Surah ahzab Ayat 50 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ احزاب کی آیت نمبر 50 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah ahzab ayat 50 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾
[ الأحزاب: 50]

Ayat With Urdu Translation

اے پیغمبر ہم نے تمہارے لئے تمہاری بیویاں جن کو تم نے ان کے مہر دے دیئے ہیں حلال کردی ہیں اور تمہاری لونڈیاں جو خدا نے تم کو (کفار سے بطور مال غنیمت) دلوائی ہیں اور تمہارے چچا کی بیٹیاں اور تمہاری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تمہارے ماموؤں کی بیٹیاں اور تمہاری خالاؤں کی بیٹیاں جو تمہارے ساتھ وطن چھوڑ کر آئی ہیں (سب حلال ہیں) اور کوئی مومن عورت اگر اپنے تئیں پیغمبر کو بخش دے (یعنی مہر لینے کے بغیر نکاح میں آنا چاہے) بشرطیکہ پیغمبر بھی ان سے نکاح کرنا چاہیں (وہ بھی حلال ہے لیکن) یہ اجازت (اے محمدﷺ) خاص تم ہی کو ہے سب مسلمانوں کو نہیں۔ ہم نے ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں جو (مہر واجب الادا) مقرر کردیا ہے ہم کو معلوم ہے (یہ) اس لئے (کیا گیا ہے) کہ تم پر کسی طرح کی تنگی نہ رہے۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے

Surah ahzab Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) بعض احکام شرعیہ میں نبی کریم ( صلى الله عليه وسلم ) کو امیتاز حاصل تھا، جنہیں آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کی خصوصیات کہا جاتا ہے۔ مثلاً اہل علم کی ایک جماعت کے بقول قیام اللیل ( تہجد ) آپ ( صلى الله عليه وسلم ) پر فرض تھا، صدقہ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) پر حرام تھا، اسی طرح کی بعض خصوصیات کا ذکر قرآن کریم کے اس مقام پر کیا گیا ہے جن کا تعلق نکاح سے ہے۔ 1 .
جن عورتوں کو آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے مہر دیا ہے، وہ حلال ہیں چاہے تعداد میں وہ کتنی ہی ہوں اور آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے حضرت صفیہ ( رضی الله عنها ) اور جویریہ ( رضی الله عنها ) کا مہر ان کی آزادی کو قرار دیا تھا، ان کے علاوہ بصورت نقد سب کو مہر ادا کیا تھا۔ صرف ام حبیبہ ( رضی الله عنها ) کا مہر نجاشی نے اپنی طرف سے دیا تھا۔
( 2 ) چنانچہ حضرت صفیہ ( رضی الله عنها ) اور جویریہ ( رضی الله عنها ) ملکیت میں آئیں جنہیں آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے آزاد کرکے نکاح کرلیا، اور ریحانہ ( رضی الله عنها ) اور ماریہ قبطیہ ( رضی الله عنها ) یہ بطور لونڈی آپ کےپاس رہیں۔
( 3 ) اس کا مطلب ہے کہ جس طرح آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے ہجرت کی، اسی طرح انہوں نے بھی مکے سے مدینہ ہجرت کی۔ کیونکہ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کے ساتھ تو کسی عورت نے بھی ہجرت نہیں کی تھی۔
( 4 ) یعنی اپنے آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کو ہبہ کرنے والی عورت، اگر آپ ( صلى الله عليه وسلم ) اس سے نکاح کرنا پسند فرمائیں تو بغیر مہر کے آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کے لئے اسے اپنے نکاح میں رکھنا جائزہے۔
( 5 ) یہ اجازت صرف آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کے لئے ہے۔ دیگر مومنوں کے لئے تو ضروری ہے کہ وہ حق مہر، ادا کریں، تب نکاح جائز ہوگا۔
( 6 ) یعنی عقد کے جو شرائط اور حقوق ہیں جو ہم نے فرض کئے ہیں کہ مثلاً چار سے زیادہ عورتیں بیک وقت کوئی شخص اپنے نکاح میں نہیں رکھ سکتا، نکاح کے لئے ولی، گواہ اور حق مہر ضروری ہے۔ البتہ لونڈیاں جتنی کوئی چاہے، رکھ سکتا ہے، تاہم آج کل لونڈیوں کا مسئلہ تو ختم ہے۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


حق مہر اور بصورت علیحدگی کے احکامات۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ سے فرما رہا ہے کہ آپ نے اپنی جن بیویوں کو مہر ادا کیا ہے وہ سب آپ پر حلال ہیں۔ آپ کی تمام ازواج مطہرات کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ تھا جس کے پانچ سو درہم ہوتے ہیں۔ ہاں ام المومنین حضرت حبیبہ بنت ابی سفیان عنہا کا مہر حضرت نجاشی ؒ نے اپنے پاس سے چار سو دینار دیا تھا۔ اور اسی طرح ام المومنین حضرت صفیہ بنت حیی ؓ کا مہر صرف ان کی آزادی تھی۔ خیبر کے قیدیوں میں آپ بھی تھیں پھر آپ نے انہیں آزاد کردیا اور اور اسی آزادی کو مہر قرار دیا اور نکاح کرلیا۔ اور حضرت جویریہ بنت حارث مصطلقیہ نے جتنی رقم پر مکاتبہ کیا تھا وہ پوری رقم آپ نے حضرت ثابت بن قیس بن شماس کو ادا کر کے ان سے عقد باندھا تھا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی تمام ازواج مطہرات پر اپنی رضامندی نازل فرمائے۔ اسی طرح جو لونڈیاں غنیمت میں آپ کے قبضے میں آئیں وہ بھی آپ پر حلال ہیں۔ صفیہ اور جویریہ کے مالک آپ ہوگئے تھے پھر آپ نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کرلیا۔ ریحانہ بنت شمعون نصریہ اور ماریہ قبطیہ ؓ بھی آپ کی ملکیت میں آئی تھیں۔ حضرت ماریہ ؓ سے آپ کو فرزند بھی ہوا۔ جن کا نام حضرت ابراہیم تھا۔ چونکہ نکاح کے بارے میں نصرانیوں نے افراط اور یہودیوں نے تفریط سے کام لیا تھا اس لئے اس عدل و انصاف والی سہل اور صاف شریعت نے درمیانہ راہ حق کو ظاہر کردیا۔ نصرانی تو سات پشتوں تک جس عورت مرد کا نسب نہ ملتا ہو۔ ان کا نکاح جائز جانتے تھے اور یہودی بہن اور بھائی کی لڑکی سے بھی نکاح کرلیتے تھے۔ پس اسلام نے بھانجی بھتیجی سے نکاح کرنے کو روکا۔ اور چچا کی لڑکی پھوپھی کی لڑکی ماموں کی لڑکی اور خالہ کی لڑکی سے نکاح کو مباح قرار دیا۔ اس آیت کے الفاظ کی خوبی پر نظر ڈالئے کہ عم اور خال چچا اور ماموں کے لفظ کو تو واحد لائے اور عمات اور خلات یعنی پھوپھی اور خالہ کے لفظ کو جمع لائے۔ جس میں مردوں کی ایک قسم کی فضیلت عورتوں پر ثابت ہو رہی ہے۔ جیسے ( يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ02507ۧ ) 2۔ البقرة :257) اور جیسے ( وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ )الأنعام:1) یہاں بھی چونکہ ظلمات اور نور یعنی اندھیرے اور اجالے کا ذکر تھا اور اجالے کو اندھیرے پر فضیلت ہے اس لئے وہ لفظ ظلمات جمع لائے۔ اور لفظ نور مفرد لائے۔ اس کی اور بھی بہت سی نظیریں دی جاسکتی ہیں، پھر فرمایا جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے۔ حضرت ام ہانی ؓ فرماتی ہیں میرے پاس حضور ﷺ کا مانگا آیا تو میں نے اپنی معذوری ظاہر کی جسے آپ نے تسلیم کرلیا۔ اور یہ آیت اتری میں ہجرت کرنے والیوں میں نہ تھی بلکہ فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والیوں میں تھی۔ مفسرین نے بھی یہی کہا ہے کہ مراد ہے کہ جنہوں نے مدینے کی طرف آپ کے ساتھ ہجرت کی ہو۔ قتادہ سے ایک روایت میں اس سے مراد اسلام لانا بھی مروی ہے۔ ابن مسعود کی قرائت میں ( وَامْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ نَفْسَهَا للنَّبِيِّ اِنْ اَرَاد النَّبِيُّ اَنْ يَّسْتَنْكِحَهَا ۤ خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۭ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِيْٓ اَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُوْنَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۭ وَكَان اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا 50؀ ) 33۔ الأحزاب :50) پھر فرمایا اور وہ مومنہ عورت جو اپنا نفس اپنے نبی کے لئے ہبہ کردیے۔ اور نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں۔ تو بغیر مہر دیے اسے نکاح میں لاسکتے ہیں۔ پس یہ حکم دو شرطوں کے ساتھ ہے جیسے آیت ( وَلَا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِيْٓ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ اِنْ كَان اللّٰهُ يُرِيْدُ اَنْ يُّغْوِيَكُمْ ۭ هُوَ رَبُّكُمْ ۣ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 34؀ۭ ) 11۔ ھود :34) میں۔ یعنی حضرت نوح ؑ اپنی قوم سے فرماتے ہیں اگر میں تمہیں نصیحت کرنا چاہوں اور اگر اللہ تمہیں اس نصیحت سے مفید کرنا نہ چاہے تو میری نصیحت تمہیں کوئی نفع نہیں دے سکتی۔ اور جیسے حضرت موسیٰ ؑ کے اس فرمان میں ( يٰقَوْمِ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ باللّٰهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّسْلِمِيْنَ 84؀ ) 10۔ يونس:84) یعنی اے میری قوم اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو۔ اور اگر تم مسلمان ہوگئے ہو تو تمہیں اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ پس جیسے ان آیتوں میں دو دو شرائط ہیں اسی طرح اس آیت میں بھی دو شرائط ہیں۔ ایک تو اس کا اپنا نفس ہبہ کرنا دوسرے آپ کا بھی اسے اپنے نکاح میں لانے کا ارادہ کرنا۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور ﷺ کے پاس ایک عورت آئی اور کہا کہ میں اپنا نفس آپ کے لئے ہبہ کرتی ہوں۔ پھر وہ دیر تک کھڑی رہیں۔ تو ایک صحابی نے کھڑے ہو کر کہا رسول اللہ ﷺ اگر آپ ان سے نکاح کا ارادہ نہ رکھتے ہوں تو میرے نکاح میں دے دیجئے۔ آپ نے فرمایا تمہارے پاس کچھ ہے ؟ جو انہیں مہر میں دیں ؟ جواب دیا کہ اس تہمد کی سوا اور کچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا یہ اگر تم انہیں دے دو گے تو خود بغیر تہمد کے رہ جاؤ گے کچھ اور تلاش کرو۔ اس نے کہا میں اور کچھ نہیں پاتا۔ آپ نے فرمایا تلاش تو کرو گو لوہے کی انگوٹھی ہی مل جائے۔ انہوں نے ہرچند دیکھ بھال کی لیکن کچھ نہ پایا۔ آپ نے فرمایا قرآن کی کچھ سورتیں بھی تمہیں یاد ہیں ؟ اس نے کہا فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ آپ نے فرمایا بس انہی سورتوں پر میں نے انہیں تمہارے نکاح میں دیا۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی۔ حضرت انس جب یہ واقعہ بیان کرنے لگے تو ان کی صاحبزادی بھی سن رہی تھیں۔ کہنے لگیں اس عورت میں بہت ہی کم حیا تھی۔ تو آپ نے فرمایا تم سے وہ بہتر تھیں کہ حضور ﷺ کی خدمت کی رغبت کر رہی تھیں اور آپ پر اپنا نفس پیش کر رہی تھیں ( بخاری ) مسند احمد میں ہے کہ ایک عورت حضور ﷺ کے پاس آئیں اور اپنی بیٹی کی بہت سی تعریفیں کر کے کہنے لگیں کے حضور میری مراد یہ ہے کہ آپ اس سے نکاح کرلیں۔ آپ نے قبول فرما لیا اور وہ پھر بھی تعریف کرتی رہیں۔ یہاں تک کہ کہا حضور نہ وہ کبھی وہ بیمار پڑیں نہ سر میں درد ہوا یہ سن کر آپ نے فرمایا پھر مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں۔ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ اپنے نفس کو ہبہ کرنے والی بیوی صاحبہ حضرت خولہ بنت حکیم ؓ تھیں۔ اور روایت میں ہے یہ قبلہ بنو سلیم میں سے تھیں۔ اور روایت میں ہے یہ بڑی نیک بخت عورت تھیں۔ ممکن ہے ام سلیم ہی حضرت خولہ ہوں ؓ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ دوسری کوئی عورت ہوں۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضور ﷺ نے تیرہ عورتوں سے نکاح کیا جن میں سے چھ تو قریشی تھیں۔ خدیجہ، عائشہ، حفصہ، ام حبیبہ، سودہ و ام سلمہ ؓ اجمعین اور تین بنو عامر بن صعصعہ کے قبیلے میں سے تھیں اور دو عورتیں قبیلہ بنوہلال بن عامر میں سے تھیں اور حضرت میمونہ بنت حارث ؓ۔ یہی وہ ہیں جنہوں نے اپنا نفس رسول اللہ کو ہبہ کیا تھا اور حضرت زینب ؓ جن کی کنیت ام المساکین تھی۔ اور ایک عورت بنو ابی بکرین کلاب سے۔ یہ وہی ہے جس نے دنیا کو اختیار کیا تھا اور بنو جون میں سے ایک عورت جس نے پناہ طلب کی تھی، اور ایک عورت اسدیہ جن کا نام زینب بنت جحش ہے ؓ۔ دو کنزیں تھیں۔ صفیہ بنت حی بن اخطب اور جویریہ بنت حارث بن عمرو بن مصطلق خزاعیہ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ اپنے نفس کو ہبہ کرنے والی عورت حضرت میمونہ بنت حارث تھیں لیکن اس میں انقطاع ہے۔ اور یہ روایت مرسل ہے۔ یہ مشہور بات ہے کہ حضرت زینب جن کی کنیت ام المساکین تھی، یہ زینب بنت خزیمہ تھیں، فبیلہ انصار میں سے تھیں اور حضور ﷺ کی حیات میں ہی انتقال کر گئیں۔ ؓ۔ واللہ اعلم، مقصد یہ ہے کہ وہ عورتیں جنہوں نے اپنے نفس کا اختیار آپ کو دیا تھا چناچہ صحیح بخاری شریف میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ میں ان عورتوں پر غیرت کیا کرتی تھی جو اپنا نفس حضور ﷺ کو ہبہ کردیتی تھیں اور مجھے بڑا تعجب معلوم ہوتا تھا کہ عورتیں اپنا نفس ہبہ کرتی ہیں۔ جب یہ آیت اتری کہ ( تُرْجِيْ مَنْ تَشَاۗءُ مِنْهُنَّ وَ تُـــــْٔوِيْٓ اِلَيْكَ مَنْ تَشَاۗءُ ۭ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ تَقَرَّ اَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَآ اٰتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۭ وَكَان اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَلِــيْمًا 51؀ ) 33۔ الأحزاب :51) الخ، تو ان میں سے جسے چاہے اس سے نہ کر اور جسے چاہے اپنے پاس جگہ دے اور جن سے تو نے یکسوئی کرلی ہے انہیں بھی اگر تم لے آؤ تو تم پر کوئی حرج نہیں۔ تو میں نے کہا بس اب تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر خوب وسعت و کشادگی کردی۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ کوئی عورت حضور ﷺ کے پاس نہ تھی جس نے اپنا نفس آپ کو ہبہ کیا ہو۔ حضرت یونس بن بکیر فرماتے ہیں گو آپ کے لئے یہ مباح تھا کہ جو عورت اپنے تئیں آپ کو سونپ دے آپ اسے اپنے گھر میں رکھ لیں لیکن آپ نے ایسا کیا نہیں۔ کیونکہ یہ امر آپ کی مرضی پر رکھا گیا تھا۔ یہ بات کسی اور کے لئے جائز نہیں ہاں مہر ادا کر دے تو بیشک جائز ہے۔ چناچہ حضرت بروع بنت واشق کے بارے میں جنہوں نے اپنا نفس سونپ دیا تھا جب ان کے شوہر انتقال کر گئے تو رسول ﷺ نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ ان کے خاندان کی اور عورتوں کے مثل انہیں مہر دیا جائے۔ جس طرح موت مہر کو مقرر کردیتی ہے اسی طرح صرف دخول سے بھی مہر و اجب ہوجاتا ہے۔ ہاں حضور ﷺ اس حکم سے مستثنیٰ تھے۔ ایسی عورتوں کو کچھ دینا آپ پر واجب نہ تھا گو اسے شرف بھی حاصل ہوچکا ہو۔ اس لئے کہ آپ کو بغیر مہر کے اور بغیر ولی کے اور بغیر گواہوں کے نکاح کرلینے کا اختیار تھا جیسا کہ حضرت زینب بنت جحش ؓ کے قصے میں ہے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کسی عورت کو یہ جائز نہیں کہ اپنے آپ کو بغیر ولی اور بغیر مہر کے کسی کے نکاح میں دے دے۔ ہاں صرف رسول اللہ ﷺ کے لئے یہ تھا۔ اور مومنوں پر جو ہم نے مقرر کردیا ہے اسے ہم خوب جانتے ہیں یعنی وہ چار سے زیادہ بیویاں ایک ساتھ رکھ نہیں سکتے۔ ہاں ان کے علاوہ لونڈیاں رکھ سکتے ہیں۔ اور ان کی کوئی تعداد مقرر نہیں۔ اسی طرح ولی کی مہر کی گواہوں کی بھی شرط ہے۔ پس امت کا تو یہ حکم ہے اور آپ پر اس کی پابندیاں نہیں۔ تاکہ آپ کو کوئی حرج نہ ہو۔ اللہ بڑا غفور ورحیم ہے۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 50 { یٰٓــاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَکَ اَزْوَاجَکَ الّٰتِیْٓ اٰتَیْتَ اُجُوْرَہُنَّ } ” اے نبی ﷺ ! ہم نے آپ کے لیے حلال ٹھہرایا ہے آپ کی ان تمام ازواج کو جن کے مہر آپ نے ادا کیے ہیں “ { وَمَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ مِمَّآ اَفَآئَ اللّٰہُ عَلَیْکَ } ” اور ان کو بھی جو آپ ﷺ کی ملک یمین باندیاں ہیں ‘ ان سے جو اللہ نے آپ ﷺ کو بطور ’ فے ‘ عطا کیں “ جیسے مصر کے فرمانروا مقوقس نے حضرت ماریہ قبطیہ علیہ السلام کو آپ ﷺ کی خدمت میں بطور ہدیہ بھیجا تھا۔ { وَبَنٰتِ عَمِّکَ وَبَنٰتِ عَمّٰتِکَ وَبَنٰتِ خَالِکَ وَبَنٰتِ خٰلٰتِکَ } ” اسی طرح آپ ﷺ کو نکاح کرنا جائز ہے اپنے چچا کی بیٹیوں سے اور اپنی پھوپھیوں کی بیٹیوں سے ‘ اور اپنی ماموئوں کی بیٹیوں اور اپنی خالائوں کی بیٹیوں سے “ { الّٰتِیْ ہَاجَرْنَ مَعَکَ } ” جنہوں نے آپ ﷺ کے ساتھ ہجرت کی۔ “ { وَامْرَاَۃً مُّؤْمِنَۃً اِنْ وَّہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ } ” اور وہ مومن عورت بھی جو ہبہ کرے اپنا آپ نبی ﷺ کے لیے “ { اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْکِحَہَا } ” اگر نبی ﷺ اسے اپنے نکاح میں لانا چاہیں۔ “ یعنی وہ مسلمان خاتون جو مہر کا تقاضا کیے بغیر خود کو آپ ﷺ کی زوجیت کے لیے پیش کرے اور آپ ﷺ اسے قبول فرمائیں۔ { خَالِصَۃً لَّکَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ } ” یہ رعایت خالص آپ ﷺ کے لیے ہے ‘ مومنین سے علیحدہ۔ “ اس سلسلے میں نبی مکرم ﷺ کو عام قانون سے مستثنیٰ قرار دیا جا رہا ہے۔ { قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْہِمْ فِیْٓ اَزْوَاجِہِمْ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ } ” ہمیں خوب معلوم ہے جو ہم نے ان عام مسلمانوں پر ان کی بیویوں اور ان کی باندیوں کے ضمن میں فرض کیا ہے “ ایک عام مسلمان ایک وقت میں چار سے زیادہ بیویاں اپنے نکاح میں نہیں رکھ سکتا۔ اسی طرح باندیوں کے بارے میں بھی ان پر طے شدہ قواعد و ضوابط کی پابندی لازم ہے۔ { لِکَیْلَا یَکُوْنَ عَلَیْکَ حَرَجٌ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا } ” تاکہ آپ ﷺ پر کوئی تنگی نہ رہے۔ اور اللہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔ “ اس موضوع کے حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ بھی مد نظر رہنا چاہیے کہ حضور ﷺ کے متعدد نکاح کرنے میں بہت سی حکمتوں اور مصلحتوں کا عمل دخل تھا۔ مثلاً حضرت عائشہ رض اٹھارہ سال کی عمر میں بیوہ ہوگئیں اور اس کے بعد آپ رض ایک طویل مدت تک خواتین اُِمت کے لیے ایک معلمہ کا کردار ادا کرتی رہیں۔ اسی طرح حضور ﷺ نے بہت سے ایسے نکاح بھی کیے جن کی وجہ سے متعلقہ قبائل کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات مضبوط بنیادوں پر استوار ہوئے اور اس طرح اسلامی حکومت اور ریاست کو تقویت ملی۔ یہ مصلحتیں اس بات کی متقاضی تھیں کہ حضور ﷺ کے لیے نکاح کے معاملے میں کوئی تنگی باقی نہ رکھی جائے ‘ تاکہ جو عظیم کام آپ ﷺ کے سپرد کیا گیا تھا اس کی ضروریات کے لحاظ سے آپ جتنے نکاح کرنا چاہیں کرلیں۔

ياأيها النبي إنا أحللنا لك أزواجك اللاتي آتيت أجورهن وما ملكت يمينك مما أفاء الله عليك وبنات عمك وبنات عماتك وبنات خالك وبنات خالاتك اللاتي هاجرن معك وامرأة مؤمنة إن وهبت نفسها للنبي إن أراد النبي أن يستنكحها خالصة لك من دون المؤمنين قد علمنا ما فرضنا عليهم في أزواجهم وما ملكت أيمانهم لكيلا يكون عليك حرج وكان الله غفورا رحيما

سورة: الأحزاب - آية: ( 50 )  - جزء: ( 22 )  -  صفحة: ( 424 )

Surah ahzab Ayat 50 meaning in urdu

اے نبیؐ، ہم نے تمہارے لیے حلال کر دیں تمہاری وہ بیویاں جن کے مہر تم نے ادا کیے ہیں، اور وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے تمہاری ملکیت میں آئیں، اور تمہاری وہ چچا زاد اور پھوپھی زاد اور ماموں زاد اور خالہ زاد بہنیں جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی ہے، اور وہ مومن عورت جس نے اپنے آپ کو نبیؐ کے لیے ہبہ کیا ہو اگر نبیؐ اسے نکاح میں لینا چاہے یہ رعایت خالصۃً تمہارے لیے ہے، دوسرے مومنوں کے لیے نہیں ہے ہم کو معلوم ہے کہ عام مومنوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں ہم نے کیا حدود عائد کیے ہیں (تمہیں ان حدود سے ہم نے اس لیے مستثنیٰ کیا ہے) تاکہ تمہارے اوپر کوئی تنگی نہ رہے، اور اللہ غفور و رحیم ہے


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اور جس شخص کو خدا ہدایت دے وہی ہدایت یاب ہے۔ اور جن کو گمراہ
  2. جس نے تمھارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے
  3. تو ان سے منہ پھیر لو اور سلام کہہ دو۔ ان کو عنقریب (انجام) معلوم
  4. کچھ شک نہیں کہ اس میں (قدرت خدا کی) نشانی ہے مگر یہ اکثر ایمان
  5. خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے اور
  6. جو نماز کی پابندی کرتے اور زکوٰة دیتے اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں
  7. اگر (معاملہ) حق (ہو اور) ان کو (پہنچتا) ہو تو ان کی طرف مطیع ہو
  8. اور جس دن قیامت برپا ہوگی گنہگار نااُمید ہوجائیں گے
  9. اور بیہودہ بات نہیں ہے
  10. اگر یہ سچے ہیں تو ایسا کلام بنا تو لائیں

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah ahzab with the voice of the most famous Quran reciters :

surah ahzab mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter ahzab Complete with high quality
surah ahzab Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah ahzab Bandar Balila
Bandar Balila
surah ahzab Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah ahzab Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah ahzab Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah ahzab Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah ahzab Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah ahzab Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah ahzab Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah ahzab Fares Abbad
Fares Abbad
surah ahzab Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah ahzab Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah ahzab Al Hosary
Al Hosary
surah ahzab Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah ahzab Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Sunday, December 22, 2024

Please remember us in your sincere prayers