Surah Shura Ayat 38 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ﴾
[ الشورى: 38]
اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔ اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں۔ اور جو مال ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
Surah Shura Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی اس کے حکم کی اطاعت، اس کے رسول کا اتباع اور اس کے زواجر سے اجتناب کرتے ہیں۔
( 2 ) نماز کی پابندی اور اقامت کا بطور خاص ذکر کیا کہ عبادات میں اس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔
( 3 ) شُورَى ٰ، کا لفظ ذِكْرَىٰ اور بُشْرَىٰ کی طرح باب مفاعلہ سے اسم مصدر ہے۔ یعنی اہل ایمان ہر اہم کام باہمی مشاورت سے کرتے ہیں، اپنی ہی رائے کو حرف آخر نہیں سمجھتے خود نبی ( صلى الله عليه وسلم ) کو بھی اللہ نے حکم دیا کہ مسلمانوں سے مشورہ کرو ( آل عمران: 159 ) چنانچہ آپ جنگی معاملات اور دیگر اہم کاموں میں مشاورت کا اہتمام فرماتے تھے۔ جس سے مسلمانوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی اور معاملے کے مختلف گوشے واضح ہوجاتے۔ حضرت عمر ( رضي الله عنه ) جب نیزے کے وار سے زخمی ہوگئے اور زندگی کی کوئی امید باقی نہ رہی تو امر خلافت میں مشاورت کے لیے چھ آدمی نامزد فرما دیے۔ عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد اور عبدالرحمٰن بن عوف ( رضي الله عنهم ) ۔ انہوں نے باہم مشورہ کیا اور دیگر لوگوں سے بھی مشاورت کی اور اس کے بعد حضرت عثمان ( رضي الله عنه ) کو خلافت کے لیے مقرر فرمادیا۔ بعض لوگ مشاورت کے اس حکم اور تاکید سے ملوکیت کی تردید اور جمہوریت کا اثبات کرتے ہیں۔ حالانکہ مشاورت کا اہتمام ملوکیت میں بھی ہوتا ہے۔ بادشاہ کی بھی مجلس مشاورت ہوتی ہے، جس میں ہر اہم معاملے پر سوچ بچار ہوتا ہے اس لیے اس آیت سے ملوکیت کی نفی قطعاً نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں جمہوریت کو مشاورت کے ہم معنی سمجھنا یکسر غلط ہے۔ مشاورت ہر کہ و مہ سے نہیں ہوسکتی، نہ اس کی ضرورت ہی ہے۔ مشاورت کا مطلب ان لوگوں سے مشورہ کرنا ہے جو اس معاملے کی نزاکتوں اور ضرورتوں کو سمجھتے ہیں جس میں مشورہ درکار ہوتا ہے۔ جیسے بلڈنگ، پل وغیرہ بنانا ہو تو، کسی تانگہ بان، درزی یا رکشہ ڈرائیور سے نہیں، کسی انجینئر سے مشورہ کیا جائے گا، کسی مرض کے بارے میں مشورے کی ضرورت ہوگی تو طب و حکمت کے ماہرین کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ جب کہ جمہوریت میں اس کے برعکس ہر بالغ شخص کو مشورے کا اہل سمجھا جاتا ہے، چاہے وہ کورا ان پڑھ، بےشعور اور امور سلطنت کی نزاکتوں سے یکسر بے خبر ہو۔ بنابریں مشاورت کے لفظ سے جمہوریت کا اثبات، تحکم اور دھاندلی کے سوا کچھ نہیں، اور جس طرح سوشلزم کے ساتھ اسلامی کا لفظ لگانے سے سوشلزم مشرف بہ اسلام نہیں ہوسکتا، اسی طرح جمہوریت میں اسلامی کی پیوند کاری سے مغربی جمہوریت پر خلافت کی قباراست نہیں آسکتی۔ مغرب کا یہ پودا اسلام کی سرزمین پر نہیں پنپ سکتا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
درگذر کرنا بدلہ لینے سے بہتر ہے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بےقدری اور اسکی حقارت بیان فرمائی کہ اسے جمع کر کے کسی کو اس پر اترانا نہیں چاہیے کیونکہ یہ فانی چیز ہے۔ بلکہ آخرت کی طرف رغبت کرنی چاہیے نیک اعمال کر کے ثواب جمع کرنا چاہیے جو سرمدی اور باقی چیز ہے۔ پس فانی کو باقی پر کمی کو زیادتی پر ترجیح دینا عقلمندی نہیں اب اس ثواب کے حاصل کرنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں کہ ایمان مضبوط ہو تاکہ دنیاوی لذتوں کے ترک پر صبر ہو سکے اللہ پر کامل بھروسہ ہو تاکہ صبر پر اس کی امداد ملے اور احکام الٰہی کی بجا آوری اور نافرمانیوں سے اجتناب آسان ہوجائے کبیرہ گناہوں اور فحش کاموں سے پرہیز چاہیے۔ اس جملہ کی تفسیر سورة اعراف میں گذر چکی ہے۔ غصے پر قابو چاہیے کہ عین غصے اور غضب کی حالت میں بھی خوش خلقی اور درگذر کی عادت نہ چھوٹے چناچہ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی بھی اپنے نفس کا بدلہ کسی سے نہیں لیا ہاں اگر اللہ کے احکام کی بےعزتی اور بےتوقیری ہوتی ہو تو اور بات ہے اور حدیث میں ہے کہ بہت ہی زیادہ غصے کی حالت میں بھی آپ کی زبان سے اس کے سوا اور کچھ الفاظ نہ نکلتے کہ فرماتے اسے کیا ہوگیا ہے اس کے ہاتھ خاک آلود ہوں۔ حضرت ابراہیم فرماتے ہیں مسلمان پست و ذلیل ہوتا تو پسند نہیں کرتے تھے لیکن غالب آکر انتقام بھی نہیں لیتے تھے بلکہ درگذر کر جاتے اور معاف فرما دیتے۔ ان کی اور صفت یہ ہے کہ یہ اللہ کا کہا کرتے ہیں رسول ﷺ کی اتباع کرتے ہیں جس کا وہ حکم کرے بجا لاتے ہیں جس سے وہ روکے رک جاتے ہیں نماز کے پابند ہوتے ہیں جو سب سے اعلیٰ عبادت ہے۔ بڑے بڑے امور میں بغیر آپس کی مشاورت کے ہاتھ نہیں ڈالتے۔ خود رسول اللہ ﷺ کو حکم اللہ ہوتا ہے آیت ( وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْر01509 ) 3۔ آل عمران:159) یعنی ان سے مشورہ کرلیا کرو اسی لئے حضور ﷺ کی عادت تھی کہ جہاد وغیرہ کے موقعہ پر لوگوں سے مشورہ کرلیا کرتے تاکہ ان کے جی خوش ہوجائیں۔ اور اسی بنا پر امیر المومنین حضرت عمر نے جب کہ آپ کو زخمی کردیا گیا اور وفات کا وقت آگیا چھ آدمی مقرر کر دئیے کہ یہ اپنے مشورے سے میرے بعد کسی کو میرا جانشین مقرر کریں ان چھ بزرگوں کے نام یہ ہیں۔ عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد اور عبدالرحمن بن عوف رضٰی اللہ تعالیٰ عنہم۔ پس سب نے باتفاق رائے حضرت عثمان کو اپنا امیر مقرر کیا پھر ان کا جن کے لئے آخرت کی تیاری اور وہاں کے ثواب ہیں ایک اور وصف بیان فرمایا کہ جہاں یہ حق اللہ ادا کرتے ہیں وہاں لوگوں کے حقوق کی ادائیگی میں بھی کمی نہیں کرتے اپنے مال میں محتاجوں کا حصہ بھی رکھتے ہیں اور درجہ بدرجہ اپنی طاقت کے مطابق ہر ایک کے ساتھ سلوک و احسان کرتے رہتے ہیں اور یہ ایسے ذلیل پست اور بےزور نہیں ہوتے کہ ظالم کے ظلم کی روک تھام نہ کرسکیں بلکہ اتنی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں کہ ظالموں سے انتقام لیں اور مظلوم کو اس کے پنجے سے نجات دلوائیں لیکن ہاں ! اپنی شرافت کی وجہ سے غالب آکر پھر چھوڑ دیتے ہیں۔ جیسے کہ نبی اللہ حضرت یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں پر قابو پا کر فرما دیا کہ جاؤ تمہیں میں کوئی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرتا بلکہ میری خواہش ہے اور دعا ہے کہ اللہ بھی تمہیں معاف فرما دے۔ اور جیسے کہ سردار انبیاء رسول اللہ احمد مجتبیٰ حضرت محمد ﷺ نے حدیبیہ میں کیا جبکہ اسی وقت کفار غفلت کا موقع ڈھونڈ کر چپ چاپ لشکر اسلام میں گھس آئے جب یہ پکڑ لئے گئے اور گرفتار ہو کر حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کر دئیے گئے تو آپ نے ان سب کو معافی دے دی اور چھوڑ دیا۔ اور اسی طرح آپ نے غورث بن حارث کو معاف فرما دیا یہ وہ شخص ہے کہ حضور ﷺ کے سوتے ہوئے اس نے آپ کی تلوار پر قبضہ کرلیا جب آپ جاگے اور اسے ڈانٹا تو تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور آپ نے تلوار لے لی اور وہ مجرم گردن جھکائے آپ کے سامنے کھڑا ہوگیا آپ نے صحابہ کو بلا کر یہ منظر دکھایا اور یہ قصہ بھی سنایا پھر اسے معاف فرما دیا اور جانے دیا۔ اسی طرح لبید بن اعصم نے جب آپ پر جادو کیا تو علم وقدرت کے باوجود آپ نے اس سے درگذر فرما لے اور اسی طرح جس یہودیہ عورت نے آپ کو زہر دیا تھا آپ نے اس سے بھی بدلہ نہ لیا اور قابو پانے اور معلوم ہوجانے کے باوجود بھی آپ نے اتنے بڑے واقعہ کو جانا آنا کردیا اس عورت کا نام زینب تھا یہ مرحب یہودی کی بہن تھی۔ جو جنگ خیبر میں حضرت محمود بن سلمہ کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ اس نے بکری کے شانے کے گوشت میں زہر ملا کر خود حضور ﷺ کے سامنے پیش کیا تھا خود شانے نے ہی آنحضرت ﷺ کو اپنے زہر آلود ہونے کی خبر دی تھی جب آپ نے اسے بلا کر دریافت فرمایا تو اس نے اقرار کیا تھا اور وجہ یہ بیان کی تھی کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو یہ آپ کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا۔ اور اگر آپ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں تو ہمیں آپ سے راحت حاصل ہوجائے گی یہ معلوم ہوجانے پر اور اس کے اقبال کرلینے پر بھی اللہ کے رسول ﷺ نے اسے چھوڑ دیا۔ معاف فرما دیا گو بعد میں وہ قتل کردی گئی اس لئے اسی زہر سے اور زہریلے کھانے سے حضرت بشر بن برا فوت ہوگئے تب قصاصاً یہ یہودیہ عورت بھی قتل کرائی گئی اور بھی حضور ﷺ کے عفو درگزر کے ایسے بہت سے واقعات ہیں ﷺ۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 38 { وَالَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّہِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ } ” اور وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب کی پکار پر لبیک کہا اور نماز قائم کی۔ “ یہ کون سی پکار ہے ؟ اس حوالے سے یہ اہم نکتہ ذہن میں رکھئے کہ اس سورت میں اب تک جمع کے صیغے میں فعل امر ایک ہی مرتبہ آیا ہے ‘ یعنی { اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ } اور جمع کے صیغے میں اب تک ایک ہی مرتبہ فعل نہی آیا ہے ‘ یعنی { وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ }۔ چناچہ یہی وہ پکار یا حکم ہے جس کی استجابت کا ذکر یہاں ہوا ہے ‘ یعنی : { اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِط } آیت 13 ” دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو “۔ اور اسی کے بارے میں حضور ﷺ کو آیت 15 میں مخاطب کر کے فرمایا گیا تھا : { فَلِذٰلِکَ فَادْعُج وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَج وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَآئَ ہُمْج } کہ آپ ﷺ کی دعوت کا عمود اور مرکزی پیغام اقامت دین ہے ‘ اسی کی طرف آپ ﷺ نے لوگوں کو بلانا ہے ‘ اسی کی ضرورت اور اہمیت کو ان کے اذہان میں نقش hammer کرنا ہے۔ یہی آپ ﷺ کا مشن ہے اور یہی آپ ﷺ کی دعوت کا اصل ہدف۔ آپ ﷺ اپنے اسی مشن اور اسی موقف پر ڈٹے رہیے اور مخالفین کی مخالفت کی بالکل پروا نہ کیجیے۔ بلاشبہ یہ مشن بہت عظیم ہے اور اسی نسبت سے اس کی جدوجہد کے لیے خصوصی سیرت و کردار کے حامل مردانِ کار درکار ہیں۔ چناچہ آیات زیر مطالعہ میں ان اوصاف کا تذکرہ ہے جو اس مشن کے علمبرداروں کی شخصیات کے لیے ناگزیر ہیں۔ نماز کی پابندی کے بعد اگلا وصف بیان ہوا : { وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ } ” اور ان کا کام آپس میں مشورے سے ہوتا ہے۔ “ ظاہر ہے اقامت دین کی جدوجہد کے لیے اجتماعیت درکار ہے اور اجتماعی زندگی میں فیصلے کرنے اور مختلف امور نپٹانے کے لیے باہمی مشاورت بہت ضروری ہے۔ لیکن کسی اجتماعیت کے اندر اگر موثر مشاورتی نظام موجود نہیں ہوگا اور کوئی ایک فرد دوسروں پر اپنی مرضی ٹھونسنے کا طرز عمل اپنانے کی کوشش کرے گا تو اس سے نہ صرف اجتماعی جدوجہد کو نقصان پہنچے گا بلکہ خود اس اجتماعیت کا وجود ہی خطرے میں پڑجائے گا۔ جماعتی زندگی میں مشاورت کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ غزوہ احد میں جن صحابہ رض سے درّہ چھوڑنے کی غلطی سرزد ہوئی ان کے بارے میں حضور ﷺ کو حکم دیا گیا : { فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِج } آل عمران : 159 کہ نہ صرف آپ ﷺ انہیں معاف کردیں اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں بلکہ انہیں مشورے میں بھی شامل رکھیں۔ مشاورت کے عمل سے اجتماعیت کو تقویت ملتی ہے۔ اس سے ساتھیوں کے مابین مشترکہ سوچ اور باہمی اعتماد پیدا ہوتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کو جماعت کے اندر اپنی موجودگی کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے کہ اس کی بات سنی جاتی ہے۔ حضور ﷺ خود بھی صحابہ رض سے مشورے کو بہت اہمیت دیتے تھے ‘ بلکہ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوا کہ حضور ﷺ نے اپنی رائے پر صحابہ رض کی رائے کو ترجیح دیتے ہوئے فیصلہ صادر فرمایا۔ مثلاً غزوئہ بدر کے موقع پر حضور ﷺ نے لشکر کے کیمپ کے لیے ایک جگہ کا انتخاب فرمایا۔ مگر جب کیمپ لگ چکا تو کچھ صحابہ رض نے آپ ﷺ سے اجازت لے کر رائے دی کہ بعض وجوہات کی بنا پر دوسری جگہ کیمپ کے لیے زیادہ موزوں تھی۔ چناچہ آپ ﷺ نے صحابہ رض کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کیمپ اکھاڑ کر صحابہ رض کی مجوزہ جگہ پر لگا نے کا حکم دے دیا۔ بہر حال اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف جماعت کے نظم و نسق کا تقاضا ہے کہ اس جماعت میں مشاورت کا خصوصی اہتمام رکھا جائے۔ { وَمِمَّا رَزَقْنٰـہُمْ یُنْفِقُوْنَ } ” اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ “ دعوت و اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف لوگوں کو جہاں اپنے وقت اور اپنی جانوں کی قربانی دینا پڑے گی ‘ وہاں اس راستے میں انہیں اپنا مال بھی خرچ کرنا پڑے گا۔ چناچہ متعلقہ لوگوں کے اوصاف میں سے ایک وصف یہ بھی گنوا دیا گیا کہ وہ اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے ” انفاق “ بھی کرتے ہیں۔ قرآن کو غور سے پڑھنے والا شخص جانتا ہے کہ اس کے بہت سے مضامین ایک جیسے الفاظ کے ساتھ دہرا دہرا کر بیان ہوئے ہیں۔ خاص طور پر مکی سورتوں میں ملتی جلتی آیات مختلف اسالیب کے ساتھ بار بار آئی ہیں۔ اسی لیے قرآن کو کِتٰـباً مُتَشَابِھًا الزمر : 23 کا نام بھی دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہر سورت کا ایک خاص مرکزی مضمون یا عمود بھی ہے جسے مضامین کے تنوع اور تکرار میں سے تلاش کرنے کے لیے غور و فکر اور تدبر کی ضرورت پیش آتی ہے۔ سورة الشوریٰ پر اگر اس پہلو سے غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس سورت میں اگرچہ دوسری مکی سورتوں کے تمام مضامین بھی وارد ہوئے ہیں ‘ لیکن اس کا مرکزی مضمون یا عمود ” اقامت دین “ ہے۔ اور اس مضمون کے اعتبار سے اس سورت کی زیر مطالعہ آیات پورے قرآن میں منفرد اور ممتاز حیثیت کی حامل ہیں۔ ان آیات کی اس اہمیت کے پیش نظر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مضمون سے متعلق جن نکات کا ہم اب تک مطالعہ کرچکے ہیں انہیں ایک مرتبہ پھر سے ذہن میں تازہ کرلیا جائے۔ چناچہ اعادہ کے لیے ایک دفعہ پھر آیت 10 کی طرف رجوع کریں جس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا تصور ان الفاظ میں واضح کیا گیا ہے : { وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیْئٍ فَحُکْمُہٗٓ اِلَی اللّٰہِط } یعنی تمہارے باہمی اختلافات میں حکم دینے کا اختیار صرف اللہ ہی کو ہے۔ یہ وہی بات ہے جو اس سے پہلے ہم سورة يوسف میں بھی پڑھ چکے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے جیل کے ساتھیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا : { اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِط اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْٓا اِلآَّ اِیَّاہُط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ } آیت 40 یعنی حاکمیت کا اختیار صرف اور صرف اللہ کے پاس ہے ‘ اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ‘ یہی دین قیم ہے۔ اس کے بعد آیت 13 سے لے کر آیت 21 تک 9 آیات میں اقامت دین کا مضمون بہت جامع انداز میں بیان ہوا ہے۔ لیکن ان میں سے بھی پہلی تین آیات اپنی جامعیت کے لحاظ سے بہت اہم ہیں۔ آیت 13 میں فرمایا گیا : { اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِط } کہ دین کو قائم کرو اور اس معاملے میں اختلاف میں نہ پڑو۔ یعنی جزئیات اور فروعات میں اختلاف کا ہونا اور بات ہے ‘ لیکن دین کی اصل وحدت اور دین کے غلبہ کے لیے کی جانے والی جدوجہد میں تفرقہ بازی نہیں ہونی چاہیے۔ پھر اس کے بعد آیت 15 میں حضور ﷺ کے لیے یہ حکم اس حوالے سے بہت اہم ہے : { وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَج وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَآئَ ہُمْج } کہ آپ ﷺ اللہ کے حکم کے مطابق اپنے موقف پر ڈٹے رہیے اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے۔ پھر اسی آیت کے یہ الفاظ تو گویا اس مضمون کی شہ سرخی کا درجہ رکھتے ہیں : { وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْط } کہ آپ ﷺ اعلان کردیجیے کہ میں تم لوگوں کے درمیان عدل قائم کرنے کے لیے آیا ہوں۔ میں تم لوگوں کو صرف نصیحتیں کرنے اور وعظ سنانے کے لیے نہیں آیا بلکہ معاشرے میں اجتماعی طور پر عدل و انصاف کا نظام قائم کرنا میرا فرضِ منصبی ہے۔ پھر اس سلسلے کی آخری بات آیت 21 میں یوں فرمائی گئی : { اَمْ لَہُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ } کہ کیا ان کے شریکوں میں بھی کوئی ایسا ہے جس نے ان کو دین عطا کیا ہے اور ان کے لیے کوئی جامع نظام اور کوئی ضابطہ حیات وضع کیا ہے ؟ یعنی وہ ذات تو صرف اللہ ہی کی ہے جس نے اپنے بندوں کو دین حق عطا کیا ہے جو ان کے لیے مکمل اور کامل ضابطہ حیات ہے۔ [ سورة المائدۃ کی آیت 3 میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی کاملیت کی سند ان الفاظ میں عطا فرمائی ہے : { اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًاط } ] پھر آیت 36 سے آیت 43 تک آٹھ آیات میں وہ اوصاف بیان کیے گئے ہیں جو اقامت دین کی جدوجہد کے علمبرداروں کو اپنی شخصیات میں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں بھی پہلی تین آیات بہت جامع اور اہم ہیں۔ ان تین آیت میں جن اہم نکات کا ابھی ہم نے مطالعہ کیا ہے ان میں پہلا نکتہ یہ ہے کہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے اور اس کے مقابلے میں دنیا ومافیہا کی کوئی وقعت و اہمیت نہیں ہے۔ چناچہ غلبہ دین کی جدوجہد کے لیے نکلنے والے ہر شخص کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ دنیا کے لیے اس کی محنت صرف بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کی حد تک محدود رہے گی ‘ جبکہ اس کا اصل مقصود و مطلوب آخرت کی زندگی اور اس زندگی کی کامیابی ہے۔ ثانیاً اس جدوجہد میں توکل صرف اور صرف اللہ کی ذات پر ہوگا۔ مادی وسائل ‘ اپنی ذہانت ‘ طاقت اور صلاحیت پر تکیہ نہیں کیا جائے گا۔ ثالثاً تقویٰ ‘ تزکیہ نفس اور اصلاحِ کردار کی طرف خصوصی توجہ دی جائے گی۔ اس کے لیے کبائر اور فواحش سے کنارہ کشی اختیار کرنی ہوگی اور غصہ سمیت تمام باطنی خبائث سے بھی اپنے سینوں کو پاک کرنا ہوگا۔ پھر جو لوگ اللہ کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اقامت دین کی جدوجہد پر کمربستہ ہوجائیں ‘ انہیں اللہ تعالیٰ سے قلبی رشتہ جوڑنے اور یہ رشتہ قائم رکھنے کے لیے نماز کا التزام کرنا ہوگا۔ ان کے تمام فیصلے باہمی مشاورت سے طے ہوں گے اور اس جدوجہد میں ان کو اپنا وقت ‘ اپنا مال ‘ اپنی صلاحیتیں غرض اپنا وہ سب کچھ کھپا دینے کے لیے ہر وقت تیار رہنا ہوگا جو اللہ نے انہیں دیا ہے۔ زیر مطالعہ سورتوں میں انسانی سیرت و کردار سے متعلق جو ہدایات آئی ہیں ان کے بارے میں یہ نکتہ بھی مدنظر رہنا چاہیے کہ صحابہ رض کے کردار کے وہ تمام پہلو جو مدنی دور میں نمایاں ہوئے ان کی تمہید مکی دور میں ہی اٹھائی گئی تھی اور مدینہ پہنچے سے پہلے ہی ان ہدایات و احکام کے ذریعے ان لوگوں کو عملی میدان کے لیے ذہنی طور پر تیار کرلیا گیا تھا۔ اب اگلی پانچ آیات میں مردانِ حق کے جس وصف کا ذکر خصوصی اہتمام سے کیا جا رہا ہے وہ ” بدلہ “ لینے کی حکمت عملی ہے۔ یہ حکمت عملی بظاہر سورة حٰمٓ السجدۃ کے اس حکم سے متضاد نظر آتی ہے جس میں لوگوں کی زیادتیوں کو برداشت کرنے اور عفو و درگزر سے کام لینے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس ظاہری تضاد یا حکمت عملی کی تبدیلی کے فلسفے کو یوں سمجھیں کہ سورة حٰمٓ السجدۃ کا مرکزی مضمون ” دعوت “ ہے جبکہ سورة الشوریٰ کا مرکزی مضمون ” اقامت دین “ ہے۔ دعوت کے لیے تو ظاہر ہے خوشامد بھی کرنا پڑتی ہے ‘ لوگوں کے دروازوں پر بھی جانا پڑتا ہے اور ان کی جلی کٹی باتیں بھی سننا پڑتی ہیں۔ اس لیے سورة حٰمٓ السجدۃ میں لوگوں کی زیادتیوں کو برداشت کرنے اور گالیاں سن کر دعائیں دینے کا سبق دیا گیا ہے۔ لیکن زیر مطالعہ سورت میں اقامت دین اور عملی جدوجہد active resistance کے تناظر میں سختی کا جواب سختی سے دینے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ سورة حٰمٓ السجدۃ میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں دعوت کا مرحلہ کامیابی سے طے کرنے کے بعد غلبہ ٔ دین کی تحریک مسلح تصادم armed conflict کے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ یہ مرحلہ تیغ بکف ‘ سر پر کفن باندھ کر میدان میں اترنے اور جان ہتھیلی پر رکھ کر باطل کو للکارنے کا مرحلہ ہے۔ چناچہ اب صورت حال کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ حکمت عملی بھی بدل رہی ہے اور شمع توحید کے پروانوں کو ممکنہ حالات کے پیش نظر نئی ہدایات دی جا رہی ہیں۔
والذين استجابوا لربهم وأقاموا الصلاة وأمرهم شورى بينهم ومما رزقناهم ينفقون
سورة: الشورى - آية: ( 38 ) - جزء: ( 25 ) - صفحة: ( 487 )Surah Shura Ayat 38 meaning in urdu
جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں، ہم نے جو کچھ بھی رزق انہیں دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- یہی خدا تو تمہارا پروردگار برحق ہے۔ اور حق بات کے ظاہر ہونے کے بعد
- اور کافر مومنوں سے کہتے ہیں کہ اگر یہ (دین) کچھ بہتر ہوتا تو یہ
- نصیحت کردیں اور ہم ظالم نہیں ہیں
- تم بھی اور تمہارے اگلے باپ دادا بھی
- وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے کہ شروع خدا کا نام
- اور ایسا خیال نہ کرنا کہ تم پر کافر لوگ غالب آجائیں گے (وہ جا
- اے اہل ایمان! مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بناؤ کیا تم چاہتے ہو
- اور فرعون اور جو لوگ اس سے پہلے تھے اور وہ جو الٹی بستیوں میں
- اور اپنے پیغام پہنچانے والے بندوں سے ہمارا وعدہ ہوچکا ہے
- مگر جو ان میں ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو
Quran surahs in English :
Download surah Shura with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Shura mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Shura Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers