Surah Maarij Ayat 6 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيدًا﴾
[ المعارج: 6]
وہ ان لوگوں کی نگاہ میں دور ہے
Surah Maarij Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اس یوم کی تعریف میں بہت اختلاف ہے جیسا کہ الم سجدہ کے آغاز میں ہم بیان کر آئے ہیں۔ یہاں امام ابن کثیر نے چار اقوال نقل فرمائےہیں۔ پہلا قول ہے کہ اس سے وہ مسافت مراد ہے جو عرش عظیم سے اسفل سافلین ( زمین کے ساتویں طبقے ) تک ہے۔ یہ مسافت 50 ہزار سال میں طے ہونے والی ہے۔ دوسرا قول ہے کہ یہ دنیا کی کل مدت ہے۔ ابتدائے آفرینش سے وقوع قیامت تک، اس میں سے کتنی مدت گزر گئی اور کتنی باقی ہے، اسے صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ تیسرا قول ہے کہ یہ دنیا و آخرت کے درمیان فاصلہ ہے۔ چوتھا قول یہ ہے کہ یہ قیامت کے دن کی مقدار ہے۔ یعنی کافروں پر یہ یوم حساب پچاس ہزار سال کی طرح بھاری ہوگا۔ لیکن مومن کے لئے دنیا میں ایک فرض نماز پڑھنے سے بھی مختصر ہوگا۔ ( مسند احمد، 3/75 ) امام ابن کثیر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے کیوں کہ احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے کو قیامت والے دن جو عذاب دیا جائے گا اس کی تفصیل بیان فرماتے ہوئے رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) نے فرمایا: «حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَ عِبَادِهِ فِى يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ»۔ ( صحیح مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب اثم مانع الزکوٰۃ )، ” یہاں تک کہ اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرمائے گا، ایسے دن میں، جس کی مدت تمہاری گنتی کے مطابق پچاس ہزار سال ہوگی “۔ اس تفسیر کی رو سے فی یوم کا تعلق عذاب سے ہوگا، یعنی وہ واقع ہونے والا عذاب قیامت والے دن ہوگا جو کافروں پر پچاس ہزار سال کی طرح بھاری ہوگا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
بعذاب میں جو " ب " ہے وہ بتارہی ہے کہ یہاں فعل کی تضمین ہے گویا کہ فعل مقدر ہے یعنی یہ کافر عذاب کے واقع ہونے کی طلب میں جلدی کر رہے ہیں، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بالْعَذَابِ وَلَنْ يُّخْلِفَ اللّٰهُ وَعْدَهٗ ۭ وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ 47 ) 22۔ الحج:47) یعنی یہ عذاب مانگنے میں عجلت کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہرگز وعدہ خلافی نہیں کرتا، یعنی اس کا عذاب یقیناً اپنے وقت مقررہ پر آ کر ہی رہے گا، نسائی میں حضرت ابن عباس سے وارد ہے کہ کافروں نے اللہ کا عذاب مانگا جو ان پر یقیناً آنے والا ہے، یعنی آخرت میں ان کی اس طلب کے الفاظ بھی دوسری جگہ قرآن میں منقول ہیں کہتے ہیں آیت ( اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ 32 ) 8۔ الأنفال:32) یعنی الٰہی اگر یہ تیرے پاس سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا ہمارے پاس کوئی درد ناک عذاب لا، ابن جریر وغیرہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ عذاب کی وادی ہے جو قیامت کے دن عذابوں سے بہ نکلے گی، لیکن یہ قول ضعیف ہے اور مطلب سے بہت دور ہے صحیح قول پہلا ہی ہے جس پر روش کلام کی دلالت ہے پھر فرماتا ہے کہ وہ عذاب کافروں کے لئے تیار ہے اور ان پر آپڑنے والا ہے جب آجائے گا تو اسے دور کرنے والا نہیں اور نہ کسی میں اتنی طاقت ہے کہ اسے ہٹا سکے۔ آیت ( مِّنَ اللّٰهِ ذِي الْمَعَارِجِ ۭ ) 70۔ المعارج:3) کے معنی ابن عباس کی تفسیر کے مطابق درجوں والا، یعنی بلندیوں اور بزرگیوں والا اور حضرت مجاہد فرماتے ہیں مراد معارج سے آسمان کی سیڑھیاں ہیں، قتادہ کہتے ہیں فضل و کرم اور نعمت و رحم والا، یعنی یہ عذاب اس اللہ کی طرف سے ہے جو ان صفتوں والا ہے، اس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں، روح کی تفسیر میں حضرت ابو صالح فرماتے ہیں کہ یہ قسم کی مخلوق ہے انسان تو نہیں لیکن انسانوں سے بالکل مشابہ ہے، میں کہتا ہوں ممکن ہے اس سے مراد حضرت جبرائیل ؑ ہوں اور یہ عطف ہو عام پر خاص کا اور ممکن ہے کہ اس سے مراد بنی آدم کی روحیں ہوں، اس لئے کہ وہ بھی قبض ہونے کے بعد آسمان کی طرف چڑھتی ہیں، جیسے کہ حضرت براء والی لمبی حدیث میں ہے کہ جب فرشتے پاک روح نکالتے ہیں تو اسے لے کر ایک آسمان سے دوسرے پر چڑھتے جاتے ہیں یہاں تک کہ ساتویں آسمان پر پہنچتے ہیں، گو اس کے بعض راویوں میں کلام ہے لیکن یہ حدیث مشہور ہے اور اس کی شہادت میں حضرت ابوہریرہ والی حدیث بھی ہے جیسے کہ پہلے بروایت امام احمد ترمذی اور ابن ماجہ گذر چکی ہے جسکی سند کے راوی ایک جماعت کی شرط پر ہیں، پہلی حدیث بھی مسند احمد ابو داؤد و نسائی اور ابن ماجہ میں ہے، ہم نے اس کے الفاظ اور اس کے طرق کا بسیط بیان آیت ( يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ ۚ وَيُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِيْنَ ڐ وَيَفْعَلُ اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ 27 ) 14۔ ابراھیم :27) کی تفسیر میں کردیا ہے۔ پھر فرمایا اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے اس میں چار قول ہیں ایک تو یہ کہ اس سے مراد وہ دوری ہے جو اسفل السافلین سے عرش معلی تک ہے اور اسی طرح عرش کے نیچے سے اوپر تک کا فاصلہ بھی اتنا ہی ہے اور عرش معلی سرخ یاقوت کا ہے، جیسے کہ امام ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب " صفتہ العرش " میں ذکر کیا ہے، ابن ابی حاتم میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس کے حکم کی انتہاء نیچے کی زمین سے آسمانوں کے اوپر تک کی پچاس ہزار سال کی ہے اور ایک دن ایک ہزار سال کا ہے یعنی آسمان سے زمین تک اور زمین سے آسمان تک ایک دن میں جو ایک ہزار سال کے برابر ہے، اس لئے کہ آسمان و زمین کا فاصلہ پانچ سو سال کا ہے یہی روایت دوسرے طریق سے حضرت مجاہد کے قول سے مروی ہے حضرت ابن عباس کے قول سے نہیں، حضرت ابن عباس سی ابن ابی حاتم میں روایت ہے کہ ہر زمین کی موٹائی پانچ سو سال کے فاصلہ کی ہے اور ایک زمین سے دوسری زمین تک پانچ سو سال کی دوری ہے تو سات ہزار سال یہ ہوگئے، اسی طرح آسمان، تو چودہ ہزار سال یہ ہوئی اور ساتویں آسمان سے عرش عظیم تک چھتیس ہزار سال کا فاصلہ ہے یہی معنی ہیں اللہ کے اس فرمان کے کہ اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے اس عالم کو پیدا کیا ہے تب سے لے کر قیامت تک کہ اس کی بقاء کی آخر تک مدت پچاس ہزار سال کی ہے، چناچہ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ دنیا کی کل عمر پچاس ہزار سال کی ہے، اور یہی ایک دن ہے جو اس آیت میں مراد لیا گیا ہے، حضرت عکرمہ فرماتے ہیں دنیا کی پوری مدت یہی ہے لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ کس قدر گزر گئی اور کتنی باقی ہے سوائے اللہ تبارک و تعالیٰ کے تیسرا قول یہ ہے کہ یہ دن وہ ہے جو دنیا اور آخرت میں فاصلے کا ہے، حضرت محمد بن کعب یہی فرماتے ہیں لیکن یہ قول بہت ہی غریب ہے، چوتھا قول یہ ہے کہ اس سے مراد قیامت کا دن ہے حضرت ابن عباس سے یہ بہ سند صحیح مروی ہے، حضرت عکرمہ بھی یہی فرماتے ہیں، ابن عباس کا قول ہے کہ قیامت کے دن کو اللہ تعالیٰ کافروں پر پچاس ہزار سال کا کر دے گا، مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے کہا گیا یہ دن تو بہت ہی بڑا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ مومن پر اس قدر ہلکا ہوجائے گا کہ دنیا کی ایک فرض نماز کی ادائیگی میں جتنا وقت لگتا ہے اس سے بھی کم ہوگا، یہ حدیث ابن جریر میں بھی ہے اس کے دو راوی ضعیف ہیں، واللہ اعلم۔ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کے پاس سے قبیلہ بنو عامر کا ایک شخص گذرا لوگوں نے کہا حضرت یہ اپنے قبیلے میں سب سے بڑا مالدار ہے آپ ﷺ نے اسے بلوایا اور فرمایا کیا واقع میں تم سب سے زیادہ مالدار ہو ؟ اس نے کہا ہاں میرے پاس رنگ برنگ سینکڑوں اونٹ قسم قسم کے غلام اعلیٰ اعلیٰ درجہ کے گھوڑے وغیرہ ہیں حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا دیکھو خبردار ایسا نہ ہو کہ یہ جانور اپنے پاؤں سے تمہیں روندیں اور اپنے سینگوں سے تمہیں ماریں بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ عامری کے چرے کا رنگ اڑ گیا اور اس نے کہا حضرت یہ کیوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا سنو ! میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ جو اپنے اونٹوں کا حق ادا نہ کرے ان کی سختی میں اور ان کی آسانی میں اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایک چٹیل لمبے چوڑے صاف میدان میں چت لٹائے گا اور ان تمام جانوروں کو خوب موٹا تازہ کر کے حکم دے گا کہ اسے روندے ہوئے چلو چناچہ ایک ایک کر کے اسے کچلتے ہوئے گزریں گے جب آخر والا گذر جائے گا تو اول والا لوٹ کر آجائے گا یہی عذاب اسے ہوتا رہے گا اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فاصلہ ہوجائے پھر وہ اپنا راستہ دیکھ لے گا، اسی طرح گائے گھوڑے بکری وغیرہ یہی سینگ دار جانور اپنے سینگوں سے بھی اسے مارتے جائیں گے کوئی ان میں بےسینگ کا یا ٹوٹے ہوئے سینگ والا نہ ہوگا، عامری نے پوچھا اے حضرت ابوہریرہ ؓ فرمایئے اونٹوں میں اللہ کا حق کیا ہے ؟ فرمایا مسکنیوں کو سواری کے لئے تحفتًہ دینا غرباء کے ساتھ سلوک کرنا دودھ پینے کے لئے جانور دینا ان کے نروں کی ضرورت جنہیں مادہ کے لئے ہوا نہیں مانگا ہوا بےقیمت دینا، یہ حدیث ابو داؤد اور نسائی میں بھی دسرے سند سے مذکور ہے، مسند کی ایک حدیث میں ہے کہ جو سونے چاندی کے خزانے والا اس کا حق ادا نہ کرے اس کا سونا چاندی کی تختیوں کی صورت میں بنایا جائے گا اور جہنم کی آگ میں تپا کر اس کی پیشانی کروٹ اور پیٹھ داغی جائے گی یہاں تک کہ اللہ اپنے بندوں کے فیصلے کرلے اس دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی سے پچاس ہزار سال کی ہوگی پھر وہ اپنا راستہ جنت کی طرف یا جہنم کی طرف دیکھ لے گا، پھر آگے بکریوں اور اونٹوں کا بیان ہے جیسے اوپر گذرا، اور یہ بھی بیان ہے کہ گھوڑے تین قسم کے لوگوں کے لئے ہیں۔ ایک تو اجر دلانے والے، دوسری قسم کے پردہ پوشی کرنے والے، تیسری قسم کے بوجھ ڈھونے والے۔ یہ حدیث پوری پوری صحیح مسلم شریف میں بھی ہے۔ ان روایتوں کے پورا بیان کرنے کی اور ان کی سندوں اور الفاظ کے تمام تر نقل کرنے کی مناسب جگہ احکام کی کتاب الزکوۃ ہے، یہاں ان کے وارد کرنے سے ہماری غرض صرف ان الفاظ سے ہے کہ یہاں تک کہ اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا، اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے ایک شخص پوچھتا ہے کہ وہ دن کیا ہے، جس کی مقدار ایک ہزار سال کی ہے ؟ آپ ﷺ فرماتے ہیں اور وہ دن کیا ہے جو پچاس ہزار سال کا ہے ؟ اس نے کہا حضرت میں تو خود دریافت کرنے آیا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا سنو یہ دو دن ہیں جن کا ذکر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی کو ان کی حقیقت کا بخوبی علم ہے میں تو باوجود نہ جاننے کے کتاب اللہ میں کچھ کہنا مکروہ جانتا ہوں۔ پھر فرماتا ہے اے نبی ﷺ تم اپنی قوم کو جھٹلانے پر اور عذاب کے مانگنے کی جلدی پر جسے وہ اپنے نزدیک نہ آنے والا جانتے ہیں صبر و تحمل کرو، جیسے اور جگہ ہے آیت ( يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهَا ۚ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مُشْفِقُوْنَ مِنْهَا ۙ وَيَعْلَمُوْنَ اَنَّهَا الْحَقُّ ۭ اَلَآ اِنَّ الَّذِيْنَ يُمَارُوْنَ فِي السَّاعَةِ لَفِيْ ضَلٰلٍۢ بَعِيْدٍ 18 ) 42۔ الشوری :18) ، یعنی بےایمان تو قیامت کے جلد آنے کی تمنائیں کرتے ہیں اور ایمان دار اس کے آنے کو حق جان کر اس سے ڈر رہے ہیں۔ اسی لئے یہاں بھی فرمایا کہ یہ تو اسے دور جان رہے ہیں بلکہ محال اور واقع نہ ہونے والا مانتے ہیں لیکن ہم اسے قریب ہی دیکھ رہے ہیں، یعنی مومن تو اس کا آنا حق جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب آیا ہی چاہتی ہے، نہ جانے کب قیامت قائم ہوجائے اور کب عذاب آپڑیں، کیونکہ اس کے صحیح وقت کو تو سوائے اللہ کے اور کوئی جانتا ہی نہیں، پس ہر وہ چیز جس کے آنے اور ہونے میں کوئی شک نہ ہو اس کا آنا قریب ہی سمجھا جاتا ہے اور اس کے ہو پڑنے کا ہر وقت کھٹکا ہی رہتا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 6 ‘ 7{ اِنَّہُمْ یَرَوْنَہٗ بَعِیْدًا - وَّنَرٰٹہُ قَرِیْبًا۔ } ” یہ لوگ تو اس عذاب کو دور سمجھ رہے ہیں ‘ اور ہم اسے نہایت قریب دیکھ رہے ہیں۔ “ ظاہر ہے انسان تو صرف اپنے سامنے کی چیز کو ہی دیکھ سکتا ہے ‘ مستقبل میں جھانکنا تو اس کے بس میں نہیں ہے۔ اسی لیے مستقبل کی چیزیں یا خبریں اسے عام طور پر دور محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لیے تو مستقبل وغیرہ کچھ نہیں اور نہ ہی کوئی چیز اس سے غائب ہے۔ وہ تو ہرچیز کو بیک وقت اپنے سامنے دیکھ رہا ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ سڑک پر سفر کرتے ہوئے ایک شخص صرف اسی شہر یا مقام کو دیکھ سکتا ہے جو اس کے سامنے ہے جبکہ اس سے اگلا شہر مستقبل میں ہونے کی وجہ سے اس کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جو شخص ہوائی جہاز پر سفر کر رہا ہے وہ ان دونوں شہروں کو بیک وقت اپنے سامنے دیکھ سکتا ہے۔ بقول آئن سٹائن every thing is relative کہ دنیا کی ہرچیز کسی دوسری چیز سے متعلق و مشروط ہے۔ چناچہ کسی بھی چیز یا صورت حال کو صرف ایک ہی زاویے سے دیکھ کر کوئی رائے قائم نہیں کر لینی چاہیے۔ دنیا میں ہمارے اعتبار سے بھی قریب اور بعید relative ہیں ‘ جبکہ اللہ تعالیٰ کے لیے تو کوئی شے بھی بعید نہیں ‘ ہرچیز اس کے سامنے ہے۔ ماضی ‘ حال اور مستقبل آنِ واحد میں اس کے سامنے موجود ہیں۔
Surah Maarij Ayat 6 meaning in urdu
یہ لوگ اُسے دور سمجھتے ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- (قیام) آدھی رات (کیا کرو)
- اور ایک نشانی ان کے لئے زمین مردہ ہے کہ ہم نے اس کو زندہ
- ان دونوں (یعنی بہشت اور دوزخ) کے درمیان (اعراف نام) ایک دیوار ہو گی اور
- وہ کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس تمہارے پیغمبر نشانیاں لے کر نہیں آئے تھے۔
- یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا
- اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو رزق خدا نے تم کو دیا
- اور بہشت پرہیزگاروں کے قریب کردی جائے گی
- جب وہ اس کو دیکھیں گے (تو ایسا خیال کریں گے) کہ گویا (دنیا میں
- اور تہہ بہ تہہ کیلوں
- خدا نے بہت سے موقعوں پر تم کو مدد دی ہے اور (جنگ) حنین کے
Quran surahs in English :
Download surah Maarij with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Maarij mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Maarij Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers