Surah Taubah Ayat 5 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ توبہ کی آیت نمبر 5 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Taubah ayat 5 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾
[ التوبة: 5]

Ayat With Urdu Translation

جب عزت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو اور پکڑلو اور گھیرلو اور ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھے رہو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے لگیں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے

Surah Taubah Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) ان حرمت والے مہینوں سے مراد کیا ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ ایک رائے تو یہ ہے اس سے مراد وہی چار مہینے ہیں جو حرمت والے ہیں۔ یعنی رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔ اور اعلان براءت 10 ذوالحجہ کو کیا گیا۔ اس اعتبار سے گویا یہ اعلان کے بعد پچاس دن کی مہلت انہیں دی گئی، کیونکہ حرمت والے مہینوں کے گزرنے کے بعد مشرکین کو پکڑنے اور قتل کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ لیکن امام ابن کثیر نے کہا کہ یہاں أَشْهُرٌ حُرُمٌ سے مراد حرمت والے مہینے نہیں بلکہ 10 ذوالحجہ سے لے کر 10ربیع الثانی تک کے چار مہینے مراد ہیں۔ انہیں أَشْهُرٌ حُرُمٌ اس لیے کہا گیا ہے کہ اعلان براءت کی روسے ان چارمہینوں میں ان مشرکین سے لڑنے اور انکے خلاف کسی اقدام کی اجازت نہیں تھی۔ اعلان براءت کی رو سے یہ تاویل مناسب معلوم ہوتی ہے ( واللہ اعلم بالصواب )۔
( 2 ) بعض مفسرین نے اس حکم کو عام رکھا یعنی حل یا حرم میں، جہاں بھی پاؤ قتل کرو۔ اور بعض مفسرین نے «وَلا تُقَاتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِنْ قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ» ( البقرة ۔191 ) ” مسجد حرام کے پاس مت لڑو! یہاں تک کہ وہ خود تم سے لڑیں، اگر وہ لڑیں تو پھر تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے “۔ اس آیت سے تخصیص کی ہے اور صرف حدود حرم سے باہر حل میں قتل کرنے کی اجازت دی ہے۔ ( ابن کثیر )
( 3 ) یعنی انہیں قیدی بنا لویا قتل کر دو۔
( 4 ) یعنی اس بات پر اکتفا کرو کہ وہ تمہیں کہیں ملیں تو تم کاروائی کرو، بلکہ جہاں جہاں ان کے حصار، قلعے اور پناہ گاہیں ہیں وہاں وہاں ان کی گھات میں رہو، حتٰی کہ تمہاری اجازت کے بغیر ان کے لئے نقل و حرکت ممکن نہ رہے۔
( 5 ) یعنی کوئی کاروائی ان کے خلاف نہ کی جائے، کیونکہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں۔ گویا قبول اسلام کے بعد اقامت صلٰوۃ اور ادائے زکوۃ کا اہتمام ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک کا بھی ترک کرتا ہے تو وہ مسلمان نہیں سمجھا جائے گا۔ جس طرح حضرت ابو بکر صدیق ( رضي الله عنه ) نے مانعین زکوۃ کے خلاف اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے جہاد کیا اور فرمایا: «والله لأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلاة وَالزَّكَاةِ» ( متفق عليه ، بحواله مشكاة كتاب الزكاة، فصل ثالث ) ” اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوۃ کے درمیان فرق کریں گے “۔ یعنی نماز تو پڑھیں لیکن زکوۃ ادا کرنے سے گریز کریں۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


جہاد اور حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں سے مراد یہاں وہ چار مہینے ہیں جن کا ذکر ( اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۭذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ ڏ فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَاۗفَّةً ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ 36؀ )التوبة:36) میں ہے پس ان کے حق میں آخری حرمت والا مہینہ محرم الحرام کا ہے ابن عباس اور ضحاک سے بھی یہی مروی ہے لیکن اس میں ذرا تامل ہے بلکہ مراد اس سے یہاں وہ چار مہینے ہیں جن میں مشرکین کو پناہ ملی تھی کہ ان کے بعد تم سے لڑائی ہے چناچہ خود اسی سورت میں اس کا بیان اور آیت میں آرہا ہے۔ فرماتا ہے ان چار ماہ کے بعد مشرکوں سے جنگ کرو انہیں قتل کرو، انہیں گرفتار کرو، جہاں بھی پاؤ پس یہ عام ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ یہ خاص ہے حرم میں لڑائی نہیں ہوسکتی جیسے فرمان ہے ( وَاقْتُلُوْھُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ وَاَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ حَيْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ ۚ فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ ۭكَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ01901 ) 2۔ البقرة :191) یعنی مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو جب تک کہ وہ اپنی طرف سے لڑائی کی ابتداء نہ کریں۔ اگر یہ وہاں تم سے لڑیں تو پھر تمہیں بھی ان سے لڑائی کرنے کی اجازت ہے۔ چاہو قتل کرو، چاہو قید کرلو، ان کے قلعوں کا محاصرہ کرو ان کے لیے ہر گھاٹی میں بیٹھ کر تاک لگاؤ انہیں زد پر لاکر مارو۔ یعنی یہی نہیں کہ مل جائیں تو جھڑپ ہوجائے خود چڑھ کر جاؤ۔ ان کی راہیں بند کرو اور انہیں مجبور کردو کہ یا تو اسلام لائیں یا لڑیں۔ اس لیے فرمایا کہ اگر وہ توبہ کرلیں پابند نماز ہوجائیں زکوٰۃ دینے کے مانعین سے جہاد کرنے کی اسی جیسی آیتوں سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے دلیل لی تھی کہ لڑائی اس شرط پر حرام ہے کہ اسلام میں داخل ہوجائیں اور اسلام کے واجبات بجا لائیں۔ اس آیت میں ارکان اسلام کو ترتیب وار بیان فرمایا ہے اعلٰی پھر ادنٰی پس شہادت کے بعد سب سے بڑا رکن اسلام نماز ہے جو اللہ عزوجل کا حق ہے۔ نماز کے بعد زکوٰۃ ہے جس کا نفع فقیروں مسکینوں محتاجوں کو پہنچتا ہے اور مخلوق کا زبردست حق جو انسان کے ذمے ہے ادا ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر نماز کے ساتھ ہی زکوٰۃ کا ذکر اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے۔ بخاری و مسلم میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں مجھے حکم کیا گیا ہے کہ لوگوں سے جہاد جاری رکھو، جب تک کہ وہ یہ گواہی نہ دیں کہ کوئی معبود بجز اللہ کے نہیں ہے اور یہ کہ محمد ﷺ رسول اللہ ہیں اور نمازوں کو قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ تمہیں نمازوں کے قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم کیا گیا ہے جو زکوٰۃ نہ دے اس کی نماز بھی نہیں۔ حضرت عبد الرحمن بن زید بن اسلام فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ہرگز کسی کی نماز قبول نہیں فرماتا جب تک وہ زکوٰۃ ادا نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ حضرت ابوبکر ؓ پر رحم فرمائے آپ کی فقہ سب سے بڑھی ہوئی تھی۔ جو آپ نے زکوٰۃ کے منکروں سے جہاد کیا۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں مجھے لوگوں سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔ جب تک کہ وہ یہ گواہی نہ دیں کہ بجز اللہ تعالیٰ برحق کے اور کوئی لائق عبادت نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ جب وہ ان دونوں باتوں کا اقرار کرلیں، ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرلیں، ہمارا ذبیحہ کھانے لگیں، ہم جیسی نمازیں پڑھنے لگیں تو ہم پر ان کے خون ان کے مال حرام ہیں مگر احکام حق کے ماتحت انہیں وہ حق حاصل ہے جو اور مسلمانوں کا ہے اور ان کے ذمے ہر وہ چیز ہے جو اور مسلمانوں کے ذمے ہے یہ روایت بخاری شریف میں اور سنن میں بھی ہے سوائے ابن ماجہ کے۔ ابن جریر میں ہے رسول مقبول ﷺ فرماتے ہیں جو دنیا سے اس حال میں جائے کہ اللہ تعالیٰ اکیلے کی خالص عبادت کرتا ہو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو تو وہ اس حال میں جائے گا کہ اللہ اس سے خوش ہوگا۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں یہی اللہ کا دین ہے اسی کو تمام پیغمبر ( علیہم السلام ) لائے تھے اور اپنے رب کی طرف سے اپنی اپنی امتوں کو پہنچایا تھا اس سے پہلے کہ باتیں پھیل جائیں اور خواہشیں ادھر ادھر لگ جائیں اس کی سچائی کی شہادت اللہ کی آخری وحی میں موجود ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ( فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ ۭوَنُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ 11 )التوبة:11) پس توبہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد برحق ہے پس توبہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد برحق کے سوا اوروں کی عبادت سے دست بردار ہوجائیں نماز اور زکوٰۃ کے پابند ہوجائیں اور آیت میں ہے کہ ان تینوں کاموں کے بعد وہ تمہارے دینی برادر ہیں ضحاک فرماتے ہیں یہ تلوار کی آیت ہے اس نے ان تمام عہد و پیمان کو چاک کردیا، جو مشرکوں سے تھے۔ ابن عباس کا قول ہے کہ برات کے نازل ہونے پر چار مہینے گزر جانے کے بعد کوئی عہد و ذمہ باقی نہیں رہا۔ پہلی شرطیں برابری کے ساتھ توڑ دی گئیں۔ اب اسلام اور جہاد باقی رہ گیا، حضرت علی بن ابی طالب ؓ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو چار تلواروں کے ساتھ بھیجا ایک تو مشرکین عرب میں فرماتا ہے ( فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ )التوبة:5) مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو۔ یہ روایت اسی طرح مختصراً ہے۔ میرا خیال ہے کہ دوسری تلوار اہل کتاب میں فرماتا ہے ( قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَلَا بالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ 29؀ )التوبة:29) اللہ تبارک و تعالیٰ پر قیامت کے دن پر ایمان نہ لانے والوں اور اللہ رسول کے حرام کردہ کو حرام نہ ماننے والوں اور اللہ کے سچے دین کو قبول کرنے والوں سے جو اہل کتاب ہیں جہاد کرو تاوقتیکہ وہ ذلت کے ساتھ جزیہ دینا قبول کرلیں۔ تیری تلوار منافوں میں فرمان ہے ( يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۭ وَمَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ۭوَبِئْسَ الْمَصِيْرُ 73؀ )التوبة:73) اے نبی کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو۔ چوتھی تلوار باغیوں میں ارشاد ہے ( وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ فَاِنْ فَاۗءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ ) 49۔ الحجرات:9) اگر مسلمانوں کی دو جماعتوں میں لڑائی ہوجائے تو ان میں صلح کرادو پھر بھی اگر کوئی جماعت دوسری کو دباتی چلی جائے تو ان باغیوں سے تم لڑو جب تک کہ وہ پلٹ کر اللہ کے حکم کی ماتحتی میں نہ آجائے۔ ضحاک اور سدی کا قول ہے کہ یہ آیت تلوار ( فَاِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ ۭ حَتّىٰٓ اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ ڎ فَاِمَّا مَنًّـۢا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَاۗءً حَتّٰى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَاڃ ذٰ۩لِكَ ړ وَلَوْ يَشَاۗءُ اللّٰهُ لَانْتَـصَرَ مِنْهُمْ وَلٰكِنْ لِّيَبْلُوَا۟ بَعْضَكُمْ بِبَعْـضٍ ۭ وَالَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَلَنْ يُّضِلَّ اَعْمَالَهُمْ ) 47۔ محمد:4) سے منسوخ ہے یعنی بطور احسان کے یا فدیہ لے کر کافر قیدیوں کو چھوڑ دو۔ قتادہ اس کے برعکس کہتے ہیں پچھلی آیت پہلی سے منسوخ ہے۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 5 فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ یہاں محترم مہینوں سے مراد وہ چار مہینے ہیں جن کی مشرکین کو مہلت دی گئی تھی۔ چار مہینے کی یہ مہلت یا امان غیر میعادی معاہدوں کے لیے تھی ‘ جبکہ میعادی معاہدوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ ان کی طے شدہ مدت تک پابندی کی جائے۔ لہٰذا جیسے جیسے کسی گروہ کی مدت امان ختم ہوتی جائے گی اس لحاظ سے اس کے خلاف اقدام کیا جائے گا۔ بہر حال جب یہ مہلت اور امان کی مدت گزر جائے :فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ ج ان الفاظ میں موجود سختی کو محسوس کرتے ہوئے اس منظر اور ماحول کو ذہن میں لائیے جب یہ آیات بطور اعلان عام پڑھ کر سنائی جا رہی تھیں اور اندازہ کیجیے کہ ان میں سے ایک ایک لفظ اس ماحول میں کس قدر اہم اور پر تاثیر ہوگا۔ اس اجتماع میں مشرکین بھی موجود تھے اور ان کے لیے یہ اعلان اور الٹی میٹم یقیناً بہت بڑی ذلت و رسوائی کا باعث تھا۔ جب یہ چھ آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رض کو قافلہ حج کے پیچھے روانہ کیا اور انہیں تاکید کی کہ حج کے اجتماع میں میرے نمائندے کی حیثیت سے یہ آیات بطور اعلان عام پڑھ کر سنادیں۔ اس لیے کہ عرب کے رواج کے مطابق کسی بڑی شخصیت کی طرف سے اگر کوئی اہم اعلان کرنا مقصود ہوتا تو اس شخصیت کا کوئی قریبی عزیز ہی ایسا اعلان کرتا تھا۔ جب حضرت علی رض قافلۂ حج سے جا کر ملے تو قافلہ پڑاؤ پر تھا۔ امیر قافلہ حضرت ابوبکر صدیق رض تھے۔ جونہی حضرت علی رض آپ رض سے ملے تو آپ رض نے پہلا سوال کیا : اَمِیرٌ اَوْ مَاْمُورٌ ؟ یعنی آپ رض امیر بنا کر بھیجے گئے ہیں یا مامور ؟ مراد یہ تھی کہ پہلے میری اور آپ رض کی حیثیت کا تعین کرلیا جائے۔ اگر آپ رض کو امیر بنا کر بھیجا گیا ہے تو میں آپ رض کے لیے اپنی جگہ خالی کر دوں اور خود آپ رض کے سامنے مامور کی حیثیت سے بیٹھوں۔ اس پر حضرت علی رض نے جواب دیا کہ میں مامور ہوں ‘ امیر حج آپ رض ہی ہیں ‘ البتہ حج کے اجتماع میں آیات الٰہی پر مشتمل اہم اعلان رسول اللہ ﷺ کی طرف سے میں کروں گا۔ اس واقعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے صحابہ کرام رض کی تربیت بہت خوبصورت انداز میں فرمائی تھی اور آپ ﷺ کی اسی تربیت کے باعث ان رض کی جماعتی زندگی انتہائی منظم تھی۔ اور آج مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ یہ دنیا کی انتہائی غیر منظم قوم بن کر رہ گئے ہیں۔فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ یعنی اگر وہ شرک سے تائب ہو کر مسلمان ہوجائیں ‘ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دینا قبول کرلیں تو پھر ان سے مواخذہ نہیں۔

فإذا انسلخ الأشهر الحرم فاقتلوا المشركين حيث وجدتموهم وخذوهم واحصروهم واقعدوا لهم كل مرصد فإن تابوا وأقاموا الصلاة وآتوا الزكاة فخلوا سبيلهم إن الله غفور رحيم

سورة: التوبة - آية: ( 5 )  - جزء: ( 10 )  -  صفحة: ( 187 )

Surah Taubah Ayat 5 meaning in urdu

پس جب حرام مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں اُن کی خبر لینے کے لیے بیٹھو پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو انہیں چھوڑ دو اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اور ہم نے موسیٰ اور ہارون پر بھی احسان کئے
  2. اور ہم نے ان سے پہلے کئی اُمتیں ہلاک کر ڈالیں۔ وہ ان سے قوت
  3. تو ان سے پوچھو کہ ان کا بنانا مشکل ہے یا جتنی خلقت ہم نے
  4. (اور) تختوں پر (بیٹھے ہوئے ان کا حال) دیکھ رہے ہوں گے
  5. جو کوئی عمل نیک کرے گا تو اپنے لئے۔ اور جو برے کام کرے گا
  6. بھلا میں ان چیزوں سے جن کو تم (خدا کا) شریک بناتے ہو کیونکرڈروں جب
  7. اور اے اہل عقل (حکم) قصاص میں (تمہاری) زندگانی ہے کہ تم (قتل و خونریزی
  8. جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا ہے پھر وہ (اس پر) قائم رہے
  9. اور خود تمہارے نفوس میں تو کیا تم دیکھتے نہیں؟
  10. پھر (رفتہ رفتہ) اس (کی حالت) کو (بدل کر) پست سے پست کر دیا

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Taubah with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Taubah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Taubah Complete with high quality
surah Taubah Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Taubah Bandar Balila
Bandar Balila
surah Taubah Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Taubah Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Taubah Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Taubah Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Taubah Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Taubah Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Taubah Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Taubah Fares Abbad
Fares Abbad
surah Taubah Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Taubah Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Taubah Al Hosary
Al Hosary
surah Taubah Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Taubah Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Sunday, May 19, 2024

لا تنسنا من دعوة صالحة بظهر الغيب