Surah baqarah Ayat 269 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ﴾
[ البقرة: 269]
وہ جس کو چاہتا ہے دانائی بخشتا ہے۔ اور جس کو دانائی ملی بےشک اس کو بڑی نعمت ملی۔ اور نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں
Surah baqarah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) حِكْمَةٌ سے بعض کے نزدیک، عقل وفہم، علم اور بعض کے نزدیک اصابت رائے، قرآن کے ناسخ و منسوخ کا علم وفہم، قوت فیصلہ اور بعض کے نزدیک صرف سنت یا کتاب وسنت کا علم وفہم ہے یا سارے ہی مفہوم اس کے مصداق میں شامل ہوسکتے ہیں۔ صحیحین وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ ” دو شخصوں پر رشک کرنا جائز ہے ایک وہ جس کو اللہ نے مال دیا اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہے۔ دوسرا وہ جسے اللہ نے حکمت دی جس سے وہ فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔ “ ( صحيح بخارى، كتاب العلم، باب الاغتباط في العلم والحكمة - مسلم، كتاب صلاة المسافرين، باب فضل من يقوم بالقرآن ويعلِّمه .... )
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
خراب اور حرام مال کی خیرات مسترد اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو صدقہ کرنے کا حکم دیتا ہے کہ مال تجارت جو اللہ جل شانہ نے تمہیں دیا ہے سونا چاندی اور پھل اناج وغیرہ جو اس نے تمہیں زمین سے نکال کر دئیے ہیں، اس میں سے بہترین مرغوب طبع اور پسند خاطر عمدہ عمدہ چیزیں اللہ کی راہ میں دو۔ ردی، واہیات، سڑی گلی، گری پڑی، بےکار، فضول اور خراب چیزیں راہ اللہ نہ دو ، اللہ خود طیب ہے وہ خبیث کو قبول نہیں کرتا، ہم اس کے نام پر یعنی گویا اسے وہ خراب چیز دینا چاہتے ہو جسے اگر تمہیں دی جاتی تو نہ قبول کرتے پھر اللہ کیسے لے لے گا ؟ ہاں مال جاتا دیکھ کر اپنے حق کے بدلے کوئی گری پڑی چیز بھی مجبور ہو کرلے لو تو اور کوئی بات ہے لیکن اللہ ایسا مجبور بھی نہیں وہ کسی حالت میں ایسی چیز کو قبول نہیں فرماتا، یہ بھی مطلب ہے کہ حلال چیز کو چھوڑ حرام چیز یا حرام مال سے خیرات نہ کرو، مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جس طرح تمہاری روزیاں تم میں تقسیم کی ہیں تمہارے اخلاق بھی تم میں بانٹ دئیے ہیں، دنیا تو اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو بھی دیتا ہے دشمنوں کو بھی، ہاں دین صرف دوستوں کو ہی عطا فرماتا ہے اور جسے دین مل جائے وہ اللہ کا محبوب ہے۔ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کوئی بندہ مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دل اس کی زبان مسلمان نہ ہوجائے، کوئی بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے پڑوسی اس کی ایذاؤں سے بےخوف نہ ہوجائیں، لوگوں کے سوال پر آپ نے فرمایا ایذاء سے مراد دھوکہ بازی اور ظلم و ستم ہے، جو شخص حرام وجہ سے مال حاصل کرے اس میں اللہ برکت نہیں دیتا نہ اس کے صدقہ خیرات کو قبول فرماتا ہے اور جو چھوڑ کرجاتا ہے وہ سب اس کیلئے آگ میں جانے کا توشہ اور سبب بنتا ہے، اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا بلکہ برائی کو اچھائی سے دفع کرتا ہے، خباثت خباثت سے نہیں مٹتی، پس دو قول ہوئے۔ ایک تو ردی چیزیں دوسرا حرام مال۔ اس آیت میں پہلا قول مراد لیناہی اچھا معلوم ہوتا ہے، حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کھجوروں کے موسم میں انصار اپنی اپنی وسعت کے مطابق کھجوروں کے خوشے لا کر دوستوں کے درمیان ایک رسی کے ساتھ لٹکا دیتے، جسے اصحاب صفہ اور مسکین مہاجر بھوک کے وقت کھالیتے، کسی نے جسے صدقہ کی رغبت کم تھی اس میں ردی کھجور کا ایک خوشہ لٹکا دیا، جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر تمہیں ایسی ہی چیزیں ہدیہ میں دی جائیں تو ہرگز نہ لو گے۔ ہاں اگر شرم ولحاظ سے بادل ناخواستہ لے لو تو اور بات ہے، اس کے نازل ہونے کے بعد ہم میں کا ہر شخص بہتر ہے بہتر چیز لاتا تھا ( ابن جریر ) ابن ابی حاتم میں ہے کہ ہلکی قسم کی کھجوریں اور واہی پھل لوگ خیرات میں نکالتے جس پر یہ آیت اتری اور حضور ﷺ نے ان چیزوں سے صدقہ دینا منع فرمایا، حضرت عبداللہ بن مغفل فرماتے ہیں مومن کی کمائی کبھی خبیث نہیں ہوتی، مراد یہ ہے کہ بیکار چیز صدقہ میں نہ دو ، مسند میں حدیث ہے کہ حضور ﷺ کے سامنے گوہ کا گوشت لایا گیا، آپ نے نہ کھایا نہ کسی کو کھانے سے منع فرمایا تو حضرت عائشہ نے کہا کسی مسکین کو دے دیں ؟ آپ نے فرمایا جو تمہیں پسند نہیں اور جسے تم کھانا پسند نہیں کرتیں اسے کسی اور کو کیا دو گی ؟ حضرت براء فرماتے ہیں جب تمہارا حق کسی پر ہو اور وہ تمہیں وہ چیز دے جو بےقدر و قیمت ہو تو تم اسے نہ لو گے مگر اس وقت جب تمہیں اپنے حق کی بربادی دکھائی دیتی ہو تو تم چشم پوشی کرکے اسی کو لو گے، ابن عباس فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ تم نے کسی کو اچھا مال دیا اور ادائیگی کے وقت وہ ناقص مال لے کر آیا تو تم ہرگز نہ لوگے اور اگر لو گے بھی تو اس کی قیمت گھٹا کر، تو تم جس چیز کو اپنے حق میں لینا پسند نہیں کرتے اسے اللہ کے حق کے عوض کیوں دیتے ہو ؟ پس بہترین اور مرغوب مال اس کی راہ میں خرچ کرو اور یہی معنی ہیں آیت ( لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ) 3۔ آل عمران:92) کے بھی۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا اور عمدہ چیز دینے کا۔ کہیں اس سے یہ نہ سمجھ لینا کہ وہ محتاج ہے، نہیں نہیں وہ تو بےنیاز ہے اور تم سب اس کے محتاج ہو، یہ حکم صرف اس لئے ہے کہ غرباء بھی دنیا کی نعمتوں سے محروم نہ رہیں گے، جیسے اور جگہ قربانی کے حکم کے بعد فرمایا آیت ( لَنْ يَّنَال اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاۗؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ ) 22۔ الحج:37) اللہ تعالیٰ نہ اس کا خون لے نہ گوشت، وہ تو تمہارے تقوے کی آزمائش کرتا ہے۔ وہ کشادہ فضل والا ہے، اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں، صدقہ اپنے چہیتے حلال مال سے نکال کر اللہ کے فضل اس کے بخشش اس کے کرم اور اس کی سخاوت پر نظریں رکھو، وہ اس کا بدلہ اس سے بہت بڑھ چڑھ کر تمہیں عطا فرمائے گا وہ مفلس نہیں وہ ظالم نہیں، وہ حمید ہے تمام اقوال افعال تقدیر شریعت سب میں اس کی تعریفیں ہی کی جاتی ہیں، اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں، وہی تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں، وہ ہی تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، اس کے سوا کوئی کسی کی پرورش نہیں کرتا۔ حدیث میں ہے کہ ایک چوکا شیطان مارتا ہے اور ایک توفیق کی رہبری فرشتہ کرتا ہے۔ شیطان تو شرارت پر آمادہ کرتا ہے اور حق کے جھٹلانے پر اور فرشتہ نیکی پر اور حق کی تصدیق پر جس کے دل میں یہ خیال آئے وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور جان لے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور جس کے دل میں وہ وسوسہ پیدا ہو وہ آعوذ پڑھے، پھر حضور ﷺ نے ( آیت الشیطان الخ ) کی تلاوت فرمائی ( ترمذی ) یہ حدیث عبداللہ بن مسعود سے موقوف بھی مروی ہے، مطلب آیت شریفہ کا یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے شیطان روکتا ہے اور دل میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ اس طرح ہم فقیر ہوجائیں گے، اس نیک کام سے روک کر پھر بےحیائیوں اور بدکاریوں کی رغبت دلاتا ہے، گناہوں پر نافرمانیوں پر حرام کاریوں پر اور مخالفت پر اکساتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے برخلاف حکم دیتا ہے کہ خرچ فی سبیل اللہ کے ہاتھ نہ روکو اور شیطان کی دھمکی کے خلاف وہ فرماتا ہے کہ اس صدمہ کے باعث میں تمہاری خطاؤں کو بھی معاف کر دوں گا اور وہ جو تمہیں فقیری سے ڈراتا ہے میں اس کے مقابلہ میں تمہیں اپنے فضل کا یقین دلاتا ہوں، مجھ سے بڑھ کر رحم و کرم، فضل و لطف کس کا زیادہ وسیع ہوگا ؟ اور انجام کار کا علم بھی مجھ سے زیادہ اچھا کسے حاصل ہوسکتا ہے ؟ حکمت سے مراد یہاں پر قرآن کریم اور حدیث شریف کی پوری مہارت ہے جس سے ناسخ منسوخ محکم متشابہ مقدم موخر حلال حرام کی اور مثالوں کی معرفت حاصل ہوجائے، پڑھنے کو تو اسے ہر برا بھلا پڑھتا ہے لیکن اس کی تفسیر اور اس کی سمجھ وہ حکمت ہے جسے اللہ چاہے عنایت فرماتا ہے کہ وہ اصل مطلب کو پالے اور بات کی تہہ تک پہنچ جائے اور زبان سے اس کے صحیح مطلب ادا ہوں، سچا علم صحیح سمجھ اسے عطا ہو، اللہ کا ڈر اس کے دل میں ہو، چناچہ ایک مرفوع حدیث بھی ہے کہ حکمت کا راز اللہ کا ڈر ہے، ایسے لوگ بھی دنیا میں ہیں جو دنیا کے علم کے بڑے ماہر ہیں، ہر امر دنیوی کو عقلمندی سمجھ لیتے ہیں لیکن دین میں بالکل اندھے ہیں، اور ایسے لوگ بھی ہیں کہ دنیوی علم میں کمزور ہوں لیکن علوم شرعی میں بڑے ماہر ہیں۔ پس یہ ہے وہ حکمت جسے اللہ نے اسے دی اور اسے اس سے محروم رکھا، سدی کہتے ہیں یہاں حکمت سے مراد نبوۃ ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ حکمت کا لفظ ان تمام چیزوں پر مشتمل ہے اور نبوۃ بھی اس کا اعلیٰ اور بہترین حصہ ہے اور اس سے بالکل خاص چیز ہے جو انبیاء کے سوا اور کسی کو حاصل نہیں، ان کے تابع فرمان لوگوں کو اللہ کی طرف سے محرومی نہیں، سچی اور اچھی سمجھ کی دولت یہ بھی مالا مال ہوتے ہیں، بعض احادیث میں ہے جس نے قرآن کریم کو حفظ کرلیا اس کے دونوں بازوؤں کے درمیان نبوت چڑھ گئی، وہ صاحب وحی نہیں، لیکن دوسرے طریق سے کہ وہ ضعیف ہے منقول ہے کہ یہ حضرت عبداللہ بن عمرو کا اپنا قول ہے مسند کی حدیث میں ہے کہ قابل رشک صرف دو شخص ہیں جسے اللہ نے مال دیا اور اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق بھی دی اور جسے اللہ نے حکمت دی اور ساتھ ہی اس کے فیصلے کرنے اور اس کی تعلیم دینے کی توفیق بھی عطا فرمائی۔ وعظ و نصیحت اسی کو نفع پہنچاتی ہے جو عقل سے کام لے، سمجھ رکھتا ہو، بات کو یاد رکھے اور مطلب پر نظریں رکھے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 269 یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآءُ ج۔ یہ حکمت کی باتیں ہیں ‘ جن کا سمجھنا ہر کس و ناکس کے لیے ممکن نہیں۔ ایک چیزوں کا ظاہر ہے اور ایک باطن ہے ‘ جو حکمت سے نظر آتا ہے۔ ظاہر تو سب کو نظر آ رہا ہے ‘ لیکن کسی شے کی حقیقت کیا ہے ‘ یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے : اے اہل نظر ! ذوق نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا ؟جس کسی پر یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے وہ حکیم ہے۔ اور حکمت اصل میں انسان کی عقل اور شعور کی پختگی کا نام ہے۔ استحکام اسی حکمت سے ہی بنا ہے۔ اللہ تعالیٰ عقل و فہم اور شعور کی یہ پختگی اور حقائق تک پہنچ جانے کی صلاحیت جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط۔ اس سے بڑا خیر کا خزانہ تو اور کوئی ہے ہی نہیں وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ ان باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں جو اولو الالباب ہیں ‘ عقل مند ہیں۔ لیکن جو دنیا پر ریجھ گئے ہیں ‘ جن کا سارا دلی اطمینان اپنے مال و زر ‘ جائیداد ‘ اثاثہ جات اور بینک بیلنس پر ہے تو ظاہر بات ہے کہ وہ اولو الالباب عقل مند نہیں ہیں۔
يؤتي الحكمة من يشاء ومن يؤت الحكمة فقد أوتي خيرا كثيرا وما يذكر إلا أولو الألباب
سورة: البقرة - آية: ( 269 ) - جزء: ( 3 ) - صفحة: ( 45 )Surah baqarah Ayat 269 meaning in urdu
جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی، اُسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی اِن باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں، جو دانشمند ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- یہ کیا کہتے ہیں کہ اس نے قرآن ازخود بنا لیا ہے؟ کہہ دو کہ
- اور ہم صف باندھے رہتے ہیں
- سلیمان نے کہا (اچھا) ہم دیکھیں گے، تونے سچ کہا ہے یا تو جھوٹا ہے
- جو شخص (خدا سے) ڈر رکھتا ہے اس کے لیے اس (قصے) میں عبرت ہے
- اور دوزخ ٹھیرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے
- اور جو لوگ خدا پر افتراء کرتے ہیں وہ قیامت کے دن کی نسبت کیا
- (اس روز) ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ (روئے زمین پر پھیل کر) ایک
- مومنو! خدا کے نام کی چیزوں کی بےحرمتی نہ کرنا اور نہ ادب کے مہینے
- کہ جس بات کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ ہو کر رہے گی
- اور لوط بھی پیغمبروں میں سے تھے
Quran surahs in English :
Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers