Surah Al Israa Ayat 111 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ ۖ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا﴾
[ الإسراء: 111]
اور کہو کہ سب تعریف خدا ہی کو ہے جس نے نہ تو کسی کو بیٹا بنایا ہے اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے اور نہ اس وجہ سے کہ وہ عاجز وناتواں ہے کوئی اس کا مددگار ہے اور اس کو بڑا جان کر اس کی بڑائی کرتے رہو
Surah Al Israa UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
رحمن یا رحیم ؟ کفار اللہ کی رحمت کی صفت کے منکر تھے اس کا نام رحمن نہیں سمجھتے تھے تو جناب باری تعالیٰ اپنے نفس کے لئے اس نام کو ثابت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہی نہیں کہ اللہ کا نام اللہ ہو رحمن ہو یا رحیم اور بسم ان کے سوا بھی بہت سے بہترین اور احسن نام اس کے ہیں۔ جس پاک نام سے چاہو اس سے دعائیں کرو۔ سورة حشر کے آخر میں بھی اپنے بہت سے نام اس نے بیان فرمائے ہیں۔ ایک مشرک نے حضور ﷺ سے سجدے کی حالت میں یا رحمن یا رحیم سن کر کہا کہ لیجئے یہ موحد ہیں دو معبودوں کو پکارتے ہیں اس پر یہ آیت اتری۔ پھر فرماتا ہے اپنی نماز کو بہت اونچی آواز سے نہ پڑھو۔ اس آیت کے نزول کے وقت حضور ﷺ مکہ میں پوشیدہ تھے جب صحابہ کو نماز پڑھاتے اور بلند آواز سے اس میں قرأت پڑھتے تو مشرکین قرآن کو، اللہ کو، رسول کو گالیاں دیتے اس لئے حکم ہوا کہ اس قدر بلند آواز سے پڑھنے کی ضرورت نہیں کہ مشرکین سنیں اور گالیاں بکیں ہاں ایسا آہستہ بھی نہ پڑھنا کہ آپ کے ساتھی بھی نہ سن سکیں بلکہ درمیانی آواز سے قرأت کیا کرو۔ پھر جب آپ ہجرت کر کے مدینے پہنچے تو یہ تکلیف جاتی رہی اب جس طرح چاہیں پڑھیں۔ مشرکین جہاں قرآن کی تلاوت شروع ہوتی تو بھاگ کھڑے ہوتے۔ اگر کوئی سننا چاہتا تو انکے خوف کے مارے چھپ چھپ کر بچ بچا کر کچھ سن لیتا۔ لیکن جہاں مشرکوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے انہیں سخت ایذاء دہی شروع کی اب اگر بہت بلند آواز کریں تو ان کی چڑ اور ان کی گالیوں کا خیال اور اگر بہت پست کرلیں تو وہ جو چھپے لگے کان لگائے بیٹھے ہیں وہ محروم اس لئے درمیانہ آواز سے قرآت کرنے کا حکم ہوا۔ الغرض نماز کی قرأت کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ مروی ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ اپنی نماز میں پست آواز سے قرأت پڑھتے تھے اور حضرت عمر ؓ با آواز بلند قرأت پڑھا کرتے تھے۔ حضرت صدیق اکبر ؓ سے پوچھا گیا کہ آپ آہستہ کیوں پڑھتے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ اپنے رب سے سرگوشی ہے وہ میری حاجات کا علم رکھتا ہے تو فرمایا کہ یہ بہت اچھا ہے۔ حضرت عمر ؓ سے پوچھا کہ آپ بلند آواز سے کیوں پڑھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا شیطان کو بھگاتا ہوں اور سوتوں کو جگاتا ہوں تو آپ سے بھی فرمایا گیا بہت اچھا ہے لیکن جب یہ آیت اتری تو حضرت ابوبکر ؓ سے قدرے بلند آواز کرنے کو اور حضرت عمر فاروق ؓ سے قدرے پست آواز کرنے کو فرمایا گیا۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے اسی طرح ثوری اور مالک ہشام بن عروہ سے وہ اپنے باپ سے وہ حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں آپ فرماتی ہیں کہ یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے یہی قول حضرت مجاہد، حضرت سعید بن جبیر، حضرت ابو عیاض، حضرت مکحول، حضرت عروہ بن زبیر رحمہم اللہ کا بھی ہے۔ مروی ہے کہ بنو تمیم قبیلے کا ایک اعرابی جب بھی حضور ﷺ نماز سے سلام پھیرتے یہ دعا کرتا کہ اے اللہ مجھے اونٹ عطا فرما مجھے اولاد دے پس یہ آیت اتری۔ ایک دوسرا قول یہ بھی ہے کہ یہ آیت تشہد کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ نہ تو ریا کاری کرو نہ عمل چھوڑو۔ یہ بھی کرو کہ علانیہ تو عمدہ کر کے پڑھو اور خفیہ برا کر کے پڑھو۔ اہل کتاب پوشیدہ پڑھتے اور اسی درمیان کوئی فقرہ بہت بلند آواز سے چیخ کر زبان سے نکالتے اس پر سب ساتھ مل کر شور مچا دیتے تو ان کی موافقع سے ممانعت ہوئی اور جس طرح اور لوگ چھپاتے تھے اس سے بھی روکا گیا پھر اس کے درمیان کا راستہ حضرت جبرائیل ؑ نے بتلایا جو حضور ﷺ نے مسنون فرمایا ہے۔ اللہ کی حمد کرو جس میں تمام تر کمالات اور پاکیزگی کی صفتیں ہیں۔ جس کے تمام تر بہترین نام ہیں جو تمام تر نقصانات سے پاک ہے۔ اس کی اولاد نہیں، اس کا شریک نہیں، وہ واحد ہے، صمد ہے، نہ اس کے ماں باپ، نہ اولاد، نہ اس کی جنس کا کوئی اور، نہ وہ ایسا حقیر کہ کسی کی حمایت کا محتاج ہو یا وزیر و مشیر کی اسے جاجت ہو بلکہ تمام چیزوں کا خالق مالک صرف وہی ہے سب کا مدبر مقدر وہی ہے اسی کی مشیت تمام مخلوق میں چلتی ہے وہ وحدہ لا شریک لہ ہے نہ اس کی کسی سے بھائی بندی ہے نہ وہ کسی کی مدد کا طالب ہے۔ تو ہر وقت اس کی عظمت جلالت کبریائی بڑائی اور بزرگی بیان کرتا رہ اور مشرکین جو تمہیں اس پر باندھتے ہیں تو ان سے اس کی ذات کی بزرگی برائی اور پاکیزگی بیان کرتا رہ۔ یہود و نصاریٰ تو کہتے تھے کہ اللہ کی اولاد ہے۔ مشرکین کہتے تھے لبیک لا شریک لک الا شریکا ھو لک تملکہ وما ملک یعنی ہم حاضر باش غلام ہیں اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں لیکن جو خود تیری ملکیت میں ہیں تو ہی ان کا اور ان کی ملکیت کا مالک ہے۔ صابی اور مجوسی کہتے ہیں کہا اگر اولیاء اللہ نہ ہوں تو اللہ سارے انتظام آپ نہیں کرسکتا۔ اس پر یہ آیت اتری اور ان سب باطل پرستوں کی تردید کردی گئی۔ نبی کریم ﷺ اپنے گھر کے تمام چھوٹے بڑے لوگوں کو یہ آیت سکھایا کرتے تھے۔ آپ نے اس آیت کا نام آیت العز یعنی عزت والی آیت رکھا ہے۔ بعض آثار میں ہے کہ جس گھر میں رات کو یہ آیت پڑھی جائے۔ اس گھر میں کوئی آفت یا چوری نہیں ہوسکتی واللہ اعلم۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کے ساتھ نکلا میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں تھا یا آپ کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا راہ چلتے ایک شخص کو آپ نے دیکھا نہایت ردی حالت میں ہے اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ اس نے کہا حضور ﷺ بیماریوں اور نقصانات نے میری یہ درگت کر رکھی ہے آپ نے فرمایا کیا میں تمہیں کچھی وظیفہ بتادوں کہ یہ دکھ بیماری سب کچھ جاتی رہے ؟ اس نے کہا ہاں ہاں یا رسول اللہ ﷺ ضرور بتلائے احد اور بدر میں آپ کے ساتھ نہ ہونے کا افسوس میرا جاتا رہے گا اس پر آپ ہنس پڑے اور فرمایا تو بدری اور احدی صحابہ کے مرتبے کو کہاں سے پاسکتا ہے تو ان کے مقابلے میں محض خالی ہاتھ اور بےسرمایہ ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ انہیں جانے دیجئے آپ مجھے بتلا دیئجے۔ آپ نے فرمایا ابوہریرہ ؓ یوں کہو توکلت علی الذی لا یموت الحمد للہ الذی لم یتخذ ولدا الخ میں نے یہ وظیفہ پڑھنا شروع کردیا تھا چند دن گزرے تھے کہ میری حالت بہت ہی سنور گئی حضور ﷺ نے مجھے دیکھا اور پوچھا ابوہریرہ ؓ یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا ان کلمات کی وجہ سے اللہ کی طرف سے برکت ہے جو آپ نے مجھے سکھائے تھے اس کی سند ضعیف ہے اور اس کے متن میں بھی نکارت ہے۔ اسے حافظ ابو یعلی اپنی کتاب میں لائے ہیں واللہ اعلم۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 111 وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ یہ آیت اپنے مضمون کے اعتبار سے سورة الإخلاص کی ہم وزن ہے۔ اس میں پانچ مختلف انداز میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور توحید کا بیان ہے۔ اس ضمن میں یہ پہلی بات ہے یعنی حضور کی زبان مبارک سے یہ اعلان کہ تمام تعریفیں اور ہر قسم کا شکر اللہ ہی کے لیے ہے۔الَّذِيْ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًایہ دوسری بات ہے جسے سورة الإخلاص میں لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔وَّلَمْ يَكُنْ لَّهٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ تیسری بات اقتدار و اختیار سے متعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ تنہا ہرچیز کا مالک و مختار اور مالک الملک ہے۔ اس کے علاوہ کسی کے پاس کسی قسم کا کوئی اختیار نہیں۔وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ یہ چوتھی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دوستی کو اپنی دوستیوں پر قیاس مت کرو۔ تم تو دوستیاں اس لیے پالتے ہو کہ تم اپنے دوستوں کے محتاج ہوتے ہو۔ انسان دوست اس لیے بناتا ہے کہ وہ ضرورت کے وقت کام آئے گا۔ بعض دفعہ انسان اپنے کسی دوست کی انتہائی ناجائز بات صرف اس لیے ماننے پر مجبور ہوتا ہے کہ کل وہ میری بھی کوئی ضرورت پوری کرے گا۔ انسان کی یہی کمزوری اسے دوست بنانے اور دوستانہ تعلق نبھانے پر مجبور کرتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی تمام کمزوریوں سے پاک ہے۔ وہ کسی کا محتاج نہیں بلکہ سب اس کے محتاج ہیں۔ چناچہ اللہ کی دوستی کسی ضرورت کی بنیاد پر نہیں ہوتی اور نہ ہی اللہ کا کوئی دوست اس سے اپنی کوئی بات زبردستی منوا سکتا ہے۔ پانچویں اور آخری بات بہت اہم ہے :وَكَبِّرْهُ تَكْبِيْرًایہ ترجمہ تکبیر کرو بہت اہم اور توجہ طلب ہے۔ صرف زبان سے ” اللہ اکبر “ کہہ دینے سے اللہ کی تکبیر نہیں ہوجاتی اس کے لیے عملی طور پر بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ زبان سے اللہ اکبر کہنا تو تکبیر کا پہلا درجہ ہے کہ کسی نے زبان سے اقرار کرلیا کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اس کے بعد اہم اور کٹھن مرحلہ اپنے تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات میں اللہ کو عملی طور پر بڑا کرنے کا ہے۔ یہ مرحلہ تب طے ہوگا جب ہمارے گھر میں بھی اللہ کو بڑا تسلیم کیا جائے گا اور گھر کے تمام معاملات میں اسی کی بات مانی جائے گی جب ہماری پارلیمنٹ میں بھی اس کی بڑائی کو تسلیم کیا جائے گا اور کوئی قانون اس کی شریعت کے خلاف نہیں بن سکے گا جب ہماری عدالتوں میں بھی اس کی بڑائی کا ڈنکا بجے گا اور تمام فیصلے اسی کے احکامات کی روشنی میں کیے جائیں گے۔ غرض جب تک ہر چھوٹے بڑے معاملے میں اور ہر کہیں اس کا حکم آخری حکم کے طور پر تسلیم نہیں کیا جائے گا اللہ کی تکبیر کا حق ادا نہیں ہوگا۔ اللہ کے احکام کو عملی طور پر نافذ نہ کرنے والوں کے لیے سورة المائدۃ کا یہ حکم بہت واضح ہے : ۭوَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ۔ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ ۔ آج ہم نے اللہ کو نعوذ باللہ اپنے تئیں مسجدوں میں بند کردیا ہے کہ اے اللہ آپ یہیں رہیں ہم یہیں پر آکر آپ کی تکبیر کے ترانے گائیں گے آپ کی تسبیح وتحمید کریں گے۔ لیکن مسجد سے باہر ہماری مجبوریاں ہیں۔ کیا کریں مارکیٹ میں مالی مفادات کے ہاتھوں مجبور ہیں گھر میں بیوی بڑی ہے کسی اور جگہ کوئی اور بڑا ہے۔ ایسے حالات میں ہمارے ہاں اللہ کی تکبیر کا مفہوم ہی بدل کر رہ گیا ہے اور اب تکبیر فقط دو الفاظ اللہ اکبر پر مشتمل ایک کلمہ ہے جسے زبان سے ادا کردیں تو گویا اللہ کی بڑائی کا حق ادا ہوجاتا ہے۔بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم
وقل الحمد لله الذي لم يتخذ ولدا ولم يكن له شريك في الملك ولم يكن له ولي من الذل وكبره تكبيرا
سورة: الإسراء - آية: ( 111 ) - جزء: ( 15 ) - صفحة: ( 293 )Surah Al Israa Ayat 111 meaning in urdu
اور کہو "تعریف ہے اس خدا کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا، نہ کوئی بادشاہی میں اس کا شریک ہے، اور نہ وہ عاجز ہے کہ کوئی اس کا پشتیبان ہو" اور اس کی بڑائی بیان کرو، کمال درجے کی بڑائی
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- تو جو لوگ آخرت (کو خریدتے اور اس) کے بدلے دنیا کی زندگی کو بیچنا
- اے جنّوں اور انسانوں کی جماعت کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے پیغمبر نہیں
- (بندو) اپنے پروردگار کی بخشش کی طرف اور جنت کی (طرف) جس کا عرض آسمان
- اور اس کی بہن سے کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا تو وہ
- اور ہر طرح کے سامان میں وسعت دی
- کہو کہ اے اہل کتاب! اپنے دین (کی بات) میں ناحق مبالغہ نہ کرو اور
- مگر انسان چاہتا ہے کہ آگے کو خود سری کرتا جائے
- کہ وہ (آگ) ایک بہت بڑی (آفت) ہے
- فرمایا ہرگز نہیں۔ تم دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ ہم تمہارے ساتھ سننے والے
- اور اس روز (اعمال کا) تلنا برحق ہے تو جن لوگوں کے (عملوں کے) وزن
Quran surahs in English :
Download surah Al Israa with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Israa mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Israa Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers