Surah An Nur Ayat 34 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ النور کی آیت نمبر 34 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah An Nur ayat 34 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿وَلَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ آيَاتٍ مُّبَيِّنَاتٍ وَمَثَلًا مِّنَ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُمْ وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ﴾
[ النور: 34]

Ayat With Urdu Translation

اور ہم نے تمہاری طرف روشن آیتیں نازل کی ہیں اور جو لوگ تم سے پہلے گزر چکے ہیں ان کی خبریں اور پرہیزگاروں کے لئے نصیحت

Surah An Nur Urdu

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


نکاح اور شرم وحیا کی تعلیم اس میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے احکام بیان فرما دئیے ہیں اولا نکاح کا۔ علماء کی جماعت کا خیال ہے کہ جو شخص نکاح کی قدرت رکھتا ہو اس پر نکاح کرنا واجب ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ اے نوجوانو ! تم میں سے جو شخص نکاح کی طاقت رکھتاہو، اسے نکاح کرلینا چاہئے۔ نکاح نظر کو نیچی رکھنے والا شرمگاہ کو بچانے والا ہے اور جسے طاقت نہ ہو وہ لازمی طور پر روزے رکھے، یہی اس کے لیے خصی ہونا ہے ( بخاری مسلم ) سنن میں ہے آپ فرماتے ہیں زیادہ اولاد جن سے ہونے کی امید ہو ان سے نکاح کرو تاکہ نسل بڑھے میں تمہارے ساتھ اور امتوں میں فخر کرنے والا ہوں۔ ایک روایت میں ہے یہاں تک کہ کچے گرے ہوئے بچے کی گنتی کے ساتھ بھی۔ ایامی جمع ہے ایم کی۔ جوہری کہتے ہیں اہل لغت کے نزدیک بےبیوی کا مرد اور بےخاوند کی عورت کو " ایم " کہتے ہیں، خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ہو۔ پھر مزید رغبت دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ اگر وہ مسکین بھی ہوں گے تو اللہ انہیں اپنے فضل وکرم سے مالدار بنا دے گا۔ خواہ وہ آزاد ہوں خواہ غلام ہوں صدیق اکبر ؓ کا قول ہے تم نکاح کے بارے میں اللہ کا حکم مانو، وہ تم سے اپناوعدہ پورا کرے گا۔ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں امیری کو نکاح میں طلب کرو۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں، تین قسم کے لوگوں کی مدد کا اللہ کے ذمے حق ہے۔ نکاح کرنے والا جو حرام کاری سے بچنے کی نیت سے نکاح کرے۔ وہ لکھت لکھ دینے والا غلام جس کا ارادہ ادائیگی کا ہو، وہ غازی جو اللہ کی راہ میں نکلا ہو۔ ( ترمذی وغیر ) اسی کی تایئد میں وہ روایت ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کا نکاح ایک عورت سے کرا دیا، جس کے پاس سوائے تہبند کے اور کچھ نہ تھا یہاں تک کہ لوہے کی انگوٹھی بھی اس کے پاس سے نہیں نکلی تھی اس فقیری اور مفلسی کے باوجود آپ نے اس کا نکاح کردیا اور مہر یہ ٹھہرایا کہ جو قرآن اسے یاد ہے، اپنی بیوی کو یاد کرا دے۔ یہ اسی بنا پر کہ نظریں اللہ کے فضل وکرم پر تھیں کہ وہ مالک انہیں وسعت دے گا اور اتنی روزی پہنچائے گا کہ اسے اور اس کی بیوی کو کفالت ہو۔ ایک حدیث اکثر لوگ وارد کیا کرتے ہیں کہ فقیری میں بھی نکاح کیا کرو اللہ تمہیں غنی کر دے گا میری نگاہ سے تو یہ حدیث نہیں گزری۔ نہ کسی قوی سند سے نہ ضعیف سند سے۔ اور نہ ہمیں ایسی لا پتہ روایت کے اس مضمون میں کوئی ضرورت ہے کیونکہ قرآن کی اس آیت اور ان احادیث میں یہ چیز موجود ہے، فالحمد للہ۔ پھر حکم دیا کہ جنہیں نکاح کا مقدور نہیں وہ حرام کاری سے بچیں۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں اے جوان لوگو ! تم میں سے جو نکاح کی وسعت رکھتے ہوں، وہ نکاح کرلیں یہ نگاہ نیچی کرنے والا، شرمگاہ کو بچانے والا ہے اور جسے اس کی طاقت نہ ہو وہ اپنے ذمے روزوں کا رکھنا ضروری کرلے یہی اس کے لئے خصی ہونا ہے۔ یہ آیت مطلق ہے اور سورة نساء کی آیت اس سے خاص ہے یعنی یہ فرمان آیت ( وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ يَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ 25؀ )النساء:25) پس لونڈیوں سے نکاح کرنے سے صبر کرنا بہتر ہے۔ اس لئے کہ اس صورت میں اولاد پر غلامی کا حرف آتا ہے۔ عکرمہ ؒ فرماتے ہیں کہ جو مرد کسی عورت کو دیکھے اور اس کے دل میں خواہش پیدا ہو اسے چاہئے کہ اگر اس کی بیوی موجود ہو تو اس کے پاس چلا جائے ورنہ اللہ کی مخلوق میں نظریں ڈال اور صبر کرے یہاں تک کہ اللہ اسے غنی کر دے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے فرماتا ہے جو غلاموں کے مالک ہیں کہ اگر ان کے غلام ان سے اپنی آزادگی کی بابت کوئی تحریر کرنی چاہیں تو وہ انکار نہ کریں۔ غلام اپنی کمائی سے وہ مال جمع کر کے اپنے آقا کو دے دے گا اور آزاد ہوجائے گا۔ اکثر علماء فرماتے ہیں یہ حکم ضروری نہیں فرض و واجب نہیں بلکہ بطور استحباب کے اور خیر خواہی کے ہے۔ آقا کو اختیار ہے کہ غلام جب کوئی ہنر جانتا ہو اور وہ کہے کہ مجھ سے اسی قدر روپیہ لے لو اور مجھے آزاد کردو تو اسے اختیار ہے خواہ اس قسم کا غلام اس سے اپنی آزادگی کی بابت تحریر چاہے وہ اس کی بات کو قبول کرلے۔ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں، حضرت انس ؓ کا غلام سیرین نے جو مالدار تھا ان سے درخواست کی کہ مجھ سے میری آزادی کی کتابت کرلو۔ حضرت انس ؓ نے انکار کردیا، دربار فاروقی میں مقدمہ گیا، آپ نے حضرت انس ؓ کو حکم دیا اور ان کے نہ ماننے پر کوڑے لگوائے اور یہی آیت تلاوت فرمائی یہاں تک کہ انہوں نے تحریر لکھوا دی۔ ( بخاری ) عطاء ؒ سے دونوں قول مروی ہیں۔ امام شافعی ؒ کا قول یہی تھا لیکن نیا قول یہ ہے کہ واجب نہیں۔ کیونکہ حدیث میں ہے مسلمان کا مال بغیر اس کی دلی خوشی کے حلال نہیں۔ امام مالک ؒ فرماتے ہیں یہ واجب نہیں۔ میں نے نہیں سنا کہ کسی امام نے کسی آقا کو مجبور کیا ہو کہ وہ اپنے غلام کی آزادگی کی تحریر کر دے، اللہ کا یہ حکم بطور اجازت کے ہے نہ کہ بطور وجوب کے۔ یہی قول امام ابوحنیفہ ؒ وغیرہ کا ہے۔ امام ابن جریر ؒ کے نزدیک مختار قول وجوب کا ہے۔ خیر سے مراد امانت داری، سچائی، مال اور مال کے حاصل کرنے پر قدرت وغیرہ ہے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں اگر تم اپنے غلاموں میں جو تم سے مکاتب کرنا چاہیں، مال کے کمانے کی صلاحیت دیکھو تو ان کی اس خواہش کو پوری کرو ورنہ نہیں کیونکہ اس صورت میں وہ لوگوں پر اپنا بوجھ ڈالیں گے یعنی ان سے سوال کریں گے اور رقم پوری کرنا چاہیں گے اس کے بعد فرمایا ہے کہ انہیں اپنے مال میں سے کچھ دو۔ یعنی جو رقم ٹھیر چکی ہے، اس میں سے کچھ معاف کردو۔ چوتھائی یا تہائی یا آدھا یا کچھ حصہ۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ مال زکوٰۃ سے ان کی مدد کرو آقا بھی اور دوسرے مسلمان بھی اسے مال زکوٰۃ دیں تاکہ وہ مقرر رقم پوری کر کے آزاد ہوجائے۔ پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ جن تین قسم کے لوگوں کی مدد اللہ پر برحق ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے لیکن پہلا قول زیادہ مشہور ہے۔ حضرت عمر ؓ کے غلام ابو امیہ نے مکاتبہ کیا تھا جب وہ اپنی رقم کی پہلی قسط لیکر آیا تو آپ نے فرمایا جاؤ اپنی اس رقم میں دوسروں سے بھی مدد طلب کرو اس نے جواب دیا کہ امیرالمؤمنین آپ آخری قسط تک تو مجھے ہی محنت کرنے دیجئے۔ فرمایا نہیں مجھے ڈر ہے کہ کہیں اللہ کے اس فرمان کو ہم چھوڑ نہ بیٹھیں کہ انہیں اللہ کا وہ مال دو جو اس نے تمہیں دے رکھا ہے۔ پس یہ پہلی قسطیں تھیں جو اسلام میں ادا کی گئیں۔ ابن عمر ؓ کی عادت تھی کہ شروع شروع میں آپ نہ کچھ دیتے تھے نہ معاف فرماتے تھے کیونکہ خیال ہوتا تھا کہ ایسا نہ ہو آخر میں یہ رقم پوری نہ کرسکے تو میرا دیا ہوا مجھے ہی واپس آجائے۔ ہاں آخری قسطیں ہوتیں تو جو چاہتے اپنی طرف سے معاف کردیتے۔ ایک غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ چوتھائی چھوڑ دو۔ لیکن صحیح یہی ہے کہ وہ حضرت علی ؓ کا قول ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ اپنی لونڈیوں سے زبردستی بدکاریاں نہ کراؤ۔ جاہلیت کے بدترین طریقوں میں ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ اپنی لونڈیوں کو مجبور کرتے تھے کہ وہ زنا کاری کرائیں اور وہ رقم اپنے مالکوں کو دیں۔ اسلام نے آکر اس بد رسم کو توڑا۔ منقول ہے کہ یہ آیت عبداللہ بن ابی بن سلول منافق کے بارے میں اتری ہے، وہ ایسا ہی کرتا تھا تاکہ روپیہ بھی ملے اور لونڈی زادوں سے شان ریاست بھی بڑھے۔ اس کی لونڈی کا نام معاذہ تھا۔ اور روایت میں ہے اس کا نام مسیکہ تھا۔ اور یہ بدکاری سے انکار کرتی تھی۔ جاہلیت میں تو یہ کام چلتا رہا یہاں تک اسے ناجائز اولاد بھی ہوئی لیکن اسلام لانے کے بعد اس نے انکار کردیا، اس پر اس منافق نے اسے زدوکوب کیا۔ پس یہ آیت اتری۔ مروی ہے کہ بدر کا ایک قریشی قیدی عبداللہ بن ابی کے پاس تھا وہ چاہتا تھا کہ اس کی لونڈی سے ملے، لونڈی بوجہ اسلام کے حرام کاری سے بچتی تھی۔ عبداللہ کی خواہش تھی کہ یہ اس قریشی سے ملے، اس لئے اسے مجبور کرتا تھا اور مارتا پیٹتا تھا۔ پس یہ آیت اتری۔ اور روایت میں ہے کہ یہ سردار منافقین اپنی اس لونڈی کو اپنے مہمانوں کی خاطر تواضع کے لئے بھیج دیا کرتا تھا۔ اسلام کے بعد اس لونڈی سے جب یہ ارادہ کیا گیا تو اس نے انکار کردیا اور حضرت صدیق اکبر ؓ سے اپنی یہ مصیبت بیان کی۔ حضرت صدیق ؓ نے دربار محمدی میں یہ بات پہنچائی۔ آپ نے حکم دیا کہ اس لونڈی کو اس کے ہاں نہ بھیجو۔ اس نے لوگوں میں غل مچانا شروع کیا کہ دیکھو محمد ﷺ ہماری لونڈیوں کو چھین لیتا ہے اس پر یہ آسمانی حکم اترا۔ ایک روایت میں ہے کہ مسیکہ اور معاذ دو لونڈیاں دو شخصوں کی تھیں، جو ان سے بدکاری کراتے تھے۔ اسلام کے بعد مسیکہ اور اس کی ماں نے آکر حضور ﷺ سے شکایت کی، اس پر یہ آیت اتری۔ یہ جو فرمایا گیا ہے کہ اگر وہ لونڈیاں پاک دامنی کا ارادہ کریں اس سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ اگر ان کا ارادہ یہ نہ ہو تو پھر کوئی حرج نہیں کیونکہ اس وقت واقعہ یہی تھا اس لئے یوں فرمایا گیا۔ پس اکثریت اور غلبہ کے طور پر یہ فرمایا گیا ہے کوئی قید اور شرط نہیں ہے۔ اس سے غرض ان کی یہ تھی کہ مال حاصل ہو، اولادیں ہوں جو لونڈیاں غلام بنیں۔ حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے پچھنے لگانے کی اجرت، بدکاری کی اجرت، کاہن کی اجرت سے منع فرمادیا۔ ایک اور روایت میں ہے زنا کی خرچی اور پچھنے لگانے والی کی قیمت اور کتے کی قیمت خبیث ہے۔ پھر فرماتا ہے جو شخص ان لونڈیوں پر جبر کرے تو انہیں تو اللہ بوجہ ان کی مجبوری بخش دے گا اور ان مالکوں کو جنہوں نے ان پر دباؤ زور زبردستی ڈالی تھی انہیں پکڑ لے گا۔ اس صورت میں یہی گنہگار رہیں گے۔ بلکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی قرآت میں رحیم کے بعد آیت ( واثمہن علی من اکرھھن ) ہے۔ یعنی اس حالت میں جبر اور زبردستی کرنے والوں پر گناہ ہے۔ مرفوع حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کی خطا سے، بھول سے اور جن کاموں پر وہ مجبور کر دئیے جائیں، ان پر زبردستی کی جائے ان سے درگزر فرمالیا ہے۔ ان احکام کو تفصیل وار بیان کرنے کے بعد بیان ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے کلام قرآن کریم کی یہ روشن و واضح آیات تمہارے سامنے بیان فرما دیں۔ اگلے لوگوں کے واقعات بھی تمہارے سامنے آچکے کہ ان کی مخالفت حق کا انجام کیا اور کیسا ہوا ؟ وہ ایک افسانہ بنا دئے گئے اور آنے والوں کے لئے عبرتناک واقعہ بنا دیئے گئے کہ متقی ان سے عبرت حاصل کریں اور اللہ کی نافرمانیوں سے بچیں۔ حضرت علی ؓ فرماتے تھے، قرآن میں تمہارے اختلاف کے فیصلے موجود ہیں۔ تم سے پہلے زمانہ کے لوگوں کی خبریں موجود ہیں۔ بعد میں ہونے والے امور کے احوال کا بیان ہے۔ یہ مفصل ہے بکواس نہیں اسے جو بھی بےپرواہی سے چھوڑے گا، اسے اللہ برباد کر دے گا اور جو اس کے سوا دوسری کتاب میں ہدایت تلاش کرے گا اسے اللہ گمراہ کر دے گا۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 34 وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ وَّمَثَلًا مِّنَ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ ” جو لوگ تم سے پہلے ہو گزرے ہیں انہوں نے جو غلط عقائد گھڑ رکھے تھے اور ان کے اندر جو جو معاشرتی برائیاں پائی جاتی تھیں ہم نے ان سب کی نشان دہی بھی اس کتاب میں کردی ہے۔وَمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِیْنَ ”سورۂ یونس کی آیت 57 میں بھی قرآن کو موعظہ نصیحت قرار دیا گیا ہے : قَدْجَآءَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ ”آگئی ہے تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے۔ “

ولقد أنـزلنا إليكم آيات مبينات ومثلا من الذين خلوا من قبلكم وموعظة للمتقين

سورة: النور - آية: ( 34 )  - جزء: ( 18 )  -  صفحة: ( 354 )

Surah An Nur Ayat 34 meaning in urdu

ہم نے صاف صاف ہدایت دینے والی آیات تمہارے پاس بھیج دی ہیں، اور ان قوموں کی عبر ت ناک مثالیں بھی ہم تمہارے سامنے پیش کر چکے ہیں جو تم سے پہلے ہو گزری ہیں، اور وہ نصیحتیں ہم نے کر دی ہیں جو ڈرنے والوں کے لیے ہوتی ہیں


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اور جو لوگ آگ میں (جل رہے) ہوں گے وہ دوزخ کے داروغوں سے کہیں
  2. (اے منافقو!) تم سے عجب نہیں کہ اگر تم حاکم ہو جاؤ تو ملک میں
  3. جو لوگ خیرات کرنے والے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی۔ اور خدا کو (نیت)
  4. (اے پیغمبر) میرے بندوں کو بتادو کہ میں بڑا بخشنے والا (اور) مہربان ہوں
  5. اور ان کے پاس ان کے پروردگار کی کوئی نشانی نہیں آتی مگر اس سے
  6. خدا ایک اور مثال بیان فرماتا ہے کہ ایک غلام ہے جو (بالکل) دوسرے کے
  7. یہ (پرانی) بستیوں کے تھوڑے سے حالات ہیں جو ہم تم سے بیان کرتے ہیں۔
  8. تو وہ اس کی بات سن کر ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ اے پروردگار!
  9. جس روز وہ اس سے ملیں گے ان کا تحفہ (خدا کی طرف سے) سلام
  10. تو اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو خدا پر جھوٹ باندھے یا اس کی

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah An Nur with the voice of the most famous Quran reciters :

surah An Nur mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter An Nur Complete with high quality
surah An Nur Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah An Nur Bandar Balila
Bandar Balila
surah An Nur Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah An Nur Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah An Nur Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah An Nur Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah An Nur Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah An Nur Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah An Nur Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah An Nur Fares Abbad
Fares Abbad
surah An Nur Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah An Nur Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah An Nur Al Hosary
Al Hosary
surah An Nur Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah An Nur Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Tuesday, May 14, 2024

لا تنسنا من دعوة صالحة بظهر الغيب