Surah Hadid Ayat 3 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾
[ الحديد: 3]
وہ (سب سے) پہلا اور (سب سے) پچھلا اور (اپنی قدرتوں سے سب پر) ظاہر اور (اپنی ذات سے) پوشیدہ ہے اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے
Surah Hadid Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) وہی اول ہے یعنی اس سے پہلے کچھ نہ تھا، وہی آخر ہے، اس کے بعد کوئی چیز نہیں ہوگی، وہی ظاہر ہے یعنی وہ سب پر غالب ہے، اس پر کوئی غالب نہیں۔ وہی باطن ہے، یعنی باطن کی ساری باتوں کو صرف وہی جانتا ہے یا لوگوں کی نظروں اور عقلوں سےمخفی ہے۔ ( فتح القدیر ) نبی ﹲ نے اپنی صاحبزادی فاطمہ ( رضی الله عنها ) کو یہ دعا پڑھنے کی تاکید فرمائی تھی۔ «اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ، رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ ، مُنْزِلَ التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيلِ وَالْفُرْقَانِ، فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوَى ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ شَيْءٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِه، اللَّهُمَّ أَنْتَ الأوَّلُ فَلَيْسَ قَبْلَكَ شَيْءٌ ، وَأَنْتَ الآخِرُ فَلَيْسَ بَعْدَكَ شَيْءٌ ، وَأَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ ، وَأَنْتَ البَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ، اقْضِ عَنَّا الدَّيْنَ وَاغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ» ( صحيح مسلم، كتاب الذكر والدعاء باب ما يقول عند النوم وأخذ المضجع ) اس دعا میں، جو ادائیگی قرض کے لیے مسنون ہے، اول و آخر اور ظاہر وباطن کی تفسیر بیان فرما دی گئی ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
کل کائنات ثناء خواں ہے تمام حیوانات، سب نباتات اس کی پاکی بیان کرتے ہیں، ساتواں آسمان، زمینیں، ان کی مخلوق اور ہر ایک چیز اس کی ستائش کرنے میں مشغول ہے گو تم ان کی تسبیح نہ سمجھ سکو اللہ حلیم و غفور ہے۔ اس کے سامنے ہر کوئی پست و عاجز و لاچار ہے، اس کی مقرر کردہ شریعت اور اس کے احکام حکمت سے پر ہیں۔ حقیقی بادشاہ جس کی ملکیت میں آسمان و زمین ہیں وہی ہے، خلق میں متصرف وہی ہے، زندگی موت اسی کے قبضے میں ہے، وہی فنا کرتا ہے، وہی پیدا کرتا ہے۔ جسے جو چاہے عنایت فرماتا ہے، ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، جو چاہتا ہے ہوجاتا ہے، جو نہ چاہے نہیں ہوسکتا۔ اس کے بعد کی آیت ( هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ) 57۔ الحدید :3) وہ آیت ہے جس کی بابت اوپر کی حدیث میں گذرا کہ ایک ہزار آیتوں سے افضل ہے۔ حضرت ابو زمیل حضرت ابن عباس سے کہتے ہیں کہ میرے دل میں ایک کھٹکا ہے لیکن زبان پر لانے کو جی نہیں چاہتا اس پر حضرت ابن عباس ؓ نے مسکرا کر فرمایا شاید کچھ شک ہوگا جس سے کوئی نہیں بچا یہاں تک کہ قرآن میں ہے آیت ( فَاِنْ كُنْتَ فِيْ شَكٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ فَسْــــَٔـلِ الَّذِيْنَ يَقْرَءُوْنَ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَاۗءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ 94 ۙ ) 10۔ يونس:94) ، یعنی اگر تو جو کچھ تیری طرف نازل کیا گیا ہے اس میں شک میں ہو تو تجھ سے پہلے جو کتاب پڑھتے ہیں ان سے پوچھ لے۔ پھر فرمایا جب تیرے دل میں کوئی شک ہو تو اس آیت کو پڑھ لیا کر ( هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ) 57۔ الحدید :3) اس آیت کی تفسیر میں دس سے اوپر اوپر اقوال ہیں۔ بخاری فرماتے ہیں یحییٰ کا قول ہے کہ ظاہر باطن سے مراد از روئے علم ہر چیز پر ظاہر اور پوشیدہ ہونا ہے۔ یہ یحییٰ زیاد فراء کے لڑکے ہیں ان کی ایک تصنیف ہے جس کا نام معانی القرآن ہے۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ سونے کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے۔ اے اللہ اے ساتوں آسمانوں کے اور عرش عظیم کے رب، اے ہمارے اور ہر چیز کے رب ! اے تورات و انجیل کے اتارنے والے ! اے دانوں اور گٹھلیوں کو اگانے والے تیرے سوا کوئی لائق عبادت نہیں میں تیری پناہ میں آتا ہوں ہر اس چیز کی برائی سے کہ اس کی چوٹی تیرے ہاتھ میں ہے تو اول ہے تجھ سے پہلے کچھ نہ تھا تو ہی آخر ہے تیرے بعد کچھ نہیں تو ظاہر ہے تجھ سے اونچی کوئی چیز نہیں تو باطن ہے تجھ سے چھپی کوئی چیز نہیں ہمارے قرض ادا کرا دے اور ہمیں فقیری سے غنا دے۔ حضرت ابو صالح اپنے متعلقین کو یہ دعا سکھاتے اور فرماتے سوتے وقت داہنی کروٹ پر لیٹ کر یہ دعا پڑھ لیا کرو، الفاظ میں کچھ ہیر پھیر ہے۔ ملاحظہ ہو مسلم۔ ابو یعلی میں ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ کے حکم سے آپ کا بسترہ قبلہ رخ بچھایا جاتا آپ آ کر اپنے داہنے ہاتھ پر تکیہ لگا کر آرام فرماتے، پھر آہستہ آہستہ کچھ پڑھتے رہتے لیکن آخر رات میں با آواز بلند یہ دعا پڑھتے ( جو اوپر بیان ہوئی ) الفاظ میں کچھ ہیر پھیر ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں جامع ترمذی میں ہے کہ حضور ﷺ اپنے صحابہ سمیت تشریف فرما تھے کہ ایک بادل سر پر آگیا آپ نے فرمایا جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ صحابہ نے با ادب جواب دیا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جاننے والے ہیں۔ فرمایا اسے عنان کہتے ہیں یہ زمین کو سیراب کرنے والے ہیں ان لوگوں پر بھی یہ برسائے جاتے ہیں جو نہ اللہ کے شکر گزار ہیں نہ اللہ کے پکارنے والے پھر پوچھا معلوم ہے تمہارے اوپر کیا ہے انہوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول زیادہ باخبر ہے، فرمایا بلند محفوظ چھت اور لپٹی ہوئی موج، جانتے ہو تم میں اس میں کس قدر فاصلہ ہے وہی جواب ملا، فرمایا پانچ سو سال کا راستہ۔ پھر پوچھا جانتے ہو اس کے اوپر کیا ہے ؟ صحابہ نے پھر اپنی لاعلمی ان ہی الفاظ میں ظاہر کی تو آپ ﷺ نے فرمایا اس کے اوپر پھر دوسرا آسمان ہے اور ان دونوں آسمانوں میں بھی پانچ سو سال کا فاصلہ ہے اسی طرح آپ نے سات آسمان گنوائے اور ہر دو میں اتنی ہی دوری بیان فرمائی۔ پھر سوال کر کے جواب سن کر فرمایا اس ساتویں کے اوپر اتنے ہی فاصلہ سے عرش ہے، پھر پوچھا جانتے ہو تمہارے نیچے کیا ہے اور جواب وہی سن کر فرمایا دوسری زمین ہے، پھر سوال جواب کے بعد فرمایا اس کے نیچے دوسری زمین ہے اور دونوں زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے، اسی طرح سات زمینیں اسی فاصلہ کے ساتھ ایک دوسرے کے نیچے بتائیں، پھر فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے اگر تم کوئی رسی سب سے نیچے کی زمین کی طرف لٹکاؤ تو وہ بھی اللہ کے پاس پہنچے گی پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی، لیکن یہ حدیث غریب ہے اس کے راوی حسن کا ایوب یونس اور علی بن زید محدثین کا قول ہے۔ بعض اہل علم نے اس حدیث کی شرح میں کہا ہے کہ اس سے مراد رسی کا اللہ تعالیٰ کے علم قدرت اور غلبے تک پہنچنا ہے ( نہ کہ ذات باری تعالیٰ ) اللہ تعالیٰ کا علم اس کی قدرت اور اس کا غلبہ اور سلطنت بیشک ہر جگہ ہے لیکن وہ اپنی ذات سے عرش پر ہے جیسے کہ اس نے اپنا یہ وصف اپنی کتاب میں خود بیان فرمایا ہے۔ مسند احمد میں بھی یہ حدیث ہے اور اس میں دو دو زمینوں کے درمیان کا فاصلہ سات سو سال کا بیان ہوا۔ ابن ابی حاتم اور بزار میں بھی یہ حدیث ہے لیکن ابن ابی حاتم میں رسی لٹکانے کا جملہ نہیں اور ہر دو زمین کے درمیان کی دوری اس میں بھی پانچ سو سال کی بیان ہوئی ہے۔ امام بزار نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس روایت کا راوی آنحضرت ﷺ سے بغیر حضرت ابوہریرہ کے اور کوئی نہیں۔ ابن جریر میں یہ حدیث مرسلاً مروی ہے یعنی قتادہ فرماتے ہیں ہم سے یوں ذکر کیا گیا ہے پھر حدیث بیان کرتے ہیں صحابی کا نام نہیں لیتے۔ ممکن ہے یہی ٹھیک ہو، واللہ اعلم، حضرت ابوذر غفاری سے مسند بزار اور کتاب الاسماء و الصفات بیہقی میں یہ حدیث مروی ہے لیکن اس کی اسناد میں نظر ہے اور متن میں غربت و نکارت ہے واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔ امام ابن جریر آیت ( وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنّ 12ۧ ) 65۔ الطلاق:12) کی تفسیر میں حضرت قتادہ کا قول لائے ہیں کہ آسمان و زمین کے درمیان چار فرشتوں کی ملاقات ہوئی۔ آپس میں پوچھا کہ تم کہاں سے آ رہے ہو ؟ تو ایک نے کہا ساتویں آسمان سے مجھے اللہ عزوجل نے بھیجا ہے اور میں نے اللہ کو وہیں چھوڑا ہے۔ دوسرے نے کہا ساتویں زمین سے مجھے اللہ نے بھیجا تھا اور اللہ وہیں تھا، تیسرے نے کہا میرے رب نے مجھے مشرق سے بھیجا ہے جہاں وہ تھا چوتھے نے کہا مجھے مغرب سے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اور میں اسے وہیں چھوڑ کر آ رہا ہوں۔ لیکن یہ روایت بھی غریب ہے بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت قتادہ والی اوپر کی روایت جو مرسلاً بیان ہوئی ہے ممکن ہے وہ بھی حضرت قتادہ کا اپنا قول ہو جیسے یہ قول خود قتادہ کا اپنا۔ واللہ اعلم
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 3{ ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ } ” وہی اول ہے ‘ وہی آخر ہے ‘ وہی ظاہر ہے ‘ وہی باطن ہے۔ “ ایک انسان کے لیے اس کیفیت کو سمجھنا یقینا مشکل ہے کہ ہر زمان ‘ ہر مکان اگر وہ ہی وہ ہے تو پھر باقی سب کیا ہے۔ غالب ؔنے اس صورت حال سے متعلق انسانی حیرت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے : ؎جبکہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے ؟اس آیت کے بارے میں امام رازی رح کا درج ذیل قول بہت فکر انگیز ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس آیت کو پڑھ کر وہ جلالِ ذات کے رعب کے باعث ساکت و ششدر ہوئے کھڑے ہیں۔ لکھتے ہیں : اِعْلَمْ اَنَّ ھٰذا المَقامَ مقامٌ غامِضٌ عمیقٌ مُہیبٌ” جان لو کہ یہ بہت مشکل ‘ بہت گہرا اور بڑا ُ پرہیبت مقام ہے ! “ اس کی حقیقت کا سمجھنا آسان کام نہیں ہے۔ گویا بقول شاعر ع ” ہشدار کہ رہ بر دمِ تیغ است قدم را ! “ اس راستے پر خبردار ہو کر چلنا ‘ اب تمہار اپائوں تلوار کی دھار پر آگیا ہے ! صوفیاء نے ” وحدت الوجود “ کا فلسفہ اسی آیت سے اخذ کیا ہے ‘ لیکن یہ فلسفے کا بھی مشکل ترین مسئلہ ہے۔ ” وحدت الوجود “ کی تعبیر میں کچھ لوگوں نے ” ہمہ اوست “ کا تصور گھڑا ہے جس کے کفر و شرک ہونے میں کسی اہل علم کو اختلاف نہیں ہے۔ بہرحال ” وحدت الوجود “ کے بارے میں یہ حقیقت بھی واضح رہنی چاہیے کہ یہ عام لوگوں کی سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ البتہ میں نے اپنے مذکورہ دروس میں اپنی حد تک اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے اور پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم 1896۔ 1984 ئ سے مجھے اپنی اس وضاحت کی سند بھی مل چکی ہے۔ ایک مرتبہ اسی سورت کے میرے ایک درس میں پروفیسر صاحب بھی موجود تھے۔ درس کے بعد مجھ سے کہنے لگے کہ اس ” وحدت الوجود “ کے مسئلے کو پڑھتے پڑھاتے اور سمجھتے سمجھاتے مجھے پچاس برس ہوگئے ہیں ‘ لیکن آپ نے اس ایک درس میں اسے جس انداز میں واضح کیا ہے میں آج تک نہیں کرسکا۔ یہاں ان سطور میں اس مسئلے کی وضاحت کرنا میرے لیے ممکن نہیں۔ تفصیل معلوم کرنے کے خواہش مند حضرات سورة الحدید پر میرے متعلقہ دروس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ بہرحال اس آیت کا آسان مفہوم یہ ہے کہ یہ کائنات ” حادث “ ہے۔ ایک وقت تھا جب یہ موجود نہیں تھی اور جب یہ موجود نہیں تھی اس وقت کون موجود تھا ؟ ظاہر ہے اللہ اس وقت بھی موجود تھا۔ تو اس کائنات کا آغاز کہاں سے ہوا ؟ اللہ سے ! پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب اس کائنات میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ { کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ۔ } الرحمن ” جو کوئی بھی اس زمین پر ہے فنا ہونے والا ہے۔ “ تو جب یہ سب کچھ نہیں رہے گا تو اس وقت کون موجود ہوگا ؟ { وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ۔ } الرحمٰن ” اور باقی رہے گا صرف تیرے رب کا چہرہ جو بہت بزرگی والا اور بہت عظمت والا ہے۔ “ تو جب کچھ نہیں رہے گا تو اللہ اس وقت بھی موجود ہوگا۔ تو پھر ” آخر “ کون ہوا ؟ ظاہر ہے کہ اللہ ! اب یوں سمجھیں کہ اول اور آخر کے مابین ظاہر بھی وہ ہے اور باطن بھی وہ ہے۔ اس مشکل مضمون کو درج ذیل حدیث نے عام لوگوں کے لیے آسان کردیا ہے۔ حضور ﷺ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے : اَللّٰھُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَرَبَّ الْاَرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ ‘ رَبَّـنَا وَرَبَّ کُلَّ شَیْئٍ ‘ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوٰی ‘ وَمُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْفُرْقَانِ ‘ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْئٍ اَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہٖ ‘ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الْاَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْئٌ وَاَنْتَ اْلآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئٌ وَاَنْتَ الظَّاھِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْئٌ وَاَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَکَ شَیْئٌ 1 ” اے اللہ آسمانوں اور زمین کے رب ! اے عرش عظیم کے مالک ! اے ہمارے رب اور ہرچیز کے پروردگار ! اے دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والے اور تورات ‘ انجیل اور فرقان کو نازل کرنے والے ! میں ہرچیز کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں جس کی پیشانی تیرے قبضہ قدرت میں ہے۔ اے اللہ ! تو ہی اوّل ہے ‘ پس تجھ سے پہلے کوئی چیز نہ تھی اور تو ہی آخر ہے ‘ تیرے بعد کوئی چیز نہ ہوگی ‘ اور تو ہی ظاہر ہے ‘ تجھ سے بالاتر کوئی چیز نہیں ‘ اور تو ہی ایسا باطن ہے کہ تجھ سے مخفی کوئی چیز نہیں۔ “ { وَہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ۔ } ” اور وہ ہرچیز کا علم رکھتا ہے۔ “ جب ہر زمان ‘ ہر مکان وہ ہی وہ ہے ‘ وہ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی تو کائنات کی کوئی ذرہ بھر چیز بھی اس سے پوشیدہ کیسے ہوسکتی ہے ! بلکہ وہ تو انسان کے دل میں پیدا ہونے والے خیالات سے بھی آگاہ ہے۔ اس حوالے سے سورة قٓ کی یہ آیت ہم پڑھ چکے ہیں : { وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَـیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۔ } ” اور ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم خوب جانتے ہیں جو اس کا نفس وسوسے ڈالتا ہے ‘ اور ہم تو اس سے اس کی رَگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں “۔ پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے ہرچیز پر قادر عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ہونے کا اعلان ہوا ہے ‘ جبکہ زیر مطالعہ آیت میں اس کے علم ِکل ُ کا بیان ہے کہ اسے ہرچیز کا علم ہے وَھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ دو صفات ایسی ہیں جن کا ذکر قرآن میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔
هو الأول والآخر والظاهر والباطن وهو بكل شيء عليم
سورة: الحديد - آية: ( 3 ) - جزء: ( 27 ) - صفحة: ( 537 )Surah Hadid Ayat 3 meaning in urdu
وہی اول بھی ہے اور آخر بھی، ظاہر بھی ہے اور مخفی بھی، اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اس دن انسان کہے گا کہ (اب) کہاں بھاگ جاؤں؟
- وہ کہنے لگے کہ ہمیں خواہ نصیحت کرو یا نہ کرو ہمارے لئے یکساں ہے
- ابراہیم سے قرب رکھنے والے تو وہ لوگ ہیں جو ان کی پیروی کرتے ہیں
- کہنے لگے کہ کیا ہم ان اپنے جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں اور
- لیکن ان لوگوں نے تعجب کیا کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان
- اور یہ کہ نہ پیاسے رہو اور نہ دھوپ کھاؤ
- کہہ دو کہ اگر میں گمراہ ہوں تو میری گمراہی کا ضرر مجھی کو ہے۔
- اور اگر سچے ہو تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لا کر گراؤ
- اور چارپایوں میں بوجھ اٹھانے والے (یعنی بڑے بڑے) بھی پیدا کئے اور زمین سے
- یوسف نے دعا کی کہ پروردگار جس کام کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں اس
Quran surahs in English :
Download surah Hadid with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Hadid mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Hadid Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers