Surah rahman Ayat 4 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ رحمن کی آیت نمبر 4 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah rahman ayat 4 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿عَلَّمَهُ الْبَيَانَ﴾
[ الرحمن: 4]

Ayat With Urdu Translation

اسی نے اس کو بولنا سکھایا

Surah rahman Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) اس بیان سےمراد ہر شخص کی اپنی مادری بولی ہے جو بغیرسیکھے ازخود ہر شخص بول لیتا اور اس میں اپنے مافی الضمیر کا اظہار کر لیتاہے، حتیٰ کہ وہ چھوٹا بچہ بھی بولتا ہے، جس کو کسی بات کا علم اور شعور نہیں ہوتا۔ یہ اس تعلیم الٰہی کا نتیجہ ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


انسان پر اللہ تعالیٰ کے احسانات کی ایک جھلک اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کاملہ کا بیان فرماتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اپنے فضل و کرم سے اس کا حفظ کرنا بالکل آسان کردیا اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا۔ قتادہ وغیرہ کہتے ہیں بیان سے مراد خیر و شر ہے لیکن بولنا ہی مراد لینا یہاں بہت اچھا ہے۔ حضرت حسن کا قول بھی یہی ہے اور ساتھ ہی تعلیم قرآن کا ذکر ہے جس سے مراد تلاوت قرآن ہے اور تلاوت موقوف ہے بولنے کی آسانی پر ہر حرف اپنے مخرج سے بےتکلف زبان ادا کرتی رہتی ہے خواہ حلق سے نکلتا ہو خواہ دونوں ہونٹوں کے ملانے سے مختلف، مخرج اور مختلف قسم کے حروف کی ادائیگی اللہ تعالیٰ نے انسان کو سکھا دی، سورج اور چاند ایک دوسرے کے پیچھے اپنے اپنے مقررہ حساب کے مطابق گردش میں ہیں نہ ان میں اختلاف ہو نہ اضطراب نہ یہ آگے بڑھے نہ وہ اس پر غالب آئے ہر ایک اپنی اپنی جگہ تیرتا پھرتا ہے اور جگہ فرمایا ہے آیت ( فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ۚ وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْـبَانًا ۭذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ 96؀ )الأنعام:96) ، اللہ صبح کو نکالنے والا ہے اور اسی نے رات کو تمہارے لئے آرام کا وقت بنایا ہے اور سورج چاند کو حساب پر رکھا ہے یہ مقررہ محور غالب و دانا اللہ کا طے کردہ ہے۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں تمام انسانوں، جنات، چوپایوں، پرندوں کی آنکھوں کی بصارت ایک ہی شخص کی آنکھوں میں سمو دی جائے پھر بھی سورج کے سامنے جو ستر پردے ہیں ان میں سے ایک پردہ ہٹا دیا جائے تو ناممکن ہے کہ یہ شخص پھر بھی اس کی طرف دیکھ سکے باوجودیکہ سورج کا نور اللہ کی کرسی کے نور کا سترواں حصہ ہے اور کرسی کا نور عرش کے نور کا سترواں حصہ ہے اور عرش کے نور کے جو پردے اللہ کے سامنے ہیں اس کے ایک پردے کے نور کا سترواں حصہ ہے پس خیال کرلو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے جنتی بندوں کی آنکھوں میں کس قدر نور دے رکھا ہوگا کہ وہ اپنے تبارک و تعالیٰ کے چہرے کو کھلم کھلا اپنی آنکھوں سے بےروک دیکھیں گے ( ابن ابی حاتم ) اس پر تو مفسرین کا اتفاق ہے کہ شجر اس درخت کو کہتے ہیں جو تنے والا ہو لیکن نجم کے معنی کئی ایک ہیں بعض تو کہتے ہیں نجم سے مراد بیلیں ہیں جن کا تنہ نہیں ہوتا اور زمین پر پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔ بعض کہتے ہیں مراد اس سے ستارے ہیں جو آسمان میں ہیں۔ یہی قول زیادہ ظاہر ہے گو اول قول امام ابن جریر کا اختیار کردہ ہے واللہ اعلم، قرآن کریم کی یہ آیت بھی اس دوسرے قول کی تائید کرتی ہے۔ فرمان ہے آیت ( اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَسْجُدُ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَاۗبُّ وَكَثِيْرٌ مِّنَ النَّاسِ ۭ وَكَثِيْرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ ۭ وَمَنْ يُّهِنِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّكْرِمٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاۗءُ 18؀ڍ{ السجدہ } ) 22۔ الحج:18) ، کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ کے لئے آسمان زمین کی تمام مخلوقات اور سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت، چوپائے، جانور اور اکثر لوگ سجدہ کرتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے آسمان کو اسی نے بلند کیا ہے اور اسی میں میزان قائم کی ہے یعنی عدل جیسے اور آیت میں ہے آیت ( لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاس بالْقِسْطِ 25ۧ ) 57۔ الحدید :25) یعنی یقینا ہم نے اپنے رسولوں کو دلیلوں کے ساتھ اور ترازو کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ لوگ عدل پر قائم ہوجائیں یہاں بھی اس کے ساتھ ہی فرمایا تاکہ تم ترازو میں حد سے نہ گذر جاؤ یعنی اس اللہ نے آسمان و زمین کو حق اور عدل کے ساتھ پیدا کیا تاکہ تمام چیزیں حق و عدل کے ساتھ ہوجائیں، پس فرماتا ہے جب وزن کرو تو سیدھی ترازو سے عدل و حق کے ساتھ وزن کرو کمی زیادتی نہ کرو کہ لیتے وقت بڑھتی تول لیا اور دیتے وقت کم دے دیا اور جگہ ارشاد ہے آیت ( وَزِنُوْا بالْقِسْطَاسِ الْمُسْـتَقِيْمِ01802ۚ ) 26۔ الشعراء:182) صحت کے ساتھ کھرے پن سے تول کیا کرو، آسمان کو تو اس نے بلند وبالا کیا اور زمین کو اس نے نیچی اور پست کر کے بچھا دیا اور اس میں مضبوط پہاڑ مثل میخ کے گاڑ دئیے تاکہ وہ ہلے جلے نہیں اور اس پر جو مخلوق بستی ہے وہ باآرام رہے پھر زمین کی مخلوق کی دیکھو ان کی مختلف قسموں مختلف شکلوں مختلف رنگوں مختلف زبانوں مختلف عادات واطوار پر نظر ڈال کر اللہ کی قدرت کاملہ کا اندازہ کرو۔ ساتھ ہی زمین کی پیداوار کو دیکھو کہ رنگ برنگ کے کھٹے میٹھے پھیکے سلونے طرح طرح کی خو شبوؤں والے میوے پھل فروٹ اور خاصۃً کھجور کے درخت جو نفع دینے والا اور لگنے کے وقت سے خشک ہوجانے تک اور اس کے بعد بھی کھانے کے کام میں آنے والا عام میوہ ہے، اس پر خوشے ہوتے ہیں جنہیں چیر کر یہ باہر آتا ہے پھر گدلا ہوجاتا ہے پھر تر ہوجاتا ہے پھر پک کر ٹھیک ہوجاتا ہے بہت نافع ہے، ساتھ ہی اس کا درخت بالکل سیدھا اور بےضرر ہوتا ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ قیصر نے امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب کو لکھا کہ میرے قاصد جو آپ کے پاس سے واپس آئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ آپ کے ہاں ایک درخت ہوتا ہے جس کی سی خو خصلت کسی اور میں نہیں، وہ جانور کے کان کی طرح زمین سے نکلتا ہے پھر کھل کر موتی کی طرح ہوجاتا ہے پھر سبز ہو کر زمرد کی طرح ہوجاتا ہے پھر سرخ ہو کر یاقوت جیسا بن جاتا ہے، پھر یکتا ہے اور تیار ہو کر بہترین فالودے کے مزے کا ہوجاتا ہے پھر خشک ہو کر مقیم لوگوں کے بچاؤ کی اور مسافروں کے توشے بھتے کی چیز بن جاتا ہے پس اگر میرے قاصد کی یہ روایت صحیح ہے تو میرے خیال سے تو یہ درخت جنتی درخت ہے اس کے جواب میں شاہ اسلام حضرت فاروق اعظم نے لکھا کہ یہ خط ہے اللہ کے غلام مسلمانوں کے بادشاہ عمر کی طرف سے شاہ روم قیصر کے نام آپ کے قاصدوں نے جو خبر آپ کو دی ہے وہ سچ ہے اس قسم کے درخت ملک عرب میں بکثرت ہیں یہی وہ درخت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مریم کے پاس اگایا تھا جبکہ ان کے لڑکے حضرت عیسیٰ کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک حضرت آدم جیسی ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا پھر فرمایا ہوجا پس وہ ہوگئے اللہ کی طرف سے سچی اور حق بات یہی ہے تجھے چاہیے کہ شک و شبہ کرنے والوں میں نہ رہے اکمام کے معنی لیف کے بھی کئے گئے ہیں جو درخت کھجور کی گردن پر پوست کی طرح ہوتا ہے اور اس نے زمین میں بھوسی اور اناج پیدا کیا عصف کے معنی کھیتی کے سبز پتے مطلب یہ ہے کہ گیہوں جو وغیرہ کے وہ دانے جو خوشہ میں بھوسی سمیت ہوتے ہیں اور جو پتے ان کے درختوں پر لپٹے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کھیتی سے پہلے ہی اگے ہوئے پتوں کو تو عصف کہتے ہیں اور جب دانے نکل آئیں بالیں پیدا ہوجائیں تو انہیں ریحان کہتے ہیں جیسے کہ زید بن عمرو بن نفیل کے مشہور قصیدے میں ہے۔ پھر فرماتا ہے اے جنو اور انسانو تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے یعنی تم اس کی نعمتوں کے سر سے پیر تک ڈوبے ہوئے ہو اور مالا مال ہو رہے ہو ناممکن ہے کہ حقیقی طور پر تم کسی نعمت کا انکار کرسکو اور اسے جھوٹ بتاسکو ایک دو نعمتیں ہوں تو خیر یہاں تو سر تا پا اس کی نعمتوں سے تم دبے ہوئے ہو اسی لئے مومن جنوں نے اسے سن کر جھٹ سے جواب دیا ( اللھم ولا بشئی من الائک ربنا نکذب فلک الحمد ) حضرت ابن عباس اس کے جواب میں فرمایا کرتے تھے ( لا فایھا یارب ) یعنی خدایا ہم ان میں سے کسی نعمت کا انکار نہیں کرسکتے۔ حضرت ابوبکر صدیق کی صاحبزادی حضرت اسماء فرماتی ہیں کہ شروع شروع رسالت کے زمانہ میں ابھی امر اسلام کا پوری طرح اعلان نہ ہوا تھا میں نے رسول اللہ کو بیت اللہ میں دکن کی طرف نماز پڑھتے ہوئے دیکھا آپ اس نماز میں اس سورت کی تلاوت فرما رہے تھے اور مشرکین بھی سن رہے تھے۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 4 { عَلَّمَہُ الْبَیَانَ۔ } ” اس کو بیان سکھایا۔ “ یعنی اسے بولنا سکھایا ‘ اسے گویائی کی صلاحیت بخشی۔ آیات زیر مطالعہ کے حوالے سے یہاں چوتھا اہم نکتہ یہ ہے کہ انسان کی صلاحیتوں میں سے جو چوٹی کی صلاحیت ہے وہ قوت بیان گویائی ہے۔ آج میڈیکل سائنس کی تحقیق سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ انسان کی قوت گویائی کا تعلق اس کے دماغ کی خصوصی بناوٹ سے ہے۔ سائنس کی زبان میں تو انسان بھی حیوان ہی ہے ‘ لیکن اس کے بولنے کی صلاحیت کی وجہ سے اسے حیوانِ ناطق بولنے والا حیوان کہا گیا ہے۔ دماغ تو ظاہر ہے انسان سمیت تمام جانوروں میں موجود ہے ‘ لیکن ہر جانور کے دماغ کی بناوٹ اور صلاحیت مختلف ہے۔ اس لحاظ سے انسان کا دماغ تمام حیوانات کے دماغوں میں سب سے اعلیٰ ہے اور اس میں ایسی صلاحیتیں بھی پائی جاتی ہیں جو کسی اور جانور کے دماغ میں نہیں ہیں۔ بہرحال استعداد کے حوالے سے حیوانی دماغ کی بناوٹ نچلی سطح سے ترقی کر کے گوریلوں اور چیمپنزیز champenzies کے دماغ کی سطح تک پہنچتی ہے ‘ اور پھر اس ترقی کی معراج انسان کا دماغ ہے۔ انسانی دماغ کے مختلف حصے ہیں ‘ مثلاً سماعت سے متعلقہ حصہ ‘ بصارت سے متعلقہ حصہ وغیرہ۔ حواس آنکھ ‘ کان وغیرہ سے حاصل ہونے والی معلومات پہلے دماغ کے متعلقہ حصے میں جاتی ہیں اور پھر وہاں سے gray matter کے پچھلے حصے میں پہنچتی ہیں۔ لیکن انسانی دماغ کا سب سے اہم اور بڑا حصہ speech centre ہے ‘ اور پھر اس میں بھی کلام کے فہم اور ابلاغ سے متعلق دو الگ الگ حصے ہیں ‘ یعنی ایک حصے میں دوسروں کی بات سمجھنے کی صلاحیت ہے جبکہ دوسرا حصہ دوسروں تک بات پہنچانے سے متعلق ہے۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے ‘ لیکن قوت گویائی کے علاوہ انسان کی باقی تقریباً تمام صلاحیتیں کسی نہ کسی سطح پر کسی نہ کسی درجے میں دوسرے حیوانات کو بھی ملی ہیں ‘ بلکہ بعض حیوانات کی بعض صلاحیتیں تو انسان کے مقابلے میں کہیں بہتر ہیں۔ بعض جانوروں کی بصارت ہمارے مقابلے میں بہت زیادہ تیز ہے ‘ کئی جانور اندھیرے میں بھی دیکھ سکتے ہیں جبکہ ہم دیکھنے کے لیے روشنی کے محتاج ہیں۔ گھوڑے کی قوت سماعت انسان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ چناچہ ذرا سی آہٹ پر گھوڑے کے کان antenna کی طرح کھڑے ہوجاتے ہیں ‘ جبکہ ُ گھڑ سوار نے ابھی کچھ دیکھا ہوتا ہے نہ سنا ہوتا ہے۔ اسی طرح ُ کتوں ّکے دماغ میں سونگھنے کا حصہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ان کے سونگھنے کی حس انسان کے مقابلے میں سو گنا سے بھی زیادہ تیز ہے۔ بہرحال باقی صلاحیتیں تو دوسرے جانوروں میں بھی پائی جاتی ہیں ‘ لیکن بیان اور گویائی کی صلاحیت صرف اور صرف انسان کا طرئہ امتیاز ہے۔ اس تمہید کے بعد اب ان آیات کو دوبارہ پڑھئے۔ ان چار آیات سے تین جملے بنتے ہیں۔ پہلی آیت { اَلرَّحْمٰنُ۔ } جملہ نہیں ہے ‘ یہ مبتدأ ہے اور { عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ۔ } اس کی خبر ہے۔ چناچہ پہلی اور دوسری آیت کے ملنے سے مکمل جملہ بنتا ہے۔ یعنی ” رحمن نے قرآن سکھایا “۔ اس کے بعد آیت 3 { خَلَقَ الْاِنْسَانَ۔ } ” اس نے انسان کو پیدا کیا “ بھی مکمل جملہ ہے اور آیت 4 { عَلَّمَہُ الْبَیَانَ۔ } ” اسے بیان کی صلاحیت عطا کی “ بھی مکمل جملہ ہے۔___ اب ان آیات پر اس پہلو سے غور کیجیے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے اعلیٰ نام کے حوالے سے سب سے اعلیٰ علم قرآن کا ذکر کیا۔ پھر اپنی چوٹی کی مخلوق اور اس مخلوق کی چوٹی کی صلاحیت بیان کا ذکر کیا۔ اس زاویے سے غور کیا جائے تو یہ تین جملے ریاضی کے کسی سوال کی طرح ” جواب “ کا تقاضا کرتے نظر آتے ہیں۔ چناچہ جس طرح ریاضی کے ” نسبت و تناسب “ کے سوالات میں تین رقموں values کی مدد سے چوتھی رقم معلوم کی جاتی ہے ‘ اسی طرح ان تین جملوں پر غور کرنے سے اس عبارت کے اصل مدعا تک پہنچا جاسکتا ہے۔ ” رحمن نے قرآن سکھایا۔ اس نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بیان کی صلاحیت عطا فرمائی “۔ کس لیے ؟۔ -۔ جواب بالکل واضح ہے : ” قرآن کے بیان کے لیے ! “ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی اعلیٰ ترین مخلوق کو ” بیان “ کی انمول صلاحیت سے اس لیے تو نہیں نوازا کہ وہ اسے لہو و لعب میں ضائع کرتا پھرے ‘ یا دلائل کے انبار لگانے والا وکیل یا شعلہ بیان مقرر بن کر اسے حصول دولت و شہرت کا ذریعہ بنا لے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ توپ اس لیے تو نہیں بنائی جاتی کہ اس سے مکھیاں ماری جائیں۔ چناچہ انسان کی اس بہترین صلاحیت کا بہترین مصرف یہ ہوگا کہ وہ اسے بہترین علم کے سیکھنے سکھانے کا ذریعہ بنائے۔ یعنی اپنی قوت بیان کو قرآن کی تعلیم اور نشرواشاعت کے لیے وقف کر دے۔ ان آیات کے اس مفہوم کو حضور ﷺ کے اس فرمان کی روشنی میں بہتر انداز میں سمجھا جاسکتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ 1 یہاں خَیْرُکُمْ کا صیغہ تفضیل کل superlative degree کے مفہوم میں آیا ہے کہ تم سب میں بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ اس حدیث کے حوالے سے ضمنی طور پر یہاں یہ نکتہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ اس کے راوی حضرت عثمان بن عفان رض کے نام اور حدیث کے لفظ ” قرآن “ کے قافیے بھی زیر مطالعہ آیات کے قافیوں کے ساتھ مل رہے ہیں۔ یعنی ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے اس حدیث کی ان آیات کے ساتھ خصوصی نسبت ہے۔ سورة الرحمن کی ان ابتدائی آیات کا مطالعہ کرتے ہوئے اگر سورة القمر کی ترجیعی آیت { وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ …} کے مفہوم اور اس کے پرشکوہ اسلوب کو بھی مدنظر رکھا جائے اور ان آیات کی ترتیب پر بھی غور کیا جائے کہ سورة القمر کی مذکورہ آیت کو باربار دہرانے کے فوراً بعد سورة الرحمن کی یہ آیات آئی ہیں تو ان آیات کا مذکورہ مفہوم واضح تر ہوجاتا ہے۔ بہرحال ان آیات کے بین السطور یہ پیغام بھی مضمر ہے کہ انسانوں پر اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کا حق ادا کرنا لازم ہے۔

علمه البيان

سورة: الرحمن - آية: ( 4 )  - جزء: ( 27 )  -  صفحة: ( 531 )

Surah rahman Ayat 4 meaning in urdu

اور اسے بولنا سکھایا


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اور تم اس وقت کی (حالت کو) دیکھا کرتے ہو
  2. (بھلا ان سے عہد) کیونکر (پورا کیا جائے جب ان کا یہ حال ہے) کہ
  3. اور یہ کہ ہم میں سے بعض بےوقوف خدا کے بارے میں جھوٹ افتراء کرتا
  4. امید ہے کہ ہمارا پروردگار اس کے بدلے میں ہمیں اس سے بہتر باغ عنایت
  5. اور جو لوگ خدا (کے بارے) میں بعد اس کے کہ اسے (مومنوں نے) مان
  6. سو ان کو عذاب نے آن پکڑا۔ بےشک اس میں نشانی ہے۔ اور ان میں
  7. مومنو! جب (کفار کی) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور
  8. اور کھیتیاں اور کھجوریں جن کے خوشے لطیف ونازک ہوتے ہیں
  9. جن لوگوں نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے میدان میں
  10. اور کہتے ہیں کہ اگر ہم تمہارے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو اپنے ملک

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah rahman with the voice of the most famous Quran reciters :

surah rahman mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter rahman Complete with high quality
surah rahman Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah rahman Bandar Balila
Bandar Balila
surah rahman Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah rahman Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah rahman Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah rahman Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah rahman Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah rahman Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah rahman Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah rahman Fares Abbad
Fares Abbad
surah rahman Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah rahman Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah rahman Al Hosary
Al Hosary
surah rahman Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah rahman Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Sunday, November 24, 2024

Please remember us in your sincere prayers