Surah An Nur Ayat 33 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ ۚ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِن بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾
[ النور: 33]
اور جن کو بیاہ کا مقدور نہ ہو وہ پاک دامنی کو اختیار کئے رہیں یہاں تک کہ خدا ان کو اپنے فضل سے غنی کردے۔ اور جو غلام تم سے مکاتبت چاہیں اگر تم ان میں (صلاحیت اور) نیکی پاؤ تو ان سے مکاتبت کرلو۔ اور خدا نے جو مال تم کو بخشا ہے اس میں سے ان کو بھی دو۔ اور اپنی لونڈیوں کو اگر وہ پاک دامن رہنا چاہیں تو (بےشرمی سے) دنیاوی زندگی کے فوائد حاصل کرنے کے لئے بدکاری پر مجبور نہ کرنا۔ اور جو ان کو مجبور کرے گا تو ان (بیچاریوں) کے مجبور کئے جانے کے بعد خدا بخشنے والا مہربان ہے
Surah An Nur Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) حدیث میں پاک دامنی کے لئے، جب تک شادی کی استطاعت حاصل نہ ہوجائے، نفلی روزے رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ فرمایا ( اے نوجوانوں کی جماعت ! تم میں سے جو شادی کی طاقت رکھتا ہے، اسے (اپنے وقت پر ) شادی کرلینی چاہیئے، اس لئے کہ اس سے آنکھوں اور شرم گاہ کی حفاظت ہوجاتی ہے اور جو شادی کی طاقت نہیں رکھتا، اسے چاہیئے کہ وہ ( کثرت سے نفلی ) روزے رکھے، روزے اس کی جنسی خواہش کو قابو میں رکھیں گے( البخاري، كتاب الصوم، باب الصوم لمن خاف على نفسه العزوبة مسلم- أول كتاب النكاح )۔
( 2 ) مُكَاتَبٌ، اس غلام کوکہا جاتا ہے جو اپنے مالک سے معاہدہ کرلیتا ہے کہ میں اتنی رقم جمع کرکے ادا کردوں گا تو آزادی کا مستحق ہوجاؤں گا۔ ( بھلائی نظر آنے ) کا مطلب ہے، اس کے صدق وامانت پر تمہیں یقین ہو یا کسی حرفت وصنعت سے وہ آگاہی رکھتا ہو۔ تاکہ وہ محنت کرکے کمائے اور رقم ادا کردے۔ اسلام نے چونکہ زیادہ سے زیادہ غلامی کی حوصلہ شکنی کی پالیسی اپنائی تھی، اس لئے یہاں بھی مالکوں کو تاکید کی گئی کہ مکاتبت کے خواہش مند غلاموں سے معاہدہ کرنے میں تامل نہ کرو بشرطیکہ تمہیں ان کے اندر ایسی بات معلوم ہو کہ جس سے تمہاری رقم کی ادائیگی بھی ممکن ہو۔ بعض علما کے نزدیک یہ امروجوب کے لئے اور بعض کے نزدیک استحباب کے لئے ہے۔
( 3 ) اس کا مطلب ہے کہ غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے لئے اس نے جو معاہدہ کیا ہے اور اب وہ رقم کا ضرورت مند ہے تاکہ معاہدے کے مطابق وہ رقم ادا کردے تو تم بھی اس کے ساتھ مالی تعاون کرو، اگر اللہ نے تمہیں صاحب حیثیت بنایا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے جو مصارف ثمانیہ ( التوبہ: 60 ) میں بیان فرمائے ہیں، ان میں ایک وفي الرِّقَابِ بھی ہے جس کے معنی ہیں، گردنیں آزاد کرانے میں۔ یعنی غلاموں کی آزادی پر بھی زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے۔
( 4 ) زمانۂ جاہلیت میں لوگ محض دنیوی مال کے لئے اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور کرتے تھے۔ چنانچہ خواہی نخواہی انہیں یہ داغ ذلت برداشت کرنا پڑتا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسا کرنے سے منع فرما دیا إِنْ أَرَدْنَ غالب احوال کے اعتبار سے ہے۔ ورنہ مقصد یہ نہیں ہے کہ اگر وہ بدکاری کو پسند کریں تو پھر تم ان سے یہ کام کروالیا کرو۔ بلکہ حکم دینا یہ مقصود ہے کہ لونڈیوں سے، دنیا کے تھوڑے سے مال کے لئے، یہ کام مت کرواؤ، اس لئے کہ اس طرح کی کمائی ہی حرام ہے۔ جیسا کہ حدیث میں وارد ہے۔
( 5 ) یعنی جن لونڈیوں سے جبراً یہ بےحیائی کا کام کروایا جائے گا، تو گناہ گار مالک ہوگا یعنی جبر کرنے والا، نہ کہ لونڈی جو مجبور ہے۔ حدیث میں آتا ہے ” میری امت سے، خطا، نسیان اور ایسے کام جو جبر سے کرائے گئے ہوں، معاف ہیں “۔ ( ابن ماجه، كتاب الطلاق، باب طلاق المكره والناسي )۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
نکاح اور شرم وحیا کی تعلیم اس میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے احکام بیان فرما دئیے ہیں اولا نکاح کا۔ علماء کی جماعت کا خیال ہے کہ جو شخص نکاح کی قدرت رکھتا ہو اس پر نکاح کرنا واجب ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ اے نوجوانو ! تم میں سے جو شخص نکاح کی طاقت رکھتاہو، اسے نکاح کرلینا چاہئے۔ نکاح نظر کو نیچی رکھنے والا شرمگاہ کو بچانے والا ہے اور جسے طاقت نہ ہو وہ لازمی طور پر روزے رکھے، یہی اس کے لیے خصی ہونا ہے ( بخاری مسلم ) سنن میں ہے آپ فرماتے ہیں زیادہ اولاد جن سے ہونے کی امید ہو ان سے نکاح کرو تاکہ نسل بڑھے میں تمہارے ساتھ اور امتوں میں فخر کرنے والا ہوں۔ ایک روایت میں ہے یہاں تک کہ کچے گرے ہوئے بچے کی گنتی کے ساتھ بھی۔ ایامی جمع ہے ایم کی۔ جوہری کہتے ہیں اہل لغت کے نزدیک بےبیوی کا مرد اور بےخاوند کی عورت کو " ایم " کہتے ہیں، خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ہو۔ پھر مزید رغبت دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ اگر وہ مسکین بھی ہوں گے تو اللہ انہیں اپنے فضل وکرم سے مالدار بنا دے گا۔ خواہ وہ آزاد ہوں خواہ غلام ہوں صدیق اکبر ؓ کا قول ہے تم نکاح کے بارے میں اللہ کا حکم مانو، وہ تم سے اپناوعدہ پورا کرے گا۔ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں امیری کو نکاح میں طلب کرو۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں، تین قسم کے لوگوں کی مدد کا اللہ کے ذمے حق ہے۔ نکاح کرنے والا جو حرام کاری سے بچنے کی نیت سے نکاح کرے۔ وہ لکھت لکھ دینے والا غلام جس کا ارادہ ادائیگی کا ہو، وہ غازی جو اللہ کی راہ میں نکلا ہو۔ ( ترمذی وغیر ) اسی کی تایئد میں وہ روایت ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کا نکاح ایک عورت سے کرا دیا، جس کے پاس سوائے تہبند کے اور کچھ نہ تھا یہاں تک کہ لوہے کی انگوٹھی بھی اس کے پاس سے نہیں نکلی تھی اس فقیری اور مفلسی کے باوجود آپ نے اس کا نکاح کردیا اور مہر یہ ٹھہرایا کہ جو قرآن اسے یاد ہے، اپنی بیوی کو یاد کرا دے۔ یہ اسی بنا پر کہ نظریں اللہ کے فضل وکرم پر تھیں کہ وہ مالک انہیں وسعت دے گا اور اتنی روزی پہنچائے گا کہ اسے اور اس کی بیوی کو کفالت ہو۔ ایک حدیث اکثر لوگ وارد کیا کرتے ہیں کہ فقیری میں بھی نکاح کیا کرو اللہ تمہیں غنی کر دے گا میری نگاہ سے تو یہ حدیث نہیں گزری۔ نہ کسی قوی سند سے نہ ضعیف سند سے۔ اور نہ ہمیں ایسی لا پتہ روایت کے اس مضمون میں کوئی ضرورت ہے کیونکہ قرآن کی اس آیت اور ان احادیث میں یہ چیز موجود ہے، فالحمد للہ۔ پھر حکم دیا کہ جنہیں نکاح کا مقدور نہیں وہ حرام کاری سے بچیں۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں اے جوان لوگو ! تم میں سے جو نکاح کی وسعت رکھتے ہوں، وہ نکاح کرلیں یہ نگاہ نیچی کرنے والا، شرمگاہ کو بچانے والا ہے اور جسے اس کی طاقت نہ ہو وہ اپنے ذمے روزوں کا رکھنا ضروری کرلے یہی اس کے لئے خصی ہونا ہے۔ یہ آیت مطلق ہے اور سورة نساء کی آیت اس سے خاص ہے یعنی یہ فرمان آیت ( وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ يَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ 25 ) 4۔ النساء:25) پس لونڈیوں سے نکاح کرنے سے صبر کرنا بہتر ہے۔ اس لئے کہ اس صورت میں اولاد پر غلامی کا حرف آتا ہے۔ عکرمہ ؒ فرماتے ہیں کہ جو مرد کسی عورت کو دیکھے اور اس کے دل میں خواہش پیدا ہو اسے چاہئے کہ اگر اس کی بیوی موجود ہو تو اس کے پاس چلا جائے ورنہ اللہ کی مخلوق میں نظریں ڈال اور صبر کرے یہاں تک کہ اللہ اسے غنی کر دے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے فرماتا ہے جو غلاموں کے مالک ہیں کہ اگر ان کے غلام ان سے اپنی آزادگی کی بابت کوئی تحریر کرنی چاہیں تو وہ انکار نہ کریں۔ غلام اپنی کمائی سے وہ مال جمع کر کے اپنے آقا کو دے دے گا اور آزاد ہوجائے گا۔ اکثر علماء فرماتے ہیں یہ حکم ضروری نہیں فرض و واجب نہیں بلکہ بطور استحباب کے اور خیر خواہی کے ہے۔ آقا کو اختیار ہے کہ غلام جب کوئی ہنر جانتا ہو اور وہ کہے کہ مجھ سے اسی قدر روپیہ لے لو اور مجھے آزاد کردو تو اسے اختیار ہے خواہ اس قسم کا غلام اس سے اپنی آزادگی کی بابت تحریر چاہے وہ اس کی بات کو قبول کرلے۔ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں، حضرت انس ؓ کا غلام سیرین نے جو مالدار تھا ان سے درخواست کی کہ مجھ سے میری آزادی کی کتابت کرلو۔ حضرت انس ؓ نے انکار کردیا، دربار فاروقی میں مقدمہ گیا، آپ نے حضرت انس ؓ کو حکم دیا اور ان کے نہ ماننے پر کوڑے لگوائے اور یہی آیت تلاوت فرمائی یہاں تک کہ انہوں نے تحریر لکھوا دی۔ ( بخاری ) عطاء ؒ سے دونوں قول مروی ہیں۔ امام شافعی ؒ کا قول یہی تھا لیکن نیا قول یہ ہے کہ واجب نہیں۔ کیونکہ حدیث میں ہے مسلمان کا مال بغیر اس کی دلی خوشی کے حلال نہیں۔ امام مالک ؒ فرماتے ہیں یہ واجب نہیں۔ میں نے نہیں سنا کہ کسی امام نے کسی آقا کو مجبور کیا ہو کہ وہ اپنے غلام کی آزادگی کی تحریر کر دے، اللہ کا یہ حکم بطور اجازت کے ہے نہ کہ بطور وجوب کے۔ یہی قول امام ابوحنیفہ ؒ وغیرہ کا ہے۔ امام ابن جریر ؒ کے نزدیک مختار قول وجوب کا ہے۔ خیر سے مراد امانت داری، سچائی، مال اور مال کے حاصل کرنے پر قدرت وغیرہ ہے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں اگر تم اپنے غلاموں میں جو تم سے مکاتب کرنا چاہیں، مال کے کمانے کی صلاحیت دیکھو تو ان کی اس خواہش کو پوری کرو ورنہ نہیں کیونکہ اس صورت میں وہ لوگوں پر اپنا بوجھ ڈالیں گے یعنی ان سے سوال کریں گے اور رقم پوری کرنا چاہیں گے اس کے بعد فرمایا ہے کہ انہیں اپنے مال میں سے کچھ دو۔ یعنی جو رقم ٹھیر چکی ہے، اس میں سے کچھ معاف کردو۔ چوتھائی یا تہائی یا آدھا یا کچھ حصہ۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ مال زکوٰۃ سے ان کی مدد کرو آقا بھی اور دوسرے مسلمان بھی اسے مال زکوٰۃ دیں تاکہ وہ مقرر رقم پوری کر کے آزاد ہوجائے۔ پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ جن تین قسم کے لوگوں کی مدد اللہ پر برحق ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے لیکن پہلا قول زیادہ مشہور ہے۔ حضرت عمر ؓ کے غلام ابو امیہ نے مکاتبہ کیا تھا جب وہ اپنی رقم کی پہلی قسط لیکر آیا تو آپ نے فرمایا جاؤ اپنی اس رقم میں دوسروں سے بھی مدد طلب کرو اس نے جواب دیا کہ امیرالمؤمنین آپ آخری قسط تک تو مجھے ہی محنت کرنے دیجئے۔ فرمایا نہیں مجھے ڈر ہے کہ کہیں اللہ کے اس فرمان کو ہم چھوڑ نہ بیٹھیں کہ انہیں اللہ کا وہ مال دو جو اس نے تمہیں دے رکھا ہے۔ پس یہ پہلی قسطیں تھیں جو اسلام میں ادا کی گئیں۔ ابن عمر ؓ کی عادت تھی کہ شروع شروع میں آپ نہ کچھ دیتے تھے نہ معاف فرماتے تھے کیونکہ خیال ہوتا تھا کہ ایسا نہ ہو آخر میں یہ رقم پوری نہ کرسکے تو میرا دیا ہوا مجھے ہی واپس آجائے۔ ہاں آخری قسطیں ہوتیں تو جو چاہتے اپنی طرف سے معاف کردیتے۔ ایک غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ چوتھائی چھوڑ دو۔ لیکن صحیح یہی ہے کہ وہ حضرت علی ؓ کا قول ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ اپنی لونڈیوں سے زبردستی بدکاریاں نہ کراؤ۔ جاہلیت کے بدترین طریقوں میں ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ اپنی لونڈیوں کو مجبور کرتے تھے کہ وہ زنا کاری کرائیں اور وہ رقم اپنے مالکوں کو دیں۔ اسلام نے آکر اس بد رسم کو توڑا۔ منقول ہے کہ یہ آیت عبداللہ بن ابی بن سلول منافق کے بارے میں اتری ہے، وہ ایسا ہی کرتا تھا تاکہ روپیہ بھی ملے اور لونڈی زادوں سے شان ریاست بھی بڑھے۔ اس کی لونڈی کا نام معاذہ تھا۔ اور روایت میں ہے اس کا نام مسیکہ تھا۔ اور یہ بدکاری سے انکار کرتی تھی۔ جاہلیت میں تو یہ کام چلتا رہا یہاں تک اسے ناجائز اولاد بھی ہوئی لیکن اسلام لانے کے بعد اس نے انکار کردیا، اس پر اس منافق نے اسے زدوکوب کیا۔ پس یہ آیت اتری۔ مروی ہے کہ بدر کا ایک قریشی قیدی عبداللہ بن ابی کے پاس تھا وہ چاہتا تھا کہ اس کی لونڈی سے ملے، لونڈی بوجہ اسلام کے حرام کاری سے بچتی تھی۔ عبداللہ کی خواہش تھی کہ یہ اس قریشی سے ملے، اس لئے اسے مجبور کرتا تھا اور مارتا پیٹتا تھا۔ پس یہ آیت اتری۔ اور روایت میں ہے کہ یہ سردار منافقین اپنی اس لونڈی کو اپنے مہمانوں کی خاطر تواضع کے لئے بھیج دیا کرتا تھا۔ اسلام کے بعد اس لونڈی سے جب یہ ارادہ کیا گیا تو اس نے انکار کردیا اور حضرت صدیق اکبر ؓ سے اپنی یہ مصیبت بیان کی۔ حضرت صدیق ؓ نے دربار محمدی میں یہ بات پہنچائی۔ آپ نے حکم دیا کہ اس لونڈی کو اس کے ہاں نہ بھیجو۔ اس نے لوگوں میں غل مچانا شروع کیا کہ دیکھو محمد ﷺ ہماری لونڈیوں کو چھین لیتا ہے اس پر یہ آسمانی حکم اترا۔ ایک روایت میں ہے کہ مسیکہ اور معاذ دو لونڈیاں دو شخصوں کی تھیں، جو ان سے بدکاری کراتے تھے۔ اسلام کے بعد مسیکہ اور اس کی ماں نے آکر حضور ﷺ سے شکایت کی، اس پر یہ آیت اتری۔ یہ جو فرمایا گیا ہے کہ اگر وہ لونڈیاں پاک دامنی کا ارادہ کریں اس سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ اگر ان کا ارادہ یہ نہ ہو تو پھر کوئی حرج نہیں کیونکہ اس وقت واقعہ یہی تھا اس لئے یوں فرمایا گیا۔ پس اکثریت اور غلبہ کے طور پر یہ فرمایا گیا ہے کوئی قید اور شرط نہیں ہے۔ اس سے غرض ان کی یہ تھی کہ مال حاصل ہو، اولادیں ہوں جو لونڈیاں غلام بنیں۔ حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے پچھنے لگانے کی اجرت، بدکاری کی اجرت، کاہن کی اجرت سے منع فرمادیا۔ ایک اور روایت میں ہے زنا کی خرچی اور پچھنے لگانے والی کی قیمت اور کتے کی قیمت خبیث ہے۔ پھر فرماتا ہے جو شخص ان لونڈیوں پر جبر کرے تو انہیں تو اللہ بوجہ ان کی مجبوری بخش دے گا اور ان مالکوں کو جنہوں نے ان پر دباؤ زور زبردستی ڈالی تھی انہیں پکڑ لے گا۔ اس صورت میں یہی گنہگار رہیں گے۔ بلکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی قرآت میں رحیم کے بعد آیت ( واثمہن علی من اکرھھن ) ہے۔ یعنی اس حالت میں جبر اور زبردستی کرنے والوں پر گناہ ہے۔ مرفوع حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کی خطا سے، بھول سے اور جن کاموں پر وہ مجبور کر دئیے جائیں، ان پر زبردستی کی جائے ان سے درگزر فرمالیا ہے۔ ان احکام کو تفصیل وار بیان کرنے کے بعد بیان ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے کلام قرآن کریم کی یہ روشن و واضح آیات تمہارے سامنے بیان فرما دیں۔ اگلے لوگوں کے واقعات بھی تمہارے سامنے آچکے کہ ان کی مخالفت حق کا انجام کیا اور کیسا ہوا ؟ وہ ایک افسانہ بنا دئے گئے اور آنے والوں کے لئے عبرتناک واقعہ بنا دیئے گئے کہ متقی ان سے عبرت حاصل کریں اور اللہ کی نافرمانیوں سے بچیں۔ حضرت علی ؓ فرماتے تھے، قرآن میں تمہارے اختلاف کے فیصلے موجود ہیں۔ تم سے پہلے زمانہ کے لوگوں کی خبریں موجود ہیں۔ بعد میں ہونے والے امور کے احوال کا بیان ہے۔ یہ مفصل ہے بکواس نہیں اسے جو بھی بےپرواہی سے چھوڑے گا، اسے اللہ برباد کر دے گا اور جو اس کے سوا دوسری کتاب میں ہدایت تلاش کرے گا اسے اللہ گمراہ کر دے گا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 33 وَلْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِکَاحًا ” جو لوگ نکاح کرنے کی بالکل استطاعت نہ رکھتے ہوں ‘ یعنی ان کے پاس نہ تو مہر ادا کرنے کے لیے کچھ ہو ‘ نہ نان نفقہ کے لیے کوئی ذریعہ معاش ہو اور نہ ہی سر چھپانے کے لیے کسی قسم کی چھت کا بندوبست ‘ تو ایسے لوگوں کو چاہیے کہ اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کرتے رہیں اور اپنی خواہشات کو اپنے قابو میں رکھیں۔وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ”آقا اور غلام کے درمیان آزادی کے معاہدے کو مکاتبت کہا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ غلام کی خواہش اور آقا کی رضا مندی سے طے پاتا تھا کہ آقا اگر اپنے غلام کو آزاد کر دے تو وہ ایک مقررہ مدت تک طے شدہ رقم اپنے آقا کو معاوضے کے طور پر ادا کرے گا۔فَکَاتِبُوْہُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْہِمْ خَیْرًاق ”اگر تم میں سے کسی کو اپنے غلام پر اعتماد ہو کہ وہ اپنا معاہدہ پورا کرے گا اور بھاگنے کی کوشش نہیں کرے گا تو اسے ضرور ایسا معاہدہ کرلینا چاہیے۔ اس حکم سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن نے ہر اس اقدام کی حوصلہ افزائی کی ہے اور ہر وہ راستہ کھولنے کا اہتمام کیا ہے جس سے تدریجاً غلاموں کو آزادی میسر آئے اور غلامی کا خاتمہ ہو سکے۔وَّاٰتُوْہُمْ مِّنْ مَّال اللّٰہِ الَّذِیْٓ اٰتٰٹکُمْ ط ”یعنی جن غلاموں نے مکاتبت کی ہو تم لوگ اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے ان کی زیادہ سے زیادہ مالی معاونت کیا کرو تاکہ وہ جلد از جلد مقررہ رقم ادا کر کے آزاد ہوسکیں۔وَلَا تُکْرِہُوْا فَتَیٰتِکُمْ عَلَی الْبِغَآءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا ”اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر وہ خود پاک دامن نہ رہنا چاہتی ہوں تو ان کو مجبور کرنے کی اجازت ہے۔ ”اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا “ کی قید یہاں بطورشرط کے نہیں بلکہ صورت واقعہ کی تعبیر کے لیے ہے۔لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ط ”عربوں کے ہاں یہ بھی رواج تھا کہ وہ اپنی باندیوں سے پیشہ کرواتے اور اس سے حاصل ہونے والی کمائی خود کھاتے تھے۔ چناچہ اس حکم سے زمانہ جاہلیت کی اس شرمناک روایت کو بھی ختم کردیا گیا۔ اسی طرح قبل از اسلام عربوں میں ایک رواج یہ بھی تھا کہ وہ اپنے باپ کی بیواؤں یعنی سوتیلی ماؤں سے بھی نکاح کرلیا کرتے تھے۔ اس قبیح رسم کے خاتمے کا حکم سورة النساء کی آیت 22 میں دیا گیا ہے۔ گویا قبل از اسلام عرب معاشرے میں جو معاشرتی برائیاں پائی جاتی تھیں ایک ایک کر کے ان کی اصلاح کردی گئی۔وَمَنْ یُّکْرِہْہُّنَّ فَاِنَّ اللّٰہَ مِنْم بَعْدِ اِکْرَاہِہِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ”اگر کوئی اپنی باندی کو بدکاری پر مجبور کرے گا اور خود اس باندی کی مرضی اس میں شامل نہیں ہوگی تو اللہ تعالیٰ اس کی مجبوری کے باعث اس کے گناہ کو معاف فرما دے گا اور اس گناہ کا وبال اس پر ہوگا جس نے اسے اس کام کے لیے مجبور کیا ہوگا۔
وليستعفف الذين لا يجدون نكاحا حتى يغنيهم الله من فضله والذين يبتغون الكتاب مما ملكت أيمانكم فكاتبوهم إن علمتم فيهم خيرا وآتوهم من مال الله الذي آتاكم ولا تكرهوا فتياتكم على البغاء إن أردن تحصنا لتبتغوا عرض الحياة الدنيا ومن يكرهن فإن الله من بعد إكراههن غفور رحيم
سورة: النور - آية: ( 33 ) - جزء: ( 18 ) - صفحة: ( 354 )Surah An Nur Ayat 33 meaning in urdu
اور جو نکاح کا موقع نہ پائیں انہیں چاہیے کہ عفت مآبی اختیار کریں، یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے اُن کو غنی کر دے اور تمہارے مملوکوں میں سے جو مکاتبت کی درخواست کریں ان سے مکاتبت کر لو اگر تمہیں معلوم ہو کہ ان کے اندر بھلائی ہے، اور ان کو اُس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے اور اپنی لونڈیوں کو ا پنے دنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ خود پاکدامن رہنا چاہتی ہوں، اور جو کوئی اُن کو مجبور کرے تو اِس جبر کے بعد اللہ اُن کے لیے غفور و رحیم ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور ہماری نظر میں نزدیک
- تو اس دنیا میں بھی لعنت ان کے پیچھے لگی رہے گی اور قیامت کے
- (لوگو) تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں۔ تمہاری تکلیف ان کو
- بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے (روشن) دلیل رکھتے ہوں اور ان کے
- اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو
- تو فرعون کے لوگوں نے اس کو اُٹھا لیا اس لئے کہ (نتیجہ یہ ہونا
- آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا (وہی ہے) ۔ اسی نے تمہارے لئے تمہاری
- یہی لوگ ہیں جن کے اعمال نیک ہم قبول کریں گے اور ان کے گناہوں
- تو ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے کہنے لگے کہ یہ تو تم
- (یعقوب نے) کہا جب تک تم خدا کا عہد نہ دو کہ اس کو میرے
Quran surahs in English :
Download surah An Nur with the voice of the most famous Quran reciters :
surah An Nur mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter An Nur Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers