Surah Anfal Ayat 41 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿۞ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾
[ الأنفال: 41]
اور جان رکھو کہ جو چیز تم (کفار سے) لوٹ کر لاؤ اس میں سے پانچواں حصہ خدا کا اور اس کے رسول کا اور اہل قرابت کا اور یتیموں کا اور محتاجوں کا اور مسافروں کا ہے۔ اگر تم خدا پر اور اس (نصرت) پر ایمان رکھتے ہو جو (حق وباطل میں) فرق کرنے کے دن (یعنی جنگ بدر میں) جس دن دونوں فوجوں میں مڈھ بھیڑ ہوگئی۔ اپنے بندے (محمدﷺ) پر نازل فرمائی۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے
Surah Anfal Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) غنیمت سے مراد وہ مال ہے جو کافروں سے، کافروں پر لڑائی میں فتح وغلبہ حاصل ہونے کے بعد، حاصل ہو ۔ پہلی امتوں میں اس کے لئے یہ طریقہ تھا کہ جنگ ختم ہونے کے بعد کافروں سے حاصل کردہ سارا مال ایک جگہ ڈھیر کر دیا جاتا، آسمان سے آگ آتی اور اسے جلا کر بھسم کرڈالتی ۔ لیکن امت مسلمہ کے لئے یہ مال غنیمت حلال کر دیا گیا اور جو مال بغیر لڑائی کے صلح کے ذریعے یا جزیہ وخراج سے وصول ہو، اسے فَيْءٌ کہا جاتا ہے ۔ کبھی غنیمت کو فَيْءٌ سے تعبیر کر لیا جاتا ہے۔ ” مِنْ شَيْءٍ “ سے مراد جو کچھ بھی ہو یعنی تھوڑا ہو یا زیادہ، قیمتی ہو یا معمولی، سب کو جمع کرکے اس کی تقسیم حسب ضابطہ کی جائے گی۔ کسی سپاہی کو اس میں سے کوئی چیز تقسیم سے قبل اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں ہے ۔
( 2 ) اللہ کا لفظ تو بطور تبرک، نیز اس لئے بھی ہے کہ ہر چیز کا اصل مالک وہی ہے اور حکم بھی اسی کا چلتا ہے۔ مراد اللہ اور اس کے رسول کے حصہ سے ایک ہی ہے، یعنی سارے مال غنیمت کے پانچ حصے کرکے چار حصے تو ان مجاہدین میں تقسیم کیے جائیں گے جنہوں نے جنگ میں حصہ لیا۔ ان میں بھی پیادہ کو ایک حصہ اور سوار کو تین گنا حصہ ملے گا۔ پانچواں حصہ، جسے عربی میں خمس کہتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ اس کے پھر پانچ حصے کئے جائیں گے۔ ایک حصہ رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) کا ( اور آپ صلى الله عليه وسلم کے بعد اسے مفاد عامہ میں خرچ کیا جائے گا ) جیسا کہ خود آپ ( صلى الله عليه وسلم ) بھی یہ حصہ مسلمانوں پر ہی خرچ فرماتے تھے بلکہ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے فرمایا بھی ہے۔ ” وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَيْكُمْ “ ( سنن النسائي- وصححه الألباني في صحيح النسائي: 3858 ۔ ومسند أحمد جلد: 5، ص،319 ) یعنی میرا جو پانچواں حصہ ہے وہ بھی مسلمانوں کے مصالح پر ہی خرچ ہوتا ہے۔ دوسرا حصہ رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) کے قرابت داروں کا، پھر یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کا۔ اور کہا جاتا ہے کہ یہ خمس حسب ضرورت خرچ کیا جائے گا۔
( 3 ) اس نزول سے مراد فرشتوں کا اور آیات الٰہی ( معجزات وغیرہ ) کا نزول ہے جو بدر میں ہوا۔
( 4 ) بدر کی جنگ 2 ہجری 17رمضان المبارک کو ہوئی۔ اس دن کو یوم الفرقان اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ کافروں اور مسلمانوں کے درمیان پہلی جنگ تھی اور مسلمانوں کو فتح وغلبہ دے کر واضح کر دیا گیا کہ اسلام حق ہے اور کفر وشرک باطل ہے۔
( 5 ) یعنی مسلمانوں اور کافروں کی فوجیں۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مال غنیمت کی تقسیم کا بیان تمام اگلی امتوں پر مال غنیمت حرام ہے۔ لیکن اس امت کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے اسے حلال کردیا۔ اس کی تقسیم کی تفصیل یہاں بیان ہو رہی ہے۔ مال غنیمت وہ ہے جو مسلمانوں کو جہاد کے بعد کافروں سے ہاتھ لگے اور جو مال بغیر لڑے جنگ کے ہاتھ آئے مثلاً صلح ہوگئی اور مقررہ تاوان جنگ ان سے وصول کیا یا کوئی مرگیا اور لاوارث تھا یا جزئیے اور خراج کی رقم وغیرہ وہ فے ہے۔ سلف و خلف کی ایک جماعت کا اور حضرت امام شافعی ؒ کا یہی خیال ہے۔ بعض لوگ غنیمت کا اطلاق فے پر اور فے کا اطلاق غنیمت پر بھی کرتے ہیں۔ اسی لئے قتادہ وغیرہ کا قول ہے کہ یہ آیت سورة حشر کی ( آیت ما افاء اللہ الخ، ) کی ناسخ ہے۔ اب مال غنیمت میں فرق کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ آیت تو فے کے بارے میں ہے اور یہ غنیمت کے بارے میں۔ بعض بزرگوں کا خیال ہے کہ ان دونوں قسم کے مال کی تقسیم امام کی رائے پر ہے۔ پس مقررہ حشر کی آیت اور اس آیت میں کوئی اختلاف نہیں جبکہ امام کی مرضی ہو واللہ اعلم۔ آیت میں بیان ہے کہ خمس یعنی پانچواں حصہ مال غنیمت میں سے نکال دینا چاہئے۔ چاہے وہ کم ہو یا زیادہ ہو۔ گو سوئی ہو یا دھاگہ ہو۔ پروردگار عالم فرماتا ہے جو خیانت کرے گا وہ اسے لے کر قیامت کے دن پیش ہوگا اور ہر ایک کو اس عمل کا پورا بدلہ ملے گا کسی پر ظلم نہ کیا جائے گا کہتے ہیں کہ خمس میں سے اللہ کے لئے مقرر شدہ حصہ کعبے میں داخل کیا جائے گا۔ حضرت ابو العالیہ رباحی کہتے ہیں کہ غنیمت کے مال کے رسول اللہ ﷺ پانچ حصے کرتے تھے۔ چار مجاہدین میں تقسیم ہوتے پانچویں میں سے آپ مٹھی بھر کر نکال لیتے اسے کنبے میں داخل کردیتے پھر جو بچا اس کے پانچ حصے کر ڈالتے ایک رسول اللہ کا ایک قرابت داروں کا۔ ایک یتیموں کا ایک مسکینوں کا ایک مسافروں کا یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں اللہ کا نام صرف بطور تبرک ہے گویا رسول اللہ ﷺ کے حصے کے بیان کا وہ شروع ہے۔ ابن عباس کا بیان ہے کہ جب حضور کوئی لشکر بھیجتے اور مال غنیمت کا مال ملتا تو آپ اس کے پانچ حصے کرتے اور پھر پانچویں حصے کے پانچ حصے کر ڈالتے پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ پس یہ فرمان کہ ان للہ خمسہ یہ صرف کلام کے شروع کیلئے ہے۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے۔ پانچویں حصے میں سے پانچواں حصہ رسول اللہ ﷺ کا ہے بہت سے بزرگوں کا قول یہی ہے کہ اللہ رسول کا ایک ہی حصہ ہے۔ اسی کی تائید بہیقی کی اس صحیح سند والی حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ ایک صحابی نے حضور ﷺ سے وادی القریٰ میں آ کر سوال کیا کہ یا رسول اللہ غنیمت کے بارے میں آپ کیا ارشآد فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کا ہے باقی کے چار حصے لشکریوں کے۔ اس نے پوچھا تو اس میں کسی کو کسی پر زیادہ حق نہیں ؟ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں یہاں تک کہ تو اپنے کسی دوست کے جسم سے تیر نکالے تو اس تیر کا بھی تو اس سے زیادہ مستحق نہیں حضرت حسن نے اپنے مال کے پانجویں حصے کی وصیت کی اور فرمایا کیا میں اپنے لئے اس حصے پر رضامند نہ ہوجاؤ ؟ جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنا رکھا ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ مال غنیمت کے پانچ حصے برابر کئے جاتے تھے چار تو ان لشکریوں کو ملتے تھے جو اس جنگ میں شامل تھے پھر پانچویں حصے کے جار حصے کئے جاتے تھے ایک چوتھائی اللہ کا اور اس کے رسول کا پھر یہ حصہ آنحضرت ﷺ لیتے تھے یعنی پانچویں حصے کا پانچواں حصہ آپ اور آپ کے بعد جو بھی آپ کا نائب ہو اس کا ہے۔ حضرت عبداللہ بن بریدہ فرماتے ہیں اللہ کا حصہ اللہ کے نبی کا ہے اور جو آپ کا حصہ تھا وہ آپ کی بیویوں کا ہے عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کا جو حصہ ہے وہ صرف رسول اللہ ﷺ ہی کا ہے اختیار ہے جس کام میں آپ چاہیں لگائیں مقدام بن معدی کرب حضرت عبادہ بن صامت حضرت ابو درداء اور حضرت حارث بن معاویہ کندی ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ان میں رسول اللہ ﷺ کی احادیث کا ذکر ہونے لگا تو ابو داؤد نے عبادہ بن صامت سے کہا فلاں فلاں غزوے میں رسول اللہ ﷺ نے خمس کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا تھا ؟ آپ نے فرمایا کہ حضور نے ایک جہاد میں خمس کے ایک اونٹ کے پیچھے صحابہ کو نماز پڑھائی سلام کے بعد کھڑے ہوگئے اور چند بال چٹکی میں لے کر فرمایا کہ مال غنیمت کے اونٹ کے یہ بال بھی مال غنیمت میں سے ہی ہیں اور میرے نہیں ہیں میرا حصہ تو تمہارے ساتھ صرف پانچواں ہے اور پھر وہ بھی تم ہی کو واپس دے دیا جاتا ہے پس سوئی دھاگے تک ہر چھوٹی بڑی چیز پہنچا دیا کرو، خیانت نہ کرو، خیانت عار ہے اور خیانت کرنے والے کیلئے دونوں جہان میں آگ ہے۔ قریب والوں سے دور والوں سے راہ حق میں جہاد جاری رکھو۔ شرعی کاموں میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خیال تک نہ کرو۔ وطن میں اور سفر میں اللہ کی مقرر کردہ حدیں جاری کرتے رہو اللہ کے لئے جہاد کرتے رہو جہاد جنت کے بہت بڑے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے اسی جہاد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ غم و رنج سے نجات دیتا ہے ( مسند امام احمد ) یہ حدیث حسن ہے اور بہت ہی اعلیٰ ہے۔ صحاح ستہ میں اس سند سے مروی نہیں لیکن مسند ہی کی دوسری روایت میں دوسری سند سے خمس کا اور خیانت کا ذکر مروی ہے۔ ابو داؤد اور نسائی میں بھی مختصراً یہ حدیث مروی ہے اس حصے میں سے آنحضرت رسول مقبول ﷺ بعض چیزیں اپنی ذات کے لئے بھی مخصوص فرما لیا کرتے تھے لونڈی غلام تلوار گھوڑا وغیرہ۔ جیسا کہ محمد بن سیرین اور عامر شعبی اور اکثر علماء نے فرمایا ہے ترمذی وغیرہ میں ہے کہ ذوالفقار نامی تلوار بدر کے دن کے مال غنیمت میں سے تھی جو حضور کے پاس تھی اسی کے بارے میں احد والے دن خواب دیکھا تھا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت صفیہ ؓ بھی اسی طرح آئیں تھیں۔ ابو داؤد وغیرہ میں ہے حضرت یزید بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہم باڑے میں بیٹھے ہوئے تھے جو ایک صاحب تشریف لائے ان کے ہاتھ میں چمڑے کا ایک ٹکڑا تھا ہم نے اسے پڑھا تو اس میں تحریر تھا کہ یہ محمد رسول اللہ کی طرف سے زہیر بن اقیش کی طرف ہے کہ اگر تم اللہ کی وحدت کی اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی گواہی دو اور نمازیں قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور غنیمت کے مال سے خمس ادا کرتے رہو اور نبی ﷺ کا حصہ اور خالص حصہ ادا کرتے رہو تو تم اللہ اور اس کے رسول کی امن میں ہو۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ تجھے یہ کس نے لکھ دیا ہے اس نے کہا رسول اللہ ﷺ نے، پس ان صحیح احادیث کی دلالت اور ثبوت اس بات پر ہے اسی لئے اکثر بزرگوں نے اسے حضور کے خواص میں سے شمار کیا ہے۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ اور لوگ کہتے ہیں کہ خمس میں امام وقت مسلمانوں کی مصلحت کے مطابق جو چاہے کرسکتا ہے۔ جیسے کہ مال فے میں اسے اختیار ہے۔ ہمارے شیخ علامہ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ یہی قول حضرت امام مالک کا ہے اور اکثر سلف کا ہے اور یہی سب سے زیادہ صحیح قول ہے۔ جب یہ ثابت ہوگیا اور معلوم ہوگیا تو یہ بھی خیال رہے کہ خمس جو حضور کا حصہ تھا اسے اب آپ کے بعد کیا کیا جائے بعض تو کہتے ہیں کہ اب یہ حصہ امام وقت یعنی خلیفتہ المسلمین کا ہوگا۔ حضرت ابوبکر حضرت علی حضرت قتادہ اور ایک جماعت کا یہی قول ہے۔ اور اس بارے میں ایک مرفوع حدیث بھی آئی ہے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ مسلمانوں کی مصلحت میں صرف ہوگا ایک قول ہے کہ یہ بھی اہل حاجت کی بقایا قسموں پر خرچ ہوگا یعنی قرابت دار یتیم مسکین اور مسافر۔ امام ابن جریر کا مختار مذہب یہی ہے اور بزرگوں کا فرمان ہے کہ حضور کا اور آپ کے قرابت داروں کا حصہ یتیموں مسکینوں اور مسافروں کو دے دیا جائے۔ عراق والوں کی ایک جماعت کا یہی قول ہے اور کہا گیا ہے خمس کا یہ پانچواں حصہ سب کا سب قرابت داروں کا ہے۔ چناچہ عبداللہ بن محمد بن علی اور علی بن حسین کا قول ہے کہ یہ ہمارا حق ہے پوچھا گیا کہ آیت میں یتیموں اور مسکینوں کا بھی ذکر ہے تو امام علی نے فرمایا اس سے مراد بھی ہمارے یتیم اور مسکین ہیں۔ امام حسن بن محمد بن حنفیہ ؒ تعالیٰ سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو فرماتے ہیں کہ کلام کا شروع اس طرح ہوا ہے ورنہ دنیا آخرت کا سب کچھ اللہ ہی کا ہے حضور کے بعد ان دونوں حصوں کے بارے میں کیا ہوا اس میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں حضرت کا حصہ آپ کے خلیفہ کو ملے گے۔ بعض کہتے ہیں آپ کے قرابت داروں کو۔ بعض کہتے ہیں خلیفہ کے قرابت داروں کو ان کی رائے میں ان دونوں حصوں کو گھوڑوں اور ہتھیاروں کے کام میں لگایا جائے اسی طرح خلافت صدیقی و فاروقی میں ہوتا بھی رہا ہے۔ ابراہیم کہتے ہیں حضرت صدیق اکبر اور حضرت فاروق اعظم حضور کے اس حصے کو جہاد کے کام میں خرچ کرتے تھے۔ پوچھا گیا کہ حضرت علی اس بارے میں کیا کرتے تھے ؟ فرمایا وہ اس بارے میں ان سے سخت تھے۔ اکثر علماء رحہم اللہ کا یہی قول ہے۔ ہاں ذوی القربیٰ کا جو حصہ ہے وہ بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کا ہے۔ اس لئے کہ اولاد عبدالمطلب نے اولاد ہاشم کی جاہلیت میں اور اول اسلام میں موافقت کی اور انہی کے ساتھ انہوں نے گھاٹی میں قید ہونا بھی منظور کرلیا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے ستائے جانے کی وجہ سے یہ لوگ بگڑ بیٹھے تھے اور آپ کی حمایت میں تھے، ان میں سے مسلمان تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کی وجہ سے۔ کافر خاندانی طرف داری اور رشتوں ناتوں کی حمایت کی وجہ سے اور رسول اللہ ﷺ کے چچا ابو طالب کی فرمانبرداری کی وجہ سے ستائے گئے ہاں بنو عبدشمس اور بنو نوفل گویہ بھی آپ کے چچازاد بھائی تھے۔ لیکن وہ ان کی موافقت میں نہ تھے بلکہ ان کے خلاف تھے انہیں الگ کرچکے تھے اور ان سے لڑ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ قریش کے تمام قبائل ان کے مخالف ہیں اسی لئے ابو طالب نے اپنے قصیدہ لامیہ میں ان کی بہت ہی مذمت کی ہے کیونکہ یہ قریبی قرابت دار تھے اس قصیدے میں انہوں نے کہا ہے کہ انہیں بہت جلد اللہ کی طرف سے ان کی اس شرارت کا پورا پورا بدلہ ملے گا۔ ان بیوقوفوں نے اپنے ہو کر ایک خاندان اور ایک خون کے ہو کر ہم سے آنکھیں پھیرلی ہیں وغیرہ۔ ایک موقعہ پر ابن جبیر بن معطم بن عدی بن نوفل اور حضرت عثمان بن عفان بن ابو العاص بن امیہ بن عبد شمس رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے اور شکایت کی کہ آپ نے خیبر کے خمس میں سے بنو عبدالملطب کو تو دیا لیکن ہمیں چھوڑ دیا حالانکہ آپ کی قرابت داری کے لحاظ سے وہ اور ہم بالکل یکساں اور برابر ہیں آپ نے فرمایا سنو بنو ہاشم ہیں۔ مجاہد کا قول ہے کہ اللہ کو علم تھا کہ بنو ہاشم میں فقراء ہیں پس صدقے کی جگہ ان کا حصہ مال غنیمت میں مقرر کردیا۔ یہی رسول اللہ ﷺ کے وہ قرابت دار ہیں جن پر صدقہ حرام ہے۔ علی بن حسین سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ بعض کہتے ہیں یہ سب قریش ہیں۔ ابن عباس سے استغفار کیا گیا کہ ذوی القربیٰ کون ہیں ؟ آپ نے جواب تحریر فرمایا کہ ہم تو کہتے تھے ہم ہیں لیکن ہماری قوم نہیں مانتی وہ سب کہتے ہیں کہ سارے ہی قریش ہیں ( مسلم وغیرہ ) بعض روایتوں میں صرف پہلا جملہ ہی ہے۔ دوسرے جملے کی روایت کے راوی ابو معشر نجیح بن عبدالرحمن مدنی کی روایت میں ہی یہ جملہ ہے کہ سب کہتے ہیں کہ سارے قریش ہیں۔ اس میں ضعف بھی ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارے لئے لوگوں کے میل کچیل سے تو میں نے منہ پھیرلیا خمس کا پانچواں حصہ تمہیں کافی ہے یہ حدیث حسن ہے اس کے راوی ابراہیم بن مہدی کو امام ابو حاتم ثقہ بتاتے ہیں لیکن یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ یہ منکر روایتیں لاتے ہیں واللہ اعلم۔ آیت میں یتیموں کا ذکر ہے یعنی مسلمانوں کے وہ بچے جن کا باپ فوت ہوچکا ہو۔ پھر بعض تو کہتے ہیں کہ یتیمی کے ساتھ فقیری بھی ہو تو وہ مستحق ہیں اور بعض کہتے ہیں ہر امیر فقیر یتیم کو یہ الفاظ شامل ہیں۔ مساکین سے مراد وہ محتاج ہیں جن کے پاس اتنا نہیں کہ ان کی فقیری اور ان کی حاجت پوری ہوجائے اور انہیں کافی ہوجائے۔ ابن السبیل وہ مسافر ہے جو اتنی حد تک وطن سے نکل چکا ہو یا جا رہا ہو کہ جہاں پہنچ کر اسے نماز کو قصر پڑھنا جائز ہو اور سفر خرچ کافی اس کے پاس نہ رہا ہو۔ اس کی تفسیر سورة برات کی ( آیت انما الصدقات الخ، ) کی تفسیر میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ۔ ہمارا اللہ پر بھروسہ ہے اور اسی سے ہم مدد طلب کرتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر تمہارا اللہ پر اور اس کی اتاری ہوئی وحی پر ایمان ہے تو جو وہ فرما رہا ہے لاؤ یعنی مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ الگ کردیا کرو۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ وفد عبدالقیس کو رسول ﷺ نے فرمایا میں تمہیں چار باتوں کا حکم کرتا ہوں اور چار سے منع کرتا ہوں میں تمہیں اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہوں۔ جانتے بھی ہو کہ اللہ پر ایمان لانا کیا ہے ؟ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز کو پابندی سے ادا کرنا زکوٰۃ دینا اور غنیمت میں سے خمس ادا کرنا۔ پس خمس کا دینا بھی ایمان میں داخل ہے۔ حضرت امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب صحیح بخاری شریف میں باب باندھا ہے کہ خمس کا ادا کرنا ایمان میں ہے پھر اس حدیث کو وارد فرمایا ہے اور ہم نے شرح صحیح بخاری میں اس کا پورا مطلب واضح بھی کردیا ہے واللہ الحمد والمنہ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنا ایک احسان و انعام بیان فرماتا ہے کہ اس نے حق و باطل میں فرق کردیا۔ اپنے دین کو غالب کیا اپنے نبی کی اور آپ کے لشکریوں کی مدد فرمائی اور جنگ بدر میں انہیں غلبہ دیا۔ کلمہ ایمان کلمہ کفر پر چھا گیا پس یوم الفرقان سے مراد بدر کا دن ہے جس میں حق و باطل کی تمیز ہوگی۔ بہت سے بزرگوں سے یہی تفسیر مروی ہے۔ یہی سب سے پہلا غزوہ تھا۔ مشرک لوگ عتبہ بن ربیعہ کی ماتحتی میں تھے جمعہ کے دن انیس یا سترہ رمضان کو یہ لڑائی ہوئی تھی اصحاب رسول تین سو دس سے کچھ اوپر تھے اور مشرکوں کی تعداد نو سو سے ایک ہزار تھی۔ باوجود اس کے اللہ تبارک و تعالیٰ نے کافروں کو شکست دی ستر سے زائد تو کافر مارے گئے اور اتنے ہی قید کر لئے گئے۔ مستدرک حاکم میں ہے ابن مسعود فرماتے ہیں کہ لیلتہ القدر کو گیارہویں رات میں ہی یقین کے ساتھ تلاش کرو اس لئے کہ اس کی صبح کو بدر کی لڑائی کا دن تھا۔ حسن بن علی فرماتے ہیں کہ لیلتہ الفرقان جس دن دونوں جماعتوں میں گھمسان کی لڑائی ہوئی رمضان شریف کی سترہویں تھی یہ رات بھی جمعہ کی رات تھی۔ غزوے اور سیرت کے مرتب کرنے والے کے نزدیک یہی صحیح ہے۔ ہاں یزید بن ابو جعد جو اپنے زمانے کے مصری علاقے کے امام تھے فرماتے ہیں کہ بدر کا دن پیر کا دن تھا لیکن کسی اور نے ان کی متابعت نہیں کی اور جمہور کا قول یقینا ان کے قول پر مقدم ہے واللہ اعلم۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 41 وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی اس آیت میں مال غنیمت کا حکم بیان ہو رہا ہے۔ واضح رہے کہ بعثت کے بعد سے رسول اللہ ﷺ کا ذریعہ معاش کوئی نہیں تھا۔ شادی کے بعد حضرت خدیجہ رض نے اپنی ساری دولت ہر قسم کے تصرف کے لیے آپ ﷺ کو پیش کردی تھی۔ جب تک آپ ﷺ مکہ میں رہے ‘ کسی نہ کسی طرح اسی سرمائے سے آپ ﷺ کے ذاتی اخراجات چلتے رہے ‘ لیکن ہجرت کے بعد اس سلسلے میں کوئی مستقل انتظام نہیں تھا۔ پھر آپ ﷺ کے قرابت دار اور اہل و عیال بھی تھے جن کی کفالت آپ ﷺ کے ذمہ تھی۔ ان سب اخراجات کے لیے ضروری تھا کہ کوئی معقول اور مستقل انتظام کردیا جائے۔ چناچہ غنائم میں سے پانچواں حصہ مستقل طور پر بیت المال کو دے دیا گیا اور آپ ﷺ کے ذاتی اخراجات ‘ ازواج مطہرات رض کا نان نفقہ اور آپ ﷺ کے قرابت داروں کی کفالت بیت المال کے ذمہ طے پائی۔وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِلا اسی پانچویں حصے میں سے معاشرے کے محروم افراد کی مدد بھی کی جائے گی۔اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ باللّٰہِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ ط وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ فیصلے غزوۂ بدر کے دن جو شے خصوصی طور پر نازل کی گئی وہ غیبی امداد اور نصرت الٰہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ تمہاری مدد کے لیے فرشتے آئیں گے۔ وہ فرشتے اگرچہ کسی کو نظر تو نہیں آتے تھے ‘ لیکن جیسے تم لوگ بہت سی دوسری چیزوں پر ایمان بالغیب رکھتے ہو ‘ اللہ پر اور اس کی وحی پر ایمان رکھتے ہو ‘ جبرائیل علیہ السلام کے وحی لانے پر ایمان رکھتے ہو اور اس قرآن کے منزل من اللہ ہونے پر ایمان رکھتے ہو ‘ اسی طرح تمہارا یہ ایمان بھی ہونا چاہیے کہ اللہ نے اپنا وعدہ پورا کردیا جو اس نے اپنے رسول ﷺ اور مسلمانوں کی مدد کے سلسلے میں کیا تھا اور یہ کہ تمہاری یہ فتح اللہ کی مدد سے ہی ممکن ہوئی ہے۔ اگر تم لوگوں کا اس حقیقت پر یقین کامل ہے تو پھر اللہ کا یہ فیصلہ بھی دل کی آمادگی اور خوشی سے قبول کرلو کہ مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ اللہ ‘ اس کے رسول ﷺ اور بیت المال کا ہوگا۔اس حکم کے نازل ہونے کے بعد تمام مال غنیمت ایک جگہ جمع کیا گیا اور اس میں سے پانچواں حصہ بیت المال کے لیے نکال کر باقی چار حصے مجاہدین میں تقسیم کردیے گئے۔ اس میں سے ہر اس شخص کو برابر کا حصہ ملا جو لشکر میں جنگ کے لیے شامل تھا ‘ قطع نظر اس کے کہ کسی نے عملی طور پر قتال کیا تھا یا نہیں کیا تھا اور قطع نظر اس کے کہ کسی نے بہت سا مال غنیمت جمع کیا تھا یا کسی نے کچھ بھی جمع نہیں کیا تھا۔ البتہ اس تقسیم میں سوار کے دو حصے رکھے گئے اور پیدل کے لیے ایک حصہ۔ اس لیے کہ سواریوں کے جانور مہیّا کرنے اور ان جانوروں پر اٹھنے والے اخراجات متعلقہ افراد ذاتی طور پر برداشت کرتے تھے۔
واعلموا أنما غنمتم من شيء فأن لله خمسه وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل إن كنتم آمنتم بالله وما أنـزلنا على عبدنا يوم الفرقان يوم التقى الجمعان والله على كل شيء قدير
سورة: الأنفال - آية: ( 41 ) - جزء: ( 10 ) - صفحة: ( 182 )Surah Anfal Ayat 41 meaning in urdu
اور تمہیں معلوم ہو کہ جو کچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسُولؐ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر اور اس چیز پر جو فیصلے کے روز، یعنی دونوں فوجوں کی مڈبھیڑ کے دن، ہم نے اپنے بندے پر نازل کی تھی، (تو یہ حصہ بخوشی ادا کرو) اللہ ہر چیز پر قادر ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- کیا یہ کہ ایک دوسرے کو اسی بات کی وصیت کرتے آئے ہیں بلکہ یہ
- اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال
- اور ہر طرح کے سامان میں وسعت دی
- کہہ دو کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم مانو اگر نہ مانیں تو
- اور رات کی جب جانے لگے
- اور تمہارا پروردگار بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتا۔ جب تک اُن کے بڑے شہر
- یہ تو نصیحت ہے۔ جو چاہے اپنے پروردگار کی طرف پہنچنے کا رستہ اختیار کرے
- اور یوسف کے بھائی (کنعان سے مصر میں غلّہ خریدنے کے لیے) آئے تو یوسف
- ایسے لوگوں کے لئے ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جن میں ان کے (محلوں کے)
- اور تم نے دیکھ لیا کہ لوگ غول کے غول خدا کے دین میں داخل
Quran surahs in English :
Download surah Anfal with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Anfal mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Anfal Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers