Surah Taubah Ayat 45 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ﴾
[ التوبة: 45]
اجازت وہی لوگ مانگتے ہیں جو خدا پر اور پچھلے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ سو وہ اپنے شک میں ڈانواں ڈول ہو رہے ہیں
Surah Taubah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یہ ان منافقین کا بیان ہے جنہوں نے جھو ٹے حیلے تراش کر رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) سے جہاد میں نہ جانے کی اجازت طلب کر لی تھی۔ ان کی بابت کہا گیا ہے کہ یہ اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسی عدم ایمان نے انہیں جہاد سے گریز پر مجبور کیا۔ اگر ایمان ان کے دلوں میں راسخ ہوتا تو نہ جہاد سے یہ بھاگتے نہ شکوک و شبہات ان کے دلوں میں پیدا ہوتے۔ ملحوظہ: خیال رہے کہ اس جہاد میں شرکت کے معاملے میں مسلمانوں کی چار قسمیں تھیں۔ پہلی قسم: وہ مسلمان جو بلا تامل تیار ہوگئے۔ دوسرے، وہ جنہیں ابتداء تردد ہوا اور ان کے دل ڈولے، لیکن پھر جلد ہی اس تردد سے نکل آئے۔ تیسرے، وہ جو ضعف اور بیماری یا سواری اور سفر خرچ نہ ہونے کی وجہ سے فی الواقع جانے سے معذور تھے اور جنہیں خود اللہ تعالیٰ نے اجازت دے دی تھی۔ ( ان کا ذکر آیت 91- 92 میں ہے ) چوتھی قسم، وہ جو محض کاہلی کی وجہ سے شریک نہیں ہوئے۔ اور جب نبی ( صلى الله عليه وسلم ) واپس آئے تو انہوں نے اپنے گناہ کا اعتراف کرکے اپنے آپ کو توبہ اور سزا کے لئے پیش کردیا۔ ان کے علاوہ باقی منافقین اور ان کے جاسوس تھے، یہاں مسلمانوں کے پہلے گروہ اور منافقین کا ذکر ہے۔ مسلمانوں کی باقی تین قسموں کا بیان آگے چل کر آئے گا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
نہ ادھر کے نہ ادھر کے سبحان اللہ، اللہ کی اپنے محبوب سے کیسی باتیں ہو رہی ہیں ؟ سخت بات کے سنانے سے پہلے ہی معافی کا اعلان سنایا جاتا ہے اس کے بعد رخصت دینے کا عہد بھی سورة نور میں کیا جاتا ہے اور ارشاد عالی ہوتا ہے ( فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْكَ لِبَعْضِ شَاْنِهِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 62 ) 24۔ النور:62) یعنی ان میں سے کوئی اگر آپ سے اپنے کسی کام اور شغل کی وجہ سے اجازت چاہے تو آپ جسے چاہیں اجازت دے سکتے ہیں۔ یہ آیت ان کے بارے میں اتری ہے جن لوگوں نے آپس میں طے کرلیا تھا کہ حضور ﷺ سے اجازت طلبی تو کریں اگر اجازت ہوجائے تو اور اچھا اور اگر اجازت نہ بھی دیں تو بھی ہم اس غزوے میں جائیں گے تو نہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر انہیں اجازت نہ ملتی تو اتنا فائدہ ضرور ہوتا کہ سچے عذر والے اور جھوٹے بہانے بنانے والے کھل جاتے۔ نیک و بد میں ظاہری تمیز ہوجاتی۔ اطاعت گذار تو حاضر ہوجاتے۔ نافرمان باوجود اجازت نہ ملنے کے بھی نہ نکلتے۔ کیونکہ انہوں نے تو طے کرلیا تھا حضور ﷺ ہاں کہیں یا نہ کہیں ہم تو جہاد میں جانے کے نہیں۔ اسی لئے جناب باری نے اس کے بعد کی آیت میں فرمایا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ سچے ایماندار لوگ راہ حق کے جہاد سے رکنے کی اجازت تجھ سے طلب کریں وہ تو جہاد کو موجب قربت الہیہ مان کر اپنی جان و املاک کے فدا کرنے کے آرزو مند رہتے ہیں اللہ بھی اس متقی جماعت سے بخوبی آگاہ ہے۔ بلا عذر شرعی بہانے بنا کر جہاد سے رک جانے کی اجازت طلب کرنے والے تو بےایمان لوگ ہیں جنہیں دار آخرت کی جزا کی کوئی امید ہی نہیں ان کے دل آج تک تیری شریعت کے بارے میں شک شبہ میں ہی ہیں یہ حیران و پریشان ہیں ایک قدم ان کا آگے بڑھتا ہے تو دوسرا پیچھے ہٹتا ہے انہیں ثابت قدمی اور استقلال نہیں یہ ہلاک ہونے والے ہیں یہ نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے یہ اللہ کے گمراہ کئے ہوئے ہیں تو ان کے سنوار نے کا کوئی رستہ نہ پائے گا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 45 اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوْبُہُمْ یہاں سورة الحجرات کی مذکورہ آیت کے الفاظ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا ذہن میں دوبارہ تازہ کرلیجئے کہ مؤمن تو وہی ہیں جو ایمان لانے کے بعد شک میں نہ پڑیں ‘ اور یہاں وارْتَابَتْ قُلُوْبُہُمْ کے الفاظ سے واضح فرما دیا کہ ان منافقین کے دلوں کے اندر تو شکوک و شبہات مستقل طور پر ڈیرے ڈال چکے ہیں۔فَہُمْ فِیْ رَیْبِہِمْ یَتَرَدَّدُوْنَ اپنے ایمان کے اندر پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کی وجہ سے وہ تذبذب میں پڑے ہوئے ہیں اور جہاد کے لیے نکلنے کے بارے میں فیصلہ نہیں کر پا رہے۔ کبھی ان کو مسلمانوں کے ساتھ چلنے میں مصلحت نظر آتی کہ نہ جانے سے ایمان کا ظاہری بھرم بھی جاتا رہے گا ‘ مگر پھر فوراً ہی مسافت کی مشقت کے تصور سے دل بیٹھ جاتا ‘ دنیوی مفادات کا تصور پاؤں کی بیڑی بن جاتا اور پھر سے جھوٹے بہانے بننے شروع ہوجاتے۔
إنما يستأذنك الذين لا يؤمنون بالله واليوم الآخر وارتابت قلوبهم فهم في ريبهم يترددون
سورة: التوبة - آية: ( 45 ) - جزء: ( 10 ) - صفحة: ( 194 )Surah Taubah Ayat 45 meaning in urdu
ایسی درخواستیں تو صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں رکھتے، جن کے دلوں میں شک ہے اور وہ اپنے شک ہی میں متردد ہو رہے ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور بدکردار دوزخ میں
- اور (عیسیٰ) بنی اسرائیل کی طرف پیغمبر (ہو کر جائیں گے اور کہیں گے) کہ
- وہی تو ہے جو (ماں کے پیٹ میں) جیسی چاہتا ہے تمہاری صورتیں بناتا ہے
- یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں ہمیں خوب معلوم ہے اور تم ان پر زبردستی
- اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے کہ خدا پر ایمان لاؤ اور اس کے
- اور چارپایوں کو بھی اسی نے پیدا کیا۔ ان میں تمہارے لیے جڑاول اور بہت
- اور ہم جانتے ہیں کہ ان باتوں سے تمہارا دل تنگ ہوتا ہے
- (تمام) بادشاہت خدا ہی کی ہے آسمانوں کی بھی اور زمین کی بھی۔ وہ جو
- اور کہتے ہیں کہ اس پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں
- (یہ) اس لئے کہ وہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بہشتوں میں جن کے
Quran surahs in English :
Download surah Taubah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Taubah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Taubah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers