Surah mulk Ayat 2 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ﴾
[ الملك: 2]
اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے۔ اور وہ زبردست (اور) بخشنے والا ہے
Surah mulk Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) روح ایک ایسی غیر مرئی چیز ہے جس بدن سے اس کا تعلق واتصال ہو جائے وہ زندہ کہلاتا ہے اور جس بدن سے اس کا تعلق منقطع ہو جائے وہ موت سے ہم کنار ہو جاتا ہے اس نے یہ عارضی زندگی کا سلسلہ، جس کے بعد موت ہے اس لیے قائم کیا ہے تاکہ وہ آزمائے کہ اس زندگی کا صحیح استعمال کون کرتا ہے؟جو اسے ایماء و اطاعت کے لیے استعمال کرے گا اس کے لیے بہترین جزاء ہے اور دوسروں کے لیے عذاب۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
بہتر عمل کی آزمائش کا نام زندگی ہے اللہ تعالیٰ اپنی تعریف بیان فرما رہا ہے اور خبر دے رہا ہے کہ تمام مخلوق پر اسی کا قبضہ ہے جو چاہے کرے۔ کوئی اس کے احکام کو ٹال نہیں سکتا اس کے غلبہ اور حکمت اور عدل کی وجہ سے اس سے کوئی باز پرس بھی نہیں کرسکتا وہ تمام چیزوں پر قدرت رکھنے والا ہے۔ پھر خود موت وحیات کا پیدا کرنا بیان کر رہا ہے، اس آیت سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جو کہتے ہیں کہ موت ایک وجودی امر ہے کیونکہ وہ بھی پیدا کردہ شدہ ہے، آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمام مخلوق کو عدم سے وجود میں لایا تاکہ اچھے اعمال والوں کا امتحان ہوجائے جیسے اور جگہ ہے آیت ( كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ باللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۚ 28 ) 2۔ البقرة :28) ترجمہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیوں کفر کرتے ہو ؟ تم تو مردہ تھے پھر اس نے تمہیں زندہ کردیا، پس پہلے حال یعنی عدم کو یہاں بھی موت کہا گیا اور اس پیدائش کو حیات کہا گیا اسی لئے اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے آیت ( ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 28 ) 2۔ البقرة :28) ترجمہ وہ پھر تمہیں مار ڈالے گا اور پھر زندہ کر دے گا، ابن ابی حاتم میں ہے رسول مقبول ﷺ فرماتے ہیں کہ بنی آدم موت کی ذلت میں تھے۔ دنیا کو اللہ تعالیٰ نے حیات کا گھر بنادیا پھر موت کا اور آخرت کو جزا کا پھر بقاء کا۔ لیکن یہی روایت اور جگہ حضرت قتادہ کا اپنا قول ہونا بیان کی گئی ہے، آزمائش اس امر کی ہے کہ تم میں سے اچھے عمل والا کون ہے ؟ اکثر عمل والا نہیں بلکہ بہتر عمل والا، وہ باوجود غالب اور بلند جناب ہونے کے پھر عاصیوں اور سرتاب لوگوں کے لئے، جب وہ رجوع کریں اور توبہ کریں معاف کرنے اور بخشنے والا بھی ہے۔ جس نے سات آسمان اوپر تلے پیدا کئے ایک پر ایک گو بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایک پر ایک ملا ہوا ہے لیکن دوسرا قول یہ ہے کہ درمیان میں جگہ ہے اور ایک دوسرے کے اوپر فاصلہ ہے، زیادہ صحیح یہی قول ہے، اور حدیث معراج وغیرہ سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے، پروردگار کی مخلوق میں تو کوئی نقصان نہ پائے گا بلکہ تو دیکھے گا کہ وہ برابر ہے، نہ ہیر پھیر ہے نہ مخالفت اور بےربطی ہے، نہ نقصان اور عیب اور خلل ہے۔ اپنی نظر آسمان کی طرف ڈال اور غور سے دیکھ کر کہیں کوئی عیب ٹوٹ پھوٹ جوڑ توڑ شگاف و سوراخ دکھائی دیتا ہے ؟ پھر بھی اگر شک رہے تو دو دفعہ دیکھ لے کوئی نقصان نظر نہ آئے گا تو نے خوب نظریں جما کر ٹٹول کر دیکھا ہو پھر بھی ناممکن ہے کہ تجھے کوئی شکست و ریخت نظر آئے تیری نگاہیں تھک کر اور ناکام ہو کر نیچی ہوجائیں گی۔ نقصان کی نفی کر کے اب کمال کا اثبات ہو رہا ہے تو فرمایا آسمان دنیا کو ہم نے ان قدرتی چراغوں یعنی ستاروں سے بارونق بنا رکھا ہے جن میں بعض چلنے پھرنے والے ہیں اور بعض ایک جا ٹھہرے رہنے والے ہیں، پھر ان کا ایک اور فائدہ بیان ہو رہا ہے کہ ان سے شیطانوں کو مارا جاتا ہے ان میں سے شعلے نکل کر ان پر گرتے ہیں یہ نہیں کہ خود ستارہ ان پر ٹوٹے واللہ اعلم۔ شیطین کی دنیا میں یہ رسوائی تو دیکھتے ہی ہو آخرت میں بھی ان کے لئے جلانے والا عذاب ہے۔ جیسے سورة صافات کے شروع میں ہے کہ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے زینت دی ہے اور سرکش شیطانوں کی حفاظت میں انہیں رکھا ہے، وہ بلند وبالا فرشتوں کی باتیں سن نہیں سکتے اور چاروں طرف سے حملہ کر کے بھگا دیئے جاتے ہیں اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے اگر کوئی ان میں سے ایک آدھ بات اچک کرلے بھاگتا ہے تو اس کے پیچھے چمکدار تیز شعلہ لپکتا ہے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں ستارے تین فائدوں کے لئے پیدا کئے گئے ہیں، آسمان کی زینت، شیطانوں کی مار اور راہ پانے کے نشانات۔ جس شخص نے اس کے سوا کوئی اور بات تلاش کی اس نے رائے کی پیروی کی اور اپنا صحیح حصہ کھو دیا اور باوجود علم نہ ہونے کی تکلف کیا ( ابن جریر اور ابن ابی حاتم )
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 2 { نِ الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا } ” جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔ “ { وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ۔ } ” اور وہ بہت زبردست بھی ہے اور بہت بخشنے والا بھی۔ “ یہ ہے انسانی زندگی اور موت کی تخلیق کا اصل مقصد۔ جو کوئی اس فلسفے کو نہیں سمجھے گا اسے زندگی ‘ موت اور موت کے بعد پھر زندگی کی یہ باتیں محض افسانہ معلوم ہوں گی۔ جیسے ایک معروف جاہلی شاعر نے اپنی بیوی کو مخاطب کر کے کہا تھا : حَیَاۃٌ ثُمَّ مَوْتٌ ثُمَّ بَعْثٌ حَدِیْثُ خَرَافَۃٍ یا اُمَّ عَمرو !” کہ یہ زندگی ‘ پھر موت ‘ پھر زندگی ‘ اے اُم عمرو ! یہ کیا حدیث خرافات ہے ؟ “ معاذ اللہ ! انسانی زندگی کا سفر دراصل عالم ارواح سے شروع ہو کر ابد الآباد کی سرحدوں تک جاتا ہے۔ انسان کی دنیوی زندگی ‘ موت اور بعث بعد الموت اس طویل سلسلہ ٔ حیات کے مختلف مراحل ہیں۔ جیسا کہ اس آیت میں آیا ہے : { وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْج ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْـکُمْ ثُمَّ اِلَـیْہِ تُرْجَعُوْنَ۔ } البقرۃ ” اور تم مردہ تھے ‘ پھر اس نے تمہیں زندہ کیا ‘ پھر وہ تمہیں مارے گا ‘ پھر جلائے گا ‘ پھر تم اسی کی طرف لوٹا دیے جائو گے “۔ زندگی کے اس تسلسل کے اندر موت کے مرحلے کی توجیہہ میر تقی میر نے ان الفاظ میں بیان کی ہے : ؎موت اِک زندگی کا وقفہ ہے یعنی آگے چلیں گے دم لے کر !بہرحال انسان کی دنیوی زندگی ایک وقفہ امتحان ہے اور موت اس وقفے کے اختتام کی گھنٹی ہے : { نَحْنُ قَدَّرْنَا بَـیْـنَـکُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ۔ } الواقعۃ۔ اس وقفہ امتحان کا انداز بالکل اسکولوں اور کالجوں کے امتحانات جیسا ہے۔ فرق بس یہ ہے کہ ان امتحانات کے لیے چند گھنٹوں کا وقت دیا جاتا ہے ‘ جبکہ انسانی زندگی کے حقیقی امتحان کا دورانیہ اوسطاً تیس چالیس برس پر محیط ہے۔ ظاہر ہے انسان کی زندگی کے ابتدائی بیس پچیس برس تو بچپنے اور غیر سنجیدہ رویے کی نذر ہوجاتے ہیں۔ پھر اگر کسی کو بڑھاپا دیکھنا نصیب ہو تو اپنی آخری عمر میں وہ { لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْم بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا } الحج : 5 کی عبرت ناک تصویر بن کر رہ جاتا ہے۔ لے دے کر ایک انسان کو عمل کے لیے شعور کی عمر کے اوسطاً تیس چالیس سال ہی ملتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی مشہور نظم خضر راہ میں ” زندگی “ کے عنوان کے تحت زندگی کے اس فلسفے پر کمال مہارت سے روشنی ڈالی ہے۔ اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :؎برتر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم ِجاں ہے زندگی !؎تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے ناپ جاوداں ‘ پیہم دواں ‘ ہر دم جواں ہے زندگی !؎قلزمِ ہستی سے تو ابھرا ہے مانند ِحباب اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی !ان اشعار میں علامہ اقبال نے دراصل قرانی آیات ہی کی ترجمانی کی ہے۔ مندرجہ بالا آخری شعر قلزمِ ‘ ہستی… آیت زیر مطالعہ کے مفہوم کا ترجمان ہے ‘ جبکہ پہلے شعر میں سورة البقرة کی آیت 154 { وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْیَـآئٌ …} کا بنیادی فلسفہ بیان ہوا ہے۔ ظاہر ہے عام طور پر تو زندہ جان کو ہی زندگی کا نام دیا جاتا ہے ‘ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حقیقی اور دائمی زندگی جان دے دینے تسلیم ِجاں سے حاصل ہوتی ہے۔
الذي خلق الموت والحياة ليبلوكم أيكم أحسن عملا وهو العزيز الغفور
سورة: الملك - آية: ( 2 ) - جزء: ( 29 ) - صفحة: ( 562 )Surah mulk Ayat 2 meaning in urdu
جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے، اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے جی چھوڑ دینا چاہا مگر خدا ان
- اگر یہ لوگ سرکشی کریں تو (خدا کو بھی ان کی پروا نہیں) جو (فرشتے)
- اور ہم نے ہر اُمت کے لئے قربانی کا طریق مقرر کردیا ہے تاکہ جو
- اے پروردگار جب تو نے ہمیں ہدایت بخشی ہے تو اس کے بعد ہمارے دلوں
- کیا انہوں نے آسمان اور زمین کی بادشاہت میں جو چیزیں خدا نے پیدا کی
- اور جو لوگ تم میں صاحب فضل (اور صاحب) وسعت ہیں، وہ اس بات کی
- کیا ان کے لئے یہ سند نہیں ہے کہ علمائے بنی اسرائیل اس (بات) کو
- اور مصر میں جس شخص نے اس کو خریدا اس نے اپنی بیوی سے (جس
- (اے پیغمبر) کہہ دو کہ لوگو! میں تم کو کھلم کھلا نصیحت کرنے والا ہوں
- اور زمین اپنے (اندر) کے بوجھ نکال ڈالے گی
Quran surahs in English :
Download surah mulk with the voice of the most famous Quran reciters :
surah mulk mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter mulk Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers