Surah Qaaf Ayat 5 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿بَلْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَّرِيجٍ﴾
[ ق: 5]
بلکہ (عجیب بات یہ ہے کہ) جب ان کے پاس (دین) حق آ پہنچا تو انہوں نے اس کو جھوٹ سمجھا سو یہ ایک الجھی ہوئی بات میں (پڑ رہے) ہیں
Surah Qaaf Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) حَقٌّ ( سچی بات ) سے مراد قرآن، اسلام یا نبوت محمدیہ ہے، مفہوم سب کا ایک ہی ہے مَرِيجٌ کے معنی محتاط، مضطرب یا ملتبس کے ہیں۔ یعنی ایسا معاملہ جو ان پر مشتبہ ہو گیا ہے، جس سے وہ ایک الجھاؤ میں پڑ گئے ہیں، کبھی اسے جادو گر کہتے ہیں، کبھی شاعر اور کبھی کاﮨﻦ۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
اہل کتاب کی موضوع روایتیں ق حروف ہجا سے ہے جو سورتوں کے اول میں آتے ہیں جیسے ص، ن، الم، حم، طس، وغیرہ ہم نے ان کی پوری تشریح سورة بقرہ کی تفسیر میں شروع میں کردی ہے۔ بعض سلف کا قول ہے کہ قاف ایک پہاڑ ہے زمین کو گھیرے ہوئے ہے، میں تو جانتا ہوں کہ دراصل یہ بنی اسرائیل کی خرافات میں سے ہے جنہیں بعض لوگوں نے لے لیا۔ یہ سمجھ کر کہ یہ روایت لینا مباح ہے گو تصدیق تکذیب نہیں کرسکتے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ اور اس جیسی اور روایتیں تو بنی اسرائیل کے بد دینوں نے گھڑ لی ہوں گی تاکہ لوگوں پر دین کو خلط ملط کردیں، آپ خیال کیجئے کہ اس امت میں باوجودیکہ علماء کرام اور حافظان عظام کی بہت بڑی دیندار مخلص جماعت ہر زمانے میں موجود ہے تاہم بددینوں نے بہت تھوڑی مدت میں موضوع احادیث تک گھڑ لیں۔ پس بنی اسرائیل جن پر مدتیں گزر چکیں جو حفظ سے عاری تھے جن میں نقادان فن موجود نہ تھے جو کلام اللہ کو اصلیت سے ہٹا دیا کرتے تھے جو شرابوں میں مخمور رہا کرتے تھے جو آیات اللہ کو بدل ڈالا کرتے تھے ان کا کیا ٹھیک ہے ؟ پس حدیث نے جن روایات کو ان سے لینا مباح رکھا ہے یہ وہ ہیں جو کم از کم عقل و فہم میں تو آسکیں، نہ وہ جو صریح خلاف عقل ہوں سنتے ہی ان کے باطل اور غلط ہونے کا فیصلہ عقل کردیتی ہو اور اس کا جھوٹ ہونا اتنا واضح ہو کہ اس پر دلیل لانے کی ضرورت نہ پڑے۔ پس مندرجہ بالا روایات بھی ایسی ہی ہے واللہ اعلم۔ افسوس کہ بہت سلف وخلف نے اہل کتاب سے اس قسم کی حکایتیں قرآن مجید کی تفسیر میں وارد کردی ہیں دراصل قرآن کریم ایسی بےسروپا باتوں کا کچھ محتاج نہیں، فالحمد اللہ، یہاں تک کہ امام ابو محمد عبدالرحمن بن ابو حاتم رازی ؒ نے بھی یہاں ایک عجیب و غریب اثر بہ روایت حضرت ابن عباس وارد کردیا ہے جو ازروے سند ثابت نہیں، اس میں ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے ایک سمندر پیدا کیا ہے جو اس ساری زمین کو گھیرے ہوئے ہے اور اس سمندر کے پچھے ایک پہاڑ ہے جو اس کو روکے ہوئے ہے اس کا نام قاف ہے، آسمان اور دنیا اسی پر اٹھا ہوا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس پہاڑ کے پچھے ایک زمین بنائی ہے جو اس زمین سے سات گنا بڑی ہے، پھر اس کے پچھے ایک سمندر ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے پھر اس کے پچھے پہاڑ ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اسے بھی قاف کہتے ہیں دوسرا آسمان اسی پر بلند کیا ہوا ہے اسی طرح سات زمینیں، سات سمندر، سات پہاڑ اور سات آسمان گنوائے پھر یہ آیت پڑھی، آیت ( وَّالْبَحْرُ يَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 27 ) 31۔ لقمان:27) اس اثر کی اسناد میں انقطاع ہے علی بن ابو طلحہ جو روایت حضرت ابن عباس سے کرتے ہیں اس میں ہے کہ ( ق ) اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے حضرت مجاہد فرماتے ہیں ( ق ) بھی مثل ( ص، ن، طس، الم ) وغیرہ کے حروف ہجا میں سے ہے پس ان روایات سے بھی حضرت ابن عباس کا یہ فرمان ہونا اور بعید ہوجاتا ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ کام کا فیصلہ کردیا گیا ہے قسم اللہ کی اور ( ق ) کہہ کر باقی جملہ چھوڑ دیا گیا کہ یہ دلیل ہے محذوف پر جیسے شاعر کہتا ہے۔ قلت لھا قفی فقالت ق لیکن یہ کہنا بھی ٹھیک نہیں۔ اس لئے کہ محذوف پر دلالت کرنے والا کلام صاف ہونا چاہئے اور یہاں کونسا کلام ہے ؟ جس سے اتنے بڑے جملے کے محذوف ہونے کا پتہ چلے۔ پھر اس کرم اور عظمت والے قرآن کی قسم کھائی جس کے آگے سے یا پچھے سے باطل نہیں آسکتا جو حکمتوں اور تعریفوں والے اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے اس قسم کا جواب کیا ہے ؟ اس میں بھی کئی قول ہیں۔ امام ابن جریر نے تو بعض نحویوں سے نقل کیا ہے کہ اس کا جواب آیت ( قد علمنا ) پوری آیت تک ہے لیکن یہ بھی غور طلب ہے بلکہ جواب قسم کے بعد کا مضمون کلام ہے یعنی نبوت اور دو بارہ جی اٹھنے کا ثبوت اور تحقیق گو لفظوں سے قسم اس کا جواب نہیں بتاتی ہو لیکن قرآن میں جواب میں اکثر دو قسمیں موجود ہیں جیسے کہ سورة ص کی تفسیر کے شروع میں گزر چکا ہے، اسی طرح یہاں بھی ہے پھر فرماتا ہے کہ انہوں نے اس بات پر تعجب ظاہر کیا ہے کہ انہی میں سے ایک انسان کیسے رسول بن گیا ؟ جیسے اور آیت میں ہے آیت ( اَكَان للنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ ڼ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِيْنٌ ) 10۔ يونس:2) ، یعنی کیا لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ہم نے انہی میں سے ایک شخص کی طرف وحی بھیجی تاکہ تم لوگوں کو خبردار کر دے، یعنی دراصل یہ کو تعجب کی چیز نہ تھی اللہ جسے چاہے اپنے فرشتوں میں سے اپنی رسالت کے لئے چن لیتا ہے اور جسے چاہے انسانوں میں سے چن لیتا ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے مرنے کے بعد جینے کو بھی تعجب کی نگاہوں سے دیکھا اور کہا کہ جب ہم مرجائیں گے اور ہمارے جسم کے اجزا جدا جدا ہو کر ریزہ ریزہ ہو کر مٹی ہوجائیں گے اس کے بعد تو اسی ہئیت و ترکیب میں ہمارا دوبارہ جینا بالکل محال ہے اس کے جواب میں فرمان صادر ہوا کہ زمین ان کے جسموں کو جو کھا جاتی ہے اس سے بھی ہم غافل نہیں ہمیں معلوم ہے کہ ان کے ذرے کہاں گئے اور کس حالت میں کہاں ہیں ؟ ہمارے پاس کتاب ہے جو اس کی حافظ ہے ہمارا علم ان سب معلومات پر مشتمل ہے اور ساتھ ہی کتاب میں محفوظ ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یعنی ان کے گوشت چمڑے ہڈیاں اور بال جو کچھ زمین کھا جاتی ہے ہمارے علم میں ہے۔ پھر پروردگار عالم انکے اس محال سمجھنے کی اصل وجہ بیان فرما رہا ہے کہ دراصل یہ حق کو جھٹلانے والے لوگ ہیں اور جو لوگ اپنے پاس حق کے آجانے کے بعد اس کا انکار کردیں ان سے اچھی سمجھ ہی چھن جاتی ہے مریج کے معنی ہیں مختلف مضطرب، منکر اور خلط ملط کے جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّكُمْ لَفِيْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ ۙ ) 51۔ الذاريات:8) یعنی یقینا تم ایک جھگڑے کی بات میں پڑے ہوئے ہو۔ نافرمانی وہی کرتا ہے جو بھلائی سے محروم کردیا گیا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 5 { بَلْ کَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَآئَ ہُمْ } ” بلکہ انہوں نے جھٹلا دیا حق کو جب کہ وہ ان کے پاس آیا “ { فَہُمْ فِیْٓ اَمْرٍ مَّرِیْجٍ۔ } ” سو اب وہ ایک بڑی الجھن میں مبتلاہو گئے ہیں۔ “ ایک طرف تو جواب دہی اور احتساب کی باتیں ماننے کے لیے ان کی طبیعتیں آمادہ نہیں اور دوسری طرف اس بارے میں قرآن کی زبان میں حضور ﷺ کے دلائل ایسے قوی ہیں کہ انہیں جھٹلانا ان کے لیے ممکن نہیں۔ بس یہی الجھن ہے جس میں یہ لوگ پھنس چکے ہیں۔ اس کائنات کی ایک ایک چیز اس حقیقت پر گواہ ہے اور اس کا مربوط و مستحکم نظام بھی زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ اس کا خالق ایک علیم و حکیم ہستی ہے۔ پھر انسان کے اندر پائی جانے والی ” اخلاقی حس “ بھی اس کے اچھے برے اعمال کے ٹھوس اور حتمی نتائج کا تقاضا کرتی ہے جس کے لیے ایک دوسری زندگی کی ضرورت ہے۔ ان تمام حقائق و شواہد کی موجودگی میں ایک صاحب ِعقل اور ذی شعور انسان کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہ کائنات بس ” رام کی لیلا “ ہے اور انسان کی اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی نہیں ہے۔ چناچہ منکرین آخرت کے لیے ان حقائق کو تسلیم کیے بغیر چارہ بھی نہیں ‘ لیکن ان کی طبیعتیں ہیں کہ احتساب کے لیے تیار بھی نہیں۔ یہ انسان کی وہی نفسیاتی الجھن ہے جس کا ذکر غالب ؔنے اس شعر میں کیا ہے جو میں نے ابھی آپ کو سنایا ہے : ؎جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد پر طبیعت ادھر نہیں آتی !ان لوگوں کے قلوب و اذہان میں منفی خیالات و نظریات اس قدر راسخ ہوچکے ہیں کہ اب ان سے پیچھا چھڑانا ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔ دراصل انسان اپنے لڑکپن کی عمر میں جن عقائد و نظریات کا اثر قبول کرتا ہے وہ ساری عمر کے لیے اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ انسان کی اس کمزوری کا نقشہ ایک انگریزی نظم The Cage میں بڑے حقیقت پسندانہ انداز میں دکھایا گیا ہے۔ یہ نظم میں نے اپنے انٹرمیڈیٹ کے زمانے میں پڑھی تھی۔ اس نظم کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر انسان اپنی ان عادات کے ” پنجرے “ کا قیدی ہے جنہیں وہ لڑکپن کی عمر میں ایک ایک کرکے اپناتا ہے۔ گویا اس پنجرے کی سلاخیں اپنے لیے وہ خود تیار کرتا ہے۔ بقول شاعر :" I built these bars when I was young"” اس پنجرے کی سلاخیں میں نے اس وقت تیار کی تھیں جب میں جوان تھا “۔ جوانی میں انسان کے قویٰ مضبوط ہوتے ہیں۔ اس وقت وہ جو کچھ سیکھتا ہے وہ اس کے ذہن پر نقش کا لحجر بن جاتا ہے اور پھر اپنی باقی عمر وہ ان عادات و نظریات کا قیدی بن کر پنجرے میں قید پرندے کی مانند گزار دیتا ہے۔ چناچہ یہ منکرین آخرت بھی اپنے غلط عقائد و نظریات کے خود ساختہ پنجروں کے قیدی ہیں۔ ان پنجروں کی سلاخیں وہ اس قدر مضبوط کرچکے ہیں کہ اب انہیں توڑ کر باہر نکلنا ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔
Surah Qaaf Ayat 5 meaning in urdu
بلکہ اِن لوگوں نے تو جس وقت حق اِن کے پاس آیا اُسی وقت اُسے صاف جھٹلا دیا اِسی وجہ سے اب یہ الجھن میں پڑے ہوئے ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اسی کے پاس آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں۔ اور جنہوں نے خدا کی آیتوں
- کیا ان میں سے ہر شخص یہ توقع رکھتا ہے کہ نعمت کے باغ میں
- اور وہ جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ قیامت کے دن میرے گناہ بخشے
- پھر جب انہوں نے اس (عذاب کو) دیکھا کہ بادل (کی صورت میں) ان کے
- تو موسٰی نے اُن کے لئے (بکریوں کو) پانی پلا دیا پھر سائے کی طرف
- تو نوح نے کشتی بنانی شروع کردی۔ اور جب ان کی قوم کے سردار ان
- مومنو خدا سے ڈرا کرو اور بات سیدھی کہا کرو
- جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو تکلیفیں دیں اور توبہ نہ کی
- اور ہر شیطان راندہٴ درگاہ سے اُسے محفوظ کر دیا
- اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا کہنے لگا کہ اے
Quran surahs in English :
Download surah Qaaf with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Qaaf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Qaaf Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers