Surah baqarah Ayat 286 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ﴾
[ البقرة: 286]
خدا کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ اچھے کام کرے گا تو اس کو ان کا فائدہ ملے گا برے کرے گا تو اسے ان کا نقصان پہنچے گا۔ اے پروردگار اگر ہم سے بھول یا چوک ہوگئی ہو تو ہم سے مؤاخذہ نہ کیجیو۔ اے پروردگار ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈالیو جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ اے پروردگار جتنا بوجھ اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں اتنا ہمارے سر پر نہ رکھیو۔ اور (اے پروردگار) ہمارے گناہوں سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے۔ اور ہم پر رحم فرما۔ تو ہی ہمارا مالک ہے اور ہم کو کافروں پر غالب فرما
Surah baqarah UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
بقرہ کی آخری آیات اور ان کی فضیلت ان دونوں آیتوں کی حدیثیں سنئے، صحیح بخاری میں ہے جو شخص ان دونوں آیتوں کو رات کو پڑھ لے اسے یہ دونوں کافی ہیں۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سورة بقرہ کی آخری آیتیں عرش تلے کے خزانہ سے دیا گیا ہوں مجھ سے پہلے کسی نبی کو یہ نہیں دی گئیں۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب حضور ﷺ کو معراج کرائی گئی اور آپ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے جو ساتویں آسمان میں ہے، جو چیز آسمان کی طرف چڑھتی ہے وہ یہیں تک ہی پہنچتی ہے اور یہاں سے ہی لے جائی جاتی ہے اور جو چیز اوپر سے نازل ہوتی ہے وہ بھی یہیں تک پہنچتی ہے، پھر یہاں سے آگے لے جائی جاتی ہے اور اسے سونے کی ٹڈیاں ڈھکے ہوئے تھیں، وہاں حضور ﷺ کو تین چیزیں دی گئیں۔ پانچ وقت کی نمازیں، سورة بقرہ کے خاتمہ کی آیتیں اور توحید والوں کے تمام گناہوں کی بخشش۔ مسند میں ہے کہ حضرت عقبہ بن عامر سے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا سورة بقرہ کی ان دونوں آخری آیتوں کو پڑھتے رہا کرو، میں انہیں عرش کے نیچے کے خزانوں سے دیا گیا ہوں، ابن مردویہ میں ہے کہ ہمیں لوگوں پر تین فضیلتیں دی گئی ہیں، میں سورة بقرہ کی یہ آخری آیتیں عرش تلے کے خزانوں سے دیا گیا ہوں جو نہ میرے پہلے کسی کو دی گئیں نہ میرے بعد کسی کو دی جائیں گی، ابن مردویہ میں ہے حضرت علی فرماتے ہیں میں نہیں جانتا کہ اسلام کے جاننے والوں میں سے کوئی شخص آیت الکرسی اور سورة بقرہ کی آخری آیتیں پڑھے بغیر سو جائے، یہ وہ خزانہ ہے جو تمہارے نبی ﷺ عرش تلے کے خزانہ سے دئیے گئے ہیں، اور حدیث ترمذی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کے پیدا کرنے سے دو ہزار برس پہلے تک ایک کتاب لکھی جس میں سے دو آیتیں اتار کر سورة بقرہ ختم کی، جس گھر میں یہ تین راتوں تک پڑھی جائیں اس گھر کے قریب بھی شیطان نہیں جاسکتا۔ امام ترمذی اسے غریب بتاتے ہیں لیکن حاکم اپنی مستدرک میں اسے صحیح کہتے ہیں، ابن مردویہ میں ہے کہ جب حضور ﷺ سورة بقرہ کا خاتمہ اور آیت الکرسی پڑھتے تو ہنس دیتے اور فرماتے یہ دونوں رحمن کے عرش تلے کا خزانہ ہیں اور جب آیت ( وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ) 4۔ النساء:110) اور آیت ( وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى 39ۙ وَاَنَّ سَعْيَهٗ سَوْفَ يُرٰى 40۠ ثُمَّ يُجْزٰىهُ الْجَزَاۗءَ الْاَوْفٰى 41ۙ ) 53۔ النجم:39) پڑھتے تو زبان سے اناللہ نکل جاتا اور سست ہوجاتے، ابن مردویہ میں ہے کہ مجھے سورة فاتحہ اور سورة بقر کی آخری آیتیں عرش کے نیچے سے دی گئی ہیں، اور مزید مفصل کی سورتیں بھی وہاں سے ہی دی گئی ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ہم حضور ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جہاں حضرت جبرائیل بھی تھے کہ اچانک ایک دہشت ناک بہت بڑے دھما کے کی آواز کے ساتھ آسمان کا وہ دروازہ کھلا جو آج تک کبھی نہیں کھلا تھا، اس سے ایک فرشتہ اترا، اس نے آنحضرت ﷺ سے کہا آپ کو خوشی مبارک ہو، آپ کو وہ دو نور دئیے جاتے ہیں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دئیے گئے سورة فاتحہ اور سورة بقرہ کی آخری آیتیں۔ ان کے ایک ایک حرف پر آپ کو نور دیا جائے گا ( مسلم ) پس یہ دس حدیثیں ان مبارک آیتوں کی فضیلت ہیں۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ رسول یعنی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اس پر ایمان لائے جو انکی طرف سے ان کے رب کی جانب سے نازل ہوا، اسے سن کر آپ کے فرمایا وہ ایمان لانے کا پورا مستحق ہے، اور دوسرے ایماندار بھی ایمان لائے، ان سب نے مان لیا کہ اللہ ایک ہے، وہ وحدانیت کا مالک ہے، وہ تنہا ہے، وہ بےنیاز ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، نہ اس کے سوا کوئی پالنے والا ہے، یہ ( ایمان والے ) تمام انبیاء کی تصدیق کرتے ہیں، تمام رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں، آسمانی کتابوں کو انبیاء کرام پر جو اتری ہیں سچی جانتے ہیں۔ وہ نبیوں میں فرق نہیں سمجھتے کہ ایک کو مانیں دوسرے کو نہ مانیں بلکہ سب کو سچا جانتے ہیں اور ایمان رکھتے ہیں کہ وہ پاکباز طبقہ رشد و ہدایت والا اور لوگوں کی خیر کی طرف رہبری کرنے والا ہے، گو بعض احکام ہر نبی کے زمانہ میں تبدیل ہوتے رہے یہاں تک کہ حضور ﷺ کی شریعت سب کی ناسخ ٹھہری، خاتم الانبیاء ومرسلین آپ تھے، قیامت تک آپ کی شریعت باقی رہے گی اور ایک جماعت اس کی اتباع بھی کرتی رہے گی۔ انہوں نے اقرار بھی کیا کہ ہم نے اللہ کا کلام سنا اور احکام الہی ہمیں تسلیم ہیں، انہوں نے کہا کہ ہمارے رب ہمیں مغفرت رحمت اور لطف عنایت فرما، تیری ہی طرف ہمیں لوٹنا ہے یعنی حساب والے دِن۔ حضرت جبرائیل نے فرمایا اے اللہ کے رسول ﷺ آپ کی اور آپ کی تابعدار امت کے یہاں ثناء و صفت بیان ہو رہی ہے، آپ اس موقع پر دعا کیجئے قبول کی جائے گی، مانگئے کہ اللہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دے۔ پھر فرمایا اللہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا یہ اس کا لطف و کرم اور احسان و انعام ہے۔ صحابہ کو جو کھٹکا ہوا تھا اور ان پر جو یہ فرمان گراں گزرا تھا کہ دل کے خطرات پر بھی حساب لیا جائے گا وہ دھڑکا اس آیت سے اٹھ گیا۔ مطلب یہ کہ گو حساب ہو، سوال ہو لیکن جو چیز طاقت سے باہر ہے اس پر عذاب نہیں کیونکہ دل میں کسی خیال کا دفعتاً آجانا روکے رک نہیں سکتا بلکہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ ایسے وسوسوں کو برا جاننا دلیل ایمان ہے، بلکہ اپنی اپنی کرنی اپنی اپنی بھرنی، اعمال صالحہ کرو گے جزا پاؤ گے، برے اعمال کرو گے تو سزا بھگتو گے۔ پھر دعا کی تعلیم دی اور اس کی قبولیت کا وعدہ فرمایا، کہ اے اللہ بھولے چوکے جو احکام ہم سے چھوٹ گئے ہوں یا جو برے کام ہوگئے ہوں یا شرعی احکام میں غلطی کرکے جو خلاف شرع کام ہم سے ہوئے ہوں وہ معاف فرما، پہلے صحیح مسلم کے حوالے سے حدیث گزر چکی ہے کہ اس دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا، میں نے اسے قبول فرمایا، حدیث میں بھی ہے کہ میں یکسوئی والا اور آسان دین دے کر بھیجا گیا ہوں۔ اے اللہ تکلیفیں بلائیں اور مشقتیں ہم پر نہ ڈال جن کی برداشت کی طاقت ہم میں نہ ہو، حضرت مکحول فرماتے ہیں اس سے مراد فریب اور غلبہ شہوت ہے، اس کے جواب میں بھی قبولیت کا اعلان رب عالم کی طرف سے کیا گیا۔ اور ہماری تقصیروں کو معاف فرما جو تیری نافرمانی کا کوئی کام نہ ہو، اس لئے بزرگوں کا قول ہے کہ گنہگار کو تین باتوں کی ضرورت ہے۔ ایک تو اللہ کی معافی تاکہ عذاب سے نجات پائے، دوسرے پردہ پوشی تاکہ رسوائی سے بچے، تیسرے عصمت کی تاکہ دوسری بار گناہ میں مبتلا نہ ہو، اس پر بھی جناب باری نے قبولیت کا اعلان کیا۔ تو ہمارا ولی و ناصر ہے، تجھی پر بھروسہ ہے، تجھی سے ہم مدد طلب کرتے ہیں، تو ہی ہمارا سہارا ہے، تیری مدد کے سوا نہ تو ہم کسی نفع کے حاصل کرنے پر قادر ہیں نہ کسی برائی سے بچ سکتے ہیں، تو ہماری ان لوگوں پر مدد فرما جو تیرے دین کے منکر ہیں تیری وحدانیت کو نہیں مانتے، تیرے نبی کی رسالت کو تسلیم نہیں کرتے، تیرے ساتھ دوسروں کی عبادت کرتے ہیں، مشرک ہیں اے اللہ تو ہمیں ان پر غالب کردینا اور دین میں ہم ہی ان پر فاتح رہیں، اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں بھی فرمایا ہاں میں نے یہ بھی دعا قبول فرمائی۔ حضرت معاذ جب اس آیت کو ختم کرتے آمین کہتے۔ ( ابن جریر )
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 286 لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا الاَّ وُسْعَہَا ط یہ آیت اللہ تعالیٰ کے بہت بڑے فضل و کرم کا مظہر ہے۔ میں نے آیت 186 کے بارے میں کہا تھا کہ یہ دنیا میں حقوق انسانی کا سب سے بڑا منشور Magna Carta ہے کہ اللہ اور بندے کے درمیان کوئی فصل نہیں ہے : اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ میں تو ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی اور جہاں بھی وہ مجھے پکارے۔ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ پس انہیں بھی چاہیے کہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان رکھیں۔ گویا دو طرفہ بات چلے گی ‘ یک طرفہ نہیں۔ میری مانو ‘ اپنی منواؤ ! تم دعائیں کرو گے ‘ ہم قبول کریں گے ! لیکن اگر تم ہماری بات نہیں مانتے تو پھر تمہاری دعا تمہارے منہ پردے ماری جائے گی ‘ خواہ قنوت نازلہ چالیس دن تو کیا اسّی دن تک پڑھتے رہو۔ یہی وجہ ہے کہ تمہاری دعاؤں کے باوجود تمہیں سقوط ڈھا کہ کا سانحہ دیکھنا پڑا ‘ تمہیں یہودیوں کے ہاتھوں شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اگرچہ ان مواقع پر حرمین شریفین میں قنوت نازلہ پڑھی جاتی رہی ‘ لیکن تمہاری دعائیں کیونکر قبول ہوتیں ! تمہارا جرم یہ ہے کہ تم نے اللہ کو پیٹھ دکھائی ہوئی ہے ‘ اس کے دین کو پاؤں تلے روندا ہوا ہے ‘ اللہ کے باغیوں سے دوستی رکھی ہوئی ہے۔ کسی نے ماسکو کو اپنا قبلہ بنا رکھا تھا تو کسی نے واشنگٹن کو۔ لہٰذا تمہاری دعائیں تمہارے منہ پردے ماری گئیں۔لیکن آیت زیر مطالعہ اس اعتبار سے بہت بڑی رحمت کا مظہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اندھے کی لاٹھی والا معاملہ نہیں ہے کہ تمام انسانوں سے محاسبہ ایک ہی سطح پر ہو۔ اللہ جانتا ہے کہ کس کی کتنی وسعت ہے اور اسی کے مطابق کسی کو ذمہّ دارٹھہراتا ہے۔ اور یہ وسعت موروثی اور ماحولیاتی عوامل پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہر شخص کو جو genes ملتے ہیں وہ دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور ان genes کی اپنی اپنی خصوصیات properties اور تحدیدات ‘ limitations ہوتی ہیں۔ اسی طرح ہر شخص کو دوسرے سے مختلف ماحول میسرّ آتا ہے۔ تو ان موروثی عوامل hereditary factors اور ماحولیاتی عوامل environmental factors کے حاصل ضرب سے انسان کی شخصیت کا ایک ہیولیٰ بنتا ہے ‘ جس کو مستری لوگ پاٹن کہتے ہیں۔ جب لوہے کی کوئی شے ڈھالنی مقصود ہو تو اس کے لیے پہلے مٹی یا لکڑی کا ایک سانچہ pattern بنایا جاتا ہے۔ اس کو ہمارے ہاں کاریگر اپنی بولی میں پاٹن کہتے ہیں۔ اب آپ لوہے کو پگھلا کر اس میں ڈالیں گے تو وہ اسی صورت میں ڈھل جائے گا۔ قرآن کی اصطلاح میں یہ شاکلہ ہے جو ہر انسان کا بن جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖط فَرَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ھُوَ اَھْدٰی سَبِیْلاً بنی اسرائیل کہہ دیجیے کہ ہر کوئی اپنے شاکلہ کے مطابق عمل کر رہا ہے۔ پس آپ کا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ کون سیدھی راہ پر ہے۔ اس شاکلہ کے اندر اندر آپ کو محنت کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کس کا شاکلہ وسیع تھا اور کس کا تنگ تھا ‘ کس کے genes اعلیٰ تھے اور کس کے ادنیٰ تھے ‘ کس کے ہاں ذہانت زیادہ تھی اور کس کے ہاں جسمانی قوت زیادہ تھی۔ اسے خوب معلوم ہے کہ کس کو کیسی صلاحیتیں ودیعت کی گئیں اور کیسا ماحول عطا کیا گیا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے ماحولیاتی عوامل اور موروثی عوامل کو ملحوظ رکھ کر اس کی استعدادات کے مطابق حساب لے گا۔ فرض کیجیے ایک شخص کے اندر استعداد ہی 20 درجے کی ہے اور اس نے 18 درجے کام کر دکھایا تو وہ کامیاب ہوگیا۔ لیکن اگر کسی میں استعداد سو درجے کی تھی اور اس نے 50 درجے کام کیا تو وہ ناکام ہوگیا۔ حالانکہ کمیت کے اعتبار سے 50 درجے 18 درجے سے زیادہ ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کا محاسبہ جو ہے وہ انفرادی سطح پر ہے۔ اس لیے فرمایا گیا : وَکُلُّھُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا مریم اور سب لوگ قیامت کے دن اس کے حضور فرداً فرداً حاضر ہوں گے۔ وہاں ہر ایک کا حساب اکیلے اکیلے ہوگا اور وہ اس کی وسعت کے مطابق ہوگا۔ لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا الاَّ وُسْعَہَا ط کے الفاظ میں جو ایک اہم اصول بیان کردیا گیا ہے ‘ بعض لوگ دنیا کی زندگی میں اس کا غلط نتیجہ نکال بیٹھتے ہیں۔ وہ دنیا کے معاملات میں تو خوب بھاگ دوڑ کرتے ہیں لیکن دین کے معاملے میں کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے اندر صلاحیت اور استعداد ہی نہیں ہے۔ یہ محض خود فریبی ہے۔ استعداد و استطاعت اور ذہانت و صلاحیت کے بغیر تو دنیا میں بھی آپ محنت نہیں کرسکتے ‘ کوئی نتائج حاصل نہیں کرسکتے ‘ کچھ کما نہیں سکتے۔ لہٰذا اپنے آپ کو یہ دھوکہ نہ دیجیے اور جو کچھ کرسکتے ہوں ‘ وہ ضرور کیجیے۔ اپنی شخصیت کو کھود کھود کر اس میں سے جو کچھ نکال سکتے ہوں وہ نکالیے ! ہاں آپ نکال سکیں گے اتنا ہی جتنا آپ کے اندر ودیعت ہے۔ زیادہ کہاں سے لے آئیں گے ؟ اور اللہ نے کس میں کیا ودیعت کیا ہے ‘ وہ وہی جانتا ہے۔ تمہارا محاسبہ اسی کی بنیاد پر ہوگا جو کچھ اس نے تمہیں دیا ہے۔ اس مضمون کی اہمیت کا اندازہ کیجیے کہ یہ قرآن مجید میں پانچ مرتبہ آیا ہے۔ لَھَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ ط۔ اس مقام پر بھی ل اور عَلٰی کے استعمال پر غور کیجیے۔ لَھَا مَا کَسَبَتْ سے مراد ہے جو بھی نیکی اس نے کمائی ہوگی وہ اس کے لیے ہے ‘ اس کے حق میں ہے ‘ اس کا اجر وثواب اسے ملے گا۔ وَعَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ ط سے مراد ہے کہ جو بدی اس نے کمائی ہوگی اس کا وبال اسی پر آئے گا ‘ اس کی سزا اسی کو ملے گی۔ اب وہ دعا آگئی ہے جو قرآن مجید کی جامع ترین اور عظیم ترین دعا ہے : رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَاْنَا ج ایمان اور عمل صالح کے راستے پر چلتے ہوئے اپنی شخصیت کے کونوں کھدروں میں سے امکان بھر اپنی باقی ماندہ توانائیوں residual energies کو بھی نکال نکال کر اللہ کی راہ میں لگا لیں ‘ لیکن اس کے بعد بھی اپنی محنت پر ‘ اپنی نیکی ‘ اپنی کمائی اور اپنے کارناموں پر کوئی غرّہ نہ ہو ‘ کوئی غرور نہ ہو ‘ کہیں انسان دھوکہ نہ کھاجائے۔ بلکہ اس کی کیفیت تواضع ‘ عجز اور انکساری کی رہنی چاہیے۔ اور اسے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اے پروردگار ! ہماری بھول چوک پر ہم سے مؤاخذہ نہ فرمانا۔ انسان کے اندر خطا اور نسیان دونوں چیزیں گندھی ہوئی ہیں : اَلْاِنْسَانُ مُرَکَّبٌ مِنَ الْخَطَاأ وَالنِّسْیَانِ خطا یہ ہے کہ آپ نے اپنی امکانی حد تک تو نشانہ ٹھیک لگایا تھا ‘ لیکن نشانہ خطا ہوگیا۔ اس پر آپ کی گرفت نہیں ہوگی ‘ اس لیے کہ آپ کی نیت صحیح تھی۔ ایک اجتہاد کرنے والا اجتہاد کر رہا ہے ‘ اس نے امکانی حد تک کوشش کی ہے کہ صحیح رائے تک پہنچے ‘ لیکن خطا ہوگئی۔ اللہ معاف کرے گا۔ مجتہد مخطی بھی ہو تو اس کو ثواب ملے گا اور مجتہد مصیب ہو ‘ صحیح رائے پر پہنچ جائے تو اس کو دوہرا ثواب ملے گا۔ اور نسیان یہ ہے کہ بھولے سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : اِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ عَنْ اُمَّتِی الْخَطَأَ وَالنِّسْیَانَ 37 اللہ تعالیٰ نے میری امتّ سے خطا اور نسیان معاف فرما دیا ہے۔رَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا ج۔ ایک حمل بوجھ وہ ہوتا ہے جس کو لے کر انسان چلتا ہے۔ اسی سے حمال بنا ہے جو ایک بوری کو یا بوجھ کو اٹھا کر چل رہا ہے۔ جو بوجھ آپ کی طاقت میں ہے اور جسے لے کر آپ چل سکیں وہ حمل ہے ‘ اور جس بوجھ کو آپ اٹھا نہ سکیں اور وہ آپ کو بٹھا دے اس کو اصر کہتے ہیں۔ یہ لفظ سورة الأعراف آیت 157 میں پھر آئے گا : وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط ان الفاظ میں ٌ محمد رسول اللہ ﷺ کی یہ شان بیان ہوئی ہے کہ انہوں نے لوگوں کے وہ بوجھ جو ان کی طاقت سے بڑھ کر تھے ‘ ان کے کندھوں سے اتار دیے۔ ہم سے پہلے لوگوں پر بڑے بھاری بوجھ ڈالے گئے تھے۔ شریعت موسوی ہماری شریعت کی نسبت بہت بھاری تھی۔ جیسے ان کے ہاں روزہ رات ہی سے شروع ہوجاتا تھا ‘ لیکن ہمارے لیے یہ کتنا آسان کردیا گیا کہ روزے سے رات کو نکال دیا گیا اور سحری کرنے کی تاکید فرمائی گئی : تَسَحَّرُوْا فَاِنَّ فِی السُّحُوْرِ بَرَکَۃً 38 سحری ضرور کیا کرو ‘ اس لیے کہ سحریوں میں برکت رکھی گئی ہے۔ پھر رات میں تعلق زن و شو کی اجازت دی گئی۔ ان کے روزے میں خاموشی بھی شامل تھی۔ یعنی نہ کھانا ‘ نہ پینا ‘ نہ تعلق زن و شو اور نہ گفتگو۔ ہمارے لیے کتنی آسانی کردی گئی ہے ! ان کے ہاں یوم سبت کا حکم اتنا سخت تھا کہ پورا دن کوئی کام نہیں کرو گے۔ ہمارے ہاں جمعہ کی اذان سے لے کر نماز کے ادا ہوجانے تک ہر کاروبار دنیوی حرام ہے۔ لیکن اس سے پہلے اور اس کے بعد آپ کاروبار کرسکتے ہیں۔ رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ج وَاعْفُ عَنَّاوقفۃ ہماری لغزشوں کو معاف کرتا رہ !وَاغْفِرْ لَنَاوقفۃ ہماری خطاؤں کی پردہ پوشی فرما دے !مغفرت کے لفظ کو سمجھ لیجیے۔ اس میں ڈھانپ لینے کا مفہوم ہے۔ مِغْفَرْ ’ خود ‘ ہیلمٹ کو کہتے ہیں ‘ جو جنگ میں سر پر پہنا جاتا ہے۔ یہ سر کو چھپا لیتا ہے اور اسے گولی یا تلوار کے وار سے بچاتا ہے۔ تو مغفرت یہ ہے کہ گناہوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ڈھانپ دے ‘ ان کی پردہ پوشی فرما دے۔وَارْحَمْنَآوقفۃ اَنْتَ مَوْلٰٹنَا تو ہمارا پشت پناہ ہے ‘ ہمارا والی ہے ‘ ہمارا حامی و مددگار ہے۔ ہم یہ آیت پڑھ آئے ہیں : اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْالا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط آیت 257۔فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ انہی الفاظ پر وہ دعا ختم ہوئی تھی جو طالوت کے ساتھیوں نے کی تھی۔ اب اہل ایمان کو یہ دعا تلقین کی جا رہی ہے ‘ اس لیے کہ مرحلہ سخت آ رہا ہے۔ گویا : تاب لاتے ہی بنے گی غالب مرحلہ سخت ہے اور جان عزیز !اب کفار کے ساتھ مقابلے کا مرحلہ آ رہا ہے اور اس کے لیے مسلمانوں کو تیار کیا جا رہا ہے۔ یہ درحقیقت غزوۂ بدر کی تمہید ہے۔بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم۔
لا يكلف الله نفسا إلا وسعها لها ما كسبت وعليها ما اكتسبت ربنا لا تؤاخذنا إن نسينا أو أخطأنا ربنا ولا تحمل علينا إصرا كما حملته على الذين من قبلنا ربنا ولا تحملنا ما لا طاقة لنا به واعف عنا واغفر لنا وارحمنا أنت مولانا فانصرنا على القوم الكافرين
سورة: البقرة - آية: ( 286 ) - جزء: ( 3 ) - صفحة: ( 49 )Surah baqarah Ayat 286 meaning in urdu
اللہ کسی متنفس پر اُس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے، اس کا وبال اسی پر ہے (ایمان لانے والو! تم یوں دعا کیا کرو) اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے در گزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- (اور کفار) گنہگار ہمیشہ دوزخ کے عذاب میں رہیں گے
- اور (ان میں سے ایسے بھی ہیں) جنہوں نے اس غرض سے مسجد بنوائی کہ
- مومنو! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لئے قرض کا معاملہ کرنے لگو
- اور وہ درخت بھی (ہم ہی نے پیدا کیا) جو طور سینا میں پیدا ہوتا
- وہ تو مال سے سخت محبت کرنے والا ہے
- اور تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت (پڑتی) رہے گی
- (وہ) بہشت جاودانی (ہیں) جن میں وہ داخل ہوں گے ان کے نیچے نہریں بہہ
- تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
- بھلا دیکھو تو کہ جو پانی تم پیتے ہو
- اور کہو کہ اے پروردگار مجھے (مدینے میں) اچھی طرح داخل کیجیو اور (مکے سے)
Quran surahs in English :
Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers