Surah taha Ayat 40 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿إِذْ تَمْشِي أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ مَن يَكْفُلُهُ ۖ فَرَجَعْنَاكَ إِلَىٰ أُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ ۚ وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا ۚ فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلَىٰ قَدَرٍ يَا مُوسَىٰ﴾
[ طه: 40]
جب تمہاری بہن (فرعون کے ہاں) گئی اور کہنے لگی کہ میں تمہیں ایسا شخص بتاؤں جو اس کو پالے۔ تو (اس طریق سے) ہم نے تم کو تمہاری ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ رنج نہ کریں۔ اور تم نے ایک شخص کو مار ڈالا تو ہم نے تم کو غم سے مخلصی دی اور ہم نے تمہاری (کئی بار) آزمائش کی۔ پھر تم کئی سال اہل مدین میں ٹھہرے رہے۔ پھر اے موسیٰ تم (قابلیت رسالت کے) اندازے پر آ پہنچے
Surah taha Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یہ اس وقت ہوا، جب ماں نے تابوت دریا میں پھینک دیا تو بیٹی سے کہا، ذرا دیکھتی رہو، یہ کہاں کنارے لگتا ہے اور اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے؟ جب اللہ کی مشیت سے موسیٰ ( عليه السلام ) فرعون کے محل میں پہنچ گئے، شیرخوارگی کا عالم تھا، چنانچہ دودھ پلانے والی عورتوں اور آیاؤں کو بلایا گیا لیکن موسیٰ ( عليه السلام ) کسی کا دودھ نہ پیتے موسیٰ ( عليه السلام ) کی بہن خاموشی سے سارا منظر دیکھ رہی تھی، بالآخر اس نے کہا میں تمہیں ایسی عورت بتاتی ہوں جو تمہاری یہ مشکل دور کر دے گی، انہوں نے کہا ٹھیک ہے، چنانچہ وہ اپنی ماں کو، جو موسیٰ ( عليه السلام ) کی بھی ماں تھی، بلا لائی، جب ماں نے بیٹے کو چھاتی سے لگایا تو موسیٰ ( عليه السلام ) نے اللہ کی تدبیر و مشیت سے غٹا غٹ دودھ پینا شروع کر دیا۔
( 2 ) یہ ایک دوسرے احسان کا ذکر ہے، جب موسیٰ ( عليه السلام ) سے غیر ارادی طور پر ایک فرعونی کو صرف گھونسہ مارنے سے مر گیا، جس کا ذکر سورہ قصص میں آئے گا۔
( 3 ) فُتُونٌ دخول اور خروج کی طرح مصدر ہے یعنی ابْتَلَيْنَاكَ ابْتِلاء ً یعنی ہم نے تجھے خوب آزمایا۔ یا یہ جمع ہے فتنہ کی جیسے حُجْرَةٌ کی حُجُورٌاور بَدْرٌ کی بُدُورٌکی جمع ہے یعنی ہم نے تجھے کئی مرتبہ یا بار بار آزمایا یا آزمائشوں سے نکالا مثلا جو سال بچوں کے قتل کا تھا تجھے پیدا کیا تیری ماں نے تجھے سمندر کی موجوں کے سپرد کر دیا تمام دایاؤں کا دودھ تجھ پر حرام کر دیا تو نے فرعون کی داڑھی پکڑ لی تھی جس پر اس نے تیرے قتل کا ارادہ کر لیا تھا تیرے ہاتھوں قبطی کا قتل ہوگیا وغیرہ ان تمام مواقع آزمائش میں ہم ہی تیری مدد اور چارہ سازی کرتے رہے۔
( 4 ) یعنی فرعونی کے غیر ارادی قتل کے بعد تو یہاں سے نکل کر مدین چلا گیا اور وہاں کئی سال رہا۔
( 5 ) یعنی ایسے وقت میں تو آیا جو وقت میں نے اپنے فیصلے اور تقدیر میں تجھ سے ہم کلامی اور نبوت کے لئے لکھا ہوا تھا۔ یا قَدَرٍ سے مراد، عمر ہے یعنی عمر کے اس مرحلے میں آیا جو نبوت کے لئے موزوں ہے۔ یعنی چالیس سال کی عمر میں۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
اس بات نے بنی اسرائیل کے کئی فرقے کردیئے۔ ایک فرقے نے تو کہا حضرت موسیٰ ؑ کے آنے تک ہم اس کی بابت کوئی بات طے نہیں کرسکتے ممکن ہے یہی اللہ ہو تو ہم اس کی بےادبی کیوں کریں ؟ اور اگر یہ رب نہیں ہے تو موسیٰ ؑ کے آتے ہی حقیقت کھل جائے گی۔ دوسری جماعت نے کہا محض واہیات ہے یہ شیطانی حرکت ہے ہم اس لغویت پر مطلقاً ایمان نہیں رکھتے نہ یہ ہمارا رب نہ ہمارا اس پر ایمان۔ ایک پاجی فرقے نے دل سے اسے مان لیا اور سامری کی بات پر ایمان لائے مگر بہ ظاہر اس کی بات کو جھٹلایا۔ حضرت ہارون ؑ نے اسی وقت سب کو جمع کر کے فرمایا کہ لوگو یہ اللہ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہے تم اس جھگڑے میں کہاں پھنس گئے تمہارا رب تو رحمان ہے تم میری اتباع کرو اور میرا کہنا مانو۔ انہوں نے کہا آخر اس کی کیا وجہ کہ تیس دن کا وعدہ کر کے حضرت موسیٰ ؑ گئے ہیں اور آج چالیس دن ہونے کو آئے لیکن اب تک لوٹے نہیں۔ بعض بیوقوفوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ان سے ان کا رب خطا کر گیا اب یہ اس کی تلاش میں ہوں گے۔ ادھر دس روزے اور پورے ہونے کے بعد حضرت موسیٰ ؑ کو اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا آپ کو بتایا گیا کہ آپ کے بعد آپ کی قوم کا اس وقت کیا حال ہے آپ اسی وقت رنج و افسوس اور غم و غصے کے ساتھ واپس لوٹے اور یہاں آ کر قوم سے بہت کچھ کہا سنا اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر گھسیٹنے لگے غصے کی زیادتی کی وجہ سے تختیاں بھی ہاتھ سے پھینک دیں پھر اصل حقیقت معلوم ہوجانے پر آپ نے اپنے بھائی سے معذرت کی ان کے لئے استغفار کیا اور سامری کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے کہ تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس نے جواب دیا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے کے پاؤں تلے سے میں نے ایک مٹھی اٹھالی یہ لوگ اسے نہ پہچان سکے اور میں نے جان لیا تھا۔ میں نے وہی مٹھی اس آگ میں ڈال دی تھی میرے رائے میں یہی بات آئی۔ آپ نے فرمایا جا اس کی سزا دنیا میں تو یہ ہے کہ تو یہی کہتا رہے کہ " ہاتھ لگانا نہیں " پھر ایک وعدے کا وقت ہے جس کا ٹلنا ناممکن ہے اور تیرے دیکھتے دیکھتے ہم تیرے اس معبود کو جلا کر اس کی خاک بھی دریا میں بہا دیں گے۔ چناچہ آپ نے یہی کیا اس وقت بنی اسرائیل کو یقین آگیا کہ واقعی وہ اللہ نہ تھا۔ اب وہ بڑے نادم ہوئے اور سوائے ان مسلمانوں کے جو حضرت ہارون ؑ کے ہم عقیدہ رہے تھے باقی کے لوگوں نے عذر معذرت کی اور کہا کہ اے اللہ کے نبی اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمارے لئے توبہ کا دروازہ کھول دے جو وہ فرمائے گا ہم بجا لائیں گے تاکہ ہماری یہ زبردست خطا معاف ہوجائے آپ نے بنی اسرائیل کے اس گروہ میں سے ستر لوگوں کو چھانٹ کر علیحدہ کیا اور توبہ کے لئے چلے وہاں زمین پھٹ گئی اور آپ کے سب ساتھی اس میں اتار دیئے گئے۔ حضرت موسیٰ ؑ کو فکر لاحق ہوا کہ میں بنی اسرائیل کو کیا منہ دکھاؤں گا ؟ گریہ وزاری شروع کی اور دعا کی کہ اے اللہ اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے ہی مجھے اور ان سب کو ہلاک کردیتا ہمارے بیوقوفوں کے گناہ کے بدلے تو ہمیں ہلاک نہ کر۔ آپ تو ان کے ظاہر کو دیکھ رہے تھے اور اللہ کی نظریں ان کے باطن پر تھیں ان میں ایسے بھی تھے جو بہ ظاہر مسلمان بنے ہوئے تھے لیکن دراصل ولی عقیدہ ان کا اس بچھڑے کے رب ہونے پر تھا ان ہی منافقین کی وجہ سے سب کو تہ زمین کردیا گیا تھا۔ نبی اللہ کی اس آہ وزاری پر رحمت الٰہی جوش میں آئی اور جواب ملا کہ یوں تو میری رحمت سب پر چھائے ہوئے ہے لیکن میں اسے ان کے نام ہبہ کروں گا جو متقی پرہیزگار ہوں، زکوٰۃ کے ادا کرنے والے ہوں، میری باتوں پر ایمان لائیں اور میرے اس رسول و نبی کی اتباع کریں جس کے اوصاف وہ اپنی کتابوں میں لکھے پاتے ہیں یعنی توراۃ انجیل میں۔ حضرت کلیم اللہ علیہ صلوات اللہ نے عرض کی کہ بار الہی میں نے اپنی قوم کے لئے توبہ طلب کی، تو نے جواب دیا کہ تو اپنی رحمت کو ان کے ساتھ کر دے گا جو آگے آنے والے ہیں پھر اللہ مجھے بھی تو اپنی اسی رحمت والے نبی کی امت میں پیدا کرتا۔ رب العالمین نے فرمایا سنو ان کی توبہ اس وقت قبول ہوگی کہ یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کردیں نہ باپ بیٹے کو دیکھے نہ بیٹا باپ کو چھوڑے آپس میں گتھ جائیں اور ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کردیں۔ چناچہ بنو اسرائیل نے یہی کیا اور جو منافق لوگ تھے انہوں نے بھی سچے دل سے توبہ کی اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی جو بچ گئے تھے وہ بھی بخشے گئے جو قتل ہوئے وہ بھی بخش دیئے گئے۔ حضرت موسیٰ ؑ اب یہاں سے بیت المقدس کی طرف چلے۔ توراۃ کی تختیاں اپنے ساتھ لیں اور انہیں احکام الٰہی سنائے جو ان پر بہت بھاری پڑے اور انہوں نے صاف انکار کردیا۔ چناچہ ایک پہاڑ ان کے سروں پر معلق کھڑا کردیا گیا وہ مثل سائبان کے سروں پر تھا اور ہر دم ڈر تھا کہ اب گرا انہوں نے اب اقرار کیا اور تورات قبول کرلی پہاڑ ہٹ گیا۔ اس پاک زمین پر پہنچے جہاں کلیم اللہ انہیں لے جانا چاہتے تھے دیکھا کہ وہاں ایک بڑی طاقتور زبردست قوم کا قبضہ ہے تو حضرت موسیٰ ؑ کے سامنے نہایت نامردی سے کہا کہ یہاں تو بڑی زور آور قوم ہے ہم میں ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں یہ نکل جائیں تو ہم شہر میں داخل ہوسکتے ہیں۔ یہ تو یونہی نامردی اور بزدلی ظاہر کرتے رہے ادھر اللہ تعالیٰ نے ان سرکشوں میں سے دو شخصوں کو ہدایات دے دی وہ شہر سے نکل کر حضرت موسیٰ ؑ کی قوم میں آ ملے اور انہیں سمجھانے لگے کہ تم ان کے جسموں اور تعداد سے مرعوب نہ ہوجاؤ یہ لوگ بہادر نہیں ان کے دل گردے کمزور ہیں تم آگے تو بڑھو ان کے شہر کے دروازے میں گئے اور ان کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے ہوئے یقیناً تم ان پر غالب آجاؤ گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ دونوں شخص جنہوں نے بنی اسرائیل کو سمجھایا اور انہیں دلیر بنایا خود بنی اسرایئل میں سے ہی تھے واللہ اعلم۔ لیکن ان کے سمجھانے بجھانے اللہ کے حکم ہوجانے اور حضرت موسیٰ ؑ کے وعدے نے بھی ان پر کوئی اثر نہ کیا بلکہ انہوں نے صاف کو را جواب دے دیا کہ جب تک یہ لوگ شہر میں ہیں ہم تو یہاں سے اٹھنے کے بھی نہیں موسیٰ ؑ تو آپ اپنے رب کو اپنے ساتھ لے کر چلا جا اور ان سے لڑ بھڑ لے ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اب تو حضرت موسیٰ ؑ سے صبر نہ ہوسکا آپ کے منہ سے ان بزدلوں اور ناقدروں کے حق میں بد دعا نکل گئی اور آپ نے ان کا نام فاسق رکھ دیا۔ اللہ کی طرف سے بھی ان کا یہی نام مقرر ہوگیا اور انہیں اسی میدان میں قدرتی طور پر قید کردیا گیا چالیس سال انہیں یہیں گزر گئے کہیں قرار نہ تھا اسی بیاباں میں پریشانی کے ساتھ بھٹکتے پھرتے تھے اسی میدان قید میں ان پر ابر کا سایہ کردیا گیا اور من وسلویٰ اتار دیا گیا کپڑے نہ پھٹتے تھے نہ میلے ہوتے تھے ایک چوکونہ پتھر رکھا ہوا تھا جس پر حضرت موسیٰ ؑ نے لکڑی ماری تو اس میں سے بارہ نہریں جاری ہوگئیں ہر طرف سے تین تین لوگ چلتے چلتے آگے بڑھ جاتے تھک کر قیام کردیتے، صبح اٹھتے تو دیکھتے کہ وہ پتھر وہیں ہے جہاں کل تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اس حدیث کو مرفوع بیان کیا ہے۔ حضرت معاویہ ؓ نے جب یہ روایت ابن عباس ؓ سے سنی تو فرمایا کہ اس فرعونی نے حضرت موسیٰ ؑ کے اگلے دن کے قتل کی خبر رسانی کی تھی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کیونکہ قبطی کے قتل کے وقت سوائے اس بنی اسرایئل ایک شخص کے جو قبطی سے لڑ رہا رہا تھا وہاں کوئی اور نہ تھا اس پر حضرت ابن عباس ؓ بہت بگڑے اور حضرت معاویہ ؓ کا ہاتھ تھام کر حضرت سعد بن مالک ؓ کے پاس لے گئے اور ان سے کہا آپ کو یاد ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہم سے اس شخص کا حال بیان فرمایا تھا جس نے حضرت موسیٰ کے قتل کے راز کو کھولا تھا بتاؤ وہ بنی اسرائیل شخص تھا یا فرعونی ؟ حضرت سعد ؓ نے فرمایا بنی اسرائیل سے اس فرعونی نے سنا پھر اس نے جا کر حکومت سے کہا اور خود اس کا شاہد بنا ( سنن کبری نسائی ) یہی روایت اور کتابوں میں بھی ہے حضرت ابن عباس ؓ کے اپنے کلام سے بہت تھوڑا سا حصہ مرفوع بیان کیا گیا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ آپ نے بنو اسرائیل میں سے کسی سے یہ روایت لی ہو کیونکہ ان سے روایتیں لینا مباح ہیں۔ یا تو آپ نے حضرت کعب احبار ؓ سے ہی یہ روایت سنی ہوگی اور ممکن ہے کسی اور سے سنی ہو۔ واللہ اعلم۔ میں نے اپنے استاد شیخ حافظ ابو الحجاج مزی ؒ سے بھی یہی سنا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 40 اِذْ تَمْشِیْٓ اُخْتُکَ ”اور وہ چلتے چلتے فرعون کے محل تک پہنچ گئی جہاں بچے کو فوری طور پر دودھ پلانے کے انتظامات کیے جا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کسی بھی عورت کا دودھ پینے سے منع کردیا تھا۔ جب بہت سی عورتیں بلائی گئیں اور وہ سب کی سب آپ علیہ السلام کو دودھ پلانے میں ناکام رہیں تو آپ علیہ السلام کی بہن جو یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی بول پڑی :فَتَقُوْلُ ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی مَنْ یَّکْفُلُہٗ ط ”آپ علیہ السلام کی بہن نے اپنی ہی والدہ کے بارے میں ان لوگوں کو مشورہ دیا۔ چناچہ جب آپ علیہ السلام کی والدہ کو بلایا گیا تو آپ علیہ السلام نے ان کا دودھ فوراً پی لیا۔فَرَجَعْنٰکَ الآی اُمِّکَ کَیْ تَقَرَّ عَیْنُہَا وَلَا تَحْزَنَ ط ”چنانچہ مامتا کی تسلی و تسکین کے لیے بچے کو واپس والدہ کی گود میں پہنچا دیا گیا۔ مقام غور ہے ! اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کے جذبات و احساسات کا کس حد تک پاس ہے۔ وَقَتَلْتَ نَفْسًا ”پھر جب آپ علیہ السلام جوان ہوئے اور مصر میں آپ علیہ السلام کے ہاتھوں ایک قبطی قتل ہوگیا :فَلَبِثْتَ سِنِیْنَ فِیْٓ اَہْلِ مَدْیَنَ ”آپ علیہ السلام کے مدین پہنچنے اور وہاں ٹھہرنے کے بارے میں تفصیل سورة القصص میں بیان ہوئی ہے۔ یہاں صرف اشارہ کیا گیا ہے۔ثُمَّ جِءْتَ عَلٰی قَدَرٍ یّٰمُوْسٰی ”یعنی اس وقت آپ علیہ السلام کا یہاں پہنچنا کسی حسن اتفاق کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک طے شدہ پروگرام کا حصہ ہے۔ میں نے آپ علیہ السلام کے سب معاملات کے متعلق باقاعدہ منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ آپ علیہ السلام نے اس سے پہلے جو کچھ کیا ‘ آپ علیہ السلام جہاں جہاں رہے ‘ یہ سب اس منصوبہ بندی کا حصہ تھا اور اب اسی منصوبہ بندی اور ایک طے شدہ فیصلے کے مطابق آپ علیہ السلام اس جگہ پہنچ گئے ہو۔
إذ تمشي أختك فتقول هل أدلكم على من يكفله فرجعناك إلى أمك كي تقر عينها ولا تحزن وقتلت نفسا فنجيناك من الغم وفتناك فتونا فلبثت سنين في أهل مدين ثم جئت على قدر ياموسى
سورة: طه - آية: ( 40 ) - جزء: ( 16 ) - صفحة: ( 314 )Surah taha Ayat 40 meaning in urdu
یاد کر جبکہ تیری بہن چل رہی تھی، پھر جا کر کہتی ہے، "میں تمہیں اُس کا پتہ دوں جو اِس بچے کی پرورش اچھی طرح کرے؟" اس طرح ہم نے تجھے پھر تیری ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ اُس کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہو اور (یہ بھی یاد کر کہ) تو نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا، ہم نے تجھے اِس پھندے سے نکالا اور تجھے مختلف آزمائشوں سے گزارا اور تو مَدیَن کے لوگوں میں کئی سال ٹھیرا رہا پھر اب ٹھیک اپنے وقت پر تو آ گیا ہے اے موسیٰؑ
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- جو باتیں یہ کریں گے ہم خوب جانتے ہیں۔ اس وقت ان میں سب سے
- پھر ہم نے ہوا کو ان کے زیرفرمان کردیا کہ جہاں وہ پہنچنا چاہتے ان
- اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جس طرح اور لوگ ایمان لے آئے،
- اور ان کو سیدھا رستہ دکھایا
- تو یہ کیوں خدا کے آگے توبہ نہیں کرتے اور اس سے گناہوں کی معافی
- اور کہتے ہیں کہ ان پر ان کے پروردگارکے پاس کوئی نشانی کیوں نازل نہیں
- اور ان سے پیشتر بہت سے لوگ بھی گمراہ ہوگئے تھے
- ان سے پوچھو کہ ان میں سے اس کا کون ذمہ لیتا ہے؟
- نصیحت کردیں اور ہم ظالم نہیں ہیں
- اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اورنہ اس کو (رشوةً) حاکموں کے پاس
Quran surahs in English :
Download surah taha with the voice of the most famous Quran reciters :
surah taha mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter taha Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers