Surah ahzab Ayat 4 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ احزاب کی آیت نمبر 4 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah ahzab ayat 4 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿مَّا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ ۚ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ ۚ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ﴾
[ الأحزاب: 4]

Ayat With Urdu Translation

خدا نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے۔ اور نہ تمہاری عورتوں کو جن کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو تمہاری ماں بنایا اور نہ تمہارے لے پالکوں کو تمہارے بیٹے بنایا۔ یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں۔ اور خدا تو سچی بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا رستہ دکھاتا ہے

Surah ahzab Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک منافق یہ دعویٰ کرتا تھا کہ اس کے دو دل ہیں۔ ایک دل مسلمانوں کے ساتھ ہے اور دوسرا دل کفر اور کافروں کے ساتھ ہے۔ ( مسند احمد ا / 267 ) یہ آیت اس کی تردید میں نازل ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک دل میں اللہ کی محبت اور اس کے دشمنوں کی اطاعت جمع ہو جائے۔ بعض کہتے ہیں کہ مشرکین مکہ میں سے ایک شخص جمیل بن معمر فہری تھا، جو بڑا ہشیار، مکار اور نہایت تیز طرار تھا، اس کا دعویٰ تھا کہ میرے تو دو دل ہیں جن سے میں سوچتا سمجھتا ہوں۔ جب کہ محمد ( صلى الله عليه وسلم ) کا ایک ہی دل ہے۔ یہ آیت اس کے رد میں نازل ہوئی۔ ( ایسر التفاسیر ) بعض مفسرین کہتے ہیں کہ آگے جو دو مسئلے بیان کیے جا رہے ہیں، یہ ان کی تمہید ہے یعنی جس طرح ایک شخص کے دو دل نہیں ہو سکتے، اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ظہار کر لے یعنی یہ کہہ دے کہ تیری پشت میرے لئے ایسے ہی ہے جیسے میری ماں کی پشت۔ تو اس طرح کہنے سے اس کی بیوی، اس کی ماں نہیں بن جائے گی۔ یوں اس کی دو مائیں نہیں ہو سکتیں۔ اسی طرح کوئی شخص کسی کو اپنا بیٹا ( لے پالک ) بنالے تو وہ اس کا حقیقی بیٹا نہیں بن جائے گا، بلکہ وہ بیٹا تو اپنے باپ ہی کا رہے گا، اس کے دو باپ نہیں ہو سکتے۔ ( ابن کثیر )۔
( 2 ) یہ مسئلۂ ظہار کہلاتا ہے، اس کی تفصیل سورۂ مجادلہ میں آئے گی۔
( 3 ) اس کی تفصیل اسی سورت میں آگے چل کر آئے گی۔ أَدْعِياءُ، دَعِيٌّ کی جمع ہے۔ منہ بولا بیٹا۔
( 4 ) یعنی کسی کو ماں کہہ دینے سے وہ ماں نہیں بن جائے گی، نہ بیٹا کہنے سے وہ بیٹا بن جائے گا، یعنی ان پر امومت اور بنوت کے شرعی احکام جاری نہیں ہوں گے۔
( 5 ) اس لئے اس کا اتباع کرو اور ظہار والی عورت کو ماں اور لے پالک کو بیٹا مت کہو، خیال رہے کہہ کسی کو پیار اور محبت میں بیٹا کہنا اور بات ہے اور لے پالک کو حقیقی بیٹا تصور کرکے بیٹا کہنا اور بات ہے۔ پہلی بات جائز ہے، یہاں مقصود دوسری بات کی ممانعت ہے۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


سچ بدل نہیں سکتا لے پالک بیٹا نہیں بن سکتا مقصود کو بیان کرنے سے پہلے بطور مقدمے اور ثبوت کے مثلا ایک وہ بات بیان فرمائی جسے سب محسوس کرتے ہیں اور پھر اس کی طرف سے ذہن ہٹاکر اپنے مقصود کی طرف لے گئے۔ بیان فرمایا کہ یہ تو ظاہر ہے کہ کسی انسان کے دل دو نہیں ہوتے۔ اسی طرح تم سمجھ لو کہ اپنی جس بیوی کو تم ماں کہہ دو تو وہ واقعی ماں نہیں ہوجاتی۔ ٹھیک اسی طرح دوسرے کی اولاد کو اپنا بیٹا بنالینے سے وہ سچ مچ بیٹا ہی نہیں ہوجاتا۔ اپنی بیوی سے اگر کسی نے بحالت غضب وغصہ کہہ دیا کہ تو مجھ پر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ تو اس کہنے سے وہ سچ مچ ماں نہیں بن جاتیں مائیں تو وہ ہیں جن کے بطن سے یہ پیدا ہوئے ہیں۔ ان دونوں باتوں کے بیان کے بعد اصل مقصود کو بیان فرمایا کہ تمہارے لے پالک لڑکے بھی درحقیقت تمہارے لڑکے نہیں۔ یہ آیت حضرت زید بن حارث ؓ کے بارے میں اتری ہے جو حضور کے آزاد کردہ تھے انہیں حضور نے نبوت سے پہلے اپنا متبنی بنارکھا تھا۔ انہیں زید بن محمد کہا جاتا تھا۔ اس آیت سے اس نسبت اور اس الحاق کا توڑ دینا منظور ہے۔ جیسے کہ اسی سورت کے اثنا میں ہے آیت ( مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ ۭ وَكَان اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا 40؀ ) 33۔ الأحزاب :40) تم میں سے کسی مرد کے باپ محمد ﷺ نہیں ہے بلکہ وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے۔ یہاں فرمایا یہ تو صرف تمہاری ایک زبانی بات ہے جو تم کسی کے لڑکے کو کسی کا لڑکا کہو اس سے حقیقت بدل نہیں سکتی۔ واقعی میں اس کا باپ وہ ہے جس کی پیٹھ سے یہ نکلا۔ یہ ناممکن ہے کہ ایک لڑکے کے دو باپ ہوں جیسے یہ ناممکن ہے کہ ایک سینے میں دو دل ہوں۔ اللہ تعالیٰ حق فرمانے والا اور سیدھی راہ دکھانے والا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت ایک قریشی کے بارے میں اتری ہے جس نے مشہور کر رکھا تھا کہ اس کے دو دل ہیں اور دونوں عقل وفہم سے پر ہیں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تردید کردی۔ ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ حضور ﷺ نماز میں تھے آپ کو کچھ خطرہ گذرا اس پر جو منافق نماز میں شامل تھے وہ کہنے لگے دیکھو اس کے دو دل ہیں ایک تمہارے ساتھ ایک ان کے ساتھ۔ اس پر یہ آیت اتری کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے۔ زہری فرماتے ہیں یہ تو صرف بطور مثال کے فرمایا گیا ہے یعنی جس طرح کسی شخص کے دو دل نہیں ہوتے اسی طرح کسی بیٹے کے دو باپ نہیں ہوسکتے۔ اسی کے مطابق ہم نے بھی اس آیت کی تفسیر کی ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ پہلے تو رخصت تھی کہ لے پالک لڑکے کو پالنے والے کی طرف نسبت کرکے اس کا بیٹا کہہ کر پکارا جائے لیکن اب اسلام نے اس کو منسوخ کردیا ہے اور فرمادیا ہے کہ ان کے جو اپنے حقیقی باپ ہیں ان ہی کی طرف منسوب کرکے پکارو۔ عدل نیکی انصاف اور سچائی یہی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں اس آیت کے اترنے سے پہلے ہم حضرت زید کو زید بن محمد ﷺ کہا کرتے تھے لیکن اس کے نازل ہونے کے بعد ہم نے یہ کہنا چھوڑ دیا۔ بلکہ پہلے تو ایسے لے پالک کے وہ تمام حقوق ہوتے تھے جو سگی اور صلبی اولاد کے ہوتے ہیں۔ چناچہ اس آیت کے اترنے کے بعد حضرت سہلہ بنت سہل ؓ حاضر خدمت نبوی ﷺ ہو کر عرض کرتی ہیں کہ یارسول اللہ ﷺ ہم نے سالم کو منہ بولا بیٹا بنا رکھا تھا اب قرآن نے ان کے بارے میں فیصلہ کردیا۔ میں اس سے اب تک پردہ نہیں کرتی وہ آجاتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ میرے خاوند حضرت حذیفہ ان کے اس طرح آنے سے کچھ بیزار ہیں۔ آپ نے فرمایا پھر کیا ہے جاؤ سالم کو اپنا دودھ پلا اس پر حرام ہوجاؤگی۔ الغرض یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے اب صاف لفظوں میں ایسے لڑکوں کی بیویوں کی بھی مداخلت انہیں لڑکا بنانے والے کے لئے بیان فرمادی۔ اور جب حضرت زید ؓ نے اپنی بیوی صاحبہ حضرت زینب بنت جحش کو طلاق دے دی تو آپ ﷺ نے خود اپنا نکاح ان سے کرلیا اور مسلمان اس ایک مشکل سے بھی چھوٹ گئے فالحمد للہ اسی کا لحاظ رکھتے ہوئے۔ جہاں حرام عورتوں کو ذکر کیا وہاں فرمایا آیت ( وَحَلَاۗىِٕلُ اَبْنَاۗىِٕكُمُ الَّذِيْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ 23؀ۙ )النساء:23) یعنی تمہاری اپنی صلب سے جو لڑکے ہوں ان کی بیویاں تم پر حرام ہیں۔ ہاں رضاعی لڑکا نسبی اور صلبی لڑکے کے حکم میں ہے۔ جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ رضاعت سے وہ تمام رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی خیال رہے کہ پیار سے کسی کو بیٹا کہہ دینا یہ اور چیز ہے یہ ممنوع نہیں مسند احمد وغیرہ میں ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں ہم سب خاندان عبدالمطلب کے چھوٹے بچوں کو مزدلفہ سے رسول اللہ ﷺ نے رات کو ہی جمرات کی طرف رخصت کردیا اور ہماری رانیں تھپکتے ہوئے حضور نے فرمایا بیٹو سورج نکلنے سے پہلے جمرات پر کنکریاں نہ مارنا۔ یہ واقعہ سنہ0100ہجری ماہ ذی الحجہ کا ہے اور اس کی دلالت ظاہر ہے۔ حضرت زید بن حارثہ جن کے بارے میں یہ حکم اترا یہ سنہ008ہجری میں جنگ موتہ میں شہید ہوئے۔ صحیح مسلم شریف میں مروی ہے کہ حضرت انس ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے اپنا بیٹا کہہ کر بلایا۔ اسے بیان فرما کر کہ لے پالک لڑکوں کو ان کے باپ کی طرف منسوب کرکے پکارا کرو پالنے والوں کی طرف نہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر تمہیں انکے باپوں کا علم نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور اسلامی دوست ہیں۔ حضور جب عمرۃ القضا والے سال مکہ شریف سے واپس لوٹے تو حضرت ؓ کی صاحبزادی چچاچچا کہتی ہوئی آپ کے پیچھے دوڑیں۔ حضرت علی ؓ نے انہیں لے کر حضرت فاطمہ زہرا ؓ کو دے دیا اور فرمایا یہ تمہاری چچازاد بہن ہیں انہیں اچھی طرح رکھو۔ حضرت زید اور حضرت جعفر فرمانے لگے اس بچی کے حقدار ہم ہیں ہم انہیں پالیں گے۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں نہیں یہ میرے ہاں رہیں گی حضرت علی ؓ نے تو یہ دلیل دی کہ میرے چچا کی لڑکی ہیں۔ حضرت زید ؓ فرماتے ہیں میرے بھائی کی لڑکی ہے۔ جعفر بن ابی طالب ؓ کہنے لگے میرے چچا کی لڑکی ہیں۔ اور ان کی چچی میرے گھر میں ہیں یعنی حضرت اسماء بنت عمیس ؓ۔ آخر حضور ﷺ نے یہ فیصلہ کیا کہ صاحبزادی تو اپنی خالہ کے پاس رہیں کیونکہ خالہ ماں کے قائم مقام ہے۔ حضرت علی ؓ سے فرمایا تو میرا ہے اور میں تیرا ہوں۔ حضرت جعفر ؓ سے فرمایا تو صورت سیرت میں میرے مشابہ ہے حضرت زید ؓ سے فرمایا تو میرا بھائی ہے اور ہمارا مولیٰ ہے اس حدیث میں بہت سے احکام ہیں۔ سب سے بہتر تو یہ ہے کہ حضور نے حکم حق سنا کر اور دعویداروں کو بھی ناراض نہیں ہونے دیا۔ اور آپ نے اسی آیت پر عمل کرتے ہوئے حضرت زید ؓ سے فرمایا تم ہمارے بھائی اور ہمارے دوست ہو۔ حضرت ابو بکرہ ؓ نے فرمایا اسی آیت کے ماتحت میں تمہارا بھائی ہوں۔ ابی فرماتے ہیں واللہ اگر یہ بھی معلوم ہوتا کہ ان کے والد کوئی ایسے ویسے ہی تھے تو بھی یہ ان کی طرف منسوب ہوتے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر اپنی نسبت اپنے باپ کی طرف سے دوسرے کی طرف کرے اس نے کفر کیا۔ اس سے سخت وعید پائی جاتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ صحیح نسب سے اپنے آپ کو ہٹانا بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے۔ پھر فرماتا ہے جب تم نے اپنے طور پر جتنی طاقت تم میں ہے تحقیق کرکے کسی کو کسی کی طرف نسبت کیا اور فی الحقیقت وہ نسبت غلط ہے تو اس خطا پر تمہاری پکڑ نہیں۔ چناچہ خود پروردگار نے ہمیں ایسی دعا تعلیم دی کہ ہم اس کی جناب میں ہیں آیت ( رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا02806 ) 2۔ البقرة :286) اے اللہ ہماری بھول چوک اور غلطی پر ہمیں نہ پکڑ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ جب مسلمانوں نے یہ دعا پڑھی جناب باری عز اسمہ نے فرمایا میں نے یہ دعاقبول فرمائی۔ صحیح بخاری شریف میں ہے جب حاکم اپنی کوشش میں کامیاب ہوجائے اپنے اجتہاد میں صحت کو پہنچ جائے تو اسے دوہرا اجر ملتا ہے اور اگر خطا ہوجائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کو ان کی خطائیں بھول چوک اور جو کام ان سے زبردستی کرائے جائیں ان سے درگذر فرمالیا ہے۔ یہاں بھی یہ فرما کر ارشاد فرمایا کہ ہاں جو کام تم قصد قلب سے عمدا کرو وہ بیشک قابل گرفت ہیں۔ قسموں کے بارے میں بھی یہی حکم ہے اوپر جو حدیث بیان ہوئی کہ نسب بدلنے والا کفر کا مرتکب ہے وہاں بھی یہ لفظ ہیں کہ باوجود جاننے کے۔ آیت قرآن جو اب تلاوتا منسوخ ہے اس میں تھا آیت ( فان کفرابکم ان ترغبوا عن ابائکم ) یعنی تمہارا اپنے باپ کی طرف نسبت ہٹانا کفر ہے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا آپ کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اس میں رجم کی بھی آیت تھی حضور ﷺ نے خود بھی رجم کیا ( یعنی شادی شدہ زانیوں کو سنگسار کیا ) اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا۔ ہم نے قرآن میں یہ آیت بھی پڑھی ہے کہ اپنے باپوں سے اپنا سلسلہ نسب نہ ہٹاؤ یہ کفر ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے مجھے تم میری تعریفوں میں اس طرح بڑھا چڑھا نہ دینا جیسے عیسیٰ بن مریم ( علیہما السلام ) کے ساتھ ہوا۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں تو تم مجھے اللہ کا بندہ اور رسول اللہ کہنا۔ ایک روایت میں صرف ابن مریم ہے۔ اور حدیث میں ہے تین خصلتیں لوگوں میں ہیں جو کفر ہیں۔ نسب میں طعنہ زنی، میت پر نوحہ، ستاروں سے باراں طلبی۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 4 { مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِہٖ } ” اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں رکھے۔ “ جوف کے معنی خالی جگہ کے ہیں اور یہاں اس سے سینے کا اندرونی حصہ chest cavity مراد ہے جس کے بائیں جانب دل ہوتا ہے۔ یعنی ہر انسان کے سینے میں اللہ نے ایک ہی دل رکھا ہے۔ اور اگر محاورۃً یوں کہا جائے کہ فلاں اور فلاں کے دل یکجا ہوگئے ہیں یا فلاں کا دل فلاں کے دل سے مل گیا ہے تو محض اس طرح کہہ دینے سے کسی کے سینے کے اندر حقیقت میں دو دل نہیں ہوجاتے۔ چناچہ جس طرح یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کے سینے میں دو دل نہیں بنائے ‘ اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی شخص کی دو مائیں نہیں ہوتیں۔ کسی شخص کی ماں صرف وہی ہے جس نے اسے جنم دیا اور کسی انسان کا باپ صرف وہی ہے جس کے صلب سے وہ پیدا ہوا۔ { وَمَا جَعَلَ اَزْوَاجَکُمُ الّٰیِْٔ تُظٰہِرُوْنَ مِنْہُنَّ اُمَّہٰتِکُمْ } ” اور نہ اس نے تمہاری ان بیویوں کو تمہاری مائیں بنایا ہے جن سے تم ظہار کر بیٹھتے ہو۔ “ ” ظِھار “ عرب کے دور جاہلیت کی ایک اصطلاح ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ناراض ہو کر کبھی یوں کہہ دیتا کہ اَنْتِ عَلَیَّ کَظَھْرِ اُمِّیْ اب تو میرے اوپر اپنی ماں کی پیٹھ کی طرح حرام ہے تو اب اسے طلاق مغلظ ّدر مغلظ شمار کیا جاتا اور اس کی بیوی اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی۔ یہاں اس خودساختہ تصور کی نفی کردی گئی کہ تم میں سے کسی کے اپنی بیوی کو ماں کہہ دینے یا ماں کے ساتھ تشبیہہ دے دینے سے وہ اس کی ماں نہیں بن جاتی۔ ” ظہار “ کے بارے میں واضح احکام سورة المجادلة پارہ 28 کی ابتدائی آیات میں دیے گئے ہیں۔ { وَمَا جَعَلَ اَدْعِیَآئَ کُمْ اَبْنَآئَ کُمْ } ” اور نہ ہی اس نے تمہارے ُ منہ بولے بیٹوں کو تمہارے بیٹے بنایا ہے۔ “ { ذٰلِکُمْ قَوْلُکُمْ بِاَفْوَاہِکُمْ } ” یہ سب تمہارے اپنے ُ منہ کی باتیں ہیں۔ “ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہاری ان خود ساختہ باتوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ کسی کی ماں صرف وہی ہے جس نے اسے جنم دیا ہے اور کسی شخص کا بیٹا بھی صرف وہی ہے جو اس کے ُ صلب سے پیدا ہوا۔ فقط کسی کے کہہ دینے سے کوئی عورت کسی کی ماں نہیں بن جاتی اور کسی کے زبانی دعویٰ سے کوئی کسی کا بیٹا نہیں بن جاتا۔ { وَاللّٰہُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَہُوَ یَہْدِی السَّبِیْلَ } ” اور اللہ حق کہتا ہے اور وہی سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ “

ما جعل الله لرجل من قلبين في جوفه وما جعل أزواجكم اللائي تظاهرون منهن أمهاتكم وما جعل أدعياءكم أبناءكم ذلكم قولكم بأفواهكم والله يقول الحق وهو يهدي السبيل

سورة: الأحزاب - آية: ( 4 )  - جزء: ( 21 )  -  صفحة: ( 418 )

Surah ahzab Ayat 4 meaning in urdu

اللہ نے کسی شخص کے دھڑ میں دو دِل نہیں رکھے ہیں، نہ اس نے تم لوگوں کی اُن بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو تمہاری ماں بنا دیا ہے، اور نہ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا بنایا ہے یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے نکال دیتے ہو، مگر اللہ وہ بات کہتا ہے جو مبنی بر حقیقت ہے، اور وہی صحیح طریقے کی طرف رہنمائی کرتا ہے


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اور خدا تمہارے (سمجھانے کے لئے) اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے۔ اور
  2. خدا نے نہ تو (اپنا) کسی کو بیٹا بنایا ہے اور نہ اس کے ساتھ
  3. بولا کہ یہ میرے پروردگار کی مہربانی ہے۔ جب میرے پروردگار کا وعدہ آپہنچے گا
  4. کہہ دو کہ خدا ہی تم کو جان بخشتا ہے پھر (وہی) تم کو موت
  5. اور تمہارے لئے ان میں (اور بھی) فائدے ہیں اور اس لئے بھی کہ (کہیں
  6. اور یہ کہ مسجدیں (خاص) خدا کی ہیں تو خدا کے ساتھ کسی اور کی
  7. (اے جہاد سے ڈرنے والو) تم کہیں رہو موت تو تمہیں آ کر رہے گی
  8. جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے (سب) خدا ہی کا ہے۔ بیشک خدا بےپروا
  9. اور ہم نے (اے محمدﷺ) تم کو حق ظاہر کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا
  10. یہ تو ایک ایسا آدمی ہے جس نے خدا پر جھوٹ افتراء کیا ہے اور

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah ahzab with the voice of the most famous Quran reciters :

surah ahzab mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter ahzab Complete with high quality
surah ahzab Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah ahzab Bandar Balila
Bandar Balila
surah ahzab Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah ahzab Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah ahzab Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah ahzab Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah ahzab Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah ahzab Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah ahzab Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah ahzab Fares Abbad
Fares Abbad
surah ahzab Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah ahzab Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah ahzab Al Hosary
Al Hosary
surah ahzab Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah ahzab Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Friday, May 10, 2024

لا تنسنا من دعوة صالحة بظهر الغيب