Surah baqarah Ayat 200 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۗ فَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ﴾
[ البقرة: 200]
پھر جب حج کے تمام ارکان پورے کرچکو تو (منیٰ میں) خدا کو یاد کرو۔ جس طرح اپنے باپ دادا کو یاد کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور بعض لوگ ایسے ہیں جو (خدا سے) التجا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو (جو دنیا ہے) دنیا ہی میں عنایت کر ایسے لوگوں کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں
Surah baqarah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) عرب کے لوگ حج سے فراغت کے بعد منیٰ میں میلہ لگاتے اور آباواجداد کے کارناموں کا ذکر کرتے، مسلمانوں کو کہا جا رہا ہے کہ جب تم ذوالحجہ کو کنکریاں مارنے، قربانی کرنے، سرمنڈانے، طواف کعبہ اور سعی صفا ومروہ سے فارغ ہو جاؤ تو اس کے بعد جو تین دن منیٰ میں قیام کرنا ہے تو وہاں خوب اللہ کا ذکر کرو، جیسے جاہلیت میں تم اپنے آبا کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
تکمیل حج کے بعد یہاں اللہ تعالیٰ حکم کرتا ہے کہ فراغت حج کے بعد اللہ تعالیٰ کا بہ کثرت ذکر کرو، اگلے جملے کے ایک معنی تو یہ بیان کیے گئے ہیں کہ اس طرح اللہ کا ذکر کرو جس طرح بچہ اپنے ماں باپ کو یاد کرتا رہتا ہے، دوسرے معنی یہ ہیں کہ اہل جاہلیت حج کے موقع پر ٹھہرتے وقت کوئی کہتا تھا میرا باپ بڑا مہمان نواز تھا کوئی کہتا تھا وہ لوگوں کے کام کاج کردیا کرتا تھا سخاوت و شجاعت میں یکتا تھا وغیرہ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ فضول باتیں چھوڑ دو اور اللہ تعالیٰ کی بزرگیاں بڑائیاں عظمتیں اور عزتیں بیان کرو، اکثر مفسرین نے یہی بیان کیا ہے، غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کثرت کرو، اسی لئے او اشد پر زبر تمہیز کی بنا پر لائی گئی ہے، یعنی اس طرح اللہ کی یاد کرو جس طرح اپنے بڑوں پر فخر کیا کرتے تھے۔ او سے یہاں خبر کی مثلیت کی تحقیق ہے جیسے ( او اشد قسوۃ ) میں اور ( او اشد خشیۃ ) میں اور ( او یزیدون ) میں اور ( او ادنیٰ ) میں، ان تمام مقامات میں لفظ " او " ہرگز ہرگز شک کے لئے نہیں ہے بلکہ " فجر عنہ " کی تحقیق کے لئے ہے، یعنی وہ ذکر اتنا ہی ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ کا ذکر بکثرت کر کے دعائیں مانگو کیونکہ یہ موقعہ قبولیت کا ہے، ساتھ ہی ان لوگوں کی برائی بھی بیان ہو رہی ہے جو اللہ سے سوال کرتے ہوئے صرف دنیا طلبی کرتے ہیں اور آخرت کی طرف نظریں نہیں اٹھاتے فرمایا ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ بعض اعراب یہاں ٹھہر کر صرف یہی دعائیں مانگتے ہیں کہ الہ اس سال بارشیں اچھی برسا تاکہ غلے اچھے پیدا ہوں اولادیں بکثرت ہوں وغیرہ۔ لیکن مومنوں کی دعائیں دونوں جہان کی بھلائیوں کی ہوتی تھیں اس لئے ان کی تعریفیں کی گئیں، اس دعا میں تمام بھلائیاں دین و دنیا کی جمع کردی ہیں اور تمام برائیوں سے بچاؤ ہے، اس لئے کہ دنیا کی بھلائی میں عافیت، راحت، آسانی، تندرستی، گھر بار، بیوی بچے، روزی، علم، عمل، اچھی سواریاں، نوکر چاکر، لونڈی، غلام، عزت و آبرو وغیرہ تمام چیزیں آگئیں اور آخرت کی بھلائی میں حساب کا آسان ہونا گھبراہٹ سے نجات پانا نامہ اعمال کا دائیں ہاتھ میں ملنا سرخ رو ہونا بالآخر عزت کے ساتھ جنت میں داخل ہونا سب آگیا، پھر اس کے بعد عذاب جہنم سے نجات چاہنا اس سے یہ مطلب ہے کہ ایسے اسباب اللہ تعالیٰ مہیا کر دے مثلا حرام کاریوں سے اجتناب گناہ اور بدیوں کا ترک وغیرہ، قاسم فرماتے ہیں جسے شکر گزاروں اور ذکر کرنے والی زبان اور صبر کرنے والا جسم مل گیا اسے دنیا اور آخرت کی بھلائی مل گئی اور عذاب سے نجات پا گیا، بخاری میں ہے کہ آنحضرت ﷺ اس دعا کو بکثرت پڑھا کرتے تھے اس حدیث میں ہے ربنا سے پہلے اللہم بھی ہے، حضرت قتادہ نے حضرت انس سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ زیادہ تر کس دعا کو پڑھتے تھے تو آپ نے جواب میں یہی دعا بتائی ( احمد ) حضرت انس ؓ جب خود بھی کبھی دعا مانگتے اس دعا کو نہ چھوڑتے، چناچہ حضرت ثابت نے ایک مرتبہ کہا کہ حضرت آپ کے یہ بھائی چاہتے ہیں کہ آپ ان کے لئے دعا کریں آپ نے یہی دعا ( اللہم اٰتنا فی الدنیا ) الخ پڑھی پھر کچھ دیر بیٹھے اور بات چیت کرنے کے بعد جب وہ جانے لگے تو پھر دعا کی درخواست کی آپ نے فرمایا کیا تم ٹکڑے کرانا چاہتے ہو اس دعا میں تو تمام بھلائیاں آگئیں ( ابن ابی حاتم ) آنحضرت ﷺ ایک مسلمان بیمار کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے دیکھا کہ وہ بالکل دبلا پتلا ہو رہا ہے صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا ہے آپ نے پوچھا کیا تم کوئی دعا بھی اللہ تعالیٰ سے مانگا کرتے تھے ؟ اس نے کہا ہاں میری یہ دعا تھی کہ اللہ تعالیٰ جو عذاب تو مجھے آخرت میں کرنا چاہتا ہے وہ دنیا میں ہی کر ڈال آپ نے فرمایا سبحان اللہ کسی میں ان کے برداشت کی طاقت بھی ہے ؟ تو نے یہ دعا ربنا اتنا ( آخرتک ) کیوں نہ پڑھی ؟ چناچہ بیمار نے اب سے اسی دعا کو پڑھنا شروع کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس شفا دے دی ( احمد ) رکن نبی حج اور رکن اسود کے درمیان حضور ﷺ اس دعا کو پڑھا کرتے تھے ( ابن ماجہ وغیرہ ) لیکن اس کی سند میں ضعف ہے واللہ اعلم، آپ فرماتے ہیں کہ میں جب کبھی رکن کے پاس سے گزرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ وہاں فرشتہ ہے اور وہ آمین کہہ رہا ہے تم جب کبھی یہاں سے کزرو تو دعا آیت ( ربنا اتنا ) الخ پڑھا کرو ( ابن مردویہ ) حضرت ابن عباس ؓ سے ایک شخص نے آکر پوچھا کہ میں نے ایک قافلہ کی ملازمت کرلی ہے اس اجرت پر وہ مجھے اپنے ساتھ سواری پر سوار کرلیں اور حج کے موقعہ پر مجھے وہ رخصت دے دیں کہ میں حج ادا کرلوں ویسے اور دنوں میں میں ان کی خدمت میں لگا رہوں تو فرمائیے کیا اس طرح میرا حج ادا ہوجائے گا آپ نے فرمایا ہاں بلکہ تو تو ان لوگوں میں سے ہے جن کے بارے میں فرمان ہے آیت ( اولئک لہم نصیب ) ( مستدرک حاکم )
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 200 فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِکَکُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ اٰبَآءَ ‘ کُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًا ط یعنی دسویں ذوالحجہ کو جب افعالِ حج سے فراغت پا چکو تو قیام منیٰ کے دوران اللہ کا خوب ذکر کرو جیس ئزمانہ جاہلیت میں اپنے آباء و اَجداد کا ذکر کیا کرتے تھے ‘ بلکہ اس سے بھی بڑھ چڑھ کر اللہ کا ذکر کرو۔ ان کا قدیم دستور تھا کہ حج سے فارغ ہو کر تین دن منیٰ میں قیام کرتے اور بازار لگاتے۔ وہاں میلے کا سا سماں ہوتا جہاں مختلف قبائل کے شعراء اپنے قبیلوں کی مدح سرائی کرتے تھے اور اپنے اسلاف کی عظمت بیان کرتے تھے۔ اللہ کا ذکر ختم ہوچکا تھا۔ فرمایا کہ جس شدو مدّ کے ساتھ تم اپنے آباء و اَجداد کا ذکر کرتے رہے ہو اب اسی انداز سے ‘ بلکہ اس سے بھی زیادہ شدومدّ کے ساتھ ‘ اللہ کا ذکر کرو۔فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلاَقٍ یعنی ارض حرم میں پہنچ کر دورانِ حج بھی ان کی ساری دعائیں دنیوی چیزوں ہی کے لیے ہیں۔ چناچہ وہ مال کے لیے ‘ اولاد کے لیے ‘ ترقی کے لیے ‘ دنیوی ضروریات کے لیے اور اپنی مشکلات کے حل کے لیے دعا کرتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے دلوں میں دنیا رچی بسی ہوئی ہے۔ جیسے بنی اسرائیل کے دلوں میں بچھڑے کا تقدس اور اس کی محبت جاگزیں کردی گئی تھی اسی طرح ہمارے دلوں میں دنیا کی محبت گھر کرچکی ہے ‘ لہٰذا وہاں جا کر بھی دنیا ہی کی دعائیں مانگتے ہیں۔ یہاں واضح فرما دیا گیا کہ ایسے لوگوں کے لیے پھر آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
فإذا قضيتم مناسككم فاذكروا الله كذكركم آباءكم أو أشد ذكرا فمن الناس من يقول ربنا آتنا في الدنيا وما له في الآخرة من خلاق
سورة: البقرة - آية: ( 200 ) - جزء: ( 2 ) - صفحة: ( 31 )Surah baqarah Ayat 200 meaning in urdu
پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو، تو جس طرح پہلے اپنے آبا و اجداد کا ذکر کرتے تھے، اُس طرح اب اللہ کا ذکر کرو، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر (مگر اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں میں بھی بہت فرق ہے) اُن میں سے کوئی تو ایسا ہے، جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب، ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دیدے ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور ہم نے بنی اسرائیل کو اہل عالم سے دانستہ منتخب کیا تھا
- جب کہ اس بیری پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا
- اور تم جہاں سے نکلو، مسجدِ محترم کی طرف منہ (کرکے نماز پڑھا) کرو۔ اور
- اور کہہ دو کہ حق آگیا اور باطل نابود ہوگیا۔ بےشک باطل نابود ہونے والا
- اور جب خدا کے بندے (محمدﷺ) اس کی عبادت کو کھڑے ہوئے تو کافر ان
- اور بہت سی بستیاں ہیں کہ ہم نے ان کو تباہ کر ڈالا کہ وہ
- اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو (مخلوقات) ان میں ہے اس کو
- حالانکہ تم کو اور جو تم بناتے ہو اس کو خدا ہی نے پیدا کیا
- ان سے (خوب) لڑو۔ خدا ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب میں ڈالے گا اور
- جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے آگ دیکھی ہے، میں وہاں
Quran surahs in English :
Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers