Surah baqarah Ayat 256 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 256 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah baqarah ayat 256 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾
[ البقرة: 256]

Ayat With Urdu Translation

دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہے ہدایت (صاف طور پر ظاہر اور) گمراہی سے الگ ہو چکی ہے تو جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور خدا پر ایمان لائے اس نے ایسی مضبوط رسی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں اور خدا (سب کچھ) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے

Surah baqarah Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) اس کی شان نزول میں بتایا گیا ہے کہ انصار کے کچھ نوجوان یہودی یا عیسائی ہوگئے تھے، پھر جب یہ انصار مسلمان ہو گئے تو انہوں نے اپنی نوجوان اولاد کو بھی جو یہودی یا عیسائی بن چکے تھے، زبردستی مسلمان بنانا چاہا ، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ شان نزول کے اس اعتبار سے بعض مفسرین نے اسے اہل کتاب کے لئے خاص مانا ہے یعنی مسلمان مملکت میں رہنے والے اہل کتاب، اگر وہ جزیہ ادا کرتے ہوں، تو انہیں قبول اسلام پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ لیکن یہ آیت حکم کے اعتبار سے عام ہے، یعنی کسی پر بھی قبول اسلام کے لئے جبر نہیں کیا جائے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور گمراہی دونوں کو واضح کردیا ہے۔ تاہم کفر وشرک کے خاتمے اور باطل کا زور توڑنے کے لئے جہاد ایک الگ اور جبرواکراہ سے مختلف چیز ہے۔ مقصد معاشرے سے اس قوت کا زور اور دباؤ ختم کرنا ہے جو اللہ کے دین پر عمل اور اس کی تبلیغ کی راہ میں روڑہ بنی ہوئی ہو۔ تاکہ ہر شخص اپنی آزاد مرضی سے چاہے تو اپنے کفر پر قائم رہے اور چاہے تو اسلام میں داخل ہوجائے۔ چونکہ روڑہ بننے والی طاقتیں رہ رہ کر ابھرتی رہیں گی اس لئے جہاد کا حکم اور اس کی ضرورت بھی قیامت تک رہے گی، جیسا کہ حدیث میں ہے«الجِهَادُ مَاضٍ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ»، ” جہاد قیامت تک جاری رہے گا “، خود نبی ( صلى الله عليه وسلم ) نے کافروں اور مشرکوں سے جہاد کیا ہے اور فرمایا ہے۔«أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ»، الحديث- ( صحيح بخاري- كتاب الإيمان ، باب فإن تابوا وأقاموا الصلاة ) ” مجھے حکم دیا گیا ہے میں لوگوں سے اس وقت تک جہاد کروں جب تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کا اقرار نہ کرلیں “۔ اسی طرح سزائے ارتداد ( قتل ) سے بھی اس آیت کا کوئی ٹکراؤ نہیں ہے ( جیسا کہ بعض لوگ ایسا باور کراتے ہیں )۔ کیونکہ ارتداد کی سزا۔ قتل۔ سے مقصود جبرواکراہ نہیں ہے بلکہ اسلامی ریاست کی نظریاتی حیثیت کا تحفظ ہے۔ ایک اسلامی مملکت میں ایک کافر کو اپنے کفر پر قائم رہ جانے کی اجازت تو بےشک دی جاسکتی ہے لیکن ایک بار جب وہ اسلام میں داخل ہوجائے تو پھر اس سے بغاوت وانحراف کی اجازت نہیں دی جاسکتی لہذا وہ خوب سوچ کر اسلام لائے۔ کیونکہ اگر یہ اجازت دے دی جاتی تو نظریاتی اساس منہدم ہوسکتی تھی جس سے نظریاتی انتشار اور فکری انارکی پھیلتی جو اسلامی معاشرے کے امن کو اور ملک کے استحکام کو خطرے میں ڈال سکتی تھی۔ اس لئے جس طرح انسانی حقوق کے نام پر، قتل، چوری ، زنا، ڈاکہ اور حرابہ وغیرہ جرائم کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اسی طرح آزادی رائے کے نام پر ایک اسلامی مملکت میں نظریاتی بغاوت ( ارتداد ) کی اجازت بھی نہیں دی جاسکتی۔ یہ جبر واکراہ نہیں ہے۔ بلکہ مرتد کا قتل اسی طرح عین انصاف ہے جس طرح قتل وغارت گری اور اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزائیں دینا عین انصاف ہے۔ ایک کا مقصدملک کا نظریاتی تحفظ ہے اور دوسرے کا مقصد ملک کو شروفساد سے بچانا ہے اور دونوں ہی مقصد، ایک مملکت کے لئے ناگزیر ہیں۔ آج اکثر اسلامی ممالک ان دونوں ہی مقاصد کو نظرانداز کرکے جن الجھنوں، دشواریوں اور پریشانیوں سے دوچار ہیں، محتاج وضاحت نہیں۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


جبر اور دعوت اسلام یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ کسی کو جبراً اسلام میں داخل نہ کر، اسلام کی حقانیت واضح اور روشن ہوچکی اس کے دلائل وبراہین بیان ہوچکے ہیں پھر کسی اور جبر اور زبردستی کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ جسے اللہ رب العزت ہدایت دے گا، جس کا سینہ کھلا ہوا دل روشن اور آنکھیں بینا ہوں گی وہ تو خود بخود اس کا والہ و شیدا ہوجائے گا، ہاں اندھے دل والے بہرے کانوں والے پھوٹی آنکھوں والے اس سے دور رہیں گے پھر انہیں اگر جبراً اسلام میں داخل بھی کیا تو کیا فائدہ ؟ کسی پر اسلام کے قبول کرانے کیلئے جبر اور زبردستی نہ کرو۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ مدینہ کی مشرکہ عورتیں جب انہیں اولاد نہ ہوتی تھی تو نذر مانتی تھیں کہ اگر ہمارے ہاں اولاد ہوئی تو ہم اسے یہود بنادیں گے، یہودیوں کے سپرد کردیں گے، اسی طرح ان کے بہت سے بچے یہودیوں کے پاس تھے، جب یہ لوگ مسلمان ہوئے اور اللہ کے دین انصار بنے، یہودیوں سے جنگ ہوئی اور ان کی اندرونی سازشوں اور فریب کاریوں سے نجات پانے کیلئے سرور رسل ؑ نے یہ حکم جاری فرمایا کہ بنی نضیر کے یہودیوں کو جلا وطن کردیا جائے، اس وقت انصاریوں نے اپنے بچے جو ان کے پاس تھے ان سے طلب کئے تاکہ انہیں اپنے اثر سے مسلمان بنالیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جبر اور زبردستی نہ کرو، ایک روایت یہ بھی ہے کہ انصار کے قبیلے بنوسالم بن عوف کا ایک شخص حصینی نامی تھا جس کے دو لڑکے نصرانی تھے اور خود مسلمان تھا، اس نے نبی ﷺ کی خدمت میں ایک بار عرض کیا کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں ان لڑکوں کو جبراً مسلمان بنا لوں، ویسے تو وہ عیسائیت سے ہٹتے نہیں، اس پر یہ آیت اتری اور ممانعت کردی، اور روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ نصرانیوں کا ایک قافلہ ملک شام سے تجارت کیلئے کشمش لے کر آیا تھا جن کے ہاتھوں پر دونوں لڑکے نصرانی ہوگئے تھے جب وہ قافلہ جانے لگا تو یہ بھی جانے پر تیار ہوگئے، ان کے باپ نے حضور ﷺ سے یہ ذکر کیا اور کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں انہیں اسلام لانے کیلئے کچھ تکلیف دوں اور جبراً مسلمان بنالوں، ورنہ پھر آپ کو انہیں واپس لانے کیلئے اپنے آدمی بھیجنے پڑیں گے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، حضرت عمر کا غلام اسبق نصرانی تھا، آپ اس پر اسلام پیش کرتے وہ انکار کرتا، آپ کہہ دیتے کہ خیر تیری مرضی اسلام جبر سے روکتا ہے، علماء کی ایک بڑی جماعت کا یہ خیال ہے کہ یہ آیت ان اہل کتاب کے حق میں ہے جو فسخ و تبدیل توراۃ و انجیل کے پہلے دین مسیحی اختیار کرچکے تھے اور اب وہ جزیہ پر رضامند ہوجائیں، بعض اور کہتے ہیں آیت قتال نے اسے منسوخ کردیا، تمام انسانوں کو اس پاک دین کی دعوت دینا ضروری ہے، اگر کوئی انکار کرے تو بیشک مسلمان اس سے جہاد کریں، جیسے اور جگہ ہے آیت ( سَـتُدْعَوْنَ اِلٰى قَوْمٍ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ تُقَاتِلُوْنَهُمْ اَوْ يُسْلِمُوْنَ ) 48۔ الفتح:16) عنقریب تمہیں اس قوم کی طرف بلایا جائے گا جو بڑی لڑاکا ہے یا تو تم اس سے لڑو گے یا وہ اسلام لائیں گے، اور جگہ ہے اے نبی کافروں اور منافقوں سے جہاد کر اور ان پر سختی کر، اور جگہ ہے ایماندارو ! اپنے آس پاس کے کفار سے جہاد کرو، تم میں وہ گھر جائیں اور یقین رکھو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے، صحیح حدیث میں ہے، تیرے رب کو ان لوگوں پر تعجب آتا ہے جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے جنت کی طرف گھسیٹے جاتے ہیں، یعنی وہ کفار جو میدان جنگ میں قیدی ہو کر طوق و سلاسل پہنا کر یہاں لائے جاتے ہیں پھر وہ اسلام قبول کرلیتے ہیں اور ان کا ظاہر باطن اچھا ہوجاتا ہے اور وہ جنت کے لائق بن جاتے ہیں مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص سے حضور ﷺ نے کہا مسلمان ہوجاؤ، اس نے کہا حضرت میرا دل نہیں مانتا آپ ﷺ نے فرمایا گو دل نہ چاہتا ہو، یہ حدیث ثلاثی ہے یعنی آنحضرت ﷺ تک اس میں تین راوی ہیں لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ آپ نے اسے مجبور کیا، مطلب یہ ہے کہ تو کلمہ پڑھ لے، پھر ایک دن وہ بھی آئے گا اللہ تیرے دل کو کھول دے اور تو دل سے بھی اسلام کا دلدادہ ہوجائے گا، حسن نیت اور اخلاص عمل تجھے نصیب ہو، جو شخص بت اور اوثان اور معبودان باطل اور شیطانی کلام کی قبولیت کو چھوڑ دے اللہ کی توحید کا اقراری اور عامل بن جائے وہ سیدھا اور صحیح راہ پر ہے۔ حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں جبت سے مراد جادو ہے اور طاغوت سے مراد شیطان ہے، دلیری اور ناموری دونوں اونٹ کے دونوں طرف کے برابر بوجھ ہیں جو لوگوں میں ہوتے ہیں۔ ایک دلیر آدمی تو انجان شخص کی حمایت میں بھی جان دینے پر تل جاتا ہے لیکن ایک بزدل اور ڈرپوک اپنی سگی ماں کی خاطر بھی قدم آگے نہیں بڑھاتا۔ انسان کا حقیقی کرم اس کا دین ہے، انسان کا سچا نسب حسن و خلق ہے گو وہ فارسی ہو یا نبطی، حضرت عمر کا طاغوت کو شیطان کے معنی میں لینا بہت ہی اچھا ہے اس لئے کہ یہ ہر اس برائی کو شامل ہے جو اہل جاہلیت میں تھی، بت کی پوجا کرنا، ان کی طرف حاجتیں لے جانا ان سے سختی کے وقت طلب امداد کرنا وغیرہ۔ پھر فرمایا اس شخص نے مضبوط کڑا تھام لیا، یعنی دین کے اعلیٰ اور قوی سبب کو لے لیا جو نہ ٹوٹے نہ پھوٹے، خوب مضبوط مستحکم قوی اور گڑا ہوا، عروہ وثقف سے مراد ایمان اسلام توحید باری قرآن اور اللہ کی راہ کی محبت اور اسی کیلئے دشمنی کرنا ہے، یہ کڑا کبھی نہ ٹوٹے گا یعنی اس کے جنت میں پہنچتے تک، اور جگہ ہے آیت ( اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ) 13۔ الرعد:11) اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بگاڑتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بگاڑ لے، مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے حضرت قیس بن عبادہ فرماتے ہیں میں مسجد نبوی میں تھا جو ایک شخص آیا جس کا چہرہ اللہ سے خائف تھا نماز کی دو ہلکی رکعتیں اس نے ادا کیں، لوگ انہیں دیکھ کر کہنے لگے یہ جنتی ہیں، جب وہ باہر نکلے تو میں بھی ان کے پیچھے گیا، باتیں کرنے لگا جب وہ متوجہ ہوئے تو میں نے کہا جب آپ تشریف لائے تھے تب لوگوں نے آپ کی نسبت یوں کہا تھا، کہا سبحان اللہ کسی کو وہ نہ کہنا چاہئے جس کا علم اسے نہ ہو، ہاں البتہ اتنی بات تو ہے کہ میں نے حضور ﷺ کی موجودگی میں ایک خواب دیکھا تھا کہ گویا میں ایک لہلہاتے ہوئے سرسبز گلشن میں ہوں اس کے ایک درمیان لوہے کا ستون ہے جو زمین سے آسمان تک چلا گیا ہے اس کی چوٹی پر ایک کڑا ہے مجھ سے کہا گیا اس پر چڑھ جاؤ، میں نے کہا میں تو نہیں چڑھ سکتا، چناچہ ایک شخص نے مجھے تھاما اور میں باآسانی چڑھ گیا اور اس کڑے کو تھام لیا، اس نے کہا دیکھو مضبوط پکڑے رکھنا، بس اسی حالت میں میری آنکھ کھل گئی کہ وہ کڑا میرے ہاتھ میں تھا، میں نے حضور ﷺ سے یہ اپنا خواب بیان کیا تو آپ نے فرمایا گلشن باغ اسلام ہے اور ستون دین ہے اور کڑا عروہ وثقی ہے تو میرے دم تک اسلام پر قائم رہے گا، یہ شخص حضرت عبداللہ بن سلام ہیں، یہ حدیث بخاری مسلم دونوں میں مروی ہے۔ مسند کی اسی حدیث میں ہے کہ اس وقت آپ بوڑھے تھے اور لکڑی پر ٹیک لگائے ہوئے مسجد نبوی میں آئے تھے اور ایک ستون کے پیچھے نماز پڑھی تھی اور سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ جنت اللہ کی چیز ہے جسے چاہے اس میں لے جائے، خواب کے ذکر میں فرمایا کہ ایک شخص آیا مجھے لے کر چلا گیا جب ہم ایک لمبے چوڑے صاف شفاف میدان میں پہنچے تو میں نے بائیں طرف جانا چاہا تو اس نے کہا تو ایسا نہیں۔ میں دائیں جانب چلنے لگا تو اچانک ایک پھسلتا پہاڑ نظر آیا اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اوپر چڑھا لیا اور میں اس کی چوٹی تک پہنچ گیا، وہاں میں نے ایک اونچا ستون لوہے کا دیکھا جس کے سرے پر ایک سونے کا کڑا تھا مجھے اس نے اس ستون پر چڑھا دیا یہاں تک کہ میں نے اس کڑے کو تھام لیا اس نے پوچھا خوب مضبوط معلوم تھام لیا ہے، میں نے کہاں ہاں، اس نے زور سے ستون پر اپنا پاؤں مارا، وہ نکل گیا اور کڑا میرے ہاتھ میں رہ گیا، جب یہ خواب حضور ﷺ کو میں نے سنایا تو آپ نے فرمایا بہت نیک خواب ہے، میدان محشر ہے، بائیں طرف کا راستہ جہنم کا راستہ ہے تو لوگوں میں نہیں، دائیں جانب کا راستہ جنتیوں کی راہ ہے، پھسلتا پہاڑ شہداء کی منزل ہے، کڑا اسلام کا کڑا ہے مرتے دم تک اسے مضبوط تھام رکھو، اس کے بعد حضرت عبداللہ نے فرمایا امید تو مجھے یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں لے جائے گا۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 256 لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قف اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اسلام میں کسی فرد کو جبراً مسلمان بنانا حرام ہے۔ لیکن اس آیت کا یہ مطلب نکال لینا کہ نظام باطل کو ختم کرنے کے لیے بھی کوئی طاقت استعمال نہیں ہوسکتی ‘ پرلے َ درجے کی حماقت ہے۔ نظام باطل ظلم پر مبنی ہے اور یہ لوگوں کا استحاصل کر رہا ہے۔ یہ اللہ اور بندوں کے درمیان حجاب اور آڑ بن گیا ہے۔ لہٰذا نظام باطل کو طاقت کے ساتھ ختم کرنا مسلمان کا فرض ہے۔ اگر طاقت موجود نہیں ہے تو طاقت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ‘ لیکن جس مسلمان کا دل نظام باطل کو ختم کرنے کی آرزو اور ارادے سے خالی ہے اس کے دل میں ایمان نہیں ہے۔ طاقت اور جبر نظام باطل کو ختم کرنے پر صرف کیا جائے گا ‘ کسی فرد کو مجبوراً مسلمان نہیں بنایا جائے گا۔ یہ ہے اصل میں اس آیت کا مفہوم۔قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج ۔ جتنی بھی کجیاں ہیں ‘ غلط راستے ہیں ‘ شیطانی پگڈنڈیاں ہیں صراط مستقیم کو ان سے بالکل مبرہن کردیا گیا ہے۔فَمَنْ یَّکْفُرْ بالطَّاغُوْتِ دیکھئے ‘ اللہ پر ایمان لانے سے پہلے طاغوت کا انکار ضروری ہے۔ جیسے کلمہ طیبہ لا الٰہ الا اللہ میں پہلے ہر اِلٰہ کی نفی ہے اور پھر اللہ کا اثبات ہے۔ طاغوت طَغٰی سے ہے ‘ یعنی سرکش۔ تو جس نے اپنی حاکمیت کا اعلان کیا وہ طاغوت ہے ‘ جس نے غیر اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کیا وہ بھی طاغوت ہے اور غیر اللہ کی حاکمیت کے تحت بننے والے سارے ادارے طاغوت ہیں ‘ خواہ وہ کتنے ہی خوشنما ادارے ہوں۔ عدلیہ کے نام سے ایک ادارہ اگر اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے نہیں کر رہا ‘ کچھ اور لوگوں کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے کر رہا ہے تو وہ طاغوت ہے۔ مقننہ کا ادارہ اگر اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق قانون سازی نہیں کر رہا تو وہ بھی طاغوت ہے۔ جو کوئی بھی اللہ کے حدود بندگی سے تجاوز کرتا ہے وہ طاغوت ہے۔ دریا جب اپنی حدوں سے باہر نکلتا ہے تو یہ طغیانی ہے : ؂دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے !طغٰی اور بغٰی دونوں بڑے قریب کے الفاظ ہیں ‘ جن کا مفہوم طغیانی اور بغاوت ہے۔ فرمایا کہ جو کوئی کفر کرے طاغوت کے ساتھ۔وَیُؤْمِنْم باللّٰہِ طاغوت سے دوستی اور اللہ پر ایمان دونوں چیزیں یکجا نہیں ہوسکتیں۔ اللہ کے دشمنوں سے بھی یارا نہ ہو اور اللہ کے ساتھ وفاداری کا دعویٰ بھی ہو یہی تو منافقت ہے۔ جبکہ اسلام تو حَنِیْفًا مُّسْلِمًا کے مصداق کامل یکسوئی کے ساتھ اطاعت شعاری کا مطالبہ کرتا ہے۔فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ج۔ جس شخص نے یہ کام کرلیا کہ طاغوت کی نفی کی اور اللہ پر ایمان لایا اس نے ایک مضبوط کنڈا تھام لیا۔ یوں سمجھئے اگر کوئی شخص سمندری جہاز کے عرشے سے سمندر میں گرجائے ‘ اسے تیرنا بھی نہ آتا ہو اور کسی طرح ہاتھ پیر مار کر وہ جہاز کے کسی کنڈے کو تھام لے تو اب وہ سمجھتا ہے کہ میری زندگی اسی سے وابستہ ہے ‘ اب میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔ وہ کنڈا اگر کمزور ہے تو اس کا سہارا نہیں بن سکے گا اور اس کے وزن سے ہی اکھڑ جائے گا یا ٹوٹ جائے گا ‘ لیکن اگر وہ کنڈا مضبوط ہے تو وہ اس کی زندگی کا ضامن بن جائے گا۔ یہاں فرمایا کہ طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لانے والے شخص نے بہت مضبوط کنڈے پر ہاتھ ڈال دیا ہے۔لاَ انْفِصَامَ لَہَا ط۔ کبھی علیحدہ ہونے والا نہیں ہے۔ یہ بہت مضبوط سہارا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے ایک خطبہ میں یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں : وَاَوْثَقُ الْعُرٰی کَلِمَۃُ التَّقْوٰی 33 یعنی تمام کنڈوں میں سب سے مضبوط کنڈا تقویٰ کا کنڈا ہے۔ لہٰذا اس کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے کی ضرورت ہے۔

لا إكراه في الدين قد تبين الرشد من الغي فمن يكفر بالطاغوت ويؤمن بالله فقد استمسك بالعروة الوثقى لا انفصام لها والله سميع عليم

سورة: البقرة - آية: ( 256 )  - جزء: ( 3 )  -  صفحة: ( 42 )

Surah baqarah Ayat 256 meaning in urdu

دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے صحیح بات غلط خیالات سے ا لگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا، اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں، اور اللہ (جس کا سہارا اس نے لیا ہے) سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. (ایسے لوگ) ہمیشہ اس (عذاب) میں (مبتلا) رہیں گے اور یہ بوجھ قیامت کے روز
  2. اور ان سے کہا جائے گا کہ جن کو تم پوجتے تھے وہ کہاں ہیں؟
  3. اور (ازراہ غرور) لوگوں سے گال نہ پھلانا اور زمین میں اکڑ کر نہ چلنا۔
  4. ہاں جنہوں نے اس کے بعد توبہ کی اور اپنی حالت درست کر لی تو
  5. اور وہی تو ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا اور (ان کے) قصور
  6. یا یہ اپنے پیغمبر کو جانتے پہنچانتے نہیں، اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے
  7. اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو خدا پر جھوٹ افتراء کرے۔ یا
  8. کہہ دو کہ میں اپنے نقصان اور فائدے کا بھی کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ مگر
  9. وہاں تمہارے لئے بہت سے میوے ہیں جن کو تم کھاؤ گے
  10. تاکہ یہ ان کے پھل کھائیں اور ان کے ہاتھوں نے تو ان کو نہیں

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :

surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
surah baqarah Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah baqarah Bandar Balila
Bandar Balila
surah baqarah Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah baqarah Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah baqarah Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah baqarah Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah baqarah Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah baqarah Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah baqarah Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah baqarah Fares Abbad
Fares Abbad
surah baqarah Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah baqarah Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah baqarah Al Hosary
Al Hosary
surah baqarah Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah baqarah Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Friday, May 10, 2024

لا تنسنا من دعوة صالحة بظهر الغيب