Surah fatah Ayat 20 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ فتح کی آیت نمبر 20 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah fatah ayat 20 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿وَعَدَكُمُ اللَّهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةً تَأْخُذُونَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هَٰذِهِ وَكَفَّ أَيْدِيَ النَّاسِ عَنكُمْ وَلِتَكُونَ آيَةً لِّلْمُؤْمِنِينَ وَيَهْدِيَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا﴾
[ الفتح: 20]

Ayat With Urdu Translation

خدا نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا کہ تم ان کو حاصل کرو گے سو اس نے غنیمت کی تمہارے لئے جلدی فرمائی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیئے۔ غرض یہ تھی کہ یہ مومنوں کے لئے (خدا کی) قدرت کا نمونہ ہو اور وہ تم کو سیدھے رستے پر چلائے

Surah fatah Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) یہ دیگر فتوحات کےنتیجے میں حاصل ہونے والی غنیمتوں کی خوش خبری ہے جو قیامت تک مسلمانوں کو حاصل ہونے والی ہیں۔
( 2 ) یعنی فتح خیبر یا صلح حدیبیہ، کیونکہ یہ دونوں تو فوری طور پر مسلمانوں کو حاصل ہوگئیں۔
( 3 ) حدیبیہ میں کافروں کے ہاتھ اور خیبر میں یہودیوں کے ہاتھ اللہ نے روک دیئے، یعنی ان کے حوصلے پست کر دیئے اور وہ مسلمانوں سے مصروف پیکار نہیں ہوئے۔
( 4 ) یعنی لوگ اس واقعے کا تذکرہ پڑھ کر اندازہ لگا لیں گے کہ اللہ تعالیٰ قلت تعداد کے باوجود مسلمانوں کا محافظ اور دشمنوں پر ان کو غالب کرنے والا ہے یا یہ روک لینا، تمام موعودہ باتوں میں رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) کی صداقت کی نشانی ہے۔
( 5 ) یعنی ہدایت پر استقامت عطا فرمائے یا اس نشانی سے تمہیں ہدایت میں اور زیادہ کرے۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


کفار کے بد ارادے ناکام ہوئے ان بہت سی غنیمتوں سے مراد آپ کے زمانے اور بعد کی سب غنیمتیں ہیں جلدی کی غنیمت سے مراد خیبر کی غنیمت ہے اور حدیبیہ کی صلح ہے اس اللہ کا ایک احسان یہ بھی ہے کہ کفار کے بد ارادوں کو اس نے پورا نہ ہونے دیا نہ مکہ کے کافروں کے نہ ان منافقوں کے جو تمہارے پیچھے مدینے میں رہے تھے۔ نہ یہ تم پر حملہ اور ہو سکے نہ وہ تمہارے بال بچوں کو ستا سکے یہ اس لئے کہ مسلمان اس سے عبرت حاصل کریں اور جان لیں کہ اصل حافظ و ناصر اللہ ہی ہے پس دشمنوں کی کثرت اور اپنی قلت سے ہمت نہ ہار دیں اور یہ بھی یقین کرلیں کہ ہر کام کے انجام کا علم اللہ ہی کو ہے بندوں کے حق میں بہتری یہی ہے کہ وہ اس کے فرمان پر عامل رہیں اور اسی میں اپنی خیریت سمجھیں گو وہ فرمان بہ ظاہر خلاف طبع ہو، بہت ممکن ہے کہ تم جسے ناپسند رکھتے ہو وہی تمہارے حق میں بہتر ہو وہ تمہیں تمہاری حکم بجا آوری اور اتباع رسول ﷺ اور سچی جانثاری کی عوض راہ مستقیم دکھائے گا اور دیگر غنیمتیں اور فتح مندیاں بھی عطا فرمائے گا جو تمہارے بس کی نہیں لیکن اللہ خود تمہاری مدد کرے گا اور ان مشکلات کو تم پر آسان کر دے گا سب چیزیں اللہ کے بس میں ہیں وہ اپنا ڈر رکھنے والے بندوں کو ایسی جگہ سے روزیاں پہنچاتا ہے جو کسی کے خیال میں تو کیا ؟ خود ان کے اپنے خیال میں بھی نہ ہوں اس غنیمت سے مراد خیبر کی غنیمت ہے جس کا وعدہ صلح حدیبیہ میں پنہاں تھا یا مکہ کی فتح تھی یا فارس اور روم کے مال ہیں یا وہ تمام فتوحات ہیں جو قیامت تک مسلمانوں کو حاصل ہوں گی۔ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ مسلمانوں کو خوشخبری سناتا ہے کہ وہ کفار سے مرعوب اور خائف نہ ہوں اگر کافر مقابلہ پر آئے تو اللہ اپنے رسول ﷺ اور مسلمانوں کی مدد کرے گا۔ اور ان بےایمانوں کو شکست فاش دے گا یہ پیٹھ دکھائیں گے اور منہ پھیر لیں گے اور کوئی والی اور مددگار بھی انہیں نہ ملے گا اس لئے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے آئے ہیں اور اس کے ایماندار بندوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ پھر فرماتا ہے یہی اللہ تعالیٰ کی عادت ہے کہ جب کفر و ایمان کا مقابلہ ہو وہ ایمان کو کفر پر غالب کرتا ہے اور حق کو ظاہر کر کے باطل کو دبا دیتا ہے جیسے کہ بدر والے دن بہت سے کافروں کو جو باسامان تھے چند مسلمانوں کے مقابلہ میں جو بےسرو سامان تھے شکست فاش دی۔ پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے میرے احسان کو بھی نہ بھولو کہ میں نے مشرکوں کے ہاتھ تم تک نہ پہنچنے دئیے اور تمہیں بھی مسجد حرام کے پاس لڑنے سے روک دیا اور تم میں اور ان میں صلے کرا دی جو دراصل تمہارے حق میں سراسر بہتری ہے کیا دنیا کے اعتبار سے اور کیا آخرت کے اعتبار سے وہ حدیث یاد ہوگی جو اسی سورت کی تفسیر میں بہ روایت حضرت سلمہ بن اکوع گذر چکی ہے کہ جب ستر کافروں کو باندھ کر صحابہ نے آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کیا تو آپ نے فرمایا انہیں جانے دو ان کی طرف سے ہی ابتدا ہو اور انہی کی طرف سے دوبارہ شروع ہو اسی بابت یہ آیت اتری، مسند احمد میں ہے کہ اسی کافر ہتھیاروں سے آراستہ جبل ( تنعیم ) کی طرف سے چپ چپاتے موقعہ پا کر اتر آئے لیکن حضور ﷺ غافل نہ تھے آپ نے فورًا لوگوں کو آگاہ کردیا سب گرفتار کر لئے گئے اور حضور ﷺ کے سامنے پیش کئے گئے آپ نے ازراہ مہربانی ان کی خطا معاف فرما دی اور سب کو چھوڑ دیا، اور نسائی میں بھی ہے حضرت عبداللہ بن مغفل فرماتے ہیں جس درخت کا ذکر قرآن میں ہے اس کے نیچے نبی ﷺ تھے ہم لوگ بھی آپ کے اردگرد تھے اس درخت کی شاخیں حضور ﷺ کی کمر سے لگ رہی تھیں حضرت علی بن ابو طالب اور سہیل بن عمرو آپ کے سامنے تھے حضور ﷺ نے حضرت علی سے فرمایا بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھو اس پر سہیل نے حضور ﷺ کا ہاتھ تھام لیا اور کہا ہم رحمن اور رحیم کو نہیں جانتے ہمارے اس صلح نامہ میں ہمارے دستور کے مطابق لکھوائیے، پس آپ نے فرمایا ( باسمک اللھم ) لکھ لو۔ پھر لکھا یہ وہ ہے جس پر اللہ کے رسول محمد ﷺ نے اہل مکہ سے صلح کی اس پر پھر سہیل نے آپ کا ہاتھ تھام کر کہا آپ رسول اللہ ﷺ ہی ہیں تو پھر ہم نے بڑا ظلم کیا اس صلح نامہ میں وہی لکھوائے جو ہم میں مشہور ہے تو آپ نے فرمایا لکھو یہ وہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ ﷺ نے اہل مکہ سے صلح کی اتنے میں تیس نوجوان کفار ہتھیار بند آن پڑے آپ نے ان کے حق میں بددعا کی اللہ نے انہیں بہرا بنادیا ہم اٹھے اور ان سب کو گرفتار کر کے آپ کے سامنے پیش کردیا۔ آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تمہیں کسی نے امن دیا ہے ـ؟ یا تم کسی کی ذمہ داری پر آئے ہو ؟ انہوں نے انکار کیا لیکن باوجود اس کے آپ نے ان سے درگذر فرمایا اور انہیں چھوڑ دیا اس پر یہ آیت ( وھوالذی ) الخ، نازل ہوئی ( نسائی ) ابن جریر میں ہے جب حضور ﷺ قربانی کے جانور لے کر چلے اور ذوالحلیفہ تک پہنچ گئے تو حضرت عمر نے عرض کی اے نبی اللہ ﷺ آپ ایک ایسی قوم کی بستی میں جا رہے ہیں جو برسرپیکار ہیں اور آپ کے پاس نہ تو ہتھیار ہیں نہ اسباب، حضور ﷺ نے یہ سن کر آدمی بھیج کر مدینہ سے سب ہتھیار اور کل سامان منگوا لیا جب آپ مکہ کے قریب پہنچ گئے تو مشرکین نے آپ کو روکا آپ مکہ نہ آئیں آپ کو خبر دی کہ عکرمہ بن ابو جہل پانچ سو کا لشکر لے کر آپ پر چڑھائی کرنے کے لئے آرہا ہے آپ نے حضرت خالد بن ولید سے فرمایا اے خالد تیرا چچازاد بھائی لشکر لے کر آرہا ہے حضرت خالد نے فرمایا پھر کیا ہوا ؟ میں اللہ کی تلوار ہوں اور اس کے رسول ﷺ کی اسی دن سے آپ کا لقب سیف اللہ ہوا۔ مجھے آپ جہاں چاہیں اور جس کے مقابلہ میں چاہیں بھیجیں چناچہ عکرمہ کے مقابلہ کے لئے آپ روانہ ہوئے گھاٹی میں دونوں کی مڈبھیڑ ہوئی حضرت خالد نے ایسا سخت حملہ کیا کہ عکرمہ کے پاؤں نہ جمے اسے مکہ کی گلیوں تک پہنچا کر حضرت خالد واپس آگئے لیکن پھر دوبارہ وہ تازہ دم ہو کر مقابلہ پر آیا اب کی مرتبہ بھی شکست کھا کر مکہ کی گلیوں میں پہنچ گیا وہ پھر تیسری مرتبہ نکلا اس مرتبہ بھی یہی حشر ہوا اسی کا بیان آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۭ وَكَان اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا 24؀ ) 48۔ الفتح:24) ، میں ہے، پس اللہ تعالیٰ نے باوجود حضور ﷺ کی ظفر مندی کے کفار کو بھی بچا لیا تاکہ جو مسلمان ضعفاء اور کمزور مکہ میں تھے انہیں اسلامی لشکر کے ہاتھوں کوئی گذند نہ پہنچے لیکن اس روایت میں بہت کچھ نظر ہے ناممکن ہے کہ یہ حدیبیہ والے واقعہ کا ذکر ہو اس لئے کہ اس وقت تک تو حضرت خالد مسلمان ہی نہ ہوئے تھے بلکہ مشرکین کے طلایہ کے یہ اس دن سردار تھے جیسے کہ صحیح حدیث میں موجود ہے اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ یہ واقعہ عمرۃ القضاء کا ہو۔ اس لئے کہ حدیبیہ کے صلح نامہ کی شرائط کے مطابق یہ طے شدہ امر تھا کہ اگلے سال حضور ﷺ آئیں عمرہ ادا کریں اور تین دن تک مکہ میں ٹھہریں چناچہ اسی قرارداد کے مطابق جب حضور ﷺ تشریف فرما ہوئے تو کافروں نے آپ کو روکا نہیں نہ آپ سے جنگ وجدال کیا۔ اسی طرح یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ یہ واقعہ فتح مکہ کا ہو اس لئے کہ فتح مکہ والے سال آپ اپنے ساتھ قربانیاں لے کر نہیں گئے تھے اس وقت تو آپ جنگی حیثیت سے گئے تھے لڑنے اور جہاد کرنے کی نیت سے تشریف لے گئے تھے پس اس روایت میں بہت کچھ خلل ہے اور اس میں ضرور قباحت واقع ہوئی ہے خوب سوچ لینا چاہیے واللہ اعلم۔ حضرت ابن عباس کے مولیٰ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ قریش نے اپنے چالیس یا پچاس آدمی بھیجے کہ وہ حضور ﷺ کے لشکر کے اردگرد گھومتے رہیں اور موقعہ پا کر کچھ نقصان پہنچائیں یا کسی کو گرفتار کر کے لے آئیں یہاں یہ سارے کے سارے پکڑے لئے گئے لیکن پھر حضور ﷺ نے انہیں معاف فرما دیا اور سب کو چھوڑ دیا انہوں نے آپ کے لشکر پر کچھ پتھر بھی پھینکے تھے اور کچھ تیربازی کر کے ان کو شہید کردیا حضور ﷺ نے کچھ سوار ان کے تعاقب میں روانہ کئے وہ ان سب کو جو تعداد میں بارہ سو تھے گرفتار کر کے لے آئے آپ نے ان سے پوچھا کہ کوئی عہدو پیمان ہے ؟ کہا نہیں لیکن پھر بھی حضور ﷺ نے انہیں چھوڑ دیا اور اسی بارے میں آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۭ وَكَان اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا 24؀ ) 48۔ الفتح:24) نازل ہوئی۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 20 { وَعَدَکُمُ اللّٰہُ مَغَانِمَ کَثِیْرَۃً تَاْخُذُوْنَہَا فَعَجَّلَ لَکُمْ ہٰذِہٖ } ” اے مسلمانو ! اللہ تم سے وعدہ کرتا ہے بہت سے اموالِ غنیمت کا جنہیں تم حاصل کرو گے ‘ پس یہ فتح تو اس نے تمہیں فوری طور پر عطاکر دی ہے “ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے ‘ جس کا ذکر سورت کے آغاز میں بایں الفاظ ہوا : { اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا } ” یقینا ہم نے آپ ﷺ کو ایک بڑی روشن فتح عطا فرمائی ہے۔ “ { وَکَفَّ اَیْدِیَ النَّاسِ عَنْکُمْ } ” اور اس نے روک لیا لوگوں کے ہاتھوں کو تم سے۔ “ ظاہر ہے اگر جنگ ہوتی اور قریش بھی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے تو کچھ نہ کچھ نقصان مسلمانوں کا بھی ضرور ہوتا۔ { وَلِتَـکُوْنَ اٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَیَہْدِیَکُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا } ” تاکہ یہ اہل ِایمان کے لیے ایک نشانی بن جائے اور وہ تمہاری راہنمائی فرمائے سیدھے راستے کی طرف۔ “ تاکہ اس کے بعد اقامت دین کے لیے تمہاری اجتماعی جدوجہد کامیابی کے مراحل جلد از جلد طے کرے اور اللہ تعالیٰ اسے تیر کی طرح سیدھا اس کے آخری ہدف اور منزل مقصود تک پہنچا دے۔

وعدكم الله مغانم كثيرة تأخذونها فعجل لكم هذه وكف أيدي الناس عنكم ولتكون آية للمؤمنين ويهديكم صراطا مستقيما

سورة: الفتح - آية: ( 20 )  - جزء: ( 26 )  -  صفحة: ( 513 )

Surah fatah Ayat 20 meaning in urdu

اللہ تم سے بکثرت اموال غنیمت کا وعدہ کرتا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے فوری طور پر تو یہ فتح اس نے تمہیں عطا کر دی اور لوگوں کے ہاتھ تمہارے خلاف اٹھنے سے روک دیے، تاکہ یہ مومنوں کے لیے ایک نشانی بن جائے اور اللہ سیدھے راستے کی طرف تمہیں ہدایت بخشے


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو
  2. (فرعون نے موسیٰ سے کہا) کیا ہم نے تم کو کہ ابھی بچّے تھے پرورش
  3. اے اہل ایمان جب میدان جنگ میں کفار سے تمہار مقابلہ ہو تو ان سے
  4. اور یاد بھی تب ہی رکھیں گے جب خدا چاہے۔ وہی ڈرنے کے لائق اور
  5. مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرادیا کرو۔
  6. اور بعضے ایسے ہیں کہ دعا کرتے ہیں کہ پروردگار ہم کو دنیا میں بھی
  7. (وہ قصہ بھی یاد کرو) جب حواریوں نے کہا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا
  8. اور (ان لوگوں کے لئے بھی) جو مہاجرین سے پہلے (ہجرت کے) گھر (یعنی مدینے)
  9. یہاں تک کہ دو دیواروں کے درمیان پہنچا تو دیکھا کہ ان کے اس طرف
  10. (یعنی) آسمان اور زمین کا اور جو ان دونوں کے درمیان ہے سب کا پروردگار

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah fatah with the voice of the most famous Quran reciters :

surah fatah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter fatah Complete with high quality
surah fatah Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah fatah Bandar Balila
Bandar Balila
surah fatah Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah fatah Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah fatah Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah fatah Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah fatah Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah fatah Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah fatah Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah fatah Fares Abbad
Fares Abbad
surah fatah Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah fatah Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah fatah Al Hosary
Al Hosary
surah fatah Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah fatah Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Thursday, November 21, 2024

Please remember us in your sincere prayers