Surah baqarah Ayat 274 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾
[ البقرة: 274]
جو لوگ اپنا مال رات اور دن اور پوشیدہ اور ظاہر (راہ خدا میں) خرچ کرتے رہتے ہیں ان کا صلہ پروردگار کے پاس ہے اور ان کو (قیامت کے دن) نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ غم
Surah baqarah UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مستحق صدقات کون ہیں حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ مسلمان صحابہ اپنے مشرک رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنا ناپسند کرتے تھے پھر حضور ﷺ سے سوال ہوا اور یہ آیت اتری اور انہیں رخصت دی، فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ فرماتے تھے کہ صدقہ صرف مسلمانوں کو دیا جائے، جب یہ آیت اتری تو آپ نے فرما دیا ہر سائل کو دو ، گو وہ کسی مذہب کا ہو ( ابن ابی حاتم ) حضرت اسماء والی روایت آیت ( لاینھاکم اللہ الخ ) کی تفسیر میں آئے گی انشاء اللہ، یہاں فرمایا تم جو نیکی کرو گے اپنے لئے ہی کرو گے جیسے اور جگہ ہے آیت ( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهٖ ۚ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَيْهَا ) 45۔ الجاثیہ :15) اور اس جیسی اور آیتیں بھی بہت ہیں، حسن بصری فرماتے ہیں ایماندار کا ہر خرچ اللہ ہی کیلئے ہوتا ہے گو وہ خود کھائے پئے، عطا خراسان اس کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ جب تم نے اپنی مرضی سے مولا اور رضائے رب کیلئے دیا تو لینے والا خواہ کوئی بھی ہو اور کیسے ہی اعمال کا کرنے والا ہو، یہ مطلب بھی بہت اچھا ہے، حاصل یہ ہے کہ نیک نیتی سے دینے والے کا اجر تو اللہ کے ذمہ ثابت ہوگیا ہے۔ اب خواہ وہ مال کسی نیک کے ہاتھ لگے یا بد کے یا غیر مستحق کے، اسے اپنے قصد اور اپنی نیک نیتی کا ثواب مل گیا۔ جبکہ اس نے دیکھ بھال کرلی پھر غلطی ہوئی تو ثواب ضائع نہیں جاتا اسی لئے آیت کے آخر میں بدلہ ملنے کی بشارت دی گئی، اور بخاری و مسلم کی حدیث میں آیا کہ ایک شخص نے قصد کیا کہ آج رات میں صدقہ دوں گا، لے کر نکلا اور چپکے سے ایک عورت کو دے کر چلا آیا، صبح لوگوں میں باتیں ہونے لگیں کہ آج رات کو کوئی شخص ایک بدکار عورت کو خیرات دے گیا، اس نے بھی سنا اور اللہ کا شکر ادا کیا، پھر اپنے جی میں کہا آج رات اور صدقہ دوں گا، لے کر چلا اور ایک شخص کی مٹھی میں رکھ کر چلا آیا، صبح سنتا ہے کہ لوگوں میں چرچا ہو رہا ہے کہ آج شب ایک مالدار کو کوئی صدقہ دے گیا، اس نے پھر اللہ کی حمد کی اور ارادہ کیا کہ آج رات کو تیسرا صدقہ دوں گا، دے آیا، دن کو پھر معلوم ہوا کہ وہ چور تھا تو کہنے لگا، اللہ تیری تعریف ہے زانیہ عورت کے دئیے جانے پر بھی، مالدار شخص کو دئیے جانے پر بھی اور چور کو دینے پر بھی، خواب میں دیکھتا ہے کہ فرشتہ آیا اور کہہ رہا ہے تیرے تینوں صدقے قبول ہوگئے۔ شاید بدکار عورت مال پا کر اپنی حرام کاری سے رک جائے اور شاید مالدار کو عبرت اصل ہو اور وہ بھی صدقے کی عادت ڈال لے اور شاید چور مال پا کر چوری سے باز رہے۔ پھر فرمایا صدقہ ان مہاجرین کا حق ہے جو دنیوی تعلقات کاٹ کر ہجرتیں کرکے وطن چھوڑ کر کنبے قبیلے سے منہ موڑ کر اللہ کی رضامندی کیلئے پیغمبر ﷺ کی خدمت میں آگئے ہیں، جن کے معاش کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں جو انہیں کافی ہو اور وہ سفر کرسکتے ہیں کہ چل پھر کر اپنی روزی حاصل کریں ضرب فی الارض کے معنی مسافرت کے ہیں جیسے آیت ( اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ ) 5۔ المائدة:106) اور ( يَضْرِبُوْنَ فِي الْاَرْضِ ) 73۔ المزّمّل:20) میں ان کے حال سے جو لوگ ناواقف ہیں وہ ان کے لباس اور ظاہری حال اور گفتگو سے انہیں مالدار سمجھتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے مسکین وہی نہیں جو دربدر جاتے ہیں کہیں سے دو ایک کھجوریں مل گئیں کہیں سے دو ایک لقمے مل گئے، کہیں سے دو ایک وقت کا کھانا مل گیا بلکہ وہ بھی مسکین ہے جس کے پاس اتنا نہیں جس سے وہ بےپرواہ ہوجائے اور اس نے اپنی حالت بھی ایسی نہیں بنائی جس سے ہر شخص اس کی ضرورت کا احساس کرے اور کچھ احسان کرے اور نہ وہ سوال کے عادی ہیں تو انہیں ان کی اس حالت سے جان لے گا جو صاحب بصیرت پر مخفی نہیں رہتیں، جیسے اور جگہ ہے آیت ( سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ) 48۔ الفتح:29) ان کی نشانیاں ان کے چہروں پر ہیں اور فرمایا ( وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِيْ لَحْنِ الْـقَوْلِ ) 47۔ محمد:30) ان کے لب و لہجہ سے تم انہیں پہچان لو گے، سنن کی ایک حدیث میں ہے مومن کی دانائی سے بچو، وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے، سنو قرآن کا فرمان ہے آیت ( اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ ) 45۔ الحجر:75) بالیقین اس میں اہل بصیرت کیلئے نشانیاں ہیں، یہ لوگ کسی پر بوجھل نہیں ہیں، کسی سے ڈھٹائی کے ساتھ سوال نہیں کرتے نہ اپنے پاس ہوتے ہوئے کسی سے کچھ طلب کرتے ہیں، جس کے پاس ضرورت کے مطابق ہو اور پھر بھی وہ سوال کرے وہ چپک کر مانگنے والا کہلاتا ہے، حضور ﷺ فرماتے ہیں ایک دو کھجوریں اور ایک دو لقمے لے کر چلے جانے والے ہی مسکین نہیں بلکہ حقیقتاً مسکین وہ ہیں جو باوجود حاجت کے خودداری برتیں اور سوال سے بچیں، دیکھو قرآن کہتا ہے آیت ( لَا يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ) 2۔ البقرۃ :273) یہ روایت بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں سے مروی ہے، قبیلہ مزینہ کے ایک شخص کو ان کی والدہ فرماتی ہیں تم بھی جا کر رسول اللہ ﷺ سے کچھ مانگ لاؤ جس طرح اور لوگ جا کرلے آتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں جب گیا تو حضور ﷺ کھڑے ہوئے خطبہ فرما رہے تھے کہ جو شخص سوال سے بچے گا اللہ بھی اسے سوال سے بچا لے گا، جو شخص بےپرواہی برتے گا اللہ اسے فی الواقع بےنیاز کر دے گا، جو شخص پانچ اوقیہ کے برابر مال رکھتے ہوئے بھی سوال کرے وہ چمٹنے والا سوالی ہے، میں نے اپنے دل میں سوچا کہ ہمارے پاس تو ایک اونٹنی ہے جو پانچ اوقیہ سے بہت بہتر ہے۔ ایک اونٹنی غلام کے پاس ہے وہ بھی پانچ اوقیہ سے زیادہ قیمت کی ہے پس میں تو یونہی سوال کئے بغیر ہی چلا آیا اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ حضرت ابو سعید کا ہے اس میں ہے کہ آپ نے مجھ سے فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ جو لوگوں سے کنارہ کرے گا اللہ اسے آپ کفایت کرے گا اور جو ایک اوقیہ رکھتے ہوئے سوال کرے گا وہ چمٹ کر سوال کرنے والا ہے، ان کی اونٹنی کا نام یاقوتہ تھا، ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ چالیس درہم کے تقریباً دس روپے ہوتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ جس کے پاس بےپرواہی کے لائق ہو پھر بھی وہ سوال کرے، قیامت کے دن اس کے چہرہ پر اس کا سوال زخم نہ ہوگا اس کا منہ نچا ہوا ہوگا، لوگوں نے کہا حضرت ﷺ کتنا پاس ہو تو ؟ فرمایا پچاس درہم یا اس کی قیمت کا سونا، یہ حدیث ضعیف ہے، شام میں ایک قریشی تھے جنہیں معلوم ہوا کہ حضرت ابوذر ضرورت مند ہیں تو تین سو گنیاں انہیں بھجوائیں، آپ خفا ہو کر فرمانے لگے اس اللہ کے بندے کو کوئی مسکین ہی نہیں ملا ؟ جو میرے پاس یہ بھیجیں، میں نے تو نبی ﷺ سے سنا ہے کہ چالیس درہم جس کے پاس ہوں اور پھر وہ سوال کرے وہ چمٹ کر سوال کرنے والا ہے اور ابوذر کے گھرانے والوں کے پاس تو چالیس درہم بھی ہیں، چالیس بکریاں بھی ہیں اور غلام بھی ہیں۔ ایک روایت میں حضور ﷺ کے یہ الفاظ بھی ہیں کہ چالیس درہم ہوتے ہوئے سوال کرنے والا الحاف کرنے والا اور مثل ریت کے ہے۔ پھر فرمایا تمہارے تمام صدقات کا اللہ کو علم ہے اور جبکہ تم پورے محتاج ہوگئے، اللہ پاک اس وقت تمہیں اس کا بدلہ دے گا، اس پر کوئی چیز مخفی نہیں۔ پھر ان لوگوں کی تعریفیں ہو رہی ہیں جو ہر وقت اللہ کے فرمان کے مطابق خرچ کرتے رہتے ہیں، انہیں اجر ملے گا اور ہر خوف سے امن پائیں گے، بال بچوں کے کھلانے پر بھی انہیں ثواب ملے گا، جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ فتح مکہ والے سال جبکہ آپ حضرت سعد بن ابی وقاص کی عیادت کو گئے تو فرمایا ایک روایت میں ہے کہ حجۃ الوداع والے سال فرمایا تو جو کچھ اللہ کی خوشی کیلئے خرچ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے تیرے درجات بڑھائے گا، یہاں تک کہ تو جو اپنی بیوی کو کھلائے پلائے اس کے بدلے بھی، مسند میں ہے کہ مسلمان طلب ثواب کی نیت سے اپنے بال بچوں پر بھی جو خرچ کرتا ہے وہ بھی صدقہ ہے، حضور ﷺ فرماتے ہیں اس آیت کا شان نزول مسلمان مجاہدین کا وہ خرچ ہے جو وہ اپنے گھوڑوں پر کرتے ہیں، ابن عباس سے بھی یہی مروی ہے، حضرت جبیر فرماتے ہیں حضرت علی کے پاس چار درہم تھے جن میں سے ایک راہ اللہ رات کو دیا، ایک دن کو ایک پوشیدہ ایک ظاہر تو یہ آیت اتری، یہ روایت ضعیف ہے۔ دوسری سند سے یہی مروی ہے، اطاعت الٰہی میں جو مال ان لوگوں نے خرچ کیا اس کا بدلہ قیامت کے دن اپنے پروردگار سے لیں گے، یہ لوگ نڈر اور بےغم ہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
اب ہم اس سورة مبارکہ کا جو رکوع پڑھ رہے ہیں یہ آج کے حالات میں اہم ترین ہے۔ یہ رکوع سود کی حرمت اور شناعت پر قرآن حکیم کا انتہائی اہم مقام ہے۔ اس دور میں اللہ تعالیٰ کے خلاف بغاوت کی سب سے بڑی صورت تو غیر اللہ کی حاکمیت کا تصور ہے ‘ جو سب سے بڑا شرک ہے۔ اگرچہ نفسیاتی اور داخلی اعتبار سے سب سے بڑا شرک مادّے پر توکلّ ہے ‘ لیکن خارجی اور واقعاتی دنیا میں اس وقت سب سے بڑا شرک غیر اللہ کی حاکمیت ہے ‘ جو اب عوامی حاکمیت کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ اس کے بعد اس وقت کے گناہوں اور بدعملی میں سب سے بڑا فتنہ اور فساد سود کی بنیاد پر ہے۔ اس وقت دنیا میں سب سے بڑی شیطنت جو یہودیوں کے ذریعے سے پورے کرۂ ارضی کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے بےتاب ہے ‘ وہ یہی سود کا ہتھکنڈا ہے۔ یہاں اس کی حرمت دو ٹوک انداز میں بیان کردی گئی۔ اس مقام پر میرے ذہن میں کبھی کبھی ایک سوال پیدا ہوتا تھا کہ اس رکوع کی پہلی آیت کا تعلق تو انفاق فی سبیل اللہ سے ہے ‘ لہٰذا اسے پچھلے رکوع کے ساتھ شامل ہونا چاہیے تھا ‘ لیکن بعد میں یہ حقیقت مجھ پر منکشف ہوئی کہ اس آیت کو بڑی حکمت کے ساتھ اس رکوع کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔ وہ حکمت میں بعد میں بیان کروں گا آیت 274 اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ بالَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَّعَلاَنِیَۃً صدقات واجبہ علانیہ اور صدقات نافلہ خفیہ طور پر دیتے ہیں۔فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْج وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ اس کے برعکس معاملہ ان کا ہے جو سود کھاتے ہیں۔ وجہ کیا ہے ؟ اصل مسئلہ ہے قدر زائد surplus value کا ! آپ کا کوئی شغل ہے ‘ کوئی کاروبار ہے یا ملازمت ہے ‘ آپ کما رہے ہیں ‘ اس سے آپ کا خرچ پورا ہو رہا ہے ‘ کچھ بچت بھی ہو رہی ہے۔ اب اس بچت کا اصل مصرف کیا ہے ؟ آیت 219 میں ہم پڑھ آئے ہیں : وَیَسْءَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط قُلِ الْعَفْوَ ط لوگ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کتنا خرچ کریں ؟ کہہ دیجیے جو بھی زائد از ضرورت ہو ! چناچہ اصل راستہ تو یہ ہے کہ اپنی بچت کو اللہ کی راہ میں خرچ کر دو۔ یا محتاجوں کو دے دو یا اللہ کے دین کی نشرو اشاعت اور سربلندی میں لگا دو۔ لیکن سود خورانہ ذہنیت یہ ہے کہ اس بچت کو بھی مزید کمائی کا ذریعہ بناؤ۔ لہٰذا اصل میں سود خوری انفاق فی سبیل اللہ کی ضد ہے۔ یہ عقدہ مجھ پر اس وقت کھلا جب میں نے اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا کے اصول کے تحت سورة الروم کی آیت 39 کا مطالعہ کیا۔ وہاں بھی ان دونوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لایا گیا ہے ‘ اللہ کی رضا جوئی کے لیے انفاق اور اس کے مقابلے میں ربا ‘ یعنی سود پر رقم دینا۔ فرمایا : وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَا فِیْ اَمْوَال النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ ج اور جو مال تم دیتے ہو سود پر تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر بڑھ جائے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا۔ محنت کوئی کر رہا ہے اور آپ اس کی کمائی میں سے اپنے سرمائے کی وجہ سے وصول کر رہے ہیں تو آپ کا مال اس کے مال میں شامل ہو کر اس کی محنت سے بڑھ رہا ہے۔ لیکن اللہ کے ہاں اس کی بڑھوتری نہیں ہوتی۔ وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ اور وہ جو تم زکوٰۃ اور صدقات میں دے دیتے ہو محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے تو یہی لوگ اپنے مال اللہ کے ہاں بڑھا رہے ہیں۔ ان کا مال مسلسل بڑھ رہا ہے ‘ اس کی بڑھوتری ہو رہی ہے۔ چناچہ انفاق فی سبیل اللہ اور صدقات و زکوٰۃ وغیرہ کا معاملہ سود کے بالمقابل اور اس کے برعکس ہے۔ اپنے اس بچت کے مال کو یا تو کوئی اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا یا پھر سودی منافع حاصل کرنے کا ذریعہ بنائے گا۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ آج کے بینکنگ کے نظام میں سب سے زیادہ زور بچت saving پر دیا جاتا ہے اور اس کے لیے سیونگ اکاؤنٹ اور بہت سی پرکشش منافع بخش سکیمیں متعارف کرائی جاتی ہیں۔ ان کی طرف سے یہی ترغیب دی جاتی ہے کہ بچت کرو مزید کمانے کے لیے ! بچت اس لیے نہیں کہ اپنا پیٹ کاٹو اور غرباء کی ضروریات پوری کرو ‘ اپنا معیار زندگی کم کرو اور اللہ کے دین کے لیے خرچ کرو۔ نہیں ‘ بلکہ اس لیے کہ جو کچھ تم بچاؤ وہ ہمیں دو ‘ تاکہ وہ ہم زیادہ شرح سود پر دوسروں کو دیں اور تھوڑی شرح سود تمہیں دے دیں۔ چناچہ انفاق اور سود ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
الذين ينفقون أموالهم بالليل والنهار سرا وعلانية فلهم أجرهم عند ربهم ولا خوف عليهم ولا هم يحزنون
سورة: البقرة - آية: ( 274 ) - جزء: ( 3 ) - صفحة: ( 46 )Surah baqarah Ayat 274 meaning in urdu
جو لو گ اپنے مال شب و روز کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا مقام نہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- بےشک اس (قصے) میں نشانیاں ہیں اور ہمیں تو آزمائش کرنی تھی
- یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جسے ایک گاؤں میں جو اپنی چھتوں
- جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ تم کس
- اور اگر خدا لوگوں کو ان کے اعمال کے سبب پکڑنے لگتا۔ تو روئے زمین
- یہ وہ دن ہے کہ (لوگ) لب تک نہ ہلا سکیں گے
- کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان
- (یعنی) جب رات نے ان کو (پردہٴ تاریکی سے) ڈھانپ لیا (تو آسمان میں) ایک
- اور تجھے کثرت سے یاد کریں
- (خضر نے) کہا کہ تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکو گے
- بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے منہ پھیر لیا
Quran surahs in English :
Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers