Surah Ankabut Ayat 61 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ﴾
[ العنكبوت: 61]
اور اگر اُن سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا۔ اور سورج اور چاند کو کس نے (تمہارے) زیر فرمان کیا تو کہہ دیں گے خدا نے۔ تو پھر یہ کہاں اُلٹے جا رہے ہیں
Surah Ankabut Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی یہ مشرکین، جو مسلمانوں کو محض توحید کی وجہ سے ایذائیں پہنچا رہے ہیں، ان سے اگر پوچھا جائے کہ آسمان وزمین کو عدم سےوجود میں لانے والا اور سورج اور چاند کو اپنے اپنے مدار پر چلانے والا کون ہے؟ تو وہاں یہ اعتراف کیے بغیر انہیں چارہ نہیں ہوتا کہ یہ سب کچھ کرنے والا اللہ ہے۔
( 2 ) یعنی دلائل واعتراف کے باوجود حق سے یہ اعراض اور گریز باعث تعجب ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
توحید ربویت توحید الوہیت اللہ تعالیٰ ثابت کرتا ہے کہ معبود برحق صرف وہی ہے۔ خود مشرکین بھی اس بات کے قائل ہیں کہ آسمان و زمین کا پیدا کرنے والا سورج کو مسخر کرنے والا دن رات کو پے درپے لانے والا خالق رازق موت وحیات پر قادر صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ غنا کے لائق کون ہے اور فقر کے لائق کون ہے ؟ اپنے بندوں کی مصلحتیں اس کو پوری طرح معلوم ہیں۔ پس جبکہ مشرکین خود مانتے ہیں کہ تمام چیزوں کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے سب پر قابض صرف وہی ہے پھر اس کے سوا دوسروں کی عبادت کیوں کرتے ہیں ؟ اور اس کے سوا دوسروں پر توکل کیوں کرتے ہیں ؟ جبکہ ملک کا مالک وہ تنہا ہے تو عبادتوں کے لائق بھی وہ اکیلا ہے۔ توحید ربوبیت کو مان کر پھر توحید الوہیت سے انحراف عجیب چیز ہے قرآن کریم میں توحید ربوبیت کے ساتھ ہی توحید الوہیت کا ذکر بکثرت سے اس لئے ہے کہ توحید ربویت کے قائل مشرکین مکہ تو تھے ہی انہیں قائل معقول کرکے پھر توحید الوہیت کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔ مشرکین حج و عمرے میں لبیک پکارتے ہوئے بھی اللہ کے لاشریک ہونے کا اقرار کرتے تھے لبیک لاشریک لک الا شریکا ھو لک تملکہ وماملک یعنی یا اللہ ہم حاضر ہوئے تیرا کوئی شریک نہیں مگر ایسے شریک کہ جن کا مالک اور جن کے ملک کا مالک بھی تو ہی ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 60 وَکَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّۃٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَہَاز ” تمہارے رزق کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ خود ہے ‘ لہٰذا اس کے لیے تم اللہ پر توکلّ کرو اور اس کے سوا کسی اور کی طرف مت دیکھو۔ دنیا میں کبھی کسی کے بارے میں ایسا مت سوچو کہ وہ ناراض ہوگیا تو تمہاری ضروریات کا کیا بنے گا۔متی کی انجیل میں حضرت مسیح علیہ السلام کا جو وعظ پہاڑی کا وعظ نقل ہوا ہے اس میں یہ مضمون بڑے خوبصورت انداز میں بیان ہوا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام اپنے شاگردوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :”تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کرسکتے۔ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے ؟ اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے ؟ کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھ کر نہیں ؟ ہوا کے پرندوں کو دیکھو نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے۔ نہ کو ٹھیوں میں جمع کرتے ہیں تو بھی تمہارا آسمانی باپ ان کو کھلاتا ہے۔ کیا تم ان سے زیادہ قدر نہیں رکھتے ؟ تم میں ایسا کون ہے جو فکر کرکے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے ؟ اور پوشاک کے لیے کیوں فکر کرتے ہو ؟ جنگلی سو سن کے درختوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے نہ کا تتے ہیں۔ تو بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان و شوکت کے ان میں سے کسی کے مانند ملبسّ نہ تھا۔ پس جب خدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے کل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اے کم اعتقادو ‘ تم کو کیوں نہ پہنائے گا ؟ اس لیے فکر مند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے ؟ کیونکہ ان سب چیزوں کی تلاش میں غیر قومیں رہتی ہیں اور تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم ان سب چیزوں کے محتاج ہو۔ بلکہ تم پہلے اس کی بادشاہی اور اس کی راست بازی کو تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مل جائیں گی۔ پس کل کے لیے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دن اپنے لیے آپ فکر کرلے گا۔ آج کے لیے آج ہی کا دکھ کافی ہے۔ “ متی ‘ باب 6 : 25۔ 34 ‘ بحوالہ تدبر قرآن ‘ جلد پنجم ‘ ص 60اس ضمن میں یہ نکتہ ذہن نشین کرلیں کہ توکل اور ایمان ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کسی شخص کا اللہ پر ایمان جس قدر پختہ ہوگا ‘ اسی قدر اس کا اس پر توکل بھی مضبوط ہوگا اور اگر ایمان کمزور ہوگا تو پھر توکل بھی کمزور پڑجائے گا۔اَللّٰہُ یَرْزُقُہَا وَاِیَّاکُمْز وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ”وہ ہر حاجت مند کی التجا کو سنتا ہے ‘ اسے ہر ایک کی ضرورت کا علم ہے ‘ وہ اپنے ہر بندے کے حالات سے باخبر رہتا ہے ‘ کیا اسے خبر نہ ہوگی کہ میرا فلاں بندہ اس وقت بھوکا ہے ؟ کیا اسے معلوم نہ ہوگا کہ میرا فلاں وفادار تمام اسباب کو ٹھکرا کر مجھ پر توکلّ کیے بیٹھا ہے ؟ بلاشبہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس نے کس محتاج کی حاجت روائی کا کیا بندوبست کرنا ہے اور کس بندے کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کسے وسیلہ بنانا ہے۔ اب آئندہ آیات میں خطاب کا رخ پھر مشرکین مکہ کی طرف ہے۔
ولئن سألتهم من خلق السموات والأرض وسخر الشمس والقمر ليقولن الله فأنى يؤفكون
سورة: العنكبوت - آية: ( 61 ) - جزء: ( 21 ) - صفحة: ( 403 )Surah Ankabut Ayat 61 meaning in urdu
اگر تم اِن لوگوں سے پُوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے اور چاند اور سُورج کو کس نے مسخّر کر رکھا ہے تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، پھر یہ کدھر سے دھوکا کھا رہے ہیں؟
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- (یعنی) میوے اور ان کا اعزاز کیا جائے گا
- اور نفیس مسندیں بچھی ہوئی
- اور اس مدد کو خدا نے تمھارے لیے (ذریعہٴ) بشارت بنایا یعنی اس لیے کہ
- کیا خدا کی تو بیٹیاں اور تمہارے بیٹے
- مومنو! خدا کے نام کی چیزوں کی بےحرمتی نہ کرنا اور نہ ادب کے مہینے
- تو ان کو ان کے اعمال کے برے بدلے ملے اور جس چیز کے ساتھ
- مومنو! جب تم احرام کی حالت میں ہو تو شکار نہ مارنا اور جو تم
- ان کے پاس واپس جاؤ ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس
- اور اگر ہم چاہتے تو ان آیتوں سے اس (کے درجے) کو بلند کر دیتے
- اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پاسے (یہ سب) ناپاک کام اعمال
Quran surahs in English :
Download surah Ankabut with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Ankabut mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Ankabut Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers