Surah Qamar Ayat 3 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَكَذَّبُوا وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ ۚ وَكُلُّ أَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ﴾
[ القمر: 3]
اور انہوں نے جھٹلایا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی اور ہر کام کا وقت مقرر ہے
Surah Qamar Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یہ کفار مکہ کی تکذیب اور اتباع اہوا کی تردید وبطلان کے لیے فرمایا کہ ہر کام کی ایک غایت اور انتہا ہے، وہ کام اچھا ہو یا برا۔ یعنی بالآخر اس کا نتیجہ نکلے گا، اچھے کام کانتیجہ اچھا اوربرے کام کا نتیجہ برا۔ اس نتیجے کا ظہوردنیا میں بھی ہو سکتا ہے اگراللہ کی مشیت متقضی ہو، ورنہ آخرت میں تو یقینی ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
اللہ تعالیٰ قیامت کے قرب کی اور دنیا کے خاتمہ کی اطلاع دیتا ہے جیسے اور آیت میں ہے آیت ( اَتٰٓى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ) 16۔ النحل:1) اللہ کا امر آچکا اب تو اس کی طلب کی جلدی چھوڑ دو اور فرمایا آیت ( اقترب للناس حسابھم ) الخ، لوگوں کے حساب کے وقت ان کے سروں پر آپہنچا اور وہ اب تک غفلت میں ہیں۔ اس مضمون کی حدیثیں بھی بہت سی ہیں بزار میں ہے حضرت انس فرماتے ہیں سورج کے ڈوبنے کے وقت جبکہ وہ تھوڑا سا ہی باقی رہ گیا تھا رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کو خطبہ دیا جس میں فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں مری جان ہے دنیا کے گذرے ہوئے حصے میں اور باقی ماندہ حصے میں وہی نسبت ہے جو اس دن کے گذرے ہوئے اور باقی بچے ہوئے حصے میں ہے۔ اس حدیث کے راویوں میں حضرت خلف بن موسیٰ کو امام ابن حبان ثقہ راویوں میں گنتے تو ہیں لیکن فرماتے ہیں کبھی کبھی خطا بھی کر جاتے تھے، دوسری روایت جو اس کی تقویت بلکہ تفسیر بھی کرتی ہے وہ مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت سے ہے کہ عصر کے بعد جب کہ سورج بالکل غروب کے قریب ہوچکا تھا رسول کریم ﷺ نے فرمایا تمہاری عمریں گزشتہ لوگوں کی عمروں کے مقابلہ میں اتنی ہی ہیں جتنا یہ باقی کا دن گذرے ہوئے دن کے مقابلہ میں ہے۔ مسند کی اور حدیث میں ہے حضور ﷺ نے اپنی کلمہ کی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کر کے فرمایا کہ میں اور قیامت اس طرح مبعوث کئے گئے ہیں اور روایت میں اتنی زیادتی ہے کہ قریب تھا وہ مجھ سے آگے بڑھ جائے ولید بن عبدالملک کے پاس جب حضرت ابوہریرہ پہنچے تو اس نے قیامت کے بارے میں حدیث کا سوال کیا جس پر آپ ﷺ نے فرمایا میں نے حضور ﷺ سے سنا ہے کہ تم اور قیامت قربت میں ان دونوں انگلیوں کی طرح ہو۔ اس کی شہادت اس حدیث سے ہوسکتی ہے جس میں آپ ﷺ کے مبارک ناموں میں سے ایک نام ( حاشر ) آیا ہے اور ( حاشر ) وہ ہے جس کے قدموں پر لوگوں کا حشر ہو حضرت بہز کی روایت سے مروی ہے کہ حضرت عتبہ بن غزوان نے اپنے خطبہ میں فرمایا اور کبھی کہتے رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ سناتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا دنیا کے خاتمہ کا اعلان ہوچکا یہ پیٹھ پھیرے بھاگے جا رہی ہے اور جس طرح برتن کا کھانا کھالیا جائے اور کناروں میں کچھ باقی لگا لپٹا رہ جائے اسی طرح دنیا کی عمر کا کل حصہ نکل چکا صرف برائے نام باقی رہ گیا ہے تم یہاں سے ایسے جہان کی طرف جانے والے ہو جسے فنا نہیں پس تم سے جو ہو سکے بھلائیاں اپنے ساتھ لے کر جاؤ سنو ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ جہنم کے کنارے سے ایک پتھر پھینکا جائے گا جو برابر ستر سال تک نیچے کی طرف جاتا رہے گا لیکن تلے تک نہ پہنچے گا اللہ کی قسم جہنم کا یہ گہرا گڑھا انسانوں سے پر ہونے والا ہے تم اس پر تعجب نہ کرو ہم نے یہ بھی ذکر سنا ہے کہ جنت کی چوکھٹ کی دو لکڑیوں کے درمیان چالیس سال کا راستہ ہے اور وہ بھی ایک دن اس حالت پر ہوگی کہ بھیڑ بھاڑ نظر آئے گی ( مسلم ) ابو عبدالرحمن سلمی فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ہمراہ مدائن گیا اور بستی سے تین میل کے فاصلے پر ہم ٹھہرے۔ جمعہ کے لئے میں بھی اپنے والد کے ہمراہ گیا حضرت حذیفہ خطیب تھے آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا لوگوں سنو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ قیامت قریب آگئی اور چاند دو ٹکرے ہوگیا۔ بیشک قیامت قریب آچکی ہے بیشک چاند پھٹ گیا ہے بیشک دنیا جدائی کا الارم بجا چکی ہے آج کا دن کوشش اور تیاری کا ہے کل تو دوڑ بھاگ کر کے آگے بڑھ جانے کا دن ہوگا میں نے اپنے باپ سے دریافت کیا کہ کیا کل دوڑ ہوگی ؟ جس میں آگے نکلنا ہوگا ؟ میرے باپ نے مجھ سے فرمایا تم نادان ہو یہاں مراد نیک اعمال میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا ہے۔ دوسرے جمعہ کو جب ہم آئے تو بھی حضرت حذیفہ کو اسی کے قریب فرماتے ہوئے سنا اس کے آخر میں یہ بھی فرمایا کہ غایت آگ ہے اور سابق وہ ہے جو جنت میں پہلے پہنچ گیا۔ چاند کا دو ٹکڑے ہوجانا یہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ کا ذکر ہے جیسے کہ متواتر احادیث میں صحت کے ساتھ مروی ہے، حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ یہ پانچوں چیزیں ردم، دھواں، لزام، بطشہ اور چاند کا پھٹنا یہ سب گذر چکا ہے اس بارے کی حدیثیں سنئے۔ مسند احمد میں ہے کہ اہل مکہ نے نبی کریم ﷺ سے معجزہ طلب کیا جس پر دو مرتبہ چاند شق ہوگیا جس کا ذکر ان دونوں آیتوں میں ہے۔ بخاری میں ہے کہ انہیں چاند کے دو ٹکڑے دکھا دئیے ایک حراء کے اس طرف ایک اس طرف مسند میں ہے ایک ٹکڑا ایک پہاڑ پر دوسرا دوسرے پہاڑ پر۔ اسے دیکھ کر بھی جن کی قسمت میں ایمان نہ تھا بول پڑے کہ محمد ﷺ نے ہماری آنکھوں پر جادو کردیا ہے۔ لیکن سمجھداروں نے کہا کہ اگر مان لیا جائے کہ ہم پر جادو کردیا ہے تو تمام دنیا کے لوگوں پر تو نہیں کرسکتا اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے پہلے کا ہے اور روایتیں بھی بہت سی ہیں ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں چاند گرہن ہوا کافر کہنے لگے چاند پر جادو ہوا ہے اس پر یہ آیتیں مستمر تک اتریں، ابن عمر فرماتے ہیں جب چاند پھٹا اور اس کے دو ٹکڑے ہوئے ایک پہاڑ کے پیچھے اور ایک آگے اس وقت حضور ﷺ نے فرمایا اے اللہ تو گواہ رہ، مسلم اور ترمذی وغیرہ میں یہ حدیث موجود ہے ابن مسعود فرماتے ہیں سب لوگوں نے اسے بخوبی دیکھا اور آپ ﷺ نے فرمایا دیکھو یاد رکھنا اور گواہ رہنا آپ ﷺ فرماتے ہیں اس وقت حضور ﷺ اور ہم سب منیٰ میں تھے اور روایت میں ہے کہ مکہ میں تھے ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ کفار نے یہ دیکھ کر کہا یہ ابن ابی کبشہ ( یعنی رسول اللہ ﷺ کا جادو ہے لیکن ان کے سمجھداروں نے کہا مان لو ہم پر جادو کیا ہے لیکن ساری دنیا پر تو نہیں کرسکتا، اب جو لوگ سفر سے آئیں ان سے دریافت کرنا کہ کیا انہوں نے بھی اس رات کو چاند کو دو ٹکڑے دیکھا تھا چناچہ وہ آئے ان سے پوچھا انہوں نے بھی تصدیق کی کہ ہاں فلاں شب ہم نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے کفار کے مجمع نے یہ طے کیا تھا کہ اگر باہر کے لوگ آکر یہی کہیں تو حضور ﷺ کی سچائی میں کوئی شک نہیں، اب جو باہر سے آیا جب کبھی آیا جس طرف سے آیا ہر ایک نے اس کی شہادت دی کہ ہاں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اسی کا بیان اسی آیت میں ہے۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں پہاڑ چاند کے دو ٹکڑوں کے درمیان دکھائی دیتا تھا اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے خصوصاً حضرت صدیق سے فرمایا کہ اے ابوبکر تم گواہ رہنا اور مشرکین نے اس زبردست معجزے کو بھی جادو کہہ کر ٹال دیا، اسی کا ذکر اس آیت میں ہے کہ جب یہ دلیل حجت اور برہان دیکھتے ہیں سہل انکاری سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے اور مانتے ہیں بلکہ حق کو جھٹلا کر احکام نبوی کے خلاف اپنی خواہشات نفسانی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اپنی جہالت اور کم عقلی سے باز نہیں آتے۔ ہر امر مستقر ہے یعنی خیر خیر والوں کے ساتھ اور شر شر والوں کے ساتھ۔ اور یہ بھی معنی ہیں کہ قیامت کے دن ہر امر واقع ہونے والا ہے اگلے لوگوں کے وہ واقعات جو دل کو ہلا دینے والے اور اپنے اندر کامل عبرت رکھنے والے ہیں ان کے پاس آچکے ہیں ان کی تکذیب کے سلسلہ میں ان پر جو بلائیں اتریں اور ان کے جو قصے ان تک پہنچے وہ سراسر عبرت و نصیحت کے خزانے ہیں اور وعظ و ہدایت سے پر ہیں، اللہ تعالیٰ جسے ہدایت کرے اور جسے گمراہ کرے اس میں بھی اس کی حکمت بالغہ موجود ہے ان پر شقاوت لکھی جا چکی ہے جن کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے انہیں کوئی ہدایت پر نہیں لاسکتا جیسے فرمایا آیت (قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۚ فَلَوْ شَاۗءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ01409 ) 6۔ الأنعام:149) ، اللہ تعالیٰ کی دلیلیں ہر طرح کامل ہیں اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت پر لا کھڑا کرتا اور جگہ ہے آیت ( وَمَا تُغْنِي الْاٰيٰتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُوْنَ01001 ) 10۔ يونس:101) بےایمانوں کو کسی معجزے نے اور کسی ڈرنے اور ڈر سنانے والے نے کوئی نفع نہ پہنچایا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 3 { وَکَذَّبُوْا وَاتَّبَعُوْٓا اَہْوَآئَ ہُمْ } ” اور انہوں نے تکذیب کی اور اپنی خواہشات کی پیروی کی “ { وَکُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ۔ } ” اور اللہ کا ہر امر ایک وقت ِمعین کے لیے قرار پا چکا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ کی منصوبہ بندی میں ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ کوئی کام اللہ کے طے شدہ وقت سے نہ تو پہلے انجام پاسکتا ہے اور نہ ہی اس سے موخر ہوسکتا ہے۔ انسان کا کام ہے کہ وہ کوشش کرتا رہے اور نتائج اللہ پر چھوڑ دے۔ جیسے یہ طے شدہ امر ہے کہ اللہ کے دین کا غلبہ دنیا میں ہو کر رہے گا ‘ مگر اللہ کی مشیت میں اس کے لیے کون سا وقت مقرر ہے ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ چناچہ ہمیں چاہیے کہ ہم اقامت دین کی جدوجہد کو فرضِ عین اور اپنی اخروی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اس میں اپنا تن من دھن لگانے کے لیے ہر وقت کمربستہ رہیں۔ سیرت ِنبوی ﷺ سے اس جدوجہد کے منہج کو سمجھیں ‘ اس کے آداب سیکھیں ‘ اس کی شرائط معلوم کریں اور پورے خلوص نیت کے ساتھ اس کے لیے محنت کریں۔ اس محنت اور جدوجہد کے دوران ہمیں نتائج کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔ ہمیں تو یہ محنت اللہ کی رضا کے لیے کرنی ہے۔ اگر ہماری اس محنت کے نتائج ہماری زندگیوں میں ظاہر نہیں ہوتے تو کوئی پروا نہیں ‘ ہم دین کو غالب کرنے کے مکلف نہیں ‘ ہم تو صرف اس کے لیے جدوجہد کرنے کے مکلف ہیں۔ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اللہ کے ذمے ہے۔ اگر ہم نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق خلوص نیت سے اس راستے میں محنت کی تو اللہ تعالیٰ کے ہاں ہم ضرور سرخرو ہوں گے۔ اس فلسفے کو اچھی طرح سے نہ سمجھنے کی وجہ سے اقامت دین کی جدوجہد میں لوگ غلطیاں کرتے ہیں۔ جب ان کی جدوجہد کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آتے تو وہ عجلت اور بےصبری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے الٹے سیدھے طریقے اپناتے ہیں۔ ایسی ہی غلطیوں سے تحریکیں غلط راستوں پر چل پڑتی ہیں اور اس وجہ سے دین الٹا بدنام ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ایک بہت اہم نکتہ یہ بھی لائق توجہ ہے کہ اقامت ِ دین کی جدوجہد کے دوران غور و فکر کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے۔ حضور ﷺ کے بعد اب نہ تو کوئی شخصیت معصوم عن الخطا ہے اور نہ ہی کسی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست راہنمائی مل سکتی ہے۔ ظاہر ہے اب یہ کام اجتہاد اور غور و فکر سے ہی چلنا ہے اور اجتہاد میں غلطی کا ہر وقت امکان رہتا ہے۔ چناچہ انفرادی و اجتماعی سطح پر انسانوں سے غلطیاں سرزد ہونے کے امکان کے پیش نظر فیصلوں پر نظر ثانی کی گنجائش بھی رکھنی چاہیے اور اس کے لیے ذہنی طور پر ہر وقت تیار بھی رہنا چاہیے۔
Surah Qamar Ayat 3 meaning in urdu
اِنہوں نے (اس کو بھی) جھٹلا دیا اور اپنی خواہشات نفس ہی کی پیروی کی ہر معاملہ کو آخر کار ایک انجام پر پہنچ کر رہنا ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے یا (یہ) شک میں ہیں یا ان کو
- انہوں نے کہا کہ تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے۔ کیا اس لئے کہ تم کو
- اس میں وہ مدتوں پڑے رہیں گے
- اور یہ کہ وہ ہنساتا اور رلاتا ہے
- یہ ان اعمال کا بدلہ ہے جو وہ کرتے تھے
- اور جب ہم نے ہدایت (کی کتاب) سنی اس پر ایمان لے آئے۔ تو جو
- اور ان کے اعمال کی برائیاں ان پر ظاہر ہوجائیں گی اور جس (عذاب) کی
- مومنو! جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے تو خدا کی یاد
- خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے۔ اور وہی ہر چیز کا نگراں
- مومنو! جب تم آپس میں سرگوشیاں کرنے لگو تو گناہ اور زیادتی اور پیغمبر کی
Quran surahs in English :
Download surah Qamar with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Qamar mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Qamar Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers