Surah Ankabut Ayat 4 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ أَن يَسْبِقُونَا ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ﴾
[ العنكبوت: 4]
کیا وہ لوگ جو برے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ یہ ہمارے قابو سے نکل جائیں گے۔ جو خیال یہ کرتے ہیں برا ہے
Surah Ankabut Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی ہم سے بھاگ جائیں گے اور ہماری گرفت میں نہ آسکیں گے۔
( 2 ) یعنی اللہ کے بارے میں کس ظن فاسد میں یہ مبتلا ہیں، جب کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور ہر بات سے باخبر بھی .
پھر اس کی نافرمانی کرکے اس کے مواخذہ وعذاب سے بچنا کیوں کر ممکن ہے؟
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
حروف مقطعہ کی بحث سورة بقرہ کی تفسیر کے شروع میں گزرچکی ہے۔ امتحان اور مومن پھر فرماتا ہے یہ ناممکن ہے کہ مومنوں کو بھی امتحان سے چھوڑ دیا جائے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ سب سے زیادہ سخت امتحان نبیوں کا ہوتا ہے پھر صالح نیک لوگوں کا پھر ان سے کم درجے والے پھر ان سے کم درجے والے۔ انسان کا امتحان اس کے دین کے انداز پر ہوتا ہے اگر وہ اپنے دین میں سخت ہے تو مصیبتیں بھی سخت نازل ہوتی ہیں۔ اسی مضمون کا بیان اس آیت میں بھی ہے ( اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلَا رَسُوْلِهٖ وَلَا الْمُؤْمِنِيْنَ وَلِيْجَةً ۭ وَاللّٰهُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ 16ۧ ) 9۔ التوبة:16) کیا تم نے یہ گمان کرلیا ہے کہ تم چھوڑ دئیے جاؤ گے ؟ حالانکہ ابھی اللہ تعالیٰ نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ تم میں سے مجاہد کون ہے ؟ اور صابر کون ہے ؟ اسی طرح سورة برات اور سورة بقرہ میں بھی گزر چکا ہے کہ کیا تم نے یہ سوچ رکھا ہے کہ تم جنت میں یونہی چلے جاؤ گے ؟ اور اگلے لوگوں جیسے سخت امتحان کے موقعے تم پر نہ آئیں گے۔ جیسے کہ انہیں بھوک، دکھ، درد وغیرہ پہنچے۔ یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھ کے ایماندار بول اٹھے کہ اللہ کی مدد کہاں ہے ؟ یقین مانو کہ اللہ کی مدد قریب ہے۔ یہاں بھی فرمایا ان سے اگلے مسلمانوں کی بھی جانچ پڑتال کی گئی انہیں بھی سرد گرم چکھایا گیا تاکہ جو اپنے دعوے میں سچے ہیں اور جو صڑف زبانی دعوے کرتے ہیں ان میں تمیز ہوجائے اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اللہ اسے جانتا نہ تھا وہ ہر ہوچکی بات کو اور ہونے والی بات کو برابر جانتا ہے۔ اس پر اہل سنت والجماعت کے تمام اماموں کا اجماع ہے۔ پس یہاں علم رویت یعنی دیکھنے کے معنی میں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ لنعلم کے معنی لنری کرتے ہیں کیونکہ دیکھنے کا تعلق موجود چیزوں سے ہوتا ہے اور عم اس سے عام ہے۔ پھر فرمایا ہے جو ایمان نہیں لائے وہ بھی یہ گمان نہ کریں کہ امتحان سے بچ جائیں گے بڑے بڑے عذاب اور سخت سزائیں ان کی تاک میں ہیں۔ یہ ہاتھ سے نکل نہیں سکتے ہم سے آگے بڑھ نہیں سکتے ان کے یہ گمان نہایت برے ہیں جن کا برا نتیجہ یہ عنقریب دیکھ لیں گے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 4 اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَاط سَآءَ مَا یَحْکُمُوْنَ ” اس جملے کی روح کو سمجھنے کے لیے مکہ مکرمہ کے ماحول اور اس میں اہل ایمان کی دل دہلا دینے والی مظلومیت کے مناظر ایک دفعہ پھر اپنے تصور میں لائیے ‘ جہاں ابوجہل کو کھلی چھوٹ تھی کہ وہ حضرت یاسر اور حضرت سمیہ رض کو جس طرح چاہے بربریت کا نشانہ بنائے۔ اُمیہ بن خلف مالک و مختار تھا حضرت بلال رض کی قسمت کا کہ ان کے ساتھ جیسا چاہے سلوک کرے۔ انہیں مار پیٹ کر لہو لہان کر دے اور گرم ریت پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھ دے یا گلے میں رسیّ ڈال کر مردہ جانوروں کی طرح مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتا پھرے۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھیں تو آیت زیر مطالعہ کے الفاظ کا مفہوم یوں ہوگا کہ کیا بربریت کا یہ بازار گرم کرنے والے درندوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ؟ کیا ابوجہل اور امیہ بن خلف کو خوش فہمی ہے کہ وہ ہماری گرفت سے بچ جائیں گے ؟ نہیں ‘ ایسا ہرگز نہیں ہوگا ! انہیں اس سب کچھ کا حساب دینا ہوگا۔ وہ وقت دور نہیں جب بہت جلد یہ پانسہ پلٹ جائے گا اور انہیں لینے کے دینے پڑجائیں گے۔ چناچہ چند ہی سال بعد غزوۂ بدر میں کفر اور ظلم کے بڑے بڑے علم برداروں کا حساب چکا دیا گیا۔ میدان بدر میں ہی امیہ بن خلف کو بھی مکافات عمل کے بےرحم شکنجے میں جکڑ کر حضرت بلال رض کے قدموں میں ڈال دیا گیا۔ اس وقت اگرچہ حضرت عبدالرحمن رض بن عوف نے کوشش بھی کی کہ وہ امیہ کو قتل ہونے سے بچالیں اور اسے قیدی بنالیں لیکن حضرت بلال رض نے اسے جہنم رسید کر کے ہی چھوڑا : اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ البروج ”بلاشبہ آپ کے رب کی گرفت بہت سخت ہے ! “ دراصل مکہ میں بارہ سال تک ایک خاص حکمت عملی کے تحت مسلمانوں کو ہاتھ باندھے رکھنے ‘ ہر طرح کا ظلم برداشت کرنے اور استطاعت کے باوجود بھی بدلہ نہ لینے کا حکم دیا گیا تھا۔ گویا تحریک کے اس مرحلے میں انہیں ظلم سہنے اور سخت سے سخت حالات میں عزم و استقلال کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی تربیت کے عمل سے گزارا جارہا تھا۔ اور ان خطوط پر مکمل تربیت اور تیاری سے قبل انہیں عملی طور پر تصادم کا میدان گرم کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ حکمت عملی دراصل تحریکی و انقلابی جدوجہد کے فلسفے کا ایک اہم اور لازمی اصول ہے۔ علامہ اقبال نے اس کی ترجمانی یوں کی ہے : نالہ ہے بلبل شور یدہ ترا خام ابھی اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی !بعد میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق سورة الحج کی آیت 39 کے اس حکم کے تحت اہل ایمان کے بندھے ہوئے ہاتھ کھول دیے گئے : اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا ط ” اب اجازت دی جا رہی ہے قتال کی ان لوگوں کو جن پر جنگ مسلط کردی گئی ہے ‘ اس لیے کہ ان پر ظلم ہو رہا ہے۔ “
أم حسب الذين يعملون السيئات أن يسبقونا ساء ما يحكمون
سورة: العنكبوت - آية: ( 4 ) - جزء: ( 20 ) - صفحة: ( 396 )Surah Ankabut Ayat 4 meaning in urdu
اور کیا وہ لوگ جو بُری حرکتیں کر رہے ہیں یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ ہم سے بازی لے جائیں گے؟ بڑا غلط حکم ہے جو وہ لگا رہے ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- بلکہ اس شخص کو نصیحت دینے کے لئے (نازل کیا ہے) جو خوف رکھتا ہے
- اور یہ کہ وہی مارتا اور جلاتا ہے
- اور بعض اہلِ کتاب ایسے بھی ہیں جو خدا پر اور اس (کتاب) پر جو
- یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے اور انہوں نے خیال کیا کہ اپنی نصرت
- تو خدا سے ڈرو اور میرے کہنے پر چلو
- اور وہ لوگ جو کل اُس کے رتبے کی تمنا کرتے تھے صبح کو کہنے
- بے شک نیکوکار نعمتوں (کی بہشت) میں ہوں گے۔
- یہ قرآن تو اہل عالم کے لئے نصیحت ہے
- جو ملک میں فساد کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے
- کسی آدمی کو شایاں نہیں کہ خدا تو اسے کتاب اور حکومت اور نبوت عطا
Quran surahs in English :
Download surah Ankabut with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Ankabut mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Ankabut Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers