Surah baqarah Ayat 233 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿۞ وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۚ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَّهُ بِوَلَدِهِ ۚ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَٰلِكَ ۗ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَن تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا ۗ وَإِنْ أَرَدتُّمْ أَن تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّا آتَيْتُم بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ﴾
[ البقرة: 233]
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔ اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا۔ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی (تو یاد رکھو کہ) نہ تو ماں کو اس کے بچے کے سبب نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور اسی طرح (نان نفقہ) بچے کے وارث کے ذمے ہے۔ اور اگر دونوں (یعنی ماں باپ) آپس کی رضامندی اور صلاح سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں۔ اور اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ تم دودھ پلانے والیوں کو دستور کے مطابق ان کا حق جو تم نے دینا کیا تھا دے دو اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس کو دیکھ رہا ہے
Surah baqarah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اس آیت میں مسئلہ رضاعت کا بیان ہے۔ اس میں پہلی بات یہ کہی گئی ہے کہ جو مدت رضاعت پوری کرنی چاہے تو وہ دو سال پورے دودھ پلائے۔ ان الفاظ سے اس سے کم مدت تک دودھ پلانے کی بھی گنجائش نکلتی ہے، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ مدت رضاعت زیادہ سے زیادہ دو سال ہے، جیسا کہ ترمذی میں حضرت ام سلمہ ل سے مرفوعاً روایت ہے : «لا يُحَرِّمُ مِنَ الرَّضَاعِ إِلا مَا فَتَقَ الأَمْعَاءَ فِي الثَّدْيِ ، وَكَان قَبْلَ الفِطَامِ »، ( الترمذي ، كتاب الرضاع ، باب ما جاء أن الرضاعة لا تحرم إلا في الصغر دون الحولين ) ” وہی رضاع ( دودھ پلانا ) حرمت ثابت کرتا ہے، جو چھاتی سے نکل کر آنتوں کو پھاڑے اور یہ دودھ چھڑانے ( کی مدت ) سے پہلے ہو۔ “ چنانچہ اس مدت کے اندر کوئی بچہ کسی عورت کا اس طریقہ سے دودھ پی لے گا، جس سے رضاعت ثابت ہوجاتی ہے، تو ان کے درمیان رضاعت کا وہ رشتہ قائم ہوجائے گا، جس کے بعد رضاعی بہن بھائیوں میں آپس میں اسی طرح نکاح حرام ہوگا جس طرح نسبی بہن بھائیوں میں حرام ہوتا ہے۔ «يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ»۔ ( صحيح بخاري ، كتاب الشهادات ، باب الشهادة على الأنساب والرضاع المستفيض والموت القديم ) ” رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہوجائیں گے جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔ “
( 2 ) مَوْلُودٌ لَّهُ سے مراد باپ ہے۔ طلاق ہوجانے کی صورت میں شیرخوار بچے اور اس کی ماں کی کفالت کا مسئلہ ہمارے معاشرے میں بڑا پیچیدہ بن جاتا ہے اور اس کی وجہ شریعت سے انحراف ہے۔ اگر حکم الٰہی کے مطابق خاوند اپنی طاقت کے مطابق مطلقہ عورت کی روٹی کپڑے کا ذمہ دار ہو، جس طرح کہ اس آیت میں کہا جا رہا ہے تو نہایت آسانی سے مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔
( 3 ) ماں کو تکلیف پہنچانا یہ ہے کہ مثلاً ماں بچے کو اپنے پاس رکھنا چاہے، مگر مامتا کے جذبے کو نظرانداز کرکے بچہ زبردستی اس سے چھین لیا جائے، یا یہ کہ بغیر خرچ کی ذمہ داری اٹھائے، اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے۔ باپ کو تکلیف پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ ماں دودھ پلانے سے انکارکردے، یا اس کی حیثیت سے زیادہ کا، اس سے مالی مطالبہ کرے۔
( 4 ) باپ کے فوت ہوجانے کی صورت میں یہی ذمہ داری وارثوں کی ہے کہ وہ بچے کی ماں کے حقوق صحیح طریقے سے ادا کریں، تاکہ نہ عورت کو تکلیف ہو اور نہ بچے کی پرورش اور نگہداشت متاثر ہو۔
( 5 ) یہ ماں کے علاوہ کسی اور عورت سے دودھ پلوانے کی اجازت ہے بشرطیکہ اس کاما وجب ( معاوضہ ) دستور کے مطابق ادا کردیا جائے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مسئلہ رضاعت : یہاں اللہ تعالیٰ بچوں والیوں کو اشاد فرماتا ہے کہ پوری پوری مدت دودھ پلانے کی دو سال ہے۔ اس کے بعد دودھ پلانے کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس سے دودھ بھائی پنا ثابت نہیں ہوتا اور نہ حرمت ہوتی ہے۔ اکثر ائمہ کرام کا یہی مذہب ہے۔ ترمذی میں باب ہے کہ رضاعت جو حرمت ثابت کرتی ہے وہ وہی ہے جو دو سال پہلے کی ہو۔ پھر حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں وہی رضاعت حرام کرتی ہے جو آنتوں کو پر کر دے اور دودھ چھوٹھنے سے پہلے ہو۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اکثر اہل علم صحابہ وغیرہ کا اسی پر عمل ہے کہ دو سال سے پہلے کی رضاعت تو معتبر ہے، اس کے بعد کی نہیں۔ اس حدیث کے راوی شرط بخاری و مسلم پر ہیں۔ حدیث میں فی الثدی کا جو لفظ ہے اس کے معنی بھی محل رضاعت کے یعنی دو سال سے پہلے کے ہیں، یہی لفظ حضور ﷺ نے اس وقت بھی فرمایا تھا جب آپ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تھا کہ وہ دودھ پلائی کی مدت میں انتقال کر گئے ہیں اور انہیں دودھ پانے والی جنت میں مقرر ہے۔ حضرت ابراہیم کی عمر اس وقت ایک سال اور دس مہینے کی تھی۔ دار قطنی میں بھی ایک حدیث دو سال کی مدت کے بعد کی رضاعت کے متعبر نہ ہونے کی ہے۔ ابن عباس بھی فرماتے ہیں کہ اس کے بعد کوئی چیز نہیں۔ ابو داؤد طیالسی کی روایت میں ہے کہ دودھ چھوٹ جانے کے بعد رضاعت نہیں اور بلوغت کے بعد یتیمی کا حکم نہیں۔ خود قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت ( وَّفِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ) 31۔ لقمان:14) دودھ چھٹنے کی مدت دو سال میں ہے۔ اور جگہ ہے آیت ( وَحَمْلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا ) 46۔ الأحقاف:15) یعنی حمل اور دودھ ( دونوں کی مدت ) تین ماہ ہیں۔ یہ قول کہ دو سال کے بعد دودھ پلانے اور پینے سے رضاعت کی حرمت ثابت نہیں ہوتی، ان تمام حضرات کا ہے۔ حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت ابن مسعود، حضرت جابر، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابن عمر، حضرت ام سلمہ رضوان اللہ علیھم اجمعین، حضرت سعید بن المسیب، حضرت عطاء اور جمہور کا یہی مذہب ہے۔ امام شافعی، امام احمد، امام اسحق، امام ثوری، امام ابو یوسف، امام محمد، امام مالک رحمھم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ گو ایک روایت میں امام مالک سے دو سال دو ماہ بھی مروی ہیں اور ایک روایت میں دو سال تین ماہ بھی مروی ہیں۔ امام ابوحنیفہ ڈھائی سال کی مدت بتلاتے ہیں۔ زفر کہتے ہیں جب تک دودھ نہیں چھٹا تو تین سالوں تک کی مدت ہے، امام اوزاعی سے بھی یہ روایت ہے۔ اگر کسی بچہ کا دو سال سے پہلے دودھ چھڑوا لیا جائے پھر اس کے بعد کسی عورت کا دودھ وہ پئے تو بھی حرمت ثابت نہ ہوگی اس لئے کہ اب قائم مقام خوراک کے ہوگیا۔ امام اوزاعی سے ایک روایت ہی بھی ہے کہ حضرت عمر، حضرت علی سے مروی ہے کہ دودھ چھڑوا لینے کے بعد رضاعت نہیں۔ اس قول کے دونوں مطلب ہوسکتے ہیں یعنی یا تو یہ کہ دو سال کے بعد یا یہ کہ جب بھی اس سے پہلے دودھ چھٹ گیا۔ اس کے بعد جیسے امام مالک کا فرمان ہے، واللہ اعلم، ہاں صحیح بخاری، صحیح مسلم میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ وہ اس کے بعد کہ، بلکہ بڑے آدمی کی رضاعت کو حرمت میں مؤثر جانتی ہیں۔ عطاء اور لیث کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت عائشہ جس شخص کا کسی کے گھر زیادہ آنا جانا جانتیں تو وہاں حکم دیتیں کہ وہ عورتیں اسے اپنا دودھ پلائیں اور اس حدیث سے دلیل پکڑتی تھیں کہ حضرت سالم کو جو حضرت ابو حذیفہ کے مولیٰ تھے آنحضرت ﷺ نے حکم دیا تھا کہ وہ ان کی بیوی صاحبہ کا دودھ پی لیں، حالانکہ وہ بڑی عمر کے تھے اور اس رضاعت کی وجہ سے پھر وہ برابر آتے جاتے رہتے تھے لیکن حضور ﷺ کی دوسری ازواج مطہرات اس کا انکار کرتی تھیں اور کہتی تھیں کہ یہ واقعہ خاص ان ہی کیلئے تھا ہر شخص کیلئے یہ حکم نہیں، یہی مذہب جمہور کا ہے یعنی چاروں اماموں، ساتوں فقیہوں، کل کے کل بڑے صحابہ کرام اور تمام امہات المومنین کا سوائے حضرت عائشہ کے اور ان کی دلیل وہ حدیث ہے جو بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا دیکھ لیا کرو کہ تمہارے بھائی کون ہیں، رضاعت اس وقت ہے جب دودھ بھوک مٹا سکتا ہو، باقی رضاعت کا پورا مسئلہ آیت ( وامھا تکم اللاتی ارضعنکم ) کی تفسیر میں آئے گا انشاء اللہ، پھر فرمان ہے کہ بچوں کی ماں کا نان نفقہ بچوں کے والد پر ہے۔ اپنے اپنے شہروں کی عادت اور دستور کے مطابق ادا کریں، نہ تو زیادہ ہو نہ کم بلکہ حسب طاقت و وسعت درمیانی خرچ دے دیا کرو جیسے فرمایا آیت ( وَاُمَّھٰتُكُمُ الّٰتِيْٓ اَرْضَعْنَكُمْ ) 4۔ النساء:23) یعنی کشادگی والے اپنی کشادگی کے مطابق اور تنگی والے اپنی طاقت کے مطابق دیں، اللہ تعالیٰ طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، عنقریب اللہ تعالیٰ سختی کے بعد آسانی کر دے گا۔ ضحاک فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور اس کے ساتھ بچہ بھی ہے تو اس کی دودھ پلائی کے زمانہ تک کا خرچ اس مرد پر واجب ہے۔ پھر ارشاد باری ہے کہ عورت اپنے بچے کو دودھ پلانے سے انکار کر کے اس کے والد کو تنگی میں نہ ڈال دے بلکہ بچے کو دودھ پلاتی رہے اس لئے کہ یہی اس کی گزارن کا سبب ہے۔ دودھ سے جب بچہ بےنیاز ہوجائے تو بیشک بچہ کو دے دے لیکن پھر بھی نقصان رسانی کا ارادہ نہ ہو۔ اسی طرح خاوند اس سے جبراً بچے کو الگ نہ کرے جس سے غریب دکھ میں پڑے۔ وارث کو بھی یہی چاہئے کہ بچے کی والدہ کو خرچ سے تنگ نہ کرے، اس کے حقوق کی نگہداشت کرے اور اسے ضرر نہ پہنچائے۔ حنفیہ اور حنبلیہ میں سے جو لوگ اس کے قائل ہیں کہ رشتہ داروں میں سے بعض کا نفقہ بعض پر واجب ہے انہوں نے اسی آیت سے استدلال کیا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب اور جمہور سلف صالحین سے یہی مروی ہے۔ سمرہ والی مرفوع حدیث سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے جس میں ہے کہ جو شخص اپنے کسی محرم رشتہ دار کا مالک ہوجائے تو وہ آزاد ہوجائے گا۔ یہ بھی یاد رہے کہ دو سال کے بعد دودھ پلانا عموماً بچہ کو نقصان دیتا ہے، یا تو جسمانی یا دماغی۔ حضرت علقمہ نے ایک عورت کو دو سال سے بڑے بچے کو دودھ پلاتے ہوئے دیکھ کر منع فرمایا۔ پھر فرمایا گیا ہے اگر یہ رضامندی اور مشورہ سے دو سال کے اندر اندر جب کبھی دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی حرج نہیں ہاں ایک کی چاہت دوسرے کی رضامندی کے بغیر ناکافی ہوگی اور یہ بچے کے بچاؤ کی اور اس کی نگرانی کی ترکیب ہے۔ خیال فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کس قدر رحیم و کریم ہے کہ چھوٹے بچوں کے والدین کو ان کاموں سے روک دیا جس میں بچے کی بربادی کا خوف تھا، اور وہ حکم دیا جس سے ایک طرف بچے کا بچاؤ ہے دوسری جانب ماں باپ کی اصلاح ہے۔ سورة طلاق میں فرمایا آیت ( فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ ) 65۔ الطلاق:6) اگر عورتیں بچے کو دودھ پلایا کریں تو تم ان کی اجرت بھی دیا کرو اور آپس میں عمدگی کے ساتھ معاملہ رکھو۔ یہ اور بات ہے کہ تنگی کے وقت کسی اور سے دودھ پلوا دو ، چناچہ یہاں بھی فرمایا اگر والدہ اور والد متفق ہو کر کسی عذر کی بنا پر کسی اور سے دودھ شروع کرائیں اور پہلے کی اجازت کامل طور پر والد والدہ کو دے دے تو بھی دونوں پر کوئی گناہ نہیں، اب دوسری کسی دایہ سے اجرت چکا کر دودھ پلوا دیں۔ لوگو اللہ تعالیٰ سے ہر امر میں ڈرتے رہا کرو اور یاد رکھو کہ تمہارے اقوال و افعال کو وہ بخوبی جانتا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 233 وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلاَدَہُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ط اگر طلاق دینے والا شوہر یہ چاہتا ہے کہ مطلقہّ عورت اس کے بچے کو دودھ پلائے اور رضاعت کی مدت پوری کرے تو دو سال تک وہ عورت اس ذمہّ داری سے انکار نہیں کرسکتی۔ وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہٗ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بالْمَعْرُوْفِ ط اس مدت میں بچے کے باپ پر مطلقہّ کے کھانے اور کپڑے کی ذمہ داری ہے ‘ جسے ہم نان نفقہ کہتے ہیں ‘ اس لیے کہ قانوناً اولاد شوہر کی ہے۔ اس سلسلے میں دستور کا لحاظ رکھنا ہوگا۔ یعنی مرد کی حیثیت اور عورت کی ضروریات کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ ایسا نہ ہو کہ مرد کروڑ پتی ہو لیکن وہ مطلقہ بیوی کو اپنی خادماؤں کی طرح کا نان نفقہ دینا چاہے۔ لَا تُکَلَّفُ نَفْسٌ الاَّ وُسْعَہَا ج لاَ تُضَآرَّ وَالِدَۃٌم بِوَلَدِہَا وَلاَ مَوْلُوْدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖق یعنی دونوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جائے ‘ جیسا کہ حدیث نبوی ﷺ ہے : لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ 30 یعنی نہ تو نقصان پہنچانا ہے اور نہ ہی نقصان اٹھانا ہے۔ وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ ج اگر بچے کا باپ فوت ہوجائے تو بچے کو دودھ پلانے والی مطلقہ عورت کا نان نفقہ مرحوم کے وارثوں کے ذمے ّ رہے گا۔ فَاِنْ اَرَادَا فِصَالاً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْہُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَا ط وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْٓا اَوْلاَدَکُمْ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اگر بچے کا باپ یا اس کے ورثاء بچے کی والدہ کی جگہ کسی اور عورت سے بچے کو دودھ پلوانا چاہتے ہوں تو بھی کوئی حرج نہیں ‘ انہیں اس کی اجازت ہے ‘ بشرطیکہ۔۔اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَیْتُمْ بالْمَعْرُوْفِ ط۔ یہ نہ ہو کہ نان نفقہ بچانے کے لیے اب تم مدت رضاعت کے درمیان بچے کی ماں کے بجائے کسی اور عورت سے اس لیے دودھ پلوانے لگو کہ اسے معاوضہ کم دینا پڑے گا۔ اگر تم کسی دایہ وغیرہ سے دودھ پلوانا چاہتے ہو تو پہلے بچے کی ماں کو بھلے طریقے پر وہ سب کچھ ادا کر دو جو تم نے طے کیا تھا۔
والوالدات يرضعن أولادهن حولين كاملين لمن أراد أن يتم الرضاعة وعلى المولود له رزقهن وكسوتهن بالمعروف لا تكلف نفس إلا وسعها لا تضار والدة بولدها ولا مولود له بولده وعلى الوارث مثل ذلك فإن أرادا فصالا عن تراض منهما وتشاور فلا جناح عليهما وإن أردتم أن تسترضعوا أولادكم فلا جناح عليكم إذا سلمتم ما آتيتم بالمعروف واتقوا الله واعلموا أن الله بما تعملون بصير
سورة: البقرة - آية: ( 233 ) - جزء: ( 2 ) - صفحة: ( 37 )Surah baqarah Ayat 233 meaning in urdu
جو باپ چاہتے ہوں کہ ان کی اولا د پوری مدت رضاعت تک دودھ پیے، تو مائیں اپنے بچوں کو کامل دو سال دودھ پلائیں اِس صورت میں بچے کے باپ کو معروف طریقے سے انہیں کھانا کپڑا دینا ہوگا مگر کسی پر اس کی وسعت سے بڑھ کر بار نہ ڈالنا چاہیے نہ تو ماں کو اِس وجہ سے تکلیف میں ڈالا جائے کہ بچہ اس کا ہے، اور نہ باپ ہی کو اس وجہ سے تنگ کیا جائے کہ بچہ اس کا ہے دودھ پلانے والی کا یہ حق جیسا بچے کے باپ پر ہے ویسا ہی اس کے وارث پر بھی ہے لیکن اگر فریقین باہمی رضامندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں، تو ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور اگر تمہارا خیال اپنی اولاد کو کسی غیر عورت سے دودھ پلوانے کا ہو، تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں بشر طیکہ اس کا جو کچھ معاوضہ طے کرو، وہ معروف طریقے پر ادا کر دو اللہ سے ڈرو اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو، سب اللہ کی نظر میں ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
- اور وہ شخص جو مومن تھا اس نے کہا کہ بھائیو میرے پیچھے چلو میں
- تو ہم نے یہودیوں کے ظلموں کے سبب (بہت سی) پاکیزہ چیزیں جو ان کو
- اور ہم نے ان پر مینھہ برسایا سو (جو) مینھہ ان لوگوں پر برسا جن
- جنہوں نے باوجود زخم کھانے کے خدا اور رسول (کے حکم) کو قبول کیا جو
- اور ان کو پیشوا بنایا کہ ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ان کو
- اے کاش موت (ابد الاآباد کے لئے میرا کام) تمام کرچکی ہوتی
- تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
- اور اگر تم نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے
- اور لوگوں میں بعض ایسا بھی ہے جو کنارے پر (کھڑا ہو کر) خدا کی
Quran surahs in English :
Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers