Surah ahzab Ayat 51 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿۞ تُرْجِي مَن تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَا آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَلِيمًا﴾
[ الأحزاب: 51]
(اور تم کو یہ بھی اختیار ہے کہ) جس بیوی کو چاہو علیحدہ رکھو اور جسے چاہو اپنے پاس رکھو۔ اور جس کو تم نے علیحدہ کردیا ہو اگر اس کو پھر اپنے پاس طلب کرلو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ یہ (اجازت) اس لئے ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ غمناک نہ ہوں اور جو کچھ تم ان کو دو۔ اسے لے کر سب خوش رہیں۔ اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا اسے جانتا ہے۔ اور خدا جاننے والا اور بردبار ہے
Surah ahzab Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اس کا تعلق إِنَّا أَحْلَلْنَا سے ہے یعنی مذکورہ تمام عورتوں کی آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کے لئے حلت اس لئے ہے تاکہ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کو تنگی محسوس نہ ہو اور آپ ( صلى الله عليه وسلم ) ان میں سے کسی کے ساتھ نکاح میں گناہ نہ سمجھیں۔
( 2 ) یعنی جن بیویوں کی باریاں موقوف کر رکھی تھیں اگر آپ ( صلى الله عليه وسلم ) چاہیں کہ ان سے بھی مباشرت کا تعلق قائم کیا جائے، تو یہ اجازت بھی آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کو حاصل ہے۔
( 3 ) یعنی باری موقوف ہونے اور ایک کو دوسری پر ترجیح دینے کے باوجود وہ خوش ہوں گی، غمگین نہیں ہوں گی اور جتنا کچھ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کی طرف سے انہیں مل جائے گا، اس پر مطمئن رہیں گی۔ کیوں؟ اس لئے کہ انہیں معلوم ہے کہ پیغمبر ( صلى الله عليه وسلم ) یہ سب کچھ اللہ کے حکم اور اجازت سے کر رہے ہیں اور یہ ازواج مطہرات اللہ کے فیصلہ پر راضی اور مطمئن ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ نبی کریم ( صلى الله عليه وسلم ) کو یہ اختیار ملنے کے باوجود آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے اسے استعمال نہیں کیا اور سوائے حضرت سودہ ( رضی الله عنها ) کے ( کہ انہوں نے اپنی باری خود ہی حضرت عائشہ (رضی الله عنها ) کے لئے ہبہ کردی تھی) آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے تمام ازواج مطہرات کی باریاں برابر برابر مقرر کر رکھی تھیں، اس لئے آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے مرض الموت میں ازواج مطہرات سے اجازت لے کر بیماری کے ایام حضرت عائشہ ( رضی الله عنها ) کے پاس گزارے ” أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ “ کا تعلق آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کے اسی طرز عمل سے ہے کہ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) پر تقسیم اگرچہ ( دوسرے لوگوں کی طرح ) واجب نہیں تھی، اس کے باوجود آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے تقسیم کو اختیار فرمایا، تاکہ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کی بیویوں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں اور آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کے اس حسن سلوک اور عدل وانصاف سے خوش ہوجائیں کہ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے خصوصی اختیار استعمال کرنے کے بجائے ان کی دلجوئی اور دلداری کا اہتمام فرمایا۔
( 4 ) یعنی تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے، ان میں یہ بات بھی یقیناً ہے کہ سب بیویوں کی محبت دل میں یکساں نہیں ہے۔ کیوں کہ دل پر انسان کا اختیار ہی نہیں ہے۔ اس لئے بیویوں کے درمیان مساوات باری میں، نان و نفقہ اور دیگر ضروریات زندگی اور آسائشوں میں ضروری ہے، جس کا اہتمام انسان کرسکتا ہے۔ دلوں کے میلان میں مساوات چونکہ اختیار ہی میں نہیں ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ اس پر گرفت بھی نہیں فرمائے گا بشرطیکہ دلی محبت کسی ایک بیوی سے امتیازی سلوک کا باعث نہ ہو۔ اسی لئے نبی کریم ( صلى الله عليه وسلم ) فرمایا کرتے تھے یااللہ یہ میری تقسیم ہے جو میرے اختیار میں ہے، لیکن جس چیز پر تیرا اختیار ہے، میں اس پر اختیار نہیں رکھتا، اس میں مجھے ملامت نہ کرنا۔ ( أبو داود، باب القسم في النساء، ترمذي، نسائي، ابن ماجه، مسند أحمد 6 / 144 )۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
روایات و احکامات بخاری شریف میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ میں ان عورتوں پر عار رکھا کرتی تھی جو اپنا نفس حضور ﷺ کو ہبہ کریں اور کہتی تھیں کہ عورتیں بغیر مہر کے اپنے آپ کو حضور ﷺ کے حوالے کرنے میں شرماتی ہیں ؟ یہاں تک کہ یہ آیت اتری تو میں نے کہا کہ آپ کا رب آپ کے لئے کشادگی کرتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ آیت سے مراد یہی عورتیں ہیں۔ ان کے بارے میں اللہ کے نبی کو اختیار ہے کہ جسے چاہیں قبول کریں اور جسے چاہیں قبول نہ فرمائیں۔ پھر اس کے بعد یہ بھی آپ کے اختیار میں ہے کہ جنہیں قبول نہ فرمایا ہو انہیں جب چاہیں نواز دیں عامر شعبی سے مروی ہے کہ جنہیں موخر کر رکھا تھا ان میں حضرت ام شریک تھی۔ ایک مطلب اس جملے کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ آپ کی بیویوں کے بارے میں آپ کو اختیار تھا کہ اگر چاہیں تقسیم کریں چاہیں نہ کریں جسے چاہیں مقدم کریں جسے چاہیں موخر کریں۔ اسی طرح خاص بات چیت میں بھی۔ لیکن یہ یاد رہے کہ حضور ﷺ اپنی پوری عمر برابر اپنی ازواج مطہرات میں عدل کے ساتھ برابری کی تقسیم کرتے رہے۔ بعض فقہاء شافعیہ کا قول ہے کہ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ اس آیت کے نازل ہو چکنے کے بعد بھی اللہ کے نبی ﷺ ہم سے اجازت لیا کرتے تھے۔ مجھ سے تو جب دریافت فرماتے میں کہتی اگر میرے بس میں ہو تو میں کسی اور کے پاس آپ کو ہرگز نہ جانے دوں۔ پس صحیح بات جو بہت اچھی ہے اور جس سے ان اقوال میں مطابقت بھی ہوجاتی ہے وہ یہ ہے کہ آیت عام ہے۔ اپنے نفس سونپنے والیوں اور آپ کی بیویوں سب کو شامل ہے۔ ہبہ کرنے والیوں کے بارے میں نکاح کرنے نہ کرنے اور نکاح والیوں میں تقسیم کرنے نہ کرنے کا آپ کو اختیار تھا۔ پھر فرماتا ہے کہ یہی حکم بالکل مناسب ہے اور ازواج رسول ﷺ کے لئے سہولت والا ہے۔ جب وہ جان لیں گی کہ آپ باریوں کے مکلف نہیں ہیں۔ پھر بھی مساوات قائم رکھتے ہیں تو انہیں بہت خوشی ہوگی۔ اور ممنون و مشکور ہوں گی اور آپ کے انصاف و عدل کی داددیں گی۔ اللہ دلوں کی حالتوں سے واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کسے کس کی طرف زیادہ رغبت ہے۔ مسند میں ہے کہ حضور ﷺ اپنے طور پر صحیح تقسیم اور پورے عدل کے بعد اللہ سے عرض کیا کرتے تھے کہ الہ العالمین جہاں تک میرے بس میں تھا میں نے انصاف کردیا۔ اب جو میرے بس میں نہیں اس پر تو مجھے ملامت نہ کرنا یعنی دل کے رجوع کرنے کا اختیار مجھے نہیں۔ اللہ سینوں کی باتوں کا عالم ہے۔ لیکن حلم و کرم والا ہے۔ چشم پوشی کرتا ہے معاف فرماتا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 51 { تُرْجِیْ مَنْ تَشَآئُ مِنْہُنَّ وَتُـــْٔــوِیْٓ اِلَیْکَ مَنْ تَشَآئُ } ” آپ ﷺ ان میں سے جس کو چاہیں پیچھے ہٹائیں اور جس کو چاہیں اپنے قریب جگہ دیں۔ “ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کو خصوصی اجازت دے دی گئی کہ آپ ﷺ کے لیے تمام ازواجِ مطہرات رض کے درمیان مساوات کا برتائو اور برابری کا سلوک کرنا ضروری نہیں۔ آپ ﷺ کو اجازت تھی کہ آپ ﷺ چاہیں تو کسی زوجہ محترمہ کے پاس زیادہ دیر ٹھہریں اور چاہیں تو کسی کو نسبتاً کم وقت دیں۔ { وَمَنِ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکَ } ” اور جن کو آپ ﷺ نے دور کردیا تھا ‘ ان میں سے کسی کو دوبارہ قریب کرنا چاہیں تو بھی آپ ﷺ پر کوئی حرج نہیں۔ “ { ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ تَقَرَّ اَعْیُنُہُنَّ وَلَا یَحْزَنَّ وَیَرْضَیْنَ بِمَآ اٰتَیْتَہُنَّ کُلُّہُنَّ } ” یہ زیادہ قریب ہے اس سے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور وہ سب کی سب راضی رہیں اس پر جو بھی آپ انہیں دیں۔ “ یہ حکم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ آپ ﷺ کی ازواج مطہرات رض آپ ﷺ کی طرف سے کسی چیز یا کسی سلوک کو اپنا حق نہ سمجھیں اور آپ ﷺ انہیں جو کچھ بھی عطا فرمائیں اسے آپ ﷺ کی عنایت سمجھتے ہوئے خوشی خوشی قبول کرلیں۔ اگرچہ اس حکم کے بعد حضور ﷺ پر ازواج کے مابین مساوات کا برتائو واجب نہیں رہا تھا مگر اس کے باوجود آپ ﷺ ہمیشہ نان و نفقہ سمیت ایک ایک چیز میں ناپ تول کی حد تک سب کے ساتھ برابر کا معاملہ فرمایا کرتے تھے۔ تمام ازواج کے ہاں شب باشی کے لیے بھی آپ ﷺ نے باری مقرر فرما رکھی تھی۔ اسی طرح جب آپ ﷺ مدینہ میں ہوتے تو نمازعصر کے بعد باری باری سب ازواج مطہرات رض کے ہاں تشریف لے جاتے اور اس دوران وقت کی تقسیم میں مساوات کا خیال فرماتے۔ غرض ہر معاملے میں آپ ﷺ بہت محتاط انداز میں عدل و مساوات کا اہتمام فرماتے اور اس کے باوجود فرمایا کرتے : اَللّٰھُمَّ ھٰذَا قَسْمِیْ فِیْمَا اَمْلِکُ فَلَا تَلُمْنِیْ فِیْمَا تَمْلِکُ وَلَا اَمْلِکُ 1 ” اے اللہ ! جو چیزیں میرے اختیار میں ہیں ان میں تو میں نے برابر کی تقسیم کردی ہے ‘ لیکن جو میرے اختیار میں نہیں ہیں بلکہ تیرے اختیار میں ہیں ان کے بارے میں مجھے ملامت نہ کرنا “۔ یعنی ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان مساوات کے حوالے سے ظاہری چیزوں کی حد تک تو کوشش کی جاسکتی ہے مگر دل کے رجحان یا میلان کو برابر تقسیم کرنا انسان کے بس میں نہیں۔ اس حوالے سے سورة النساء میں بہت واضح حکم آچکا ہے : { وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآئِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلاَ تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْہَا کَالْمُعَلَّقَۃِط وَاِنْ تُصْلِحُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا } اور تمہارے لیے ممکن ہی نہیں کہ تم عورتوں کے درمیان انصاف کرسکو چاہے تم اس کے لیے کتنے ہی حریص بنو ‘ لیکن ایسا نہ ہو کہ تم کسی ایک کی طرف پورے کے پورے جھک جائو اور دوسری کو معلق کر کے چھوڑ دو۔ اور اگر تم اصلاح کرلو اور تقویٰ کی روش اختیار کروتو اللہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم فرمانے والا ہے۔“ { وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَلِیْمًا } ” اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے۔ اور اللہ ہرچیز کا علم رکھنے والا ‘ بہت بردبار ہے۔ “
ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء ومن ابتغيت ممن عزلت فلا جناح عليك ذلك أدنى أن تقر أعينهن ولا يحزن ويرضين بما آتيتهن كلهن والله يعلم ما في قلوبكم وكان الله عليما حليما
سورة: الأحزاب - آية: ( 51 ) - جزء: ( 22 ) - صفحة: ( 425 )Surah ahzab Ayat 51 meaning in urdu
تم کو اختیار دیا جاتا ہے کہ اپنی بیویوں میں سے جس کو چاہو اپنے سے الگ رکھو، جسے چاہو اپنے ساتھ رکھو اور جسے چاہو الگ رکھنے کے بعد اپنے پاس بلا لو اس معاملہ میں تم پر کوئی مضائقہ نہیں ہے اِس طرح زیادہ متوقع ہے کہ اُن کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی اور وہ رنجیدہ نہ ہوں گی، اور جو کچھ بھی تم اُن کو دو گے اس پر وہ سب راضی رہیں گی اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگوں کے دلوں میں ہے، اور اللہ علیم و حلیم ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- دیکھو اگر تم جانتے (یعنی) علم الیقین (رکھتے تو غفلت نہ کرتے)
- اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا وعدہ کیا تو تم نے ان
- حالانکہ اس نے تم کو طرح طرح (کی حالتوں) کا پیدا کیا ہے
- الم
- اور خدا نے اپنا وعدہ سچا کر دیا (یعنی) اس وقت جبکہ تم کافروں کو
- جب انہوں نے اپنے باپ سے کہا کہ ابّا آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے
- (اے اہل اسلام) بعضے اہلِ کتاب اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ تم کو
- (یعنی دوزخ کی) لپٹ اور کھولتے ہوئے پانی میں
- پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا کہ خوب مینہ برسے گا اور لوگ
- مگر جو خدا چاہے۔ وہ کھلی بات کو بھی جانتا ہے اور چھپی کو بھی
Quran surahs in English :
Download surah ahzab with the voice of the most famous Quran reciters :
surah ahzab mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter ahzab Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers