Surah Al Ala Ayat 4 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعَىٰ﴾
[ الأعلى: 4]
اور جس نے چارہ اگایا
Surah Al Ala UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مسند احمد میں ہے عقبہ بن عامر جہنی ؓ فرماتے ہیں کہ جب آیت ( فَسَبِّحْ باسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ 74ۧ ) 56۔ الواقعة :74) اتری تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسے تم اپنے رکوع میں کرلو جب آیت ( سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى ۙ ) 87۔ الأعلی :1) اتری تو آپ نے فرمایا اسے اپنے سجدے میں کرلو ابو داؤد وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ آیت ( سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى ۙ ) 87۔ الأعلی :1) پڑھتے تو کہتے سبحان ربی الاعلی حضرت علی سے بھی یہ مروی ہے حضرت ابن عباس ؓ سے بھی یہ مروی ہے اور آپ جب آیت ( لا اقسم بیوم القیامۃ ) پڑھتے اور آخری آیت ( اَلَيْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى 40 ) 75۔ القیامة :40) پر پہنچتے تو فرماتے سبحانک و بلی اللہ تعالیٰ یہاں ارشاد فرماتا ہے اپنے بلندیوں والے پرورش کرنے والے اللہ کے پاک نام کی پاکیزگی اور تسبیح بیان کرو جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا اور سب کو اچھی ہیئت بخشی انسان کو سعادت شقاوت کے چہرے دکھا دئیے اور جانور کو چرنے چگنے وغیرہ کے سامان مہیا کیے جیسے اور جگہ ہے آیت ( رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى 50 ) 20۔ طه:50) یعنی ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی پیدائش عطا فرمائی پھر رہبری کی صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ زمین آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی تقدیر لکھی اس کا عرش پانی پر تھا جس نے ہر قسم کے نباتات اور کھیت نکالے پھر ان سرسبز چاروں کو خشک اور سیاہ رنگ کردیا بعض عارفان کلام عرب نے کہا ہے کہ یہاں بعض الفاظ جو ذکر میں موخر ہیں معنی کے لحاظ سے مقدم ہیں یعنی مطلب یہ ہے کہ جس نے گھاس چارہ سبز رنگ سیاہی مائل پیدا کیا پھر اسے خشک کردیا گویہ معنی بھی بن سکتے ہیں لیکن کچھ زیادہ ٹھیک نظر نہیں آتے کیونکہ مفسرین کے اقوال کے خلاف ہیں پھر فرماتا ہے کہ تجھے ہم اے محمد ﷺ ایسا پڑھائیں گے جسے تو بھولے نہیں ہاں اگر خود اللہ کوئی آیت بھلا دینا چاہے تو اور بات ہے امام ابن جریر تو اسی مطلب کو پسند کرتے ہیں اور مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ جو قرآن ہم تجھے پڑھاتے ہیں اسے نہ بھول ہاں جسے ہم خود منسوخ کردیں اس کی اور بات ہے اللہ پر بندوں کے چھپے کھلے اعمال احوال عقائد سب ظاہر ہیں ہم تجھ پر بھلائی کے کام اچھی باتیں شرعی امر آسان کردیں گے نہ اس میں کجی ہوگی نہ سختی نہ جرم ہوگا تو نصیحت کر اگر نصیحت فائدے دے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نالائقوں کو نہ سکھانا چاہیے جیسے کہ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ اگر تم دوسروں کے ساتھ وہ باتیں کرو گے جو ان کی عقل میں نہ آسکیں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہاری بھلی باتیں ان کے لیے بری بن جائیں گی اور باعث فتنہ ہوجائیں گی بلکہ لوگوں سے ان کی سمجھ کے مطابق بات چیت کرو تاکہ لوگ اللہ اور رسول کو نہ جھٹلائیں۔ پھر فرمایا کہ اس سے نصیحت وہ حاصل کریگا جس کے دل میں اللہ کا خوف ہے جو اس کی ملاقات پر یقین رکھتا ہے اور اس سے وہ عبرت و نصیحت حاصل نہیں کرسکتا جو بدبخت ہو جو جہنم میں جانے والا ہو جہاں نہ تو راحت کی زندگی ہے نہ بھلی موت ہے بلکہ وہ لازوال عذاب اور دائمی برائی ہے اس میں طرح طرح کے عذاب اور بدترین سزائیں ہیں مسند احمد میں ہے کہ جو اصلی جہنمی ہیں انہیں نہ تو موت آئیگی نہ کار آمد زندگی ملے گی ہاں جن کے ساتھ اللہ کا ارادہ رحمت کا ہے وہ آگ میں گرتے ہی جل کر مرجائیں گے پھر سفارشی لوگ جائیں گے اور ان میں سے اکثر کو چھڑا لائیں گے پھر نہر حیاۃ میں ڈال دئیے جائیں گے جنتی نہروں کا پانی ان پر ڈالا جائیگا اور وہ اس طرح جی اٹھیں گے جس طرح دانہ نالی کے کنارے کوڑے پر اگ آتا ہے کہ پہلے سبز ہوتا ہے پھر زرد پھر ہرا لوگ کہنے لگے حضور ﷺ تو اس طرح بیان فرماتے ہیں جیسے آپ جنگل سے واقف ہوں یہ حدیث مختلف الفاظ سے بہت سی کتب میں مروی ہے قرآن کریم میں اور جگہ وارد ہے آیت ( وَنَادَوْا يٰمٰلِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ ۭ قَالَ اِنَّكُمْ مّٰكِثُوْنَ 77 ) 43۔ الزخرف:77) یعنی جہنمی لوگ پکار پکار کر کہیں گے کہ اے مالک داروغہ جہنم اللہ سے کہہ وہ ہمیں موت دے دے جواب ملے گا تم تو اب اسی میں پڑے رہنے والے ہو اور جگہ ہے آیت ( لَا يُقْضٰى عَلَيْهِمْ فَيَمُوْتُوْا وَلَا يُخَـفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِيْ كُلَّ كَفُوْرٍ 36ۚ ) 35۔ فاطر:36) یعنی نہ تو ان کی موت آئیگی نہ عذاب کم ہوں گے اس معنی کی آیتیں اور بھی ہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 2 ‘ 3{ الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی - وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَہَدٰی۔ } ” جس نے ہر چیز کو پیدا کیا ‘ پھر تناسب قائم کیا۔ اور جس نے ہر شے کا اندازہ مقرر کیا ‘ پھر اسے فطری ہدایت عطا فرمائی۔ “ ان چار الفاظ خَلَقَ ‘ فَسَوّٰی ‘ قَدَّرَ ‘ فَھَدٰی میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا بیان بھی ہے اور تخلیقی عمل کے مختلف مراحل کا ذکر بھی۔ اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق کے حوالے سے تین اسمائے حسنیٰ اَلْخَالِقُ ‘ اَلْـبَارِیٔ‘ اَلْمُصَوِّرُ کا ایک ساتھ ذکر قبل ازیں سورة الحشر کی آخری آیت میں بھی آچکا ہے۔ سورة الحشر کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی یہ تین صفات ایک خاص منطقی ترتیب سے بیان ہوئی ہیں۔ یہ ترتیب دراصل تخلیقی عمل کے مرحلہ وار ارتقاء کی نشاندہی کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب سے پہلے کسی چیز کا نقشہ یا نمونہ بناتا ہے ‘ اس لحاظ سے وہ اَلْخَالِقُہے۔ پھر وہ مطلوبہ چیز کو طے شدہ نمونے کے مطابق عدم سے عالم وجود میں ظاہر فرماتا ہے ‘ اس اعتبار سے وہ اَلْـبَارِیہے۔ تیسرے مرحلے میں وہ اس تخلیق کو ظاہری صورت یا شکل عطا فرماتا ہے ‘ اس مفہوم میں وہ اَلْمُصَوِّرُہے۔ سورة الحشر کی مذکورہ آیت میں تخلیقی عمل کے جن تین مراحل کا ذکر ہوا ہے ان کا تعلق چیزوں کے ظاہری یا مادی وجود سے ہے ‘ جبکہ زیر مطالعہ آیات میں مادی وجود کی تخلیق کے ساتھ ساتھ چیزوں کے باطنی خصائص کی تخلیق کا ذکر بھی ہے۔ خَلَقَ فَسَوّٰیکے الفاظ میں چیزوں کے مادی وجود کی تخلیق کے مراحل کا بیان ہے ‘ جبکہ قَدَّرَ فَھَدٰی کے الفاظ کسی تخلیق کے باطنی پہلوئوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اب ہم ان الفاظ کے معانی و مفہوم کو انسانی ماحول کی مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چناچہ پہلے دو مراحل تخلیق اور تسویہ کو ایک عمارت کی مثال کے حوالے سے یوں سمجھئے کہ کسی عمارت کا ڈھانچہ کھڑا کردینا اس کی ” تخلیق “ ہے ‘ جبکہ اس کو سجانا ‘ سنوارنا finishing وغیرہ اس کا ” تسویہ “ ہے۔ تخلیق کا تیسرا مرحلہ جس کا یہاں ذکر ہوا ہے وہ ” قدر “ ہے۔ قدر کے لغوی معنی اندازہ مقرر کرنے کے ہیں ‘ جسے عرفِ عام میں ہمارے ہاں تقدیر کہا جاتا ہے۔ اس مفہوم میں کسی تخلیق کے معیار ‘ اس کی صلاحیت ‘ استعداد اور حدود limitations سمیت جملہ خصوصیات کو اس کی قدر یا تقدیر کہا جائے گا۔ مثلاً انسان اشرف المخلوقات تو ہے لیکن وہ ہوا میں اڑنے سے معذور ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک چھوٹی سی چڑیا آسانی سے ہوا میں اڑتی پھرتی ہے۔ تو گویا ہوا میں اڑنے کی یہ صلاحیت رکھنا چڑیا کی تقدیر کا خاصہ ہے اور اس اعتبار سے معذور ہونا انسان کی تقدیر کا حصہ ہے۔ اس کے بعد تخلیق کے اگلے مرحلے کے طور پر یہاں ” ہدایت “ کا ذکر آیا ہے۔ اس سے مراد وہ فطری اور جبلی ہدایت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر مخلوق کو پیدائشی طور پر عطا کر رکھی ہے۔ اسی ” ہدایت “ کی روشنی میں بکری کو معلوم ہوا ہے کہ اسے گھاس کھانا ہے اور شیر جانتا ہے کہ اس کی غذا گوشت ہے۔ غرض ہر جاندار اپنی زندگی اسی طریقے اور اسی لائحہ عمل کے مطابق گزار رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے طے کردیا ہے۔ تخلیق کے ان چار مراحل کے حوالے سے اگر ہم انسانی زندگی کا جائزہ لیں تو پہلے دو مراحل یعنی تخلیق اور تسویہ کے اعتبار سے تو انسان میں اور اللہ تعالیٰ کی دوسری مخلوقات میں کوئی فرق نہیں۔ لیکن اگلے دو مراحل تقدیر اور ہدایت کے حوالے سے انسان کا معاملہ دوسری مخلوقات سے الگ ہے۔ اس لحاظ سے ہر انسان کی قدر ‘ صلاحیت اور استعداد اللہ تعالیٰ کے ہاں دو طرح سے طے پاتی ہے۔ اس کا ایک پہلو یا ایک حصہ تو وہ ہے جو اسے پیدائشی طور پر جینز genes کی صورت میں عطا ہوا given ہے اور دوسرا پہلو یا دوسرا حصہ اس کے ماحول کا ہے جس میں وہ آنکھ کھولتا اور پرورش پاتا ہے۔ ان دونوں پہلوئوں کے اچھے برے اور مثبت و منفی عوامل کے ملنے سے ہر انسان کی شخصیت کا ایک سانچہ تیار ہوتا ہے جسے سورة بنی اسرائیل کی آیت 84 میں ” شاکلہ “ کا نام دیا گیا ہے۔ سورئہ بنی اسرائیل کی اس آیت کے تحت اس اصطلاح کی وضاحت کی جا چکی ہے۔ اسی سانچہ یا شاکلہ سے ہر انسان کی استعداد کی حدود متعین ہوتی ہیں۔ اور کوئی انسان انگریزی محاورہ " one cannot out grow ones skin" کوئی انسان اپنی کھال سے باہر نہیں نکل سکتا کے مصداق ان حدود سے تجاوز نہیں کرسکتا۔ ہر انسان نیکی کرے گا تو اپنی اسی استعداد کے مطابق کرے گا اور اگر برائی کمائے گا تو انہی حدود کے اندر رہ کر ایسا کرے گا۔ غرض ہر انسان کی عملی زندگی کی ساری محنت ‘ کوشش اور بھاگ دوڑ اپنے شاکلہ کے مطابق ہی ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی جانچ evaluation بھی اسی حوالے سے کی جائے گی۔ مثلاً ایک شخص کی صلاحیت پچاس درجے تک پہنچنے کی تھی ‘ اگر وہ چالیس درجے تک پہنچ گیا تو ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ کامیاب قرار پائے۔ اس کے مقابلے میں ایک دوسرا شخص جو سو درجے تک جانے کی استعداد رکھتا تھا ‘ وہ ممکن ہے پچاس درجے تک پہنچنے کے بعد بھی ناکام رہے۔ بہرحال اس حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ایک اصول طے فرمادیا کہ { لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَاط } البقرۃ : 286 ” اللہ تعالیٰ نہیں ذمہ دار ٹھہرائے گا کسی جان کو مگر اس کی وسعت کے مطابق۔ “ اسی طرح انسان کی ” ہدایت “ کے بھی دو درجے ہیں۔ پہلا درجہ تو جبلی ہدایت کا ہے۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر مخلوق کو جبلی ہدایت سے نواز رکھا ہے اسی طرح اس نے ہر انسان کو بھی فطری اور جبلی طور پر ہدایت کا ایک حصہ عطا فرمایا ہے۔ جبکہ انسان کی ہدایت کا دوسرا حصہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے وحی کے ذریعے عطا فرمایا ہے۔ یعنی انسان کی فطرت میں پہلے سے ودیعت شدہ بنیادی ہدایت کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پیغمبر بھی بھیجے اور کتابیں بھی نازل کیں۔
Surah Al Ala Ayat 4 meaning in urdu
جس نے نباتات اگائیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- وہ تو صرف ایک چنگھاڑ تھی (آتشین) سو وہ (اس سے) ناگہاں بجھ کر رہ
- اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کردو (وہ ایسی ہے) جیسے
- جب انہوں نے (اپنی رسیوں اور لاٹھیوں کو) ڈالا تو موسیٰ نے کہا کہ جو
- اوراگر ہم آسمان کا کوئی دروازہ اُن پر کھول دیں اور وہ اس میں چڑھنے
- اور دوزخ اس دن حاضر کی جائے گی تو انسان اس دن متنبہ ہو گا
- ہم گنہگاروں کے ساتھ ایسا ہی کیا کرتے ہیں
- آج یہاں تمہارے پاس کوئی فقیر نہ آنے پائے
- کہ خندقوں (کے کھودنے) والے ہلاک کر دیئے گئے
- کہہ دو کہ خدا نے سچ فرمایا دیا پس دین ابراہیم کی پیروی کرو جو
- اور ان سے گاؤں والوں کا قصہ بیان کرو جب ان کے پاس پیغمبر آئے
Quran surahs in English :
Download surah Al Ala with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Ala mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Ala Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers