Surah baqarah Ayat 24 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ﴾
[ البقرة: 24]
لیکن اگر (ایسا) نہ کر سکو اور ہرگز نہیں کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے (اور جو) کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے
Surah baqarah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یہ قرآن کریم کی صداقت کی ایک اور واضح دلیل ہے کہ عرب وعجم کے تمام کافروں کو چیلنج دیا گیا، لیکن وہ آج تک اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں اور یقیناً قیامت تک قاصر رہیں گے۔
( 2 ) پتھر سے مراد بقول ابن عباس گندھک کے پتھر ہیں اور بعض حضرات کے نزدیک پتھر کے وہ أَصْنَامٌ ( بت ) بھی جہنم کا ایندھن ہوں گے جن کی لوگ دنیا میں پرستش کرتے رہے ہوں گے جیسا کہ قرآن مجید میں بھی ہے: «إِنَّكُمۡ وَمَا تَعۡبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ» [ الأنبياء: 98 ] ” تم اور جن کی تم عبادت کرتے ہو، جہنم کا ایندھن ہوں گے۔ “
( 3 ) اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ جہنم اصل میں کافروں اور مشرکوں کے لئے تیار کی گئی ہے اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جنت اور دوزخ کا وجود ہے جو اس وقت بھی ثابت ہے۔ یہی سلف امت کا عقیدہ ہے۔ یہ تمثیلی چیزیں نہیں ہیں، جیسا کہ بعض متجددین اور منکرین حدیث باور کراتے ہیں۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
تصدیق نبوت اعجاز قرآن توحید کے بعد اب نبوت کی تصدیق کی جا رہی ہے کفار مکہ کو خطاب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ ہم نے جو قرآن پاک اپنے بندے حضرت محمد ﷺ پر اتارا ہے اسے اگر تم ہمارا کلام نہیں مانتے تو تم اور تمہارے مددگار سب مل کر پورا قرآن نہیں صرف ایک سورت تو اس جیسی بنا لاؤ۔ جب تم ایسا نہیں کرسکتے اور اس سے عاجز ہو تو پھر اس قرآن کے کلام اللہ ہونے میں کیوں شک کرتے ہو ؟ اپنے ہم فکر اور مددگار سب کو جمع کرو تو بھی تم سب ناکام رہو گے۔ مطلب یہ ہے کہ جنہیں تم نے اپنا معبود بنا رکھا ہے انہیں بھی بلا لو اور ان سے بھی مدد چاہو پھر اس جیسی ایک سورت ہی تو بنا لاؤ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ تم اپنے حاکموں اور اپنے زباں دان فصیح وبلیغ لوگوں سے بھی مدد لے لو۔ قرآن پاک کے اس معجزے کا اظہار اور ایسا انداز خطاب کئی جگہ ہے سورة قصص میں ہے آیت ( قُلْ فَاْتُوْا بِكِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ هُوَ اَهْدٰى مِنْهُمَآ اَتَّبِعْهُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ) 28۔ القصص:49) یعنی اگر تم سچے ہو تو ان دونوں سے ( یعنی توریت و قرآن سے ) زیادہ ہدایت والی کوئی اور اللہ کی کتاب لاؤ تو میں بھی اس کی تابعداری کروں گا۔ سورة سبحان میں فرمایا آیت ( قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا ) 17۔ الإسراء:88) یعنی اگر تمام جنات اور انسان جمع ہو کر اور ہر ایک دوسرے کی مدد کے ساتھ یہ چاہیں کہ اس جیسا قرآن بنائیں تو بھی ان کے امکان میں نہیں سورة ہود میں فرمایا آیت ( اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَيٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ) 11۔ هود:13) یعنی کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ قرآن کو خود اس پیغمبر نے گھڑ لیا تم کہو کہ اگر تم سچے ہو تو تم سب مل کر اور اللہ کے سوا جنہیں تم بلا سکتے ہو بلا کر اس جیسی دس سورتیں ہی بنا لاؤ۔ سورة یونس میں ہے آیت ( وَمَا كَانَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ يُّفْتَرٰي مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيْلَ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ ) 10۔ يونس:37) یعنی یہ قرآن اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کی طرف سے گھڑا ہوا نہیں بلکہ یہ اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا اور کتاب تفصیل ہے جس کے اللہ کا کلام ہونے میں کوئی شک نہیں جو رب العالمین کی طرف سے ہے کیا یہ لوگ اسے خود ساختہ کہتے ہیں ان سے کہو کہ اللہ کے سوا ہر شخص کو بلا کر اس قرآن کی سینکڑوں سورتوں میں سے ایک چھوٹی سی سورت جیسی سورت تو بنا لاؤ تاکہ تمہارا سچ ظاہر ہو۔ یہ تمام آیتیں مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں اور اہل مکہ کو اس کے مقابلہ میں عاجز ثابت کر کے پھر مدینہ شریف میں بھی اس مضمون کو دہرایا گیا اوپر کی آیت مثلہ کی ضمیر کو بعض نے قرآن کی طرف لوٹایا ہے یعنی کوئی سورت اس قرآن جیسی لاؤ۔ بعض نے یہ ضمیر محمد ﷺ کی طرف لوٹائی ہے یعنی آپ جیسا کوئی امی ایسا ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ کچھ پڑھا ہوا نہ ہونے کے باوجود وہ کلام کہے جس کا مثل کسی سے نہ بن سکے لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے۔ مجاہد قتادہ عمرو بن مسعود ابن عباس حسن بصری اور اکثر محققین کا یہی قول ہے امام ابن جریر طبری زمحشری رازی نے بھی اسی کو پسند کیا ہے اس کی ترجیح کی وجوہات بہت سی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس میں سب کو ڈانٹ ڈپٹ بھی ہے اجتماعی اور الگ الگ بھی۔ خواہ وہ امی اور ان پڑھ ہوں یا اہل کتاب اور پڑھے لکھے ہوں اس میں اس معجزے کا کمال ہے اور بہ نسبت اس کے کہ صرف ان پڑھ لوگوں کو عاجز کیا جائے اس میں زیادہ مبالغہ ہے پھر دس سورتوں کا مطالبہ کرنا اس کی مثل نہ لا سکنے کی پیشنگوئی کرنا بھی اسی حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ اس سے مراد قرآن ہے نہ کہ ذات رسول اللہ ﷺ پس اس عام اعلان سے جو بار بار کیا گیا اور ساتھ ہی پیشنگوئی بھی کردی گئی کہ یہ لوگ اس پر قادر نہیں۔ مکہ میں اور مدینہ میں بارہا اس کا اعادہ کیا گیا اور وہ لوگ جن کی مادری زبان عربی تھی جنہیں اپنی فصاحت اور بلاغت پر ناز تھا جو لوگ آپ کی اور آپ کے دین کی دشمنی پر ادھار کھا بیٹھے تھے وہ درحقیقت اس سے عاجز آگئے نہ پورے قرآن کا جواب دے سکے نہ دس سورتوں کا، نہ ایک سورت کا، پس ایک معجزہ تو یہ ہے کہ اس جیسی ایک چھوٹی سی سورت بھی وہ نہ بنا سکے دوسرا معجزہ یہ ہے کہ پیشنگوئی سچ ثابت ہوئی کہ یہ ہرگز اس جیسا نہیں بنا سکتے چاہے سب جمع ہوجائیں اور قیامت تک محنت کرلیں۔ پس ایسا ہی ہوا نہ تو اس زمانہ میں کسی کی یہ جرات ہوئی نہ اس کے بعد سے آج تک اور نہ قیامت تک کسی سے یہ ہو سکے گا اور بھلا کیسے ہوسکتا ؟ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات بےمثل اسی طرح اس کا کلام بھی۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ قرآن پاک کو بیک نظر دیکھنے سے ہی اس کے ظاہری اور باطنی لفظی اور معنوی ایسے ایسے کمالات ظاہر ہوتے ہیں جو مخلوق کے بس کے نہیں خود رب العالمین فرماتا ہے آیت ( الۗرٰ ۣ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ ) 11۔ هود:1) یعنی اس کتاب کی آیتیں جو حکمت والے ہر طرح کی خبریں جاننے والے اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے محکم مضبوط اور مفصل الگ الگ ہیں۔ پس الفاظ محکم اور معانی مفصل یا الفاظ مفصل اور معانی محکم پس قرآن اپنے الفاظ میں اور اپنے مضامین میں بےنظیر ہے جس کے مقابلے، معارضے اور مثل سے دنیا عاجز اور بےبس ہے اس پاک کلام میں اگلی خبریں جو دنیا سے پوشیدہ تھیں وہ ہو بہو بیان کی گئیں آنے والے امور کے تذکرے کئے گئے جو لفظ بہ لفظ پورے اترے۔ تمام بھلائیوں کا حکم تمام برائیوں سے ممانعت اس میں ہے۔ سچ ہے آیت ( وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ) 6۔ الأنعام:115) یعنی خبروں میں صداقت اور احکام میں عدل تیرے رب کے کلام میں پورا پورا ہے۔ پاکیزہ قرآن تمام تر حق و صداقت و ہدایت سے پر ہے نہ اس میں واہی تواہی باتیں ہیں نہ ہنسی مذاق نہ کذب و افترا جو شاعروں کے کلام میں عموماً پایا جاتا ہے بلکہ ان کے اشعار کی قدرو قیمت ہی اسی پر مقولہ مشہور ہے کہ اعذبہ اکذبہ جوں جھوٹ زیادہ اتنا ہی مزید سر تم دیکھو گے کہ لمبے لمبے پر زور قصیدے مبالغہ اور کذب آمیز یا تو عورتوں کی تعریف و توصیف میں ہوں گے یا گھوڑوں کی اور شراب کی ستائش میں ہوں گے یا کسی انسان کی بڑھی چڑھی مدح و تعریف میں ہوں گے یا اونٹنیوں کی آرائش و زیبائش یا بہادری کے مبالغہ آمیز گیت یا لڑائیوں کی چالبازیوں یا ڈر خوف کے خیالی منظروں کے بیان میں ہوں گے جن سے کوئی فائدہ نہیں۔ نہ دین کا نہ دنیا کا صرف شاعر کی زبان دانی اور اس کی قدرت کلام ظاہر ہوتی ہے۔ نہ اخلاق پر ان سے کوئی عمدہ اثر نہ اعمال۔ پر پھر نفس مضمون کے ساتھ پورے قصیدے میں بمشکل دو ایک شعر ہوتے ہیں۔ باقی سب بھرتی کے اور ادھر ادھر کی لایعنی اور فضول بکواس برخلاف اس کے قرآن پاک کے اس پر نظر ڈالو تو دیکھو گے کہ اس کا ایک ایک لفظ فصاحت و بلاغت سے دین و دنیا کے نفع سے، خیرو برکت سے پر ہے۔ پھر کلام کی ترتیب و تہذیب الفاظ کی بندش، عبارت کی روانی، معانی کی نورانیت، مضمون کی پاکیزگی، سونے پر سہاگہ ہے۔ اس کی خبروں کی حلاوت، اس کے بیان کردہ واقعات کی سلاست، مردہ دلوں کی زندگی ہے۔ اس کا اختصار کمال کا اعلیٰ نمونہ اور اس کی تفصیل معجزے کی جان ہے اس کا کسی چیز کا دوہرانا قند مکرر کا مزہ دیتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے گویا سچے موتیوں کی بارش برس رہی ہے۔ بار بار پڑھو دل نہ اکتائے، مزے لیتے جاؤ اور ہر وقت نیا مزہ پاؤ۔ مضامین سمجھتے جاؤ اور ختم نہ ہوں۔ یہ قرآن پاک کا ہی خاصہ ہے اس چاشنی کا ذائقہ، اس مٹھاس کا مزہ کوئی اس سے پوچھے جنہیں عقل و حواس علم و فضل کا کچھ حصہ قدرت نے عطا فرمایا۔ اس کی تنذیر دھمکاوا تعذیب اور پکڑ دھکڑ کا بیان مضبوط پہاڑوں کو ہلا دے۔ انسانی دل کیا ہیں اس کے وعدے اور خوشخبریاں، نعمتوں اور رحمتوں کا بیان دلوں کی پژمردہ کلی کو کھلا دینے والا، شوق و تمنا کے دبے جذبات کو ابھار دینے والا جنتوں اور راحتوں کے پیارے پیارے مناظر کو آنکھوں کے سامنے لانے والا ہے۔ دل کھل جاتے ہیں کان لگ جاتے ہیں اور آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ رغبت دیتے ہوئے وہ فرماتا ہے آیت ( فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ) 22۔ السجدة:17) اس دائمی جنت میں ہر وہ چیز ہے جو دل کو بھائے اور آنکھوں میں اتر جائے۔ ڈراتے اور دھمکاتے ہوئے فرمایا آیت ( اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ ) 17۔ الاسرآء :68) فرمایا ( ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا هِيَ تَمُوْرُ 16ۙ اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يُّرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ۭ فَسَتَعْلَمُوْنَ كَيْفَ نَذِيْرِ 17 ) 67۔ الملك:1716) کیا تم اپنے دھنسائے جانے یا آسمان سے پتھر برسائے جانے سے نڈر ہوگئے ہو ؟ کیا آسمانوں والا اس پر قادر نہیں ؟ اسے محض دھمکی ہی نہ سمجھو بلکہ اس کی حقیقت عنقریب تم پر کھل جائے گی۔ زجرو تو پیخ ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے۔ آیت ( فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ ) 29۔ العنكبوت:40) ایک ایک کو ہم نے اس کی بدکرداریوں میں پکڑ لیا۔ بطور وعظ و نصیحت بیان ہوتا ہے آیت ( اَفَرَءَيْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ سِـنِيْنَ02005ۙ ثُمَّ جَاۗءَهُمْ مَّا كَانُوْا يُوْعَدُوْنَ02006ۙ مَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يُمَـتَّعُوْنَ02007ۭ ) 26۔ الشعرآء :207206205) اگر ہم نے کچھ سال انہیں فائدہ نہیں دیا تو کیا ہوا ؟ آخر وعدے کی گھڑی آپہنچی اور اس جاہ و جلال نے کوئی نفع نہ بخشا۔ غرض کوئی کہاں تک بیان کرے جس مضمون کا ذکر کیا۔ اسے کمال تک پہنچا کر چھوڑا اور طرح طرح کی فصاحت و بلاغت، حلاوت و حکمت سے معمور کردیا احکام کے حکم اور روک ٹوک کو دیکھئے ہر حکم اچھائی بھلائی نفع اور پاکیزگی کا جامع ہے۔ ہر ممانعت قباحت رذالت اور خباثت کی قاطع ہے۔ ابن مسعود وغیرہ اسلاف امت کا قول ہے کہ جب قرآن میں آیت ( یا ایھا الذین امنوا ) آئے تو کان لگا دو یا تو کسی اچھائی کا حکم ہوگا یا کسی برائی سے منع کیا جائے گا خود پروردگار عالم فرماتا ہے آیت ( يَاْمُرُهُمْ بالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْهِمْ ) 7۔ الأعراف:157) یعنی بھلائیوں کا حکم دیتا ہے برائیوں سے روکتا ہے پاکیزہ چیزیں حلال قرار دیتا ہے خبیث چیزیں حرام کرتا ہے وہ بوجھل بیڑیاں جو پاؤں میں تھیں وہ سخت طوق جو گلوں میں تھے اتار پھینکتا ہے قیامت کے بیان کی آیتیں ہیں کہ ہولناک مناظر جنت و دوزخ کا بیان رحمتوں اور زحمتوں کا پورا پورا وصف۔ اولیاء اللہ کے لئے طرح طرح کی نعمتیں۔ دشمنان اللہ کے لئے طرح طرح کے عذاب۔ کہیں بشارت ہے کہیں ڈراوا ہے کہیں نیکیوں کی طرف رغبت ہے۔ کہیں بدکاریوں سے ممانعت ہے۔ کہیں دنیا کی طرف سے زہد کرنے کی، کہیں آخرت کی طرف رغبت کرنے کی تعلیم ہے۔ یہی وہ تمام آیتیں ہیں جو راہ راست دکھاتی ہیں اور بہتر رہنمائی کرتی ہیں اللہ کی پسندیدہ شریعت کی طرف جھکاتی ہیں اور دلوں کو جلا دیتی ہیں اور شیطانی دروازوں کو بند کردیتی ہے اور برے اثرات کو زائل کرتی ہیں۔ صحیح بخاری مسلم میں بروایت حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر نبی کو ایسے معجزے دئیے گئے کہ جنہیں دیکھ کر لوگ اس پر ایمان لائے اور میرا معجزہ اللہ کی وحی یعنی قرآن پاک ہے اس لئے مجھے امید ہے کہ میرے تابعدار بہ نسبت اور نبیوں کے بہت زیادہ ہوں گے اس لئے کہ اور انبیاء کے معجزے ان کے ساتھ چلے گئے لیکن حضور ﷺ کا یہ معجزہ قیامت تک باقی رہے گا۔ لوگ اسے دیکھتے جائیں گے اور اسلام میں داخل ہوتے جائیں گے حضور ﷺ کا یہ فرمان کہ میرا معجزہ وحی ہے جو مجھ کو دی گئی ہے کا مطلب یہ ہے کہ مجھ کو اس کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے اور قرآن کریم مجھی کو ملا ہے جو اپنے معارضے اور مقابلے میں تمام دنیا کو عاجز کردینے والا ہے۔ بخلاف دوسری آسمانی کتابوں کے وہ اکثر علماء کے نزدیک اس وصف سے خالی ہیں واللہ اعلم۔ آنحضرت ﷺ کی نبوت آپ کی صداقت اور دین اسلام کی حقانیت پر اس معجزے کے علاوہ بھی اس قدر دلائل ہیں جو گنے بھی نہیں جاسکتے۔ للہ الحمد والمنتہ۔ بعض متکلمین نے قرآن کریم کے اعجاز کو ایسے انداز سے بیان کیا ہے جو اہل سنت کے اور معزلہ کے قول پر مشترک ہے وہ کہتے ہیں کہ یا تو یہ قرآن فی نفسہ معجزہ ہے جو انسان کے امکان میں ہی نہیں کہ اس جیسا بنا لاسکے انہیں اس کا معارضہ کرنے کی قدرت و طاقت ہی نہیں۔ یا یہ کہ گو اس کا معارضہ ممکن ہے اور انسانی طاقت سے باہر نہیں لیکن باوجود اس کے انہیں معارضہ کا چیلنج دیا جاتا ہے اس لئے کہ وہ عداوت اور دشمنی میں بڑھے ہوئے ہیں دین حق کو مٹانے، ہر وقت ہر طاقت کے خرچ کرنے اور ہر چیز کے برباد کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن تاہم قرآن کا معارضہ اور مقابلہ ان سے نہیں ہوسکتا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن اللہ کی جانب سے ہے اگر قدرت و طاقت ہو بھی تو بھی وہ انہیں روک دیتا ہے اور وہ قرآن کی مثل پیش کرنے سے عاجز ہوجاتے ہیں۔ گو یہ پچھلی وجہ اتنی پسندیدہ نہیں تاہم اگر اسے بھی مان لیا جائے تو اس سے بھی قرآن پاک کا معجزہ ہونا ثابت ہوے جو بطریق تنزل حمایت حق اور مناظرے کی خاطر صلاحیت رکھتا ہے امام رازی نے بھی چھوٹی چھوٹی سورتوں کے سوال کے جواب میں یہی طریقہ اختیار کیا ہے۔ جہنم کا ایندھن وقود کے معنی ایندھن کے ہیں جس سے آگ جلائی جائے۔ جیسے چپٹیاں لکڑیاں وغیرہ قرآن کریم میں ایک جگہ ہے آیت ( وَاَمَّا الْقٰسِطُوْنَ فَكَانُوْا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا ) 72۔ الجن:15) ظالم لوگ جہنم کی لکڑیاں ہیں اور جگہ فرمایا تم اور تمہارے معبود جو اللہ کے سوا ہیں جہنم کی لکڑیاں ہیں تم سب اس میں وارد ہو گے اگر وہ سچے معبود ہوتے تو وہاں وارد نہ ہوتے دراصل یہ سب کے سب اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور حجارہ کہتے ہیں پتھر کو یہاں مراد گندھک کے سخت سیاہ اور بڑے بڑے اور بدبو دار پتھر ہیں جن کی آگ بہت تیز ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں ان پتھروں کو زمین و آسمان کی پیدائش کے ساتھ ہی آسمان اول پر پیدا کیا گیا ہے۔ ( ابن جریر ابن ابی حاتم مستدرک حاکم ) ابن عباس ابن مسعود اور چند اور صحابہ سے سدی نے نقل کیا ہے کہ جہنم میں یہ سیاہ گندھک کے پتھر بھی ہیں جن کی سخت آگ سے کافروں کو عذاب کیا جائے گا۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں ان پتھروں کی بدبو مردار کی بو سے بھی زیادہ ہے محمد بن علی اور ابن جریج بھی کہتے ہیں کہ مراد گندھک کے بڑے بڑے اور سخت پتھر ہیں۔ بعض نے کہا ہے مراد وہ پتھر جن کی مورتیاں بنائی جاتی ہیں اور پھر ان کی پرستش کی جاتی تھی جیسے اور جگہ ہے آیت ( اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ ) 21۔ الأنبياء:98) تم اور تمہارے وہ معبود جو اللہ کے سوا ہیں جہنم کی لکڑیاں ہیں قرطبی اور رازی نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ گندھک کے پتھر جو کسی شکل میں بھی اللہ کے سوا پوجے جاتے ہوں لیکن یہ وجہ کوئی قوی وجہ نہیں اس لئے کہ جب آگ گندھک کے پتھروں سے سلگائی جائے تو ظاہر ہے کہ اس کی تیزی اور حرارت معمولی آگ سے بہت زیادہ ہوگی اس کا بھڑکنا جلنا سوزش اور شعلے بھی بہت زیادہ ہوں گے علاوہ اس کے پھر سلف سے بھی اس کی تفسیر یہی مروی ہے اسی طرح ان پتھروں میں آگ کا لگنا بھی ظاہر ہے۔ اور آیت کا مقصود آگ کی اور اس کی سوزش کا بیان کرنا ہے اور اس کے بیان کے لئے بھی یہاں پتھر سے مراد گندھک کے پتھر لینا زیادہ مناسب ہے تاکہ وہ آگ تیز ہو اور اس سے بھی عذاب میں سختی ہو قرآن کریم میں ہے آیت ( كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِيْرًا ) 17۔ الاسرآء :97) جہاں شعلے ہلکے ہوئے کہ ہم نے اور بھڑکا دیا۔ ایک حدیث میں ہے ہر موذی آگ میں ہے لیکن یہ حدیث محفوظ اور معروف نہیں۔ قرطبی فرماتے ہیں اس کے دو معنی ہیں ایک یہ کہ ہر وہ شخص جو دوسروں کو ایذاء دے جہنمی ہے دوسرے یہ کہ ہر ایذاء دہندہ چیز جہنم کی آگ میں موجود ہوگی جو جہنمیوں کو عذاب دے گی۔ اعدت یعنی تیار کی گئی ہے مراد بظاہر یہی معلوم ہوتی ہے کہ وہ آگ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مراد پتھر ہوں یعنی وہ پتھر جو کافروں کے لئے تیار کئے گئے ہیں۔ ابن مسعود کا یہی قول ہے اور فی الحقیقت دونوں معنی میں کوئی اختلاف نہیں اس لئے کہ پتھروں کا تیار کیا جانا آگ کے جلانے کے لئے ہے۔ لہذا آگ کی تیاری کے لئے پتھروں کا تیار کیا جانا ضروری ہے۔ پس دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں ہر وہ شخص جو کفر پر ہو اس کے لیے وہ آگ تیار ہے۔ اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ جہنم اب موجود اور پیدا شدہ ہے کیونکہ " اعدت " کا لفظ ہی اس کی دلیل میں آیا ہے بہت سی حدیثیں بھی ہیں۔ ایک مطول حدیث میں ہے جنت اور دوزخ میں جھگڑا ہوا، دوسری حدیث میں ہے جہنم نے اللہ تعالیٰ سے دو سانس لینے کی اجازت چاہی اور اسے سردی میں ایک سانس لینے اور گرمی میں دوسرا سانس لینے کی اجازت دے دی گئی۔ تیسری حدیث میں ہے صحابہ کہتے ہیں ہم نے ایک مرتبہ بڑے زور کی ایک آواز سنی حضور ﷺ سے پوچھا یہ کس چیز کی آواز ہے آپ نے فرمایا ستر سال پہلے ایک پتھر جہنم میں پھینکا گیا تھا آج وہ تہ کو پہنچا۔ چوتھی حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے سورج گرہن کی نماز پڑھتے ہوئے جہنم کو دیکھا۔ پانچویں حدیث میں ہے کہ آپ نے شب معراج میں جہنم کو اس میں عذابوں کے سلسلے کو ملاحظہ فرمایا اسی طرح اور بہت سی صحیح متواتر حدیثیں مروی ہیں معتزلہ اپنی جہالت کی وجہ سے انہیں نہیں مانتے قاضی اندلس منذر بن سعید بلوطی نے بھی ان سے اتفاق کیا ہے۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہاں اور سورة یونس میں جو کہا گیا ہے کہ ایک ہی سورت کے مانند لاؤ اس میں ہر چھوٹی بڑی آیت شامل ہے اس لئے عربیت کے قاعدے کے مطابق جو اسم نکرہ ہو اور شرط کے طور پر لایا گیا ہو وہ عمومیت کا فائدہ دیتا ہے جیسے کہ نکرہ نفی کی تحت میں استغراق کا فائدہ دیتا ہے پس لمبی سورتوں اور چھوٹی سورتوں سب میں اعجاز ہے اور اس بات پر سلف و خلف کا اتفاق ہے امام رازی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی کہے کہ سورت کا لفظ سورة کوثر اور سورة العصر اور سورة آیت ( قل یا ایھا الکفرون جیسی چھوٹی سورتوں پر بھی مشتمل ہے اور یہ بھی یقین ہو کہ اس جیسی یا اس کے قریب قریب کسی سورت کا بنا لینا ممکن ہے تو اسے انسانی طاقت سے خارج کہنا نری ہٹ دھرمی اور بےجا طرف داری ہے تو ہم جواب دیں گے کہ ہم نے اس کے معجز نما ہونے کے دو طریقے بیان کر کے دوسرے طریقہ کو اسی لئے پسند کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ چھوٹی سورتیں بھی فصاحت و بلاغت میں میں اسی پایہ کی ہیں کہ وہ معجزہ کہی جاسکیں اور انکار تعارض ممکن نہ ہو تو مقصود حاصل ہوگیا اور اگر یہ سورتیں ایسی نہیں تو بھی ہمارا مقصود حاصل ہے اس لئے کہ ان جیسی سورتوں کو بنانے کی انسانی قدرت ہونے پر بھی سخت دشمنی اور زبردست کوششوں کے باوجود ناکام رہنا ہے۔ اس بات کی صاف دلیل ہے کہ یہ قرآن مع اپنی چھوٹی چھوٹی سورتوں کے سراسر معجزہ ہے یہ تو رازی کا کہنا ہے۔ لیکن صحیح قول یہ ہے کہ قرآن پاک کی ہر بڑی چھوٹی سورت فی الواقع معجزہ ہے اور انسان اس کی مانند بنانے سے محض عاجز اور بالکل بےبس ہے۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں اگر لوگ غورو تدبر سے عقل و ہوش سے سورة والعصر کو سمجھ لیں تو انتہائی کافی ہے۔ حضرت عمرو بن عاص ؓ جب وفد میں شامل مسیلمہ کذاب کے پاس گئے (تب یہ خود بھی مسلمان نہیں ہوئے تھے ) تو مسیلمہ نے ان سے پوچھا کہ تم مکہ سے آ رہے ہو بتاؤ تو آج کل کوئی تازہ وحی بھی نازل ہوئی ہے ؟ انہوں نے کہا ابھی ابھی ایک مختصر سی سورت نازل ہوئی ہے جو بیحد فصیح وبلیغ اور جامع اور مانع ہے پھر سورة والعصر پڑھ کر سنائی تو مسلیمہ نے کچھ دیر سوچ کر اس کے مقابلے میں کہا۔ مجھ پر بھی ایک ایسی ہی سورت نازل ہوئی ہے انہوں نے کہا ہاں تم بھی سناؤ تو اس نے کہا یاوبر یاوبر انما انت اذنان وصدر وسائک حقر فقر یعنی اے جنگلی چوہے اے جنگلی چوہے تیرا وجود سوائے دو کانوں اور سینے کے اور کچھ بھی نہیں باقی تو سراسر بالکل ناچیز ہے پھر فخریہ کہنے لگا کہو اے عمرو کیسی کہی ؟ انہوں نے کہا مجھ سے کیا پوچھتے ہو تو خود جانتا ہے کہ یہ سراسر کذب و بہتان ہے بھلا کہاں یہ فضول کلام اور کہاں حکمتوں سے بھرپور وہ کلام ؟
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 24 فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا ذرا انداز دیکھئے ‘ کیسا تحدی اور چیلنج کا ہے ! اور یہ چیلنج اللہ کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ یہ انداز دنیا کی کسی کتاب کا نہیں ہے ‘ یہ دعویٰ صرف قرآن کا ہے۔ کیسا دو ٹوک انداز ہے : ” پھر اگر تم نہ کر پاؤ ‘ اور تم ہرگز نہیں کر پاؤ گے۔ “ فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ ج جہنم کے ایندھن کے طور پر پتھروں کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے۔ اس کے دو امکانات ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ کو معلوم ہے پتھر کے کوئلے کی آگ عام لکڑی کے کوئلے کے مقابلے میں بڑی سخت ہوتی ہے۔ لہٰذا جہنم کی آگ بہت بڑے بڑے پتھروں سے دہکائی جائے گی۔ دوسرے یہ کہ مشرکین نے جو معبود تراش رکھے تھے وہ پتھر کے ہوتے تھے۔ مشرکین کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ تمہارے ساتھ تمہارے ان معبودوں کو بھی جہنم میں جھونکا جائے گا تاکہ تمہاری حسرت کے اندر اضافہ ہو کہ یہ ہیں وہ معبودان باطل جن سے ہم دعائیں مانگا کرتے تھے ‘ جن کے سامنے ماتھے ٹیکتے تھے ‘ جن کے سامنے ڈنڈوت کرتے تھے ‘ جن کو چڑھاوے چڑھاتے تھے !اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ یہ جہنم منکرین حق کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اب یہاں گویا ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت کے بعد ایمان بالآخرت کا ذکر آگیا۔
فإن لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التي وقودها الناس والحجارة أعدت للكافرين
سورة: البقرة - آية: ( 24 ) - جزء: ( 1 ) - صفحة: ( 4 )Surah baqarah Ayat 24 meaning in urdu
تو یہ کام کر کے دکھاؤ، لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا اور یقیناً کبھی نہیں کرسکتے، تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر، جو مہیا کی گئی ہے منکرین حق کے لیے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور ان (ہزلیات) کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان کے عہدِ سلطنت میں شیاطین پڑھا
- امید ہے کہ تمہارا پروردگار تم پر رحم کرے، اور اگر تم پھر وہی (حرکتیں)
- کہہ دو کہ اگر میں اپنے پروردگار کا حکم نہ مانوں تو مجھے بڑے دن
- اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو بنایا۔
- خدا (جو معبود برحق ہے) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہمیشہ زندہ
- (یعنی اس نے) تمہارے دل پر (القا) کیا ہے تاکہ (لوگوں کو) نصیحت کرتے رہو
- اور جو ثمود تھے ان کو ہم نے سیدھا رستہ دکھا دیا تھا مگر انہوں
- اور اگر ہم اس قرآن کو غیر زبان عرب میں (نازل) کرتے تو یہ لوگ
- اور جن کے وزن ہلکے ہوں گے تو یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے تئیں
- کہہ دو کہ جتنی مدّت وہ رہے اسے خدا ہی خوب جانتا ہے۔ اسی کو
Quran surahs in English :
Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers