Surah Al Hajj Ayat 40 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا ۗ وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾
[ الحج: 40]
یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے (انہوں نے کچھ قصور نہیں کیا) ہاں یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار خدا ہے۔ اور اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو (راہبوں کے) صومعے اور (عیسائیوں کے) گرجے اور (یہودیوں کے) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) مسجدیں جن میں خدا کا بہت سا ذکر کیا جاتا ہے ویران ہوچکی ہوتیں۔ اور جو شخص خدا کی مدد کرتا ہے خدا اس کی ضرور مدد کرتا ہے۔ بےشک خدا توانا اور غالب ہے
Surah Al Hajj UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
حکم جہاد صادرہوا ابن عباس ؓ کہتے ہیں جب حضور ﷺ اور آپ کے اصحاب مدینے سے بھی نکالے جانے لگے اور کفار مکہ سے چڑھ دوڑے تب جہاد کی اجازت کی یہ آیت اتری۔ بہت سے سلف سے منقول ہے کہ جہاد کی یہ پہلی آیت ہے جو قرآن میں اتری۔ اسی سے بعض بزرگوں نے استدلال کیا ہے کہ یہ سورت مدنی ہے۔ جب آنحضرت ﷺ نے مکہ شریف سے ہجرت کی ابوبکر ؓ کی زبان سے نکلا کہ افسوس ان کفار نے اللہ کے رسول ﷺ کو وطن سے نکالا یقینا یہ تباہ ہوں گے۔ پھر یہ آیت اتری تو صدیق ؓ نے جان لیا کہ جنگ ہو کر رہے گی۔ اللہ اپنے مومن بندوں کی مدد پر قادر ہے۔ اگر چاہے تو بےلڑے بھڑے انہیں غالب کردے لیکن وہ آزمانا چاہتا ہے اسی لئے حکم دیا کہ ان کفار کی گردنیں مارو۔ الخ، اور آیت میں ہے فرمایا آیت ( قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ 14 ۙ ) 9۔ التوبة:14) ان سے لڑو اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سزا دے گا اور رسوا کرے اور ان پر تمہیں غالب کرے گا اور مومنوں کے حوصلے نکالنے کا موقع دے گا کہ ان کے کلیجے ٹھنڈے ہوجائیں ساتھ ہی جسے چاہے گا توفیق توبہ دے گا اللہ علم وحکمت والا ہے۔ اور آیت میں ہے ( اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلَا رَسُوْلِهٖ وَلَا الْمُؤْمِنِيْنَ وَلِيْجَةً ۭ وَاللّٰهُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ 16ۧ ) 9۔ التوبة:16) یعنی کیا تم نے یہ سوچ رکھا ہے کہ تم چھوڑ دیئے جاؤ گے حالانکہ اب تک تو وہ کھل کر سامنے نہیں آئے جو مجاہد ہیں، اللہ، رسول اور مسلمانوں کے سوا کسی سے دوستی اور یگانگت نہیں کرتے۔ سمجھ لو کہ اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔ اور آیت میں ہے کیا تم نے یہ گمان کیا ہے کہ تم جنت میں چلے جاؤگے حالانکہ اب تک مجاہدین اور صابرین دوسروں سے ممتاز نہیں ہوئے۔ اور آیت میں فرمایا ہے آیت ( وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِيْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ ۙ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَكُمْ 31 ) 47۔ محمد:31) ہم تمہیں یقینا آزمائیں گے یہاں تک کہ تم میں سے غازی اور صبر کرنے والے ہمارے سامنے نمایاں ہوجائیں۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔ پھر فرمایا اللہ ان کی مدد پر قادر ہے۔ اور یہی ہوا بھی کہ اللہ نے اپنے لشکر کو دنیا پر غالب کردیا۔ جہاد کو شریعت نے جس وقت مشروع فرمایا وہ وقت بھی اس کے لئے بالکل مناسب اور نہایت ٹھیک تھا جب تک حضور ﷺ مکہ میں رہے مسلمان بہت ہی کمزور تھے تعداد میں بھی دس کے مقالبے میں ایک بمشکل بیٹھتا۔ چناچہ جب لیلتہ العقبہ میں انصاریوں نے رسول کریم ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی تو انہوں نے کہا کہ اگر حضور ﷺ حکم دیں تو اس وقت منیٰ میں جتنے مشرکین جمع ہیں ان پر شبخون ماریں۔ لیکن آپ نے فرمایا مجھے ابھی اس کا حکم نہیں دیا گیا۔ یہ یاد رہے کہ یہ بزرگ صرف اسی 0800 سے کچھ اوپر تھے۔ جب مشرکوں کی بغاوت بڑھ گئی، جب وہ سرکشی میں حد سے گزر گئے حضور ﷺ کو سخت ایذائیں دیتے دیتے اب آپ کے قتل کرنے کے درپے ہوگئے آپ کو جلاوطن کرنے کے منصوبے گانٹھنے لگے۔ اسی طرح صحابہ کرام پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑ دیئے۔ بیک بینی و دوگوش وطن مال اسباب، اپنوں غیروں کو چھوڑ کر جہاں جس کا موقعہ بنا گھبرا کر چل دیا کچھ تو حبشہ پہنچے کچھ مدینے گئے۔ یہاں تک کہ خود آفتاب رسالت کا طلوع بھی مدینے شریف میں ہوا۔ اہل مدینہ محمدی جھنڈے تلے جوش خروش سے جمع لشکری صورت مرتب ہوگئی۔ کچھ مسلمان ایک جھنڈے تلے دکھائی دینے لگے، قدم ٹکانے کی جگہ مل گئی۔ اب دشمنان دین سے جہاد کے احکام نازل ہوئے تو پس سب سے پہلے یہی آیت اتری۔ اس میں بیان فرمایا گیا کہ یہ مسلمان مظلوم ہیں، ان کے گھربار ان سے چھین لئے گئے ہیں، بےوجہ گھر سے بےگھر کردئیے گئے ہیں، مکہ سے نکال دئیے گئے، مدینے میں بےسرو سامانی میں پہنچے۔ ان کا جرم بجز اس کے سوا نہ تھا کہ صرف اللہ کے پرستار تھے رب کو ایک مانتے تھے اپنے پروردگار صرف اللہ کو جانتے تھے۔ یہ استثنا منقطع ہے گو مشرکین کے نزدیک تو یہ امر اتنا بڑا جرم ہے جو ہرگز کسی صورت سے معافی کے قابل نہیں۔ فرمان ہے آیت ( يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِيَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا باللّٰهِ رَبِّكُمْ ۭ اِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِيْ سَبِيْلِيْ وَابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِيْ ) 60۔ الممتحنة :1) تمہیں اور ہمارے رسول کو صرف اس بنا پر نکالتے ہیں کہ تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو جو تمہارا حقیقی پروردگار ہے۔ خندقوں والوں کے قصے میں فرمایا آیت ( وما نقموا منہم الا ان یومنوا باللہ العزیز الحمید ) یعنی دراصل ان کا کوئی قصور نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ غالب، مہربان، ذی احسان پر ایمان لائے تھے۔ مسلمان صحابہ خندق کھودتے ہوئے اپنے رجز میں کہہ رہے تھے۔شعر ( لاہم لو لا انت ما اہتدینا ولا تصدقنا ولا صلینا فانزلن سکینتہ علینا وثبت الاقدام ان لاقینا ان الا ولی قد بغوا علینا اذا ارادوافتنتہ ابینا )خود رسول اللہ ﷺ بھی ان کی موافقت میں تھے اور قافیہ کا آخری حرف آپ بھی ان کے ساتھ ادا کرتے اور ابینا کہتے ہوئے خوب بلند آواز کرتے۔ پھر فرماتا ہے اگر اللہ تعالیٰ ایک کا علاج دوسرے سے نہ کرتا اگر ہر سیر پر سوا سیر نہ ہوتا تو زمین میں شرفساد مچ جاتا، ہر قوی ہر کمزور کو نگل جاتا۔ عیسائی عابدوں کے چھوٹے عبادت خانوں کو صوامع کہتے ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ صابی مذہب کے لوگوں کے عبادت خانوں کا نام ہے اور بعض کہتے ہیں مجوسیوں کے آتش کدوں کو صوامع کہتے ہیں۔ مقامل کہتے ہیں یہ وہ گھر ہیں جو راستوں پر ہوتے ہیں۔ بیع ان سے بڑے مکانات ہوتے ہیں یہ بھی نصرانیوں کے عابدوں کے عبادت خانے ہوتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں یہ یہودیوں کے کنیسا ہیں۔ صلوات کے بھی ایک معنی تو یہی کئے گئے ہیں۔ بعض کہتے ہیں مراد گرجا ہیں۔ بعض کا قول ہے صابی لوگوں کا عبادت خانہ۔ راستوں پر جو عبادت کے گھر اہل کتاب کے ہوں انہیں صلوات کہا جاتا ہے اور مسلمانوں کے ہوں انہیں مساجد۔ فیہا کی ضمیر کا مرجع مساجد ہے اس لئے کہ سب سے پہلے یہی لفظ ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد یہ سب جگہیں ہیں یعنی تارک الدنیا لوگوں کے صوامع، نصرانیوں کے بیع، یہودیوں کے صلوات اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں اللہ کا نام خوب لیا جاتا ہے۔ بعض علماء کا بیان ہے کہ اس آیت میں اقل سے اکثر کی طرف کی ترقی کی صنعت رکھی گئی ہے پس سب سے زیادہ آباد سب سے بڑا عبادت گھر جہاں کے عابدوں کا قصد صحیح نیت نیک عمل صالح ہے وہ مسجدیں ہیں۔ پھر فرمایا اللہ اپنے دین کے مددگاروں کا خود مددگار ہے جیسے فرمان ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ ) 47۔ محمد:7) یعنی اگر اے مسلمانو ! تم اللہ کے دین کی امداد کروگے تو اللہ تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہیں ثابت قدمی عطا فرمائے گا۔ کفار پر افسوس ہے اور ان کے اعمال غارت ہیں۔ پھر اپنے دو وصف بیان فرمائے قوی ہونا کہ ساری مخلوق کو پیدا کردیا، عزت والا ہونا کہ سب اس کے ماتحت ہر ایک اس کے سامنے ذلیل وپست سب اس کی مدد کے محتاج وہ سب سے بےنیاز جسے وہ مدد دے وہ غالب جس پر سے اس کی مدد ہٹ جائے وہ مغلوب۔ فرماتا ہے آیت ( وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِيْنَ01701ښ ) 37۔ الصافات:171) یعنی ہم نے تو پہلے سے ہی اپنے رسولوں سے وعدہ کرلیا ہے کہ ان کی یقینی طور پر مدد کی جائے گی اور یہ کہ ہمارا لشکر ہی غالب آئے گا۔ اور آیت میں ہے آیت ( كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ 21 ) 58۔ المجادلة :21) خدا کہہ چکا ہے کہ میں اور میرا رسول غالب ہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ قوت وعزت والا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 40 الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ ” یعنی مہاجرین جنہیں اپنے اہل و عیال اور گھر بار چھوڑ کر مکہّ سے نکل جانے پر مجبور کردیا گیا تھا۔اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ط ”ان کا جرم بس یہ تھا کہ وہ اہل مکہ کے باطل معبودوں کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ کو اپنا رب اور معبود مانتے تھے ‘ جس کی پاداش میں انہیں گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ ”یہ مضمون اس سے پہلے سورة البقرة کی آیت 251 میں بھی آچکا ہے۔ وہاں پر مشرک بادشاہ جالوت کے ساتھ حضرت طالوت کی جنگ کا ذکر کرنے کے بعد یہ اصول بیان فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً زمین کی صفائی کرتا رہتا ہے۔ فاسد لوگ ہوں یا فاسد تہذیب و ثقافت ‘ جب ان کا فساد زمین میں ایک حد سے تجاوز کرنے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مشیت سے اسے کسی دوسری طاقت کے ذریعے نیست و نابود کردیتا ہے۔ سورة البقرة کی مذکورہ آیت میں فرمایا گیا کہ اگر اللہ ایسے نہ کرتا تو : لَفَسَدَتِ الْاَرْضُ زمین میں ہر طرف فساد ہی فساد ہوتا۔ البتہ یہاں اس بگاڑ یا فساد کے ایک دوسرے پہلو کی طرف توجہ دلائی گئی ہے :لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا ط ”صَلَوٰتٌ‘ صلوٰۃ کی جمع ہے۔ صَلَوتَا عبرانی زبان کا لفظ ہے اور اس سے مراد یہودیوں کے عبادت خانے Cinygogs ہیں۔ دراصل عبرانی اور عربی زبانوں میں بہت مشابہت پائی جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے یا تو ان کا آپس میں ماں بیٹی کا رشتہ ہے یا پھر دونوں سگی بہنیں ہیں۔ یعنی یا تو عربی زبان عبرانی سے نکلی ہے اور یا یہ دونوں کسی ایک زبان کی شاخیں ہیں۔ چناچہ ان دونوں میں بہت سے الفاظ باہم مشابہ ہیں۔ مثلا عربی کے لفظ ”سلام “ کی جگہ عبرانی میں ” شولوم “ بولا جاتا ہے۔ اسی طرح عبرانی کے ” یوم کپور “ کو عربی میں ” یوم کفارہ “ ّ کہا جاتا ہے۔ یعنی لفظ ” یوم “ تو جوں کا توں ویسے ہی ہے جبکہ ” کپور “ اور ” کفارہ “ میں بنیادی فرق ” پ “ اور ” ف “ کا ہے۔ عربی میں چونکہ ” پ “ نہیں ہے اس لیے اکثر زبانوں کی ” پ “ کی آواز عربی میں آکر ” ف “ سے بدل جاتی ہے۔ جیسے اس سے پہلے سورة الانبیاء کی آیت 85 کے تحت ” ذو الکفل “ ِ کے حوالے سے ہندی کے لفظ ” کپل “ کا عربی کے ِ ” کفل “ کی صورت اختیار کرنے کا ذکر ہوا تھا۔ بہر حال عبرانی اور عربی زبانوں کے الفاظ اور ان کی اصطلاحات میں اکثر مشابہت پائی جاتی ہے۔تو اگر اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق کچھ لوگوں کو کچھ لوگوں کے ذریعے دفع نہ کرتا رہتا ‘ یعنی مفسد قوتوں کو نیست و نابود نہ کرتا رہتا تو دنیا میں تمام مذاہب کی جتنی بھی عبادت گاہیں ہیں وہ سب کی سب منہدم کردی جاتیں۔ ظاہر ہے یہ تمام عبادت گاہیں اپنے اپنے وقت میں ایک اللہ کی عبادت کے لیے بنائی گئی تھیں۔وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ ط ” ان الفاظ میں اہل ایمان کے لیے یہ بہت بڑی خوشخبری ہے۔ لہٰذا آیت کا یہ ٹکڑا ہر مسلمان کو ازبر ہونا چاہیے۔ اس عبارت میں تاکید کا جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے وہ عربی زبان میں انتہائی تاکید کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ فعل مضارع سے پہلے لام مفتوح زبر کے ساتھ بھی حرف تاکید ہے ‘ جبکہ آخر میں نون مشددّ سے معنی میں مزید تاکید پیدا ہوتی ہے۔ جیسے اَفْعَلُ کے معنی ہیں کہ میں یہ کروں گا ‘ لیکن لَاَفْعَلَنََّّ کے معنی ہوں گے کہ میں یہ لازماً کر کے رہوں گا۔لیکن اس سلسلے میں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ یہ یک طرفہ معاملہ نہیں ہے ‘ بلکہ یہ وعدہ مشروط ہے۔ تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا ! جیسے سورة البقرة کی آیت 152 میں فرمایا گیا ہے : فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ کہ تم مجھے یاد رکھو ‘ میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ تم لوگ اللہ کے باغیوں کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھاؤ ‘ تمہاری وفاداریاں اللہ کے دشمنوں کے ساتھ ہوں اور پھر بھی تم چاہو کہ وہ تمہاری مدد کرے۔ اس سلسلے میں اسی سورت کی آیت 15 کا مضمون بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے ‘ جس میں اللہ کی مدد پر بندۂ مؤمن کے پختہ یقین کا معاملہ زیر بحث آیا ہے۔ دراصل یہ بندۂ مؤمن کا ”یقین “ ہی ہے جو اس کے صبر و استقامت اور ثبات و استقلال کے لیے سہارا فراہم کرتا ہے۔ اور اگر دل میں یقین کی جگہ بےیقینی ڈیرے جما لے اور اس بےیقینی کے ہاتھوں نصرت الٰہی کی امید کی رسی ہی کٹ جائے تو پھر ایسے شخص کے لیے دنیا میں اور کوئی سہارا نہیں رہتا۔اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ ”یعنی اللہ نے تمہاری مدد کا وعدہ کیا ہے تو جان لو کہ وہ زبردست طاقت کا مالک اور ہر وقت ‘ ہر جگہ تمہاری مدد پر پوری طرح قادر ہے۔
الذين أخرجوا من ديارهم بغير حق إلا أن يقولوا ربنا الله ولولا دفع الله الناس بعضهم ببعض لهدمت صوامع وبيع وصلوات ومساجد يذكر فيها اسم الله كثيرا ولينصرن الله من ينصره إن الله لقوي عزيز
سورة: الحج - آية: ( 40 ) - جزء: ( 17 ) - صفحة: ( 337 )Surah Al Hajj Ayat 40 meaning in urdu
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اِس قصور پر کہ وہ کہتے تھے "ہمارا رب اللہ ہے" اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جائیں اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے اللہ بڑا طاقتور اور زبردست ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- (اور) جو ایمان لائے اور کام بھی نیک کرتے رہے تو ہم نیک کام کرنے
- تو (اے آدم زاد) پھر تو جزا کے دن کو کیوں جھٹلاتا ہے؟
- (اور) سیاہی چڑھ رہی ہو گی
- لوگو! اپنے پروردگار کی عبات کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں
- کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ جو شخص خدا اور اس کے رسول سے
- (ان لوگوں کے لئے) بہشتِ جاودانی (ہیں) جن میں وہ داخل ہوں گے۔ وہاں ان
- اور جب وہ (دوزخ کے گڑھے میں) گرے گا تو اس کا مال اس کے
- اور میں اپنے بعد اپنے بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے
- اور میرے گھر والوں میں سے (ایک کو) میرا وزیر (یعنی مددگار) مقرر فرما
- سو (دیکھ لو کہ) میرا عذاب اور ڈرانا کیسا ہوا
Quran surahs in English :
Download surah Al Hajj with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Hajj mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Hajj Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers