوست ہوجانے کے آتے ہیں ایسی ہدایت پر تو سوائے اللہ جل و علا کی مہربانی کے کوئی قدرت نہیں رکھتا فرمان ہے آیت ( اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَهُوَ اَعْلَمُ بالْمُهْتَدِيْنَ ) 28۔ القصص:56) یعنی اے نبی جسے تو چاہے ہدایت نہیں دے سکتا۔ فرماتا ہے آیت ( لیس علیک ھدھم ) تجھ پر ان کی ہدایت لازم نہیں۔ فرماتا ہے آیت ( مَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِيَ لَهٗ )الأعراف:186) جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت پر لانے والا نہیں۔ فرمایا آیت ( مَنْ يَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِيْ )الأعراف:178) یعنی جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت والا ہے اور جسے وہ گمراہ کرے تم ہرگز اس کا نہ کوئی ولی پاؤ گے نہ مرشد۔ اس قسم کی اور آیتیں بھی ہیں اور ہدایت کے معنی کبھی حق کے اور حق کو واضح کردینے کے اور حق پر دلالت کرنے اور حق کی طرف راہ دکھانے کے بھی آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَاِنَّكَ لَـــتَهْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ) 42۔ الشوری :52) یعنی تو یقینا سیدھی راہ کی رہبری کرتا ہے۔ اور فرمایا آیت ( اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ) 13۔ الرعد:7) یعنی تو صرف ڈرانے والا ہے اور ہر قوم کے لیے کوئی ہادی ہے۔ اور جگہ فرمان ہے آیت ( وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَيْنٰهُمْ ) 41۔ فصلت :17) یعنی ہم نے ثمودیوں کو ہدایت دکھائی لیکن انہوں نے اندھے پن کو ہدایت پر ترجیح دے کر۔ فرماتا ہے آیت ( وَهَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِ ) 90۔ البلد:10) ہم نے اسے دونوں راہیں دکھائیں یعنی بھلائی اور برائی کی۔ تقویٰ کے اصلی معنی بری چیزوں سے بچنے کے ہیں۔ اصل میں یہ " وقوی " ہے وقایت سے ماخوذ ہے نابغہ وغیرہ کے اشعار میں بھی آیا ہے۔ حضرت ابی بن کعب سے حضرت عمر بن خطاب نے پوچھا کہ تقویٰ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کبھی کانٹے دار راستے میں چلے ہو ؟ جیسے وہاں کپڑوں کو اور جسم کو بچاتے ہو ایسے ہی گناہوں سے بال بال بچنے کا نام تقویٰ ہے۔ ابن معتز شاعر کا قول ہے۔ خل الذنوب صغیرھا وکبیرھا ذاک التقی واصنع کماش فوق ارض الشوک یحدذر مایری لا تحقرن صغیرۃ ان الجبال من الحصی یعنی چھوٹے اور بڑے اور سب گناہوں کو چھوڑ دو یہی تقویٰ ہے۔ ایسے رہو جیسے کانٹوں والی راہ پر چلنے والا انسان۔ چھوٹے گناہ کو بھی ہلکا نہ جانو۔ دیکھو پہاڑ کنکروں سے ہی بن جاتے ہیں۔ ابو درداء اپنے اشعار میں فرماتے ہیں انسان اپنی تمناؤں کا پورا ہونا چاہتا ہے اور اللہ کے ارادوں پر نگاہ نہیں رکھتا حالانکہ ہوتا وہی ہے جو اللہ کا ارادہ ہو۔ وہ اپنے دینوی فائدے اور مال کے پیچھے پڑا ہوا ہے حالانکہ اس کا بہترین فائدہ اور عمدہ مال اللہ سے تقویٰ ہے۔ ابن ماجہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں سب سے عمدہ فائدہ جو انسان حاصل کرسکتا ہے وہ اللہ کا ڈر ہے۔ اس کے بعد نیک بیوی ہے کہ خاوند جب اس کی طرف دیکھے وہ اسے خوش کر دے اور جو حکم دے اسے بجا لائے اور اگر قسم دے دے تو پوری کر دکھائے اور جب وہ موجود نہ ہو تو اس کے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ یا ” یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ “آیت کے اس ٹکڑے کے دو ترجمے ہوسکتے ہیں۔ پہلے ترجمے کی رو سے یہ ہے وہ کتاب موعود جس کی خبر دی گئی تھی کہ نبی آخر الزماں آئیں گے اور ان کو ہم ایک کتاب دیں گے۔ یہ گویا حوالہ ہے محمد رسول اللہ کے بارے میں پیشین گوئیوں کی طرف کہ جو تورات میں موجود تھیں۔ آج بھی ” کتاب مقدس “ کی کتاب استثناء Deuteronomy کے اٹھارہویں باب کی اٹھارہویں آیت کے اندر یہ الفاظ موجود ہیں کہ : ” میں ان بنی اسرائیل کے لیے ان کے بھائیوں بنی اسماعیل میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا “۔ تو یہ بائبل میں حضرت محمد کی پیشین گوئیاں تھیں۔ آگے چل کر سورة الأعراف میں ہم اسے تفصیل سے پڑھ بھی لیں گے۔ یہاں اس بات کی طرف اشارہ ہو رہا ہے کہ یہی وہ کتاب موعود ہے کہ جو نازل کردی گئی ہے محمد رسول اللہ پر۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں ہر شے اپنی جگہ پر یقینی ہے ‘ حتمی ہے ‘ اٹل ہے ‘ اور یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جو یہ دعویٰ لے کر اٹھی ہے کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ جو کتابیں آسمانی کہلائی جاتی ہیں ان کے اندر بھی یہ دعویٰ کہیں موجود نہیں ہے ‘ انسانی کتابوں میں تو اس کا سوال ہی نہیں ہے۔ علامہ اقبال جیسے نابغہ عصر فلسفی بھی اپنے لیکچرز کی تمہید میں لکھتے ہیں کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ جو کچھ میں نے کہا ہے وہ سب صحیح ہے ‘ ہوسکتا ہے جیسے جیسے علم آگے بڑھے مزید نئی باتیں سامنے آئیں۔ لیکن قرآن کا دعویٰ ہے کہ لَا رَیْبَ فِیْہِ ” اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے “۔ پہلے ترجمہ کی رو سے ” ذٰلِکَ الْکِتٰبُ “ ایک جملہ مکمل ہوگیا اور ” لَا رَیْبَ فِیْہِ “ دوسرا جملہ ہے۔ جبکہ دوسرے ترجمہ کی رو سے ” ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ “ مکمل جملہ ہے۔ یعنی ” یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ “ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ” یعنی ان لوگوں کے لیے جو بچنا چاہیں۔ تقویٰ کا لفظی معنی ہے بچنا۔ ”وَقٰی۔ یَقِی “ کا مفہوم ہے ” کسی کو بچانا “ جبکہ تقویٰ کا معنی ہے خود بچنا۔ یعنی کج روی سے بچنا ‘ غلط روی سے بچنا اور افراط وتفریط کے دھکوں سے بچنا۔ جن لوگوں کے اندر فطرت سلیمہ ہوتی ہے ان کے اندر یہ اخلاقی حس موجود ہوتی ہے کہ وہ بھلائی کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ہر بری چیز سے بچنا چاہتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو قرآن مجید کے اصل مخاطبین ہیں۔ گویا جس کے اندر بھی بچنے کی خواہش ہے اس کے لیے یہ کتاب ہدایت ہے۔ سورة الفاتحہ میں ہماری فطرت کی ترجمانی کی گئی تھی اور ہم سے یہ کہلوایا گیا تھا : اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ” اے پروردگار ! ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت بخش “۔ آیت زیر مطالعہ گویا اس کا جواب ہے : ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَج فِیْہِج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ لو وہ کتاب موجود ہے کہ جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور یہ ان تمام لوگوں کے لیے ہدایت کے تقاضوں کے اعتبار سے کفایت کرتی ہے جن میں غلط روی سے بچنے کی خواہش موجود ہے۔وہ لوگ کون ہیں ؟ اب یہاں دیکھئے تاویل خاص کا معاملہ آجائے گا کہ اس وقت رسول اللہ کی تیرہ برس کی محنت کے نتیجہ میں مہاجرین و انصار کی ایک جماعت وجود میں آگئی تھی ‘ جس میں حضرات ابوبکر ‘ عمر ‘ عثمان ‘ علی ‘ طلحہ ‘ زبیر ‘ سعد بن عبادہ اور سعد ابن معاذ جیسے نفوس قدسیہ شامل تھے۔ تو گویا اشارہ کر کے دکھایا جا رہا ہے کہ دیکھو یہ وہ لوگ ہیں ‘ دیکھ لو ان میں کیا اوصاف ہیں۔

ذلك الكتاب لا ريب فيه هدى للمتقين

سورة: البقرة - آية: ( 2 )  - جزء: ( 1 )  -  صفحة: ( 2 )

Surah baqarah Ayat 2 meaning in urdu

یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہدایت ہے اُن پرہیز گار لوگوں کے لیے


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. کہنے لگا کہ موسیٰ تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ اپنے جادو (کے
  2. (اے پیغمبر) ہم اس قرآن کے ذریعے سے جو ہم نے تمہاری طرف بھیجا ہے
  3. اور اگر وہ تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں) ان کے پروردگار کی
  4. اگر ہم تم کو (وفات دے کر) اٹھا لیں تو ان لوگوں سے تو ہم
  5. یہ وہ چیزیں ہیں جن کا حساب کے دن کے لئے تم سے وعدہ کیا
  6. اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کئے کہ (لوگوں کو) اس کے رستے
  7. بولا کہ میں اس سے بہتر ہوں (کہ) تو نے مجھ کو کو آگ سے
  8. کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان خدا ہی گواہ کافی ہے جو چیز آسمانوں
  9. اور یہ کہ تمہارے پروردگار ہی کے پاس پہنچنا ہے
  10. (یہ بھی) کہہ دو کہ اگر خدا چاہتا تو (نہ تو) میں ہی یہ (کتاب)

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :

surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
surah baqarah Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah baqarah Bandar Balila
Bandar Balila
surah baqarah Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah baqarah Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah baqarah Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah baqarah Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah baqarah Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah baqarah Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah baqarah Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah baqarah Fares Abbad
Fares Abbad
surah baqarah Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah baqarah Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah baqarah Al Hosary
Al Hosary
surah baqarah Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah baqarah Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Friday, May 10, 2024

لا تنسنا من دعوة صالحة بظهر الغيب