Surah Zumar Ayat 53 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿۞ قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ﴾
[ الزمر: 53]
(اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو) کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ خدا تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے
Surah Zumar Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی وسعت کا بیان ہے۔ اسراف کے معنی ہیں گناہوں کی کثرت اور اس میں افراط۔ ” اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو “ کا مطلب ہے کہ ایمان لانے سے قبل یا تو استغفار کا احساس پیدا ہونے سے پہلے کتنے بھی گناہ کیے ہوں، انسان یہ نہ سمجھے کہ میں تو بہت زیادہ گناہ گار ہوں، مجھے اللہ تعالیٰ کیونکر معاف کرے گا؟ بلکہ سچےدل سے اگر ایمان قبول کرلے گا یا توبہ النصوح کرلے گا تو اللہ تعالیٰ تمام گناہ معاف فرمادے گا۔ شان نزول کی روایت سے بھی یہی مفہوم ثابت ہوتا ہے۔ کچھ کافر و مشرک تھے جنہوں نے کثرت سے قتل اور زناکاری کا ارتکاب کیا تھا، یہ نبی ﹲ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ ﹲ کی دعوت، صحیح ہے لیکن ہم لوگ بہت زیادہ خطاکار ہیں، اگر ہم ایمان لے آئے تو کیا وہ سب معاف ہو جائیں گے، جس پر اس آیت کا نزول ہوا۔ ( صحیح بخاری،تفسیر سورۂ زمر ) اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ کی رحمت و مغفرت کی امید پر خوب گناہ کیے جاؤ، اس کے احکام و فرائض کی مطلق پرواہ نہ کرو اور اس کے حدود اور ضابطوں کو بے دردی سے پامال کرو۔ اس طرح اس کے غضب و انتقام کو دعوت دے کر اس کی رحمت و مغفرت کی امید رکھنا نہایت نادانش مندی اور خام خیالی ہے۔ یہ تخم حنظل بو کر ثمرات و فواکہ کی امید رکھنے کے مترادف ہے۔ ایسے لوگوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ جہاں اپنے بندوں کے لیے غَفُورٌ رَحِيمٌ ہے، وہاں وہ نافرمانوں کے لیے عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ بھی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں متعدد جگہ ان دونوں پہلوؤں کو ساتھ ساتھ بیان کیا گیا، مثلاً نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ، وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الأَلِيمُ ( الحجر:50،49 ) غالباً یہی وجہ ہے کہ یہاں آیت کا آغاز يَا عِبَادِي ( میرے بندوں ) سےفرمایا، جس سے یہی معلوم ہوتاہے کہ جو ایمان لاکر یا سچی توبہ کرکے صحیح معنوں میں اس کا بندہ بن جائے گا، اس کے گناہ اگر سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں گے تو وہ معاف فرما دے گا، وہ اپنے بندوں کے لیے یقیناً غفور رحیم ہے۔ جیسے حدیث میں سو آدمیوں کے قاتل کے توبہ کا واقعہ ہے، ( صحيح بخاري، كتاب الأنبياء - مسلم ، كتاب التوبة ، باب قبول توبة القاتل وإن كثر قتله )۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
توبہ تمام گناہوں کی معافی کا ذریعہ۔اس آیت میں تمام نافرمانوں کو گو وہ مشرک و کافر بھی ہوں توبہ کی دعوت دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ کی ذات غفور و رحیم ہے۔ وہ ہر تائب کی توبہ قبول کرتا ہے۔ ہر جھکنے والی کی طرف متوجہ ہوتا ہے توبہ کرنے والے کے اگلے گناہ بھی معاف فرما دیتا ہے گو وہ کیسے ہی ہوں کتنے ہی ہوں کبھی کے ہوں۔ اس آیت کو بغیر توبہ کے گناہوں کی بخشش کے معنی میں لینا صحیح نہیں اس لئے کہ شرک بغیر توبہ کے بخشا نہیں جاتا۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ بعض مشکرین جو قتل و زنا کے بھی مرتکب تھے حاضر خدمت نبوی ہو کر عرض کرتے ہیں کہ یہ آپ کی باتیں اور آپ کا دین ہمیں ہر لحاظ سے اچھا اور سچا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہ بڑے بڑے گناہ جو ہم سے ہوچکے ہیں ان کا کفارہ کیا ہوگا ؟ اس پر آیت ( وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا 68ۙ ) 25۔ الفرقان:68) ، یہ اور آیت نازل ہوئی۔ مسند احمد کی حدیث میں ہےحضور ﷺ فرماتے ہیں مجھے ساری دنیا اور اس کی ہر چیز کے ملنے سے اتنی خوشی نہ ہوئی جتنی اس آیت کے نازل ہونے سے ہوئی ہے۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ جس نے شرک کیا ہو ؟ آپ نے تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد فرمایا خبردار رہو جس نے شرک بھی کیا ہو تین مرتبہ یہی فرمایا۔ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک بوڑھا بڑا شخص لکڑی ٹکاتا ہوا آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میرے چھوٹے موٹے گناہ بہت سارے ہیں کیا مجھے بھی بخشا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا کیا تو اللہ کی توحید کی گواہی نہیں دیتا ؟ اس نے کہا ہاں اور آپ ﷺ کی رسالت کی گواہی بھی دیتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا تیرے چھوٹے موٹے گناہ معاف ہیں، ابو داؤد ترمذی وغیرہ میں ہے حضرت اسماء ؓ فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا آپ اس آیت کی تلاوت اسی طرح فرما رہے تھے ( اِنَّهٗ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ 46 ) 11۔ ھود :46) اور اس آیت کو اس طرح پڑھتے ہوئے سنا ( قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 53 ) 39۔ الزمر:53) پس ان تمام احادیث سے ثابت ہو رہا ہے کہ توبہ سے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ بندے کو رحمت رب سے مایوس نہ ہونا چاہئے۔ گو گناہ کتنے ہی بڑے اور کتنے ہی کثرت سے ہوں۔ توبہ اور رحمت کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہوا رہتا ہے اور وہ بہت ہی وسیع ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ( الم یعلموا ان اللہ ھو یقبل التوبتہ عن عبادہ ) کیا لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ اور فرمایا ( وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا01100 ) 4۔ النساء:110) جو برا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر اللہ سے استغفار کرے وہ اللہ کو بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا پائے گا۔ منافقوں کی سزا جو جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوگی اسے بیان فرما کر بھی فرمایا ( اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَيَّنُوْا فَاُولٰۗىِٕكَ اَتُوْبُ عَلَيْهِمْ ۚوَاَنَا التَّوَّاب الرَّحِيْمُ01600 ) 2۔ البقرة :160) یعنی ان سے وہ مستثنیٰ ہیں جو توبہ کریں اور اصلاح کرلیں۔ مشرکین نصاریٰ کے اس شرک کا کہ وہ اللہ کو تین میں کا تیسرا مانتے ہیں ذکر کرکے ان کی سزاؤں کے بیان سے پہلے فرما دیا ( وَاِنْ لَّمْ يَنْتَھُوْا عَمَّا يَقُوْلُوْنَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 73 ) 5۔ المآئدہ :73) کہ اگر یہ اپنے قول سے باز نہ آئے تو۔ پھر اللہ تعالیٰ عظمت وکبریائی جلال و شان والے نے فرمایا یہ کیوں اللہ سے توبہ نہیں کرتے اور کیوں اس سے استغفار نہیں کرتے ؟ وہ تو بڑا ہی غفور و رحیم ہے۔ ان لوگوں کا جنہوں نے خندقیں کھود کر مسلمانوں کو آگ میں ڈالا تھا ذکر کرتے ہوئے بھی فرمایا ہے کہ جو مسلمان مرد عورتوں کو تکلیف پہنچا کر پھر بھی توبہ نہ کریں ان کیلئے عذاب جہنم اور عذاب نار ہے۔ امام حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ کے کرم و جود کو دیکھو کہ اپنے دوستوں کے قاتلوں کو بھی توبہ اور مغفرت کی طرف بلا رہا ہے۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں اس شخص کا واقعہ بھی مذکور ہے جس نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا تھا۔ پھر بنی اسرائیل کے ایک عابد سے پوچھا کہ کیا اس کیلئے بھی توبہ ہے ؟ اس نے انکار کیا اس نے اسے بھی قتل کردیا۔ پھر ایک عالم سے پوچھا اس نے جواب دیا کہ تجھ میں اور توبہ میں کوئی روک نہیں اور حکم دیا کہ موحدوں کی بستی میں چلا جا چناچہ یہ اس گاؤں کی طرف چلا لیکن راستے میں ہی موت آگئی۔ رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں آپس میں اختلاف ہوا۔ اللہ عزوجل نے زمین کے ناپنے کا حکم دیا تو ایک بالشت بھر نیک لوگوں کی بستی جس طرف وہ ہجرت کرکے جا رہا تھا قریب نکلی اور یہ انہی کے ساتھ ملا دیا گیا اور رحمت کے فرشتے اس کی روح کو لے گئے۔ یہ بھی مذکور ہے کہ وہ موت کے وقت سینے کے بل اس طرف گھسیٹتا ہوا چلا تھا۔ اور یہ بھی وارد ہوا ہے کہ نیک لوگوں کی بستی کے قریب ہوجانے کا اور برے لوگوں کی بستی کے دور ہوجانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا۔ یہ ہے اس حدیث کا خلاصہ، پوری حدیث اپنی جگہ بیان ہوچکی ہے۔ حضرت ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے تمام بندوں کو اپنی مغفرت کی طرف بلایا ہے انہیں بھی جو حضرت مسیح کو اللہ کہتے تھے انہیں بھی جو آپ کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے انہیں بھی جو حضرت عزیز کو اللہ کا بیٹا بتاتے تھے انہیں بھی جو اللہ کو فقیر کہتے تھے انہیں بھی جو اللہ کے ہاتھوں کو بند بتاتے تھے انہیں بھی جو اللہ تعالیٰ کو تین میں کا تیسرا کہتے تھے اللہ تعالیٰ ان سب سے فرماتا ہے کہ یہ کیوں اللہ کی طرف نہیں جھکتے اور کیوں اس سے اپنے گناہوں کی معافی نہیں چاہتے ؟ اللہ تو بڑی بخشش والا اور بہت ہی رحم و کرم والا ہے۔ پھر توبہ کی دعوت اللہ تعالیٰ نے اسے دی جس کا قول ان سب سے بڑھ چڑھ کر تھا۔ جس نے دعویٰ کیا تھا کہ میں تمہارا بلند وبالا رب ہوں۔ جو کہتا تھا کہ میں نہیں جانتا کہ تمہارا کوئی معبود میرے سوا ہو۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس کے بعد بھی جو شخص اللہ کے بندوں کو توبہ سے مایوس کرے۔ وہ اللہ عزوجل کی کتاب کا منکر ہے۔ لیکن اسے سمجھ لو کہ جب تک اللہ کسی بندے پر اپنی مہربانی سے رجوع نہ فرمائے اسے توبہ نصیب نہیں ہوتی۔ طبرانی میں حضرت ابن مسعود ؓ کا قول ہے کہ کتاب اللہ قرآن کریم میں سب سے زیادہ عظمت والی آیت آیت الکرسی ہے اور خیر و شر کی سب سے زیادہ جامع آیت ( اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚيَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ 90 ) 16۔ النحل:90) ہے اور سارے قرآن میں سب سے زیادہ خوشی کی آیت سورة زمر کی ( قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 53 ) 39۔ الزمر:53) ہے اور سب سے زیادہ ڈھارس دینے والی آیت ( من یتق اللہ یجعل لہ مخرجا ویرزقہ من حیث لا یحتسب ) ہے یعنی اللہ سے ڈرتے رہنے والوں کی مخلصی خود اللہ کردیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جہاں کا اسے خیال و گمان بھی نہ ہو۔ حضرت مسروق نے یہ سن کر فرمایا کہ بیشک آپ سچے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ جا رہے تھے کہ آپ نے ایک واعظ کو دیکھا جو لوگوں کو نصیحتیں کر رہا تھا کہ آپ نے فرمایا۔ تو کیوں لوگوں کو مایوس کر رہا ہے ؟ پھر اسی آیت کی تلاوت کی۔ ( ابن ابی حاتم ) " ان احادیث کا بیان جن میں ناامیدی اور مایوسی کی ممانعت ہے " رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اسکی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم خطائیں کرتے کرتے زمین و آسمان پر کردو پھر اللہ سے استغفار کرو تو یقینا وہ تمہیں بخش دے گا۔ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے اگر تم خطائیں کرو ہی نہیں تو اللہ عزوجل تمہیں فنا کرکے ان لوگوں کو لائے گا جو خطا کرکے استغفار کریں اور پھر اللہ انہیں بخشے۔ ( مسند امام احمد ) حضرت ابو ایوب انصاری ؓ اپنے انتقال کے وقت فرماتے ہیں۔ ایک حدیث میں نے تم سے آج تک بیان نہیں کی تھی اب بیان کردیتا ہوں۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ نے فرمایا اگر تم گناہ ہی نہ کرتے تو اللہ عزوجل ایسی قوم کو پیدا کرتا جو گناہ کرتی پھر اللہ انہیں بخشتا۔ ( صحیح مسلم وغیرہ ) حضور ﷺ فرماتے ہیں گناہ کا کفارہ ندامت اور شرمساری ہے اور آپ نے فرمایا اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو لاتا جو گناہ کریں پھر وہ انہیں بخشے ( مسند احمد ) آپ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اس بندے کو پسند فرماتا ہے جو کامل یقین رکھنے والا اور گناہوں سے توبہ کرنے والا ہو ( مسند احمد ) حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ ابلیس ملعون نے کہا اے میرے رب تو نے مجھے آدم کی وجہ سے جنت سے نکالا ہے اور میں اس پر اس کے بغیر کہ تو مجھے اس پر غلبہ دے غالب نہیں آسکتا۔ جناب باری نے فرمایا جا تو ان پر مسلط ہے۔ اس نے کہا اللہ کچھ اور بھی مجھے زیادتی عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جا بنی آدم میں جتنی اولاد پیدا ہوگی اتنی ہی تیرے ہاں بھی ہوگی۔ اس نے پھر التجا کی باری تعالیٰ کچھ اور بھی مجھے زیادتی دے۔ پروردگار عالم نے فرمایا بنی آدم کے سینے میں تیرے لئے مسکن بنادوں گا اور تم ان کے جسم میں خون کی جگہ پھرو گے اس نے پھر کہا کہ کچھ اور بھی مجھے زیادتی عنایت فرما۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جا تو ان پر اپنے سوار اور پیادے دوڑا۔ اور ان کے مال و اولاد میں اپنا ساجھا کر اور انہیں امنگیں دلا۔ گو حقیقتاً تیرا امنگیں دلانا اور وعدے کرنا سراسر دھوکے کی ٹٹی ہیں۔ اس وقت حضرت آدم ؑ نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار تو نے اسے مجھ پر مسلط کردیا اب میں اس سے تیرے بچائے بغیر بچ نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا سنو تمہارے ہاں جو اولاد ہوگی اس کے ساتھ میں ایک محافظ مقرر کردوں گا جو شیطانی پنجے سے محفوظ رکھے۔ حضرت آدم نے اور زیادتی طلب کی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایک نیکی کو دس گنا کرکے دوں گا بلکہ دس سے بھی زیادہ۔ اور برائی اسی کے برابر رہے گی یا معاف کردوں گا۔ آپ نے پھر بھی اپنی یہی دعا جاری رکھی۔ رب العزت نے فرمایا توبہ کا دروازہ تمہارے لئے اس وقت تک کھلا ہے جب تک روح جسم میں ہے، حضرت آدم نے دعا کی اللہ مجھے اور زیادتی بھی عطا فرما۔ اب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی کہ میرے گنہگار بندوں سے کہہ دو وہ میری رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ ( ابن ابی حاتم ) حضرت عمر فاروق ؓ کی حدیث میں ہے کہ جو لوگ بوجہ اپنی کمزوری کے کفار کی تکلیفیں برداشت نہ کرسکنے کی وجہ سے اپنے دین میں فتنے میں پڑگئے ہم اس کی نسبت آپس میں کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوئی نیکی اور توبہ قبول نہ فرمائے گا ان لوگوں نے اللہ کو پہچان کر پھر کفر کو لے لیا اور کافروں کی سختی کو برداشت نہ کیا۔ جب حضور ﷺ مدینے میں آگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں ہمارے اس قول کی تردید کردی اور ( یا عبادی الذین اسرفوا سے لا تشعرون ) تک آیتیں نازل ہوئیں۔ حضرت عمر فرماتے ہیں میں نے اپنے ہاتھ سے ان آیتوں کو لکھا اور ہشام بن عاص ؓ کے پاس بھیج دیا، حضرت ہشام فرماتے ہیں میں اس وقت ذی طویٰ میں تھا میں انہیں پڑھ رہا تھا اور بار بار پڑھتا جاتا تھا اور خوب غور و خوض کر رہا تھا لیکن اصلی مطلب تک ذہن رسائی نہیں کرتا تھا۔ آخر میں نے دعا کی کہ پروردگار ان آیتوں کا صحیح مطلب اور ان کو میری طرف بھیجے جانے کا صحیح مقصد مجھ پر واضح کردے۔ چناچہ میرے دل میں اللہ کی طرف سے ڈالا گیا کہ ان آیتوں سے مراد ہم ہی ہیں یہ ہمارے بارے میں ہیں اور ہمیں جو خیال تھا کہ اب ہماری توبہ قبول نہیں ہوسکتی اسی بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ اسی وقت میں واپس مڑا اپنا اونٹ لیا اس پر سواری کی اور سیدھا مدینے میں آکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ ( سیرۃ ابن اسحاق ) بندوں کی مایوسی کو توڑ کر انہیں بخشش کی امید دلا کر پھر حکم دیا اور رغبت دلائی کہ وہ توبہ اور نیک عمل کی طرف سبقت اور جلدی کریں ایسا نہ ہو کہ اللہ کے عذاب آپڑیں۔ جس وقت کہ کسی کی مدد کچھ نہیں آتی اور انہیں چاہئے کہ عظمت والے قرآن کریم کی تابعداری اور ماتحتی میں مشغول ہوجائیں اس سے پہلے کہ اچانک عذاب آئیں اور یہ بیخبر ی میں ہی ہوں، اس وقت قیامت کے دن بےتوبہ مرنے والے اور اللہ کی عبادت میں کمی لانے والے بڑی حسرت اور بہت افسوس کریں گے اور آرزو کریں گے کہ کاش کہ ہم خلوص کے ساتھ احکام اللہ بجا لاتے۔ افسوس ! کہ ہم تو بےیقین رہے۔ اللہ کی باتوں کی تصدیق ہی نہ کی بلکہ ہنسی مذاق ہی سمجھتے رہے اور کہیں گے کہ اگر ہم بھی ہدایت پالیتے تو یقینا رب کی نافرمانیوں سے دنیا میں اور اللہ کے عذاب سے آخرت میں بچ جاتے اور عذاب کو دیکھ کر افسوس کرتے ہوئے کہیں گے کہ اگر اب دوبارہ دنیا کی طرف جانا ہوجائے تو دل کھول کر نیکیاں کرلیں۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ بندے کیا عمل کریں گے اور کیا کچھ وہ کہیں گے۔ انکے عمل اور ان کے قول سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اس کی خبر دیدی اور فی الواقع اس سے زیادہ باخبر کون ہوسکتا ہے ؟ نہ اس سے زیادہ سچی خبر کوئی دے سکتا ہے۔ بدکاروں کے یہ تینوں قول بیان فرمائے اور دوسری جگہ یہ خبر دیدی کہ اگر یہ واپس دنیا میں بھیجے جائیں تو بھی ہدایت کو اختیار نہ کریں گے۔ بلکہ جن کاموں سے روکے گئے ہیں انہی کو کرنے لگیں گے اور یہاں جو کہتے ہیں سب جھوٹ نکلے گا۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے ہر جہنمی کو اس کی جنت کی جگہ دکھائی جاتی ہے اس وقت وہ کہتا ہے کاش کہ اللہ مجھے ہدایت دیتا۔ یہ اس لئے کہ اسے حسرت و افسوس ہو۔ اور اسی طرح ہر جنتی کو اس کی جہنم کی جگہ دکھائی جاتی ہے اس وقت وہ کہتا ہے کہ اگر مجھے اللہ تعالیٰ ہدایت نہ دیتا تو وہ جنت میں نہ آسکتا۔ یہ اس لئے کہ وہ شکر اور احسان کے ماننے میں اور بڑھ جائے، جب گنہگار لوگ دنیا کی طرف لوٹنے کی آرزو کریں گے اور اللہ کی آیتوں کی تصدیق نہ کرنے کی حسرت کریں گے اور اللہ کے رسولوں کو نہ ماننے پر کڑھنے لگیں گے تو اللہ سبحان و تعالیٰ فرمائے گا کہ اب ندامت لاحاصل ہے پچھتاوا بےسود ہے دنیا میں ہی میں تو اپنی آیتیں اتار چکا تھا۔ اپنی دلیلیں قائم کرچکا تھا، لیکن تو انہیں جھٹلاتا رہا اور ان کی تابعداری سے تکبر کرتا رہا، ان کا منکر رہا۔ کفر اختیار کیا، اب کچھ نہیں ہوسکتا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 53 { قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ } ” اے نبی ﷺ ! آپ کہیے : اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے ! “ قُلْ یٰعِبَادِیْکا اندازِ تخاطب اس سورت میں یہاں دوسری مرتبہ آیا ہے۔ اس سے پہلے آیت 10 میں ارشاد ہوا : { قُلْ یٰعِبَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّکُمْ } ” اے نبی ﷺ ! آپ کہیے : اے میرے وہ بندو جو ایمان لائے ہو ! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو “۔ اب یہاں گویا پھر سے یاد دہانی کرائی جا رہی ہے کہ اب تک کی زندگی اگر تم لوگوں نے غفلت میں گزار دی ہے تو اب بھی وقت ہے ‘ اب بھی ہوش میں آ جائو ! اور اگر تم نے اب تک اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے تو : { لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا } ” اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا ‘ یقینا اللہ سارے گناہ معاف فرما دے گا۔ “ ٭ لیکن اس معافی کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کے حضور خلوص دل سے توبہ کرو ‘ حرام خوری چھوڑ دو ‘ معصیت کی روش ترک کر دو اور آئندہ کے لیے اپنے اعمال کو درست کرلو۔ ایسی توبہ کا انعام اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ملے گا کہ تمہارے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے۔ سورة الفرقان میں اس بارے میں بہت واضح حکم موجود ہے : { اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍط وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًارَّحِیْمًا۔ وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ یَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَابًا۔ ” سوائے اس کے جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کیے ‘ تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دیتا ہے ‘ اور اللہ غفور ہے ‘ رحیم ہے۔ اور جس نے توبہ کی اور نیک اعمال کیے تو یہی شخص توبہ کرتا ہے اللہ کی جناب میں جیسا کہ توبہ کرنے کا حق ہے “۔ چناچہ سابقہ گناہوں کی معافی توبہ سے ممکن ہے ‘ لیکن توبہ وہی قبول ہوگی جس کے بعد انسان کے اعمال درست ہوجائیں اور اگر ایسا نہ ہوا تو رسمی اور زبانی توبہ بےمعنی ہے۔ { اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ } ” یقینا وہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔ “
قل ياعبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله إن الله يغفر الذنوب جميعا إنه هو الغفور الرحيم
سورة: الزمر - آية: ( 53 ) - جزء: ( 24 ) - صفحة: ( 464 )Surah Zumar Ayat 53 meaning in urdu
(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور و رحیم ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- ان لوگوں نے جب (خدا سے) عہد واثق کیا تو ان میں سے ایک فریق
- (موسیٰ نے) کہا جا تجھ کو دنیا کی زندگی میں یہ (سزا) ہے کہ کہتا
- سو (دیکھ لو کہ) میرا عذاب اور ڈرانا کیسا ہوا
- اور (اے محمدﷺ اس وقت کو یاد کرو) جب کافر لوگ تمہارے بارے میں چال
- سو وہ اسی میں سے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے
- اور بےشک ان کے لئے ہمارے ہاں قُرب اور عمدہ مقام ہے
- وہ بولے کہ تم (اور کچھ) نہیں مگر ہماری طرح کے آدمی (ہو) اور خدا
- اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنائے تاکہ لوگوں (کے بوجھ) سے ہلنے (اور جھکنے)
- اور ظالموں کے لئے اس کے سوا اور عذاب بھی ہے لیکن ان میں کے
- بہانے مت بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو۔ اگر ہم تم
Quran surahs in English :
Download surah Zumar with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Zumar mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Zumar Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers