Surah Al Anbiya Ayat 3 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْ ۗ وَأَسَرُّوا النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُوا هَلْ هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۖ أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ﴾
[ الأنبياء: 3]
ان کے دل غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور ظالم لوگ (آپس میں) چپکے چپکے باتیں کرتے ہیں کہ یہ (شخص کچھ بھی) نہیں مگر تمہارے جیسا آدمی ہے۔ تو تم آنکھوں دیکھتے جادو (کی لپیٹ) میں کیوں آتے ہو
Surah Al Anbiya Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی نبی کا بشر ہونا ان کے لئے ناقابل قبول ہے پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ تم دیکھ نہیں رہے کہ یہ تو جادوگر ہے، تم اس کے جادو میں دیکھتے بھالتے کیوں پھنستے ہو۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
قیامت سے غافل انسان اللہ تعالیٰ عزوجل لوگوں کو متنبہ فرما رہا ہے کہ قیامت قریب آگئی ہے پھر بھی لوگوں کی غفلت میں کمی نہیں آئی نہ وہ اس کے لئے کوئی تیاری کررہے ہیں جو انہیں کام آئے۔ بلکہ دنیا میں پھنسے ہوئے ہیں اور ایسے مشغول اور منہمک ہو رہے ہیں کہ قیامت سے بالکل غافل ہوگئے ہیں۔ جیسے اور آیت میں ہے ( اتی امر اللہ فلاتستعجلوہ ) امر ربی آگیا اب کیوں جلدی مچا رہے ہو ؟ دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے ( اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ) 54۔ القمر:1) قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا الخ۔ ابو نواس شاعر کا ایک شعر ٹھیک اسی معنی کا یہ ہے۔ شعر ( الناس فی غفلاتہم ورحی المنیتہ تطحن )" موت کی چکی زور زور سے چل رہی ہے اور لوگ غفلتوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ حضرت عامر بن ربیعہ ؓ کے ہاں ایک صاحب مہمان بن کر آئے۔ انہوں نے بڑے اکرام اور احترام سے انہیں اپنے ہاں اتارا اور ان کے بارے میں رسول ﷺ سے بھی سفارش کی۔ ایک دن یہ بزرگ مہمان ان کے پاس آئے اور کہنے لگے رسول اللہ ﷺ نے مجھے فلاں وادی عطا فرما دی ہے میں میں چاہتا ہوں کہ اس بہترین زمین کا ایک ٹکڑا میں آپ کے نام کردوں کہ آپ کو بھی فارغ البالی رہے اور آپ کے بعد آپ کے بال بچے بھی آسودگی سے گزر کریں۔ حضرت عامر ؓ نے جواب دیا کہ بھائی مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں آج ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے کہ ہمیں تو دنیا کڑوی معلوم ہونے لگی ہے۔ پھر آپ نے یہی اقترب للناس کی تلاوت فرمائی۔ اس کے بعد کفار قریش اور انہی جیسے اور کافروں کی بابت فرماتا ہے کہ یہ لوگ کلام اللہ اور وحی الٰہی کی طرف کان ہی نہیں لگاتے۔ یہ تازہ اور نیا آیا ہوا ذکر دل لگا کر سنتے ہی نہیں۔ اس کان سنتے ہیں اس کان اڑا دیتے ہیں۔ دل ہنسی کھیل میں مشغول ہیں۔ بخاری شریف میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں تمہیں اہل کتاب کی کتابوں کی باتوں کے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے ؟ انہوں نے تو کتاب اللہ میں بہت کچھ ردوبدل کرلیا تحریف اور تبدیلی کرلی، کمی زیادتی کرلی اور تمہارے پاس تو اللہ کی اتاری ہوئی خالص کتاب موجود ہے جس میں ملاوٹ نہیں ہونے پائی۔ یہ لوگ کتاب اللہ سے بےپرواہی کررہے ہیں اپنے دلوں کو اس کے اثر سے خالی رکھنا چاہتے ہیں۔ بلکہ یہ ظالم اوروں کو بھی بہکاتے ہیں کہتے ہیں کہ اپنے جیسے ایک انسان کی ماتحتی تو ہم نہیں کرسکتے۔ تم کیسے لوگ ہو کہ دیکھتے بھالتے جادو کو مان رہے ہو ؟ یہ ناممکن ہے کہ ہم جیسے آدمی کو اللہ تعالیٰ رسالت اور وحی کے ساتھ مختص کردے، پھر تعجب ہے کہ لوگ باجود علم کے اس کے جادو میں آجاتے ہیں ؟ ان بد کرداروں کے جواب میں جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ یہ جو بہتان باندھتے ہیں ان سے کہئے کہ جو اللہ آسمان و زمین کی تمام باتیں جانتا ہے جس پر کوئی بات بھی پوشیدہ نہیں۔ اس نے اس پاک کلام قرآن کریم کو نازل فرمایا اس میں اگلی پچھلی تمام خبروں کا موجود ہونا ہی دلیل ہے اس بات کی کہ اس کا اتارنے والا عالم الغیب ہے۔ وہ تمہاری سب باتوں کا سننے والا اور تمہارے تمام حالات کا علم رکھنے والا ہے۔ پس تمہیں اس کا ڈر رکھنا چاہیے۔ پھر کفار کی ضد، ناسمجھی اور کٹ حجتی بیان فرما رہا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ خود حیران ہیں کسی بات پر جم نہیں سکتے۔ کبھی کلام اللہ کو جادو کہتے ہیں تو کبھی شاعری کہتے ہیں کبھی پراگندہ اور بےمعنی باتیں کہتے ہیں اور کبھی آنحضرت ﷺ کا ازخود گھڑلیا ہوا بتاتے ہیں۔ خیال کرو کہ اپنے کسی قول پر بھروسہ نہ رکھنے والا جو زبان پر چڑھے بک دینے و الا بھی مستقل مزاج کہلانے کا مستحق ہے ؟ کبھی کہتے تھے اچھا اگر یہ سچا نبی ہے تو حضرت صالح ؑ کی طرح کوئی اونٹنی لے آتا یا حضرت موسیٰ ؑ کی طرح کا کوئی معجزہ دکھاتا یا حضرت عیسیٰ ؑ کا کوئی معجزہ ظاہر کرتا۔ بیشک اللہ ان چیزوں پر قادر تو ضرور ہے لیکن اگر ظاہر ہوئیں اور پھر بھی یہ اپنے کفر سے نہ ہٹے تو عادت الٰہی کی طرح عذاب الٰہی میں پکڑ لئے جائیں گے اور پیس دئیے جائیں گے۔ عموما اگلے لوگوں نے یہی کہا اور ایمان نصیب نہ ہوا اور غارت کرلئے گئے۔ اسی طرح یہ بھی ایسے معجزے طلب کررہے ہیں اگر ظاہر ہوئے تو ایمان نہ لائیں گے اور تباہ ہوجائینگے۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ 96 ۙ ) 10۔ يونس:96) جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوچکی ہے وہ گو تمام تر معجزے دیکھ لیں، ایمان قبول نہ کریں گے۔ ہاں عذاب الیم کے معائنہ کے بعد تو فورا تسلیم کرلیں گے لیکن وہ محض بےسود ہے بات بھی یہی ہے کہ انہیں ایمان لانا ہی نہ تھ اور نہ حضور ﷺ کے بیشمار معجزات روز مرہ ان کی نگاہوں کے سامنے تھے۔ بلکہ آپ کے یہ معجزے دیگر انبیاء ؑ سے بہت زیادہ ظاہر اور کھلے ہوئے تھے۔ ابن ابی حاتم کی ایک بہت ہی غریب روایت میں صحابہ کرام ؓ کا ایک مجمع مسجد میں تھا۔ حضرت ابوبکر ؓ تلاوت قرآن کررہے تھے اتنے میں عبداللہ بن سلول منافق آیا اپنی گدی بچھا کر اپنا تکیہ لگا کر وجاہت سے بیٹھ گیا۔ تھا بھی گورا چٹا بڑھ بڑھ کر فصاحت کے ساتھ باتیں بنانے والا کہنے لگا ابوبکر تم حضور ﷺ سے کہو کہ آپ کوئی نشان ہمیں دکھائیں جیسے کہ آپ سے پہلے کے انبیاء نشانات لائے تھے مثلا موسیٰ ؑ تختیاں لائے، داؤد ؑ اونٹنی لائے، عیسیٰ ؑ انجیل لائے اور آسمانی دسترخوان۔ حضرت صدیق ؓ یہ سن کر رونے لگے۔ اتنے میں حضور ﷺ گھر سے نکلے تو آپ نے دوسرے صحابہ سے فرمایا کہ حضور ﷺ کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاؤ۔ اور اس منافق کی فریاد دربار رسالت میں پہنچاؤ۔ آپ نے ارشاد فرمایا سنو میرے لئے کھڑے نہ ہوا کرو۔ صرف اللہ ہی کے لئے کھڑے ہوا کرو۔ صحابہ نے کہا حضور ﷺ ہمیں اس منافق سے بڑی ایذاء پہنچی ہے۔ آپ نے فرمایا ابھی ابھی جبرائیل ؑ میرے پاس آئے تھے اور مجھ سے فرمایا کہ باہر جاؤ اور لوگوں کے سامنے اپنے فضائل ظاہر کرو اور ان نعمتوں کا بیان کرو جو اللہ نے آپ کو عطاء فرمائی ہیں میں ساری دنیا کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں مجھے حکم ہوا ہے کہ میں جنات کو بھی پیغام الٰہی پہنچادوں۔ مجھے میرے رب نے اپنی پاک کتاب عنایت فرمائی ہے حالانکہ محض بےپڑھا ہوں۔ میرے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادئیے ہیں۔ میرا نام اذان میں رکھا ہے میری مدد فرشتوں سے کرائی ہے۔ مجھے اپنی امدادونصرت عطاء فرمائی ہے۔ رعب میرا میرے آگے آگے کردیا ہے۔ مجھے حوض کوثر عطا فرمایا ہے جو قیامت کے دن تمام اور حوضوں سے بڑا ہوگا۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے مقام محمود کا وعدہ دیا ہے اس وقت جب کہ سب لوگ حیران و پریشان سرجھکائے ہوئے ہوں گے مجھے اللہ نے اس پہلے گروہ میں چنا ہے جو لوگوں سے نکلے گا۔ میری شفاعت سے میری امت کے ستر ہزار شخص بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائیں گے۔ مجھے غلبہ اور سلطنت عطا فرمائی ہے مجھے جنت نعیم کا وہ بلند وبالا اعلیٰ بالاخانہ ملے گا کہ اس سے اعلیٰ منزل کسی کی نہ ہوگی۔ میرے اوپر صرف وہ فرشتے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ میرے اور میری امت کے لئے غنیمتوں کے مال حلال کئے گئے حالانکہ مجھ سے پہلے وہ کسی کے لئے حلال نہ تھے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 3 لَاہِیَۃً قُلُوْبُہُمْ ط ”ان کا غیر سنجیدہ رویہ اس حد تک ان کے دلوں میں گھر کر گیا ہے کہ انہوں نے زندگی کو بھی ایک کھیل ہی سمجھ رکھا ہے۔ہَلْ ہٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ ج ”رسول اللہ ﷺ سے کلام اللہ سن کر اگر ان کا کوئی ساتھی متاثر ہوتا تو اسے الگ لے جا کر بڑے ناصحانہ انداز میں سمجھاتے کہ ارے تم خواہ مخواہ اپنے جیسے ایک انسان کو اللہ کا رسول اور اس کی باتوں کو اللہ کا کلام سمجھ رہے ہو۔ اس کی باتوں پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ ”تم جانتے بھی ہو کہ یہ کلام وغیرہ سب جادو کا کمال ہے۔ تو کیا تم جانتے بوجھتے ہوئے اس کا شکار ہونے جا رہے ہو ؟ ان کی اس طرح کی سرگرمیوں کی خبریں حضور ﷺ تک بھی پہنچتی تھیں۔ آپ ﷺ کو یقیناً اس سے بہت صدمہ پہنچتا ہوگا کہ اگر کوئی اللہ کا بندہ ہدایت قبول کرنے پر آمادہ ہوا تھا تو اس کو پھر ورغلا کر بھٹکا دیا گیا ہے۔ چناچہ آپ ﷺ ان کے آپس کے شیطانی مشوروں کا سنتے تو یوں فرماتے :
لاهية قلوبهم وأسروا النجوى الذين ظلموا هل هذا إلا بشر مثلكم أفتأتون السحر وأنتم تبصرون
سورة: الأنبياء - آية: ( 3 ) - جزء: ( 17 ) - صفحة: ( 322 )Surah Al Anbiya Ayat 3 meaning in urdu
دِل ان کے (دوسری ہی فکروں میں) منہمک ہیں اور ظالم آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ "یہ شخص آخر تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے، پھر کیا تم آنکھوں دیکھتے جادُو کے پھندے میں پھنس جاؤ گے؟"
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- یا یہ اپنے پیغمبر کو جانتے پہنچانتے نہیں، اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے
- یا اس (کی نہر) کا پانی گہرا ہوجائے تو پھر تم اسے نہ لاسکو
- اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا۔ حالانکہ جنات جانتے ہیں
- ابھی خواہش رکھتا ہے کہ اور زیادہ دیں
- یہ لوگ جن کو (خدا کے سوا) پکارتے ہیں وہ خود اپنے پروردگار کے ہاں
- جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی بات کا حکم ملا ہے اور
- یہ وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے اپنے پیغمبروں میں سے فضل کیا۔ (یعنی)
- بےشک خدا اس کے اعادے (یعنی پھر پیدا کرنے) پر قادر ہے
- اور میں تجھے تیرے پروردگار کا رستہ بتاؤں تاکہ تجھ کو خوف (پیدا) ہو
- جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے خدا ان کو بہشتوں میں داخل
Quran surahs in English :
Download surah Al Anbiya with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Anbiya mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Anbiya Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers