Surah muzammil Ayat 20 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿۞ إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَىٰ مِن ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِّنَ الَّذِينَ مَعَكَ ۚ وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۚ عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۖ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ۚ عَلِمَ أَن سَيَكُونُ مِنكُم مَّرْضَىٰ ۙ وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللَّهِ ۙ وَآخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ ۚ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا ۚ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾
[ المزمل: 20]
تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے کہ تم اور تمہارے ساتھ کے لوگ (کبھی) دو تہائی رات کے قریب اور (کبھی) آدھی رات اور (کبھی) تہائی رات قیام کیا کرتے ہو۔ اور خدا تو رات اور دن کا اندازہ رکھتا ہے۔ اس نے معلوم کیا کہ تم اس کو نباہ نہ سکو گے تو اس نے تم پر مہربانی کی۔ پس جتنا آسانی سے ہوسکے (اتنا) قرآن پڑھ لیا کرو۔ اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں اور بعض خدا کے فضل (یعنی معاش) کی تلاش میں ملک میں سفر کرتے ہیں اور بعض خدا کی راہ میں لڑتے ہیں۔ تو جتنا آسانی سے ہوسکے اتنا پڑھ لیا کرو۔ اور نماز پڑھتے رہو اور زکوٰة ادا کرتے رہو اور خدا کو نیک (اور خلوص نیت سے) قرض دیتے رہو۔ اور جو عمل نیک تم اپنے لئے آگے بھیجو گے اس کو خدا کے ہاں بہتر اور صلے میں بزرگ تر پاؤ گے۔ اور خدا سے بخشش مانگتے رہو۔ بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے
Surah muzammil Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) جب سورت کے آغاز میں نصف رات یا اس سے کم یا زیادہ قیام کا حکم دیا گیا تو نبی ( صلى الله عليه وسلم ) اور آپ کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت رات کو قیام کرتی کبھی دو تہائی سے کم یا زیادہ کبھی نصف رات کبھی ثلث رات جیسا کہ یہاں ذکر ہے۔ لیکن ایک تو رات کا یہ قیام نہایت گراں تھا دوسرے وقت کا اندازہ لگانا مشکل تھا کہ یہ نصف رات ہوئی یا ثلث اس لیے اللہ نے اس آیت میں تخفیف کا حکم نازل فرمایا جس میں فرمایا کہ بعض کے نزدیک ترک قیام کی اجازت ہے۔ اور بعض کے نزدیک یہ ہے کہ اس کے فرض کو استحباب میں بدل دیا گیا ۔اب یہ نہ امت کے لئے فرض ہے نہ نبی ( صلى الله عليه وسلم )کے لئے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ تخفیف صرف امت کے لئے ہے نبی ( صلى الله عليه وسلم )کے لئے اس کا پڑھنا ضروری تھا۔
( 2 ) یعنی اللہ تورات کی گھڑیاں گن سکتا ہے کتنی گزر گئی ہیں اور کتنی باقی ہیں تمہارے لیے یہ اندازہ لگانا ناممکن ہے۔
( 3 ) جب تمہارے لئے رات کے گزرنے کا صحیح اندازہ ممکن ہی نہیں، تو تم مقررہ اوقات تک نماز تہجد میں مشغول بھی کس طرح رہ سکتے ہو؟
( 4 ) یعنی اللہ نے قیام الیل کا حکم منسوخ کر دیا اور اب صرف اس کا استحباب باقی رہ گیا ہے اور وہ بھی وقت کی پابندی کے بغیر ،نصف شب یا ثلث شب یا دو ثلث کی پابندی بھی ضتوتی نہیں ۔اگر تم تھوڑا سا وقت صرف کر کے دو رکعت بھی ہڑھ لو گے تو عنداللہ قیام الیل کے اجر کے مستحق قرار پاؤگے ،تاہم اگر کوئی شحص آٹھ رکعات تہجد کا اہتمام کرے گا جیسا کہ نبی کریم ( صلى الله عليه وسلم ) کا معمول تھا ،تو زیادہ بہتر ہو گا اور نبی ( صلى الله عليه وسلم ) کا تبع قرار پائے گا۔
( 5 ) فَاقْرَءُوا کا مطلب ہے فصلو اور اور قرآن سے مراد الصلوۃ ہے ، قیام الیل میں چوں کہ قیام لمبا ہوتا ہے اور قرآن زیادہ پڑھا جاتا ہے اس لئے نماز تہجد کو ہی قرآن سے تعبیر کر دیا گیا ہے جیسے نماز میں سور فاتحہ نہایت ضروری ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے حدیث قدسی میں جو سورہ فاتحہ میں گزر چکی ہے سورہ فاتحہ کو نماز سے تعبیر فرمایا ہے «قَسَمْتُ الصَّلاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي» ( الحدیث ) اس لئے ” جتنا قرآن پڑھنا آسان ہو پڑھ لو “ کا مطلب ہے رات کو جتنی نماز پڑھ سکتے ہو پڑھ لو۔ اس کے لئے نہ وقت کی پابندی ہے اور نہ رکعات کی ۔اس آیت سے بعض لوگ اسدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنی ضروری نہیں ہے جتنا کسی کے لئے آسان ہو پڑھ لے اگر کوئی ایک آیت بھی کہیں سے پڑھ لے گا تو نماز ہو جائے گی ۔لیکن اول تو یہاں قراءت بمعنی نماز ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ۔اس لئےآیت کا تعلق اس بات سے نہیں ہے کہ نماز میں کتنی قراءت ضروری ہے ؟دوسرے اگر اس کا تعلق قراءت سے ہی مان لیا جائے تب بھی یہ استدلال اپنی اندر کوئی قوت نہیں رکھتا ۔کیوں کہ ما تیسر کی تفسیر خود نبی ( صلى الله عليه وسلم ) نے فرمادی ہے کہ وہ کم سے کم قراءت ،جس کے بغیر نماز نہیں ہو گی وہ سورۃ ھاتحہ ہے اس لئے آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے فرمایا ہے کہ یہ ضروری پڑھو جیسا کہ صحیح اور نہایت قوی اور واضح احادیث میں یہ حکم ہے اس تفسیر نبوی ( صلى الله عليه وسلم )کے خلاف یہ کہنا کہ نماز میں سورۃ فاتحہ ضروری نہیں بلکہ کوئی سی بھی ایک آیت پڑھ لو نماز ہو جائے گی ۔بڑی جسارت اور نبی( صلى الله عليه وسلم ) کی احادیث سے بے اعتناعی اکا مظاہرہ ہے ۔نیزائمی کے اقوال کے بھی خلاف ہے جو انہوں نے اصول فقیہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس آیت سے ترک فاتحہ خلف امام پر استدلال جائز نہیں اس لئے کہ وہ آیتیں متعارض ہیں ۔البتہ اگر کوئی شخص جہری نماز میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہ پڑھے تو بعض احادیث کی رو سے بعض ائمہ نے اسے جائز کہا ہے اور بعض نے نہ پڑھنے ہی کو ترجیح دی ہے ۔( تفصیل کے لئے فرضیت فاتحہ خلف امام پر تحریر کردہ کتب ملاحظہ فرمائیں )
( 6 ) یعنی تجارت اور کاروبار کے لئے سفر کرنا اور ایک شہر سے دوسرے شہر میں یا ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانا پڑے گا۔
( 7 ) اسی طرح جہاد میں بھی پُر مشقت سفر اور مشقتیں کرنی پڑتی ہیں، اور یہ تینوں چیزیں، بیماری، سفر اور جہاد نوبت بہ نوبت ہر ایک کو لاحق ہوتی ہیں اس لیے اللہ نے قیام اللیل کے حکم میں تخفیف کردی ہے کیونکہ تینوں حالتوں میں یہ نہایت مشکل اور بڑا صبر آزما کام ہے۔
( 8 ) اسباب تخفیف کے ساتھ تخفیف کا یہ حکم دوبارہ بطور تاکید بیان کر دیا گیا۔
( 9 ) یعنی پانچوں نمازوں کی جو فرض ہیں۔
( 10 ) یعنی اللہ کی راہ میں حسب ضرورت و توفیق خرچ کرو، اسے قرض حسنہ سے اس لئے تعبیر فرمایا کہ اللہ تعالٰی اس کے بدلے میں سات سو گنا بلکہ اس سے زیادہ تک اجر و ثواب عطا فرمائے گا۔
11- یعنی نفلی نمازیں، صدقات و خیرات اور دیگر نیکیاں جو بھی کرو گے اللہ کے ہاں ان کا بہترین اجر پاؤ گے اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی اس لیے کہتے ہیں کہ اس کا نصف حصہ مکی اور نصف حصہ مدنی ہے۔( ایسر التفاسیر )
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
پیغام نصیحت و عبرت اور قیام الیل فرماتا ہے کہ یہ سورت عقل مندوں کے لئے سراسر نصیحت وعبرت ہے جو بھی طالب ہدایت ہو وہ مرضی مولا سے ہدایت کا راستہ پالے گا اور اپنے رب کی طرف پہنچ جانے کا ذریعہ حاصل کرلے گا، جیسے دوسری سورت میں فرمایا آیت ( وَمَا تَشَاۗءُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا 30 ڰ ) 76۔ الإنسان :30) تمہاری چاہت کام نہیں آتی وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہے۔ صحیح علم والا اور پوری حکمت والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، پھر فرماتا ہے کہ اے نبی ﷺ آپ کا اور آپ کے اصحاب کی ایک جماعت کا کبھی دو تہائی رات تک قیام میں مشغول رہنا کبھی آدھی رات اسی میں گذرنا کبھی تہائی رات تک تہجد پڑھنا اللہ تعالیٰ کو بخوبی معلوم ہے گو تمہارا مقصد ٹھیک اس وقت کو پورا کرنا نہیں ہوتا اور ہے بھی وہ مشکل کام، کیونکہ رات دن کا صحیح اندازہ اللہ ہی کو ہے کبھی دونوں برابر ہوتے ہیں کبھی رات چھوٹی دن بڑا، کبھی دن چھوٹا رات بڑی، اللہ جانتا ہے کہ اس کو بننے کی طاقت تم میں نہیں تو اب رات کی نماز اتنی ہی پڑھو جتنی تم با آسانی پڑھ سکو کوئی وقت مقرر نہیں کہ فرضاً اتنا وقت تو لگانا ہی ہوگا یہاں صلوۃ کی تعبیر قرأت سے کی ہے جیسے سورة سبحن میں کی ہے آیت ( وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا01100 ) 17۔ الإسراء :110) نہ تو بہت بلند کر نہ بالکل پست کر، امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ کے اصحاب نے اس آیت سے استدلال کر کے یہ مسئلہ لیا ہے کہ نماز میں سورة فاتحہ ہی کا پڑھنا متعین نہیں اسے پڑھے خواہ اور کہیں سے پڑھ لے گو ایک ہی آیت پڑھے کافی ہے اور پھر اس مسئلہ کی مضبوطی اس حدیث سے کی ہے جس میں ہے کہ بہت جلدی جلدی نماز ادا کرنے والے کو حضور ﷺ نے فرمایا تھا پھر پڑھ جو آسان ہو تیرے ساتھ قرآن سے ( بخاری و مسلم ) یہ مذہب جمہور کے خلاف ہے اور جمہور نے انہیں یہ جواب دیا ہے کہ بخاری و مسلم کی حضرت عبادہ بن صامت والی حدیث میں آچکا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نماز نہیں ہے مگر یہ کہ تو سورة فاتحہ پڑھے اور صحیح مسلم شریف میں بہ روایت حضرت ابوہریرہ ؓ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر وہ نماز جس میں سورة فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ بالکل ادھوری محض ناکارہ ناقص اور ناتمام ہے، صحیح ابن خزیمہ میں بھی ان ہی کی روایت سے ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورة فاتحہ نہ پڑھے ( پس ٹھیک قول جمہور کا ہی ہے کہ ہر نماز کی ہر ایک رکعت میں سورة فاتحہ کا پڑھنا لازمی اور متعین ہے ) پھر فرماتا ہے کہ اللہ کو معلوم ہے کہ اس امت میں عذر والے لوگ بھی ہیں جو قیام الیل کے ترک پر معذور ہیں، مثلاً بیمار کہ جنہیں اس کی طاقت نہیں مسافر جو روزی کی تلاش میں ادھر ادھر جا رہے ہیں، مجاہد جو اہم تر شغل میں مشغول ہیں، یہ آیت بلکہ یہ پوری سورت مکی ہے مکہ شریف میں نازل ہوئی اس وقت جہاد فرض نہیں تھا بلکہ مسلمان نہایت پست حالت میں تھے پھر غیب کی یہ خبر دینا اور اسی طرح ظہور میں بھی آنا کہ مسلمانوں جہاد میں پوری طرح مشغول ہوئے یہ نبوت کی اعلیٰ اور بہترین دلیل ہے۔ تو ان معذورات کے باعث تمہیں رخصت دی جاتی ہے کہ جتنا قیام تم سے با آسانی کیا جاسکے کرلیا کرو، حضرت ابو رجاء محمد نے حسن ؒ سے پوچھا کہ اے ابو سعید اس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جو پورے قرآن کا حافظ ہے لیکن تہجد نہیں پڑھتا صرف فرض نماز پڑھتا ہے ؟ آپ نے فرمایا اس نے قرآن کو تکیہ بنا لیا اس پر اللہ کی لعنت ہو، اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک غلام کے لئے فرمایا کہ وہ ہمارے علم کو جاننے والا ہے اور فرمایا تم وہ سکھائے گئے ہو جسے نہ تم جانتے تھے نہ تمہارے باپ دادا، میں نے کہا۔ ابو سعید اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے جو قرآن آسانی سے تم پڑھ سکو پڑھو، فرمایا ہاں ٹھیک تو ہے پانچ آیتیں ہی پڑھ لو، پس بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حافظ قرآن کا رات کی نماز میں کچھ نہ کچھ قیام کرنا امام حسن بصری کے نزدیک حق و واجب تھا، ایک حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے جس میں ہے کہ حضور ﷺ سے اس شخص کے بارے میں سوال ہوا جو صبح تک سویا رہتا ہے فرمایا یہ وہ شخص ہے جس کے کان میں شیطان پیشاب کرجاتا ہے اس کا تو ایک تو یہ مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو عشاء کے فرض بھی نہ پڑھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو رات کو نفلی قیام نہ کرے، سنن کی حدیث میں ہے اے قرآن والو وتر پڑھا کرو، دوسری روایت میں ہے جو وتر نہیں پڑھے وہ ہم میں سے نہیں، حسن بصری کے قول سے بھی زیادہ غریب قول ابوبکر بن عبدالعزیز حنبلی کا ہے جو کہتے ہیں کہ رمضان کے مہینے کا قیام فرض ہے واللہ اعلم ( یہ یاد رہے کہ صحیح مسلک یہی ہے کہ تہجد کی نماز نہ تو رمضان میں واجب ہے نہ غیر رمضان میں۔ رمضان کی بابت بھی حدیث شریف میں صاف آچکا ہے و قیام لیلہ تطوعا یعنی اللہ نے اس کے قیام کو نفلی قرار دیا ہے وغیرہ واللہ اعلم۔ مترجم ) طبرانی کی حدیث میں اس آیت کی تفسیر میں بہت مرفوعاً مروی ہے کہ گو سو ہی آیتیں ہوں، لیکن یہ حدیث بہت غریب ہے صرف معجم طبرانی میں ہی میں نے اسے دیکھا ہے۔ پھر ارشاد ہے کہ فرض نمازوں کی حفاظت کرو اور فرض زکوٰۃ کی ادائیگی کیا کرو، یہ آیت ان حضرات کی دلیل ہے جو فرماتے ہیں فرضیت زکوٰۃ کا حکم مکہ شریف میں ہی نازل ہوچکا تھا ہاں کتنی نکالی جائی ؟ نصاب کیا ہے ؟ وغیرہ یہ سب مدینہ میں بیان ہوا واللہ اعلم۔ حضرت ابن عباس عکرمہ مجاہد حسن قتادہ وغیرہ سلف کا فرمان ہے کہ اس آیت نے اس سے پہلے کے حکم رات کے قیام کو منسوخ کردیا ان دونوں حکموں کے درمیان کس قدر مدت تھی ؟ اس میں جو اختلاف ہے اس کا بیان اوپر گذر چکا، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا پانچ نمازیں دن رات میں فرض ہیں اس نے پوچھا اس کے سوا بھی کوئی نماز مجھ پر فرض ہے ؟ آپ نے فرمایا باقی سب نوافل ہیں۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دو یعنی راہ اللہ صدقہ خیرات کرتے رہو جس پر اللہ تعالیٰ تمہیں بہت بہتر اور اعلیٰ اور پورا بدلہ دے گا، جیسے اور جگہ ہے ایسا کون ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دے اور اللہ اسے بہت کچھ بڑھائے چڑھائے۔ تم جو بھی نیکیاں کر کے بھیجو گے وہ تمہارے لئے اس چیز سے جسے تم اپنے پیچھے چھوڑ کر جاؤ گے بہت ہی بہتر اور اجر وثواب میں بہت ہی زیادہ ہے، ابو یعلی موصلی کی روایت میں ہے رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب سے ایک مرتبہ پوچھا تم میں سے ایسا کون ہے جسے اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ محبوب ہو ؟ لوگوں نے کہا حضور ﷺ ہم میں سے تو ایک بھی ایسا نہیں آپ نے فرمایا اور سوچ لو انہوں نے کہا حضور ﷺ یہی بات ہے فرمایا سنو تمہارا مال وہ ہے جسے تم راہ اللہ دے کر اپنے لئے آگے بھیج دو اور جو چھوڑ جاؤ گے وہ تمہارا مال نہیں وہ نہیں وہ تمہارا وارثوں کا مال ہے، یہ حدیث بخاری شریف اور نسائی میں بھی مروی ہے۔ پھر فرمان ہے کہ ذکر اللہ بکثرت کیا کرو اور اپنے تمام کاموں میں استغفار کیا کرو جو استغفار کرے وہ مغفرت حاصل کرلیتا ہے کیونکہ اللہ مغفرت کرنے والا اور مہربانیوں والا ہے۔ الحمد اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورة مزمل کی تفسیر ختم ہوئی۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
یہ رکوع صرف ایک آیت پر مشتمل ہے۔ اس آیت کے زمانہ نزول کے بارے میں جو روایات ملتی ہیں ان میں بہت اختلاف پایاجاتا ہے۔ کوئی روایت بتاتی ہے کہ یہ آیت اس سورت کے پہلے حصے کے نزول کے آٹھ ماہ بعد نازل ہوئی اور اس سے قیام اللیل کا پہلا حکم منسوخ ہوگیا۔ کچھ روایات میں یہ مدت ایک سال اور کچھ میں 16 ماہ بتائی گئی ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ آیت مدنی ہے اور پہلی آیات کے گیارہ سال بعد نازل ہوئی۔ اس آیت کو سمجھنے اور اس سے متعلق روایات میں پائے جانے والے غیر معمولی اختلاف کی وجہ جاننے کے لیے میں ایک عرصہ تک پریشان رہا۔ اس میں حیرت کی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے کسی تفسیر سے بھی مجھے کوئی واضح راہنمائی نہ مل سکی۔ پھر کسی زمانے میں علامہ جلال الدین سیوطی رح کی کتاب ” الاتقان فی علوم القرآن “ کا مطالعہ کرتے ہوئے اتفاقاً مجھے اس بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس - کا یہ قول مل گیا کہ یہ ایک نہیں دو آیات ہیں۔ چناچہ اس قول کی روشنی میں اس نکتے پر میرا دل مطمئن ہوگیا کہ اس کلام کا نزول تو دو حصوں میں ‘ دو الگ الگ مواقع پر ہوا ‘ لیکن حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق اسے ایک آیت شمار کیا گیا۔آیت 20{ اِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْمُ اَدْنٰی مِنْ ثُلُثَیِ الَّیْلِ وَنِصْفَہٗ وَثُلُثَہٗ } ” اے نبی ﷺ ! یقینا آپ کا رب جانتا ہے کہ آپ قیام کرتے ہیں کبھی دو تہائی رات کے قریب ‘ کبھی نصف رات اور کبھی ایک تہائی رات “ { وَطَآئِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیْنَ مَعَکَ } ” اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں ان میں سے بھی ایک جماعت آپ کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ “ { وَاللّٰہُ یُقَدِّرُ الَّیْلَ وَالنَّہَارَط } ” اور اللہ ہی رات اور دن کا اندازہ کرتا ہے۔ “ رات دن کے اوقات بھی اللہ نے بنائے ہیں اور انسانوں کو بھی اسی نے پیدا کیا ہے ‘ اس لیے وہ اپنے بندوں کی استعداد سے خوب واقف ہے۔ { عَلِمَ اَنْ لَّنْ تُحْصُوْہُ } ” اللہ جانتا ہے کہ تم اس کی پابندی نہیں کرسکو گے “ یعنی اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ اس انداز سے یہ مشقت زیادہ عرصے تک نہیں جھیلی جاسکتی۔ { فَتَابَ عَلَیْکُمْ } ” تو اس نے تم پر مہربانی فرمائی ہے “ { فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ } ” تو اب قرآن سے جتنا بآسانی پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو۔ “ حضرت عبداللہ بن عباس رض کے مذکورہ قول کی روشنی میں میرا خیال ہے کہ اس آیت کا یہ حصہ پہلی آیات کے گیارہ ماہ یا ایک سال بعد نازل ہوا۔ اس حکم کے ذریعے دو تہائی یا نصف یا ایک تہائی رات تک قیام کرنے کی پابندی ختم کردی گئی اور یہ سہولت دے دی گئی کہ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق قیام اللیل میں جتنا ممکن ہو اتنا قرآن پڑھ لیا کرے۔ البتہ آیت کا دوسرا درج ذیل حصہ جس میں قتال کا ذکر ہے ‘ اس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہجرت سے متصلاً قبل یا ہجرت کے متصلاً بعدنازل ہوا۔ چناچہ گیارہ سال کے وقفے والی روایت اس حصے سے متعلق ہے۔ { عَلِمَ اَنْ سَیَکُوْنُ مِنْکُمْ مَّرْضٰیلا } ” اللہ کے علم میں ہے کہ تم میں کچھ لوگ مریض ہوں گے “ { وَاٰخَرُوْنَ یَضْرِبُوْنَ فِی الْاَرْضِ یَـبْـتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ } ” اور بعض دوسرے زمین میں سفر کریں گے اللہ کے فضل کو تلاش کرتے ہوں گے “ { وَاٰخَرُوْنَ یُـقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ } ” اور کچھ اللہ کی راہ میں قتال کر رہے ہوں گے “ اب ظاہر ہے ایسے لوگوں کے لیے رات کو طویل قیام کرنا ممکن نہیں۔ { فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُلا } ” چناچہ جس قدر تمہارے لیے آسان ہو ‘ اس میں سے پڑھ لیا کرو “ { وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ } ” اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو “ اب اس حکم میں نماز پنجگانہ کی تاکید ہے اور نماز پنجگانہ ظاہر ہے 10 نبوی میں معراج کے موقع پر فرض ہوئی تھی۔ اس لحاظ سے بھی یہ رائے درست معلوم ہوتی ہے کہ آیت کا یہ حصہ 10 نبوی کے بعد ہجرت سے پہلے یا ہجرت کے فوراً بعد نازل ہوا۔ اس حکم میں پانچ نمازوں کو قیام اللیل کا بدل قرار دے دیا گیا ‘ البتہ رمضان میں قیام اللیل کا معاملہ اس سے مستثنیٰ رہا۔ رمضان چونکہ نزول قرآن کا مہینہ ہے : { شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ } البقرۃ : 185 ” رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا “ چناچہ قرآن سے تعلق کی تجدید کے لیے اس مہینے میں قیام اللیل کی خصوصی ترغیب دی گئی ہے۔ حضرت سلمان فارسی رض نے رمضان کی آمد پر حضور ﷺ کا ایک خطبہ نقل کیا ہے ‘ جس میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں : جَعَلَ اللّٰہُ صِیَامَـــہٗ فَرِیْضَۃً وَقِیَامَ لَیْلِہٖ تَطَوُّعًا 1 ” اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہِ خداوندی میں کھڑا ہونے یعنی نماز تراویح پڑھنے کو نفل عبادت مقرر کیا ہے جس کا بہت بڑا ثواب رکھا ہے “۔ یعنی رمضان کے روزے تو اہل ایمان پر فرض کردیے گئے کہ اہل ثروت ‘ نادار ‘ مزدور ‘ کسان وغیرہ سبھی روزہ رکھیں اور بھوک پیاس کی سختیاں برداشت کرنے کے عادی بن کر خود کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے تیار رکھیں۔ جبکہ رمضان کی راتوں کے قیام کے لیے اختیار دے دیا گیا کہ جو کوئی اس کا اہتمام کرسکتا ہو وہ ضرور اس کی برکتوں سے مستفیض ہو۔ بعد میں خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رض کے دور خلافت میں اسے اجتماعی شکل دے دی گی۔ چناچہ اجتماعی قیام اللیل کا وہ سلسلہ جس کا اہتمام ہمارے ہاں باجماعت تراویح کی صورت میں ہوتا ہے حضرت عمر رض کی وساطت سے امت تک پہنچا ہے۔ یہ دراصل قیام اللیل کا ” عوامی “ پروگرام ہے اور اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ قیام اللیل کی برکتوں سے کوئی شخص بھی محروم نہ رہنے پائے۔ قرونِ اولیٰ کے مخصوص ماحول اور حالات میں اس باجماعت قیام اللیل کی افادیت بہت زیادہ تھی۔ قرآن مجید کی زبان چونکہ ان لوگوں کی اپنی زبان تھی اس لیے امام کی زبان سے ادا ہونے والا ایک ایک لفظ ” از دل خیزد بر دل ریزد “ کے مصداق تمام سامعین کے دلوں میں اترتا چلا جاتا تھا ‘ لیکن آج ہمارے ہاں کی تراویح کے اکثر و بیشتر مقتدی تو ” زبانِ یارِ من ترکی ومن ترکی نمی دانم “ کی تصویر بنے سارا وقت رکعتوں کے حساب میں مشغول رہتے ہیں اِلا ماشاء اللہ۔ چناچہ اس عظیم الشان فورم پر بھی اب قرآن کا سننا بس سننے کی حد تک ہی ہے اور تفہیم و تذکیر کے حوالے سے اس استماع کی افادیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ { وَاَقْرِضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًاط } ” اور اللہ کو قرض حسنہ دو۔ “ { وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ ہُوَ خَیْرًا وَّاَعْظَمَ اَجْرًاط } ” اور جو بھلائی بھی تم آگے بھیجو گے اپنی جانوں کے لیے ‘ اسے موجود پائو گے اللہ کے پاس بہتر اور اجر میں بڑھ کر۔ “ جو نیک اعمال تم نے آگے بھیجے ہوں گے انہیں اللہ تعالیٰ کے پاس تم بہت ہی بہتر حالت میں پائو گے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے ان اعمال کو نہ صرف سات سو گنا تک بڑھا کر تمہیں لوٹائے گا بلکہ اپنے فضل ِخاص سے اس کے بدلے خصوصی اجر بھی تمہیں عطا فرمائے گا۔ { وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ } ” اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے رہو۔ “ { اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ } ” یقینا اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا ‘ رحمت فرمانے والا ہے۔ “صحیح البخاری ‘ کتاب صلاۃ التراویح ‘ باب فضل لیلۃ القدر۔ و صحیح مسلم ‘ کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا ‘ باب فی قیام رمضان وھو التراویح۔
إن ربك يعلم أنك تقوم أدنى من ثلثي الليل ونصفه وثلثه وطائفة من الذين معك والله يقدر الليل والنهار علم أن لن تحصوه فتاب عليكم فاقرءوا ما تيسر من القرآن علم أن سيكون منكم مرضى وآخرون يضربون في الأرض يبتغون من فضل الله وآخرون يقاتلون في سبيل الله فاقرءوا ما تيسر منه وأقيموا الصلاة وآتوا الزكاة وأقرضوا الله قرضا حسنا وما تقدموا لأنفسكم من خير تجدوه عند الله هو خيرا وأعظم أجرا واستغفروا الله إن الله غفور رحيم
سورة: المزمل - آية: ( 20 ) - جزء: ( 29 ) - صفحة: ( 575 )Surah muzammil Ayat 20 meaning in urdu
اے نبیؐ، تمہارا رب جانتا ہے کہ تم کبھی دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات عبادت میں کھڑے رہتے ہو، اور تمہارے ساتھیوں میں سے بھی ایک گروہ یہ عمل کرتا ہے اللہ ہی رات اور دن کے اوقات کا حساب رکھتا ہے، اُسے معلوم ہے کہ تم لوگ اوقات کا ٹھیک شمار نہیں کر سکتے، لہٰذا اس نے تم پر مہربانی فرمائی، اب جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو اُسے معلوم ہے کہ تم میں کچھ مریض ہونگے، کچھ دوسرے لوگ اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں، اور کچھ اور لوگ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں پس جتنا قرآن بآسانی پڑھا جا سکے پڑھ لیا کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پاؤ گے، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے اللہ سے مغفرت مانگتے رہو، بے شک اللہ بڑا غفور و رحیم ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- (یعنی) آسمان اور زمین کا اور جو ان دونوں کے درمیان ہے سب کا پروردگار
- یہاں (سے ثابت ہوا کہ) حکومت سب خدائے برحق ہی کی ہے۔ اسی کا صلہ
- وہ دانائے نہاں وآشکار ہے سب سے بزرگ (اور) عالی رتبہ ہے
- اس دن انسان اپنے کاموں کو یاد کرے گا
- کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے پاک بات کی کیسی مثال بیان فرمائی
- اور ان کو گمراہ کرتا اور امیدیں دلاتا ہروں گا اور یہ سکھاتا رہوں گا
- بےشک ان کو ہمارے پاس لوٹ کر آنا ہے
- بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا اور
- اے نبی آدم! (ہم تم کو یہ نصیحت ہمیشہ کرتے رہے ہیں کہ) جب ہمارے
- اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب خدا اور
Quran surahs in English :
Download surah muzammil with the voice of the most famous Quran reciters :
surah muzammil mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter muzammil Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers