Surah Hud Ayat 38 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ وَكُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ مَلَأٌ مِّن قَوْمِهِ سَخِرُوا مِنْهُ ۚ قَالَ إِن تَسْخَرُوا مِنَّا فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنكُمْ كَمَا تَسْخَرُونَ﴾
[ هود: 38]
تو نوح نے کشتی بنانی شروع کردی۔ اور جب ان کی قوم کے سردار ان کے پاس سے گزرتے تو ان سے تمسخر کرتے۔ وہ کہتے کہ اگر تم ہم سے تمسخر کرتے ہو تو جس طرح تم ہم سے تمسخر کرتے ہو اس طرح (ایک وقت) ہم بھی تم سے تمسخر کریں گے
Surah Hud Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) مثلا کہتے، نوح! نبی بنتے بنتے اب بڑھئی بن گئے ہو؟ یا اے نوح! خشکی میں کشتی کس لئے تیار کر رہے ہو؟
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
قوم نوح کا مانگا ہوا عذاب اسے ملا قوم نوح نے جب عذابوں کی مانگ جلدی مچائی تو آپ نے اللہ سے دعا کی الٰہی زمین پر کسی کافر کو رہتا بستا نہ چھوڑ۔ پروردگار میں عاجز آگیا ہوں، تو میری مدد کر۔ اسی وقت وحی آئی کہ جو ایمان لاچکے ہیں ان کے سوا اور کوئی اب ایمان نہ لائے گا تو ان پر افسوس نہ کر نہ ان کا کوئی ایسا خاص خیال کر۔ ہمارے دیکھتے ہی ہماری تعلیم کے مطابق ایک کشتی تیار کر اور اب ظالموں کے بارے میں ہم سے کوئی بات چیت نہ کر، ہم ان کا ڈبو دینا مقرر کرچکے ہیں۔ بعض سلف کہتے ہیں حکم ہوا کہ لکڑیاں کاٹ کر سکھا کر تختے بنالو۔ اس میں ایک سو سال گزر گئے پھر مکمل تیاری میں سو سال اور نکل گئے ایک قول ہے چالیس سال لگے واللہ اعلم۔ امام محمد بن اسحاق توراۃ سے نقل کرتے ہیں کہ ساگ کی لکڑی کی یہ کشتی تیار ہوئی اس کا طول اسی ( 80 ) ہاتھ تھا اور عرض پچاس ( 50 ) ہاتھ کا تھا۔ اندر باہر سے روغن کیا گیا تھا پانی کاٹنے کے پر پرزے بھی تھے قتادہ کا قول ہے کہ لمبائی تین سو ہاتھ کی تھی۔ ابن عباس کا فرمان ہے کہ طول بارہ سو ہاتھ کا تھا اور چوڑائی چھ سو ہاتھ کی تھی۔ کہا گیا ہے کہ طول دوہزار ہاتھ اور چوڑائی ایک سو ہاتھ کی تھی واللہ اعلم۔ اس کی اندرونی اونچائی تیس ہاتھ کی تھی اس میں تین درجے تھے ہر درجہ دس ہاتھ اونچا تھا۔ سب سے نیچے کے حصے میں چوپائے اور جنگلی جانور تھے۔ درمیان کے حصے میں انسان تھے اور اوپر کے حصے میں پرندے تھے۔ ان میں چھوٹا دروازہ تھا، اوپر سے بالکل بند تھی۔ ابن جریر نے ایک غریب اثر عبداللہ بن عباس سے ذکر کیا ہے کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ بن مریم سے درخواست کی کہ اگر آپ بحکم الٰہی کسی ایسے مردہ کو جلاتے جس نے کشتی نوح دیکھی ہو تو ہمیں اسے معلومات ہوتیں آپ انہیں لے کر ایک ٹیلے پر پہنچ کر وہاں کی مٹی اٹھائی اور فرمایا جانتے ہو یہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کو ہی علم ہے۔ آپ نے فرمایا یہ پنڈلی ہے حام بن نوح کی پھر آپ نے ایک لکڑی اس ٹیلے پر مار کر فرمایا اللہ کے حکم سے اٹھ کھڑا ہو اسی وقت ایک بڈھا سا آدمی اپنے سر سے مٹی جھاڑتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ آپ نے اس سے پوچھا کیا تو بڑھاپے میں مرا تھا۔ اس نے کہا نہیں مرا تو تھا جوانی میں لیکن اب دل پر دہشت بیٹھی کہ قیامت قائم ہوگئی اس دہشت نے بوڑھا کردیا۔ آپ نے فرمایا اچھا حضرت نوح کی کشتی کی بابت اپنی معلومات بیان کرو۔ اس نے کہا وہ بارہ سو ہاتھ لمبی اور چھ سو ہاتھ چوڑی تھی تین درجوں کی تھی۔ ایک میں جانور اور چوپائے تھے، دوسرے میں انسان، تیسرے میں پرند، جب جانوروں کا گوبر پھیل گیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کی طرف وحی بھیجی کے ہاتھی کی دم ہلاؤ۔ آپ کے ہلاتے ہی اس سے خنزیر نر مادہ نکل آئے اور وہ میل کھانے لگے۔ چوہوں نے جب اس کے تختے کترنے شروع کئے تو حکم ہوا کہ شیر کی پیشانی پر انگلی لگا۔ اس سے بلی کا جوڑا نکلا اور چوہوں کی طرف لپکا۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے سوال کیا کہ حضرت نوح ؑ کو شہروں کے غرقاب ہونے کا علم کیسے ہوگیا ؟ آپ نے فرمایا کہ انہوں نے کوے کو خبر لینے کے لیے بھیجا لیکن وہ ایک لاش پر بیٹھ گیا، دیر تک وہ واپس نہ آیا تو آپ نے اس کے لیے ہمیشہ ڈرتے رہنے کی بد دعا کی۔ اسی لیے وہ گھروں سے مانوس نہیں ہوتا۔ پھر آپ نے کبوتر کو بھیجا وہ اپنی چونچ میں زیتون کے درخت کا پتہ لے کر آیا اور اپنے پنجوں میں خشک مٹی لایا اس سے معلوم ہوگیا کہ شہر ڈوب چکے ہیں۔ آپ نے اس کی گردن میں خصرہ کا طوق ڈال دیا اور اس کے لیے امن وانس کی دعا کی پس وہ گھروں میں رہتا سہتا ہے۔ حواریوں نے کہا اے رسول اللہ آپ انہیں ہمارے ہاں لے چلئے کہ ہم میں بیٹھ کر اور بھی باتیں ہمیں سنائیں۔ آپ نے فرمایا یہ تمہارے ساتھ کیسے آسکتا ہے جب کہ اس کی روزی نہیں۔ پھر فرمایا اللہ کے حکم سے جیسا تھا ویسا ہی ہوجا، وہ اسی وقت مٹی ہوگیا۔ نوح ؑ تو کشتی بنانے میں لگے اور کافروں کو ایک مذاق ہاتھ لگ گیا وہ چلتے پھرتے انہیں چھیڑتے اور باتیں بناتے اور طعنہ دیتے کیونکہ انہیں جھوٹا جانتے تھے اور عذاب کے وعدے پر انہیں یقین نہ تھا۔ اس کے جواب میں حضرت نوح ؑ فرماتے اچھا دل خوش کرلو وقت آرہا ہے کہ اس کا پورا بدلہ لے لیا جائے۔ ابھی جان لو گے کہ کون اللہ کے عذاب سے دنیا میں رسوا ہوتا ہے اور کس پر اخروی عذاب آچمٹتا ہے جو کبھی ٹالے نہ ٹلے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 38 وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ ۣ وَكُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ مَلَاٌ مِّنْ قَوْمِهٖ سَخِرُوْا مِنْهُ حضرت نوح اور آپ کے اہل ایمان ساتھی جس جگہ اور جس علاقے میں یہ کشتی بنار ہے تھے ظاہر ہے کہ وہاں ہر طرف خشکی ہی خشکی تھی ‘ سمندر یا دریا کا کہیں دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔ ان حالات میں تصور کریں کہ کیا کیا باتیں اور کیسے کیسے تمسخر آمیز فقرے کہے جاتے ہوں گے کہ اب تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بالکل ہی مت ماری گئی ہے کہ خشکی پر کشتی چلانے کا ارادہ ہے !
ويصنع الفلك وكلما مر عليه ملأ من قومه سخروا منه قال إن تسخروا منا فإنا نسخر منكم كما تسخرون
سورة: هود - آية: ( 38 ) - جزء: ( 12 ) - صفحة: ( 226 )Surah Hud Ayat 38 meaning in urdu
نوحؑ کشتی بنا رہا تھا اور اس کی قوم کے سرداروں میں سے جو کوئی اس کے پاس سے گزرتا تھا وہ اس کا مذاق اڑاتا تھا اس نے کہا "اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ہم بھی تم پر ہنس رہے ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- تو آنکھیں نیچی کئے ہوئے قبروں سے نکل پڑیں گے گویا بکھری ہوئی ٹڈیاں
- (یعنی) اس سائے کی طرف چلو جس کی تین شاخیں ہیں
- کیا ان لوگوں نے خدا کی مخلوقات میں سے ایسی چیزیں نہیں دیکھیں جن کے
- کہہ دو کہ اگر خدا تمہارے ساتھ برائی کا ارادہ کرے تو کون تم کو
- کہو کہ رات اور دن میں خدا سے تمہاری کون حفاظت کرسکتا ہے؟ بات یہ
- جب ان کے پاس پیغمبر ان کے آگے اور پیچھے سے آئے کہ خدا کے
- اور یہ بھی کہا کہ اے قوم! یہ خدا کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی
- (یعنی) ہمیشہ رہنے کے باغ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ ہمیشہ ان میں
- کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ
- یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے صلہ ہے انعام کثیر
Quran surahs in English :
Download surah Hud with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Hud mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Hud Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers