Surah Al Hajj Ayat 33 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿لَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ﴾
[ الحج: 33]
ان میں ایک وقت مقرر تک تمہارے لئے فائدے ہیں پھر ان کو خانہٴ قدیم (یعنی بیت الله) تک پہنچانا (اور ذبح ہونا) ہے
Surah Al Hajj Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) وہ فائدہ، سواری، دودھ، مزید نسل اور اون وغیرہ کا حصول ہے۔ وقت مقرر مراد ( ذبح کرنا ) ہے یعنی ذبح نہ ہونے تک تمہیں ان سے مذکورہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور سے، جب تک وہ ذبح نہ ہو جائے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ صحیح حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ایک آدمی ایک قربانی کا جانور اپنے ساتھ ہانکے لے جا رہا تھا۔ نبی ( صلى الله عليه وسلم ) نے اس سے فرمایا اس پر سوار ہو جا، اس نے کہا یہ حج کی قربانی ہے، آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے فرمایا، اس پر سوار ہو جا۔ ( صحيح بخاري، كتاب الحج، باب ركوب البدن )
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
قربانی کے جانور اور حجاج اللہ کے شعائر کی جن میں قربانی کے جانور بھی شامل ہیں حرمت وعزت بیان ہو رہی ہے کہ احکام الٰہی پر عمل کرنا اللہ کے فرمان کی توقیر کرنا ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں۔ یعنی قربانی کے جانوروں کو فربہ اور عمدہ کرنا۔ سہل کا بیان ہے کہ ہم قربانی کے جانوروں کو پال کر انہیں فربہ اور عمدہ کرتے تھے تمام مسلمانوں کا یہی دستور تھا ( بخاری شریف ) رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ دو سیاہ رنگ کے جانوروں کے خون سے ایک عمدہ سفید رنگ جانور کا خون اللہ کو زیادہ محبوب ہے۔ ( مسند احمد، ابن ماجہ ) پس اگرچہ اور رنگت کے جانور بھی جائز ہیں لیکن سفید رنگ جانور افضل ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ ﷺ نے دو مینڈھے چت کبرے بڑے بڑے سینگوں والے اپنی قربانی میں ذبح کئے۔ ابو سعید ؓ فرماتے ہیں حضور ﷺ نے ایک مینڈھا بڑا سینگ والا چت کبرا ذبح کیا جس کے منہ پر آنکھوں کے پاس اور پیروں پر سیاہ رنگ تھا۔ ( سنن ) امام ترمذی ؒ اسے صحیح کہتے ہیں۔ ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ حضور ﷺ نے دو مینڈھے بہت موٹے تازے چکنے چت کبرے خصی ذبح کئے۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا کہ ہم قربانی کے لئے جانور خریدتے وقت اس کی آنکھوں کو اور کانوں کو اچھی طرح دیکھ بھال لیا کریں۔ اور آگے سے کٹے ہوئے کان والے پیچھے سے کٹے ہوئے کان والے لمبائی میں چرے ہوئے کان والے یا سوراخ دار کان والے کی قربانی نہ کریں ( احمد اہل سنن ) اسے امام ترمذی ؒ صحیح کہتے ہیں۔ اسی طرح حضور ﷺ نے سینگ ٹوٹے ہوئے اور کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے اس کی شرح میں حضرت سعید بن مسیب ؒ فرماتے ہیں جب کہ آدھایا آدھے سے زیادہ کان یا سینگ نہ ہو۔ بعض اہل لغت کہتے ہیں اگر اوپر سے کسی جانور کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو تو اسے عربی میں قصما کہتے اور جب نیچے کا حصہ ٹوٹا ہوا ہو تو اسے عضب کہتے۔ اور حدیث میں لفظ عضب ہے اور کان کا کچھ حصہ کٹ گیا ہو تو اسے بھی عربی میں عضب کہتے ہیں۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں ایسے جانور کی قربانی گو جائز ہے لیکن کراہت کے ساتھ۔ امام احمد ؒ فرماتے ہیں کہ جائز ہی نہیں۔ ( بظاہر یہی قول مطابق حدیث ہے ) امام مالک ؒ فرماتے ہیں اگر سینگ سے خون جاری ہے تو جائز نہیں ورنہ جائز ہے واللہ اعلم۔ حضور ﷺ کی حدیث ہے کہ چار قسم کے عیب دار جانور قربانی میں جائز نہیں کانا جانور جس کا بھینگا پن ظاہر ہو اور وہ بیمار جانور جس کی بیماری کھلی ہوئی ہو اور وہ لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو اور وہ دبلا پتلا مریل جانور جو گودے کے بغیر کا ہوگیا ہو۔ ( احمد اہل سنن ) اسے امام ترمذی صحیح کہتے ہیں۔ یہ عیوب وہ ہیں جن سے جانور گھٹ جاتا ہے۔ اس کا گوشت ناقص ہوجاتا ہے اور بکریاں چرتی چگتی رہتی ہیں اور یہ بوجہ اپنی کمزوری کے چارہ پورہ نہیں پاتا اسی لئے اس حدیث کے مطابق امام شافعی وغیرہ کے نزدیک اس کی قربانی ناجائز ہے ہاں بیمار جانور کے بارے میں جس کی بیماری خطرناک درجے کی نہ ہو بہت کم ہو امام صاحب کے دونوں قول ہیں۔ ابو داؤد میں ہے کہ حضور ﷺ نے منع فرمایا بالکل سینگ کٹے جانور سینگ ٹوٹے جانور اور کانے جانور سے اور بالکل کمزور جانور سے جو ہمیشہ ہی ریوڑ کے پیچھے رہ جاتا ہو بوجہ کمزوری کے یا بوجہ زیادہ عمر کے اور لنگڑے جانور سے پس ان کل عیوب والے جانوروں کی قربانی ناجائز ہے۔ ہاں اگر قربانی کے لئے صحیح سالم بےعیب جانور مقرر کردینے کے بعد اتفاقا اس میں کوئی ایسی بات آجائے مثلا لولا لنگڑا وغیرہ ہوجائے تو حضرت امام شافعی ؒ کے نزدیک اس کی قربانی بلاشبہ جائز ہے، امام ابوحنیفہ ؒ اس کے خلاف ہیں۔ امام شافعی ؒ کی دلیل وہ حدیث ہے جو مسند احمد میں حضرت ابو سعید ؓ سے مروی ہے کہ میں نے قربانی کے لئے جانور خریدا اس پر ایک بھیڑیے نے حملہ کیا اور اس کی ران کا بوٹا توڑ لیا میں نے حضور ﷺ سے واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا تم اسی جانور کی قربانی کرسکتے ہو۔ پس خریدتے وقت جانور کا فربہ ہونا تیار ہونا بےعیب ہونا چاہئے جیسے حضور ﷺ کا حکم ہے کہ آنکھ کان دیکھ لیا کرو۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے ایک نہایت عمدہ اونٹ قربانی کے لئے نامزد کیا لوگوں نے اس کی قیمت تین سو اشرفی لگائیں تو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا اگر آپ اجازت دیں تو میں اسے بیچ دوں اور اس کی قیمت سے اور جانور بہت سے خرید لوں اور انہیں راہ للہ قربان کروں آپ نے منع فرمادیا اور حکم دیا کہ اسی کو فی سبیل اللہ ذبح کرو۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں قربانی کے اونٹ شعائر اللہ میں سے ہیں۔ محمد بن ابی موسیٰ ؓ فرماتے ہیں عرفات میں ٹھہرنا اور مزدلفہ اور رمی جمار اور سر منڈوانا اور قربانی کے اونٹ یہ سب شعائر اللہ ہیں۔ ابن عمر ؓ فرماتے ہیں ان سب سے بڑھ کر بیت اللہ شریف ہے۔ پھر فرماتا ہے ان جانوروں کے بالوں میں، اون میں تمہارے لئے فوائد ہیں ان پر تم سوار ہوتے ہو ان کی کھالیں تمہارے لئے کار آمد ہیں۔ یہ سب ایک مقررہ وقت تک۔ یعنی جب تک اسے راہ للہ نامزد نہیں کیا۔ ان کا دودھ پیو ان سے نسلیں حاصل کرو جب قربانی کے لئے مقرر کردیا پھر وہ اللہ کی چیز ہوگیا۔ بزرگ کہتے ہیں اگر ضرورت ہو تو اب بھی سواری کی اجازت ہے۔ بخاری ومسلم میں ہے کہ ایک شخص کو اپنی قربانی کا جانور ہانکتے ہوئے دیکھ کر آپ نے فرمایا اس پر سوار ہوجاؤ اس نے کہا حضور ﷺ میں اسے قربانی کی نیت کا کرچکا ہوں۔ آپ نے دوسری یا تیسری بار فرمایا افسوس بیٹھ کیوں نہیں جاتا۔ صحیح مسلم شریف میں ہے جب ضرورت اور حاجت ہو تو سوار ہوجایا کرو۔ ایک شخص کی قربانی کی اونٹنی نے بچہ دیا تو حضرت علی ؓ نے اسے حکم دیا کہ اس کو دودھ پیٹ بھر کر پی لینے دے پھر اگر بچ رہے تو خیر تو اپنے کام میں لا اور قربانی والے دن اسے اور اس بچے کو دونوں کو بنام اللہ ذبح کردے۔ پھر فرماتا ہے ان کی قربان گاہ بیت اللہ شریف ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت ( هَدْيًۢا بٰلِــغَ الْكَعْبَةِ 95 ) 5۔ المآئدہ :95) اور آیت میں ( وَالْهَدْيَ مَعْكُوْفًا اَنْ يَّبْلُغَ مَحِلَّهٗ 25 ) 48۔ الفتح:25) بیت العتیق کے معنی اس سے پہلے ابھی ابھی بیان ہوچکے ہیں فالحمد للہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں بیت اللہ کا طواف کرنے والا احرام سے حلال ہوجاتا ہے۔ دلیل میں یہی آیت تلاوت فرمائی۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 33 لَکُمْ فِیْہَا مَنَافِعُ الآی اَجَلٍ مُّسَمًّی ” یعنی قربانی کے جانوروں سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہے۔ مثلاً ان پر سواری کی جاسکتی ہے ‘ ان کی اون وغیرہ کو استعمال میں لایا جاسکتا ہے ‘ دودھ پیا جاسکتا ہے اور اس طرح کے دوسرے فوائد بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ثُمَّ مَحِلُّہَآ اِلَی الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ ”یعنی پھر قربانی کے دن ان جانوروں کو لے جا کر بیت اللہ میں پیش کرنا ہے۔ اصل ”مَنْحَر “ قربان گاہ تو بیت اللہ ہی ہے ‘ مگر اسے منیٰ تک وسعت دے دی گئی ہے۔ پرانے زمانے میں قربان گاہ مروہ کی پہاڑی کے پاس ہوا کرتی تھی اور منیٰ کے جس علاقے میں آج کل قربانی کی جاتی ہے وہ بھی دراصل اسی وادی میں شامل ہے جو مروہ سے شروع ہوتی ہے۔
لكم فيها منافع إلى أجل مسمى ثم محلها إلى البيت العتيق
سورة: الحج - آية: ( 33 ) - جزء: ( 17 ) - صفحة: ( 336 )Surah Al Hajj Ayat 33 meaning in urdu
تمہیں ایک وقت مقرر تک اُن (ہدی کے جانوروں) سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے پھر اُن (کے قربان کرنے) کی جگہ اسی قدیم گھر کے پاس ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا وعدہ کیا تو تم نے ان
- ہم تمہیں ان لوگوں (کے شر) سے بچانے کے لیے جو تم سے استہزاء کرتے
- تم (مسلمانوں) کو یعنی جو کوئی خدا (کے سامنے جانے) اور روز آخرت (کے آنے)
- ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے۔ اور وہ وہاں سے مخلصی نہیں پاسکیں گے
- تو ہم کو (ہر حال میں) دیکھ رہا ہے
- جو ان پر کھنگر کی پتھریاں پھینکتے تھے
- (خدا جو) نہایت مہربان
- اور تمہارا پروردگار تو غالب (اور) مہربان ہے
- پھر وہ ان کو قیامت کے دن بھی ذلیل کرے گا اور کہے گا کہ
- اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کو چنگھاڑ (کی صورت میں عذاب) نے
Quran surahs in English :
Download surah Al Hajj with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Hajj mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Hajj Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers