Surah Anfal Ayat 60 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ﴾
[ الأنفال: 60]
اور جہاں تک ہوسکے (فوج کی جمعیت کے) زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے (مقابلے کے) لیے مستعد رہو کہ اس سے خدا کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور ان کے سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے گی۔ اور تم جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرو گے اس کا ثواب تم کو پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا ذرا نقصان نہیں کیا جائے گا
Surah Anfal Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) قُوَّةٍ کی تفسیر نبی ( صلى الله عليه وسلم ) سے ثابت ہے یعنی تیراندازی ( صحيح مسلم- كتاب الإمارة- باب فضل الرمي والحث عليه- وديكر كتب حديث ) کیونکہ اس دور میں یہ بہت بڑا جنگی ہتھیار اور نہایت اہم فن تھا، جس طرح گھوڑے جنگ کے لئے ناگزیر ضرورت تھے، جیسا کہ اس آیت سے بھی واضح ہے۔ لیکن اب تیر اندازی اور گھوڑوں کی یہ جنگی اہمیت وافادیت وضرورت باقی نہیں رہی۔ اس لئے ” وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ “ کے تحت آج کل کے جنگی ہتھیاروں ( مثلاً میزائیل، ٹینک، بم اور جنگی جہاز اور بحری جنگ کے لئے آبدوزیں وغیرہ ) کی تیاری ضروری ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
کفار کے مقابلہ کے ہر وقت تیار رہو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کافر لوگ یہ نہ سمجھیں کہ وہ ہم سے بھاگ نکلے ہم ان کی پکڑ پر قادر نہیں بلکہ وہ ہر وقت ہمارے قبضہ قدرت میں ہیں وہ ہمیں ہرا نہیں سکتے اور آیت میں ہے برائیاں کرنے والے ہم سے آگے بڑھ نہیں سکتے۔ فرماتا ہے کافر ہمیں یہاں ہرا نہیں سکتے وہاں کا ٹھکانا آگ ہے جو بدترین جگہ ہے اور فرمان ہے کافروں کا شہروں میں آنا جانا چلنا پھرنا کہیں تجھے دھوکے میں نہ ڈال دے۔ یہ تو سب آنی جانی چیزیں ہیں ان کا ٹھکانا دوزخ ہے جو بدترین گود ہے۔ پھر مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنی طاقت و امکان کے مطابق ان کفار کے مقابلے کے لیے ہر وقت مستعد رہو جو قوت طاقت گھوڑے، لشکر رکھ سکتے ہیں موجود رکھو۔ مسند میں ہے کہ حضور ﷺ نے منبر پر قوت کی تفسیر تیر اندازی سے کی اور دو مرتبہ یہی فرمایا تیر اندازی کیا کرو سواری کیا کرو اور تیر اندازی گھوڑ سواری سے بہتر ہے۔ فرماتے ہیں گھوڑوں کے پالنے والے تین قسم کے ہیں ایک تو اجر وثواب پانے والے، ایک نہ تو ثواب نہ عذاب پانے والے ایک عذاب بگھتنے والے۔ جو جہاد کے ارادے سے پالے اس کے گھوڑے کا چلنا پھرنا تیرنا، چگنا باعث ثواب ہے یہاں تک کہ اگر وہ اپنی رسی توڑ کر کہیں چڑھ جائے تو بھی اس کے نشانات قدم اور اس کی لید پر اسے نیکیاں ملتی ہیں کسی نہر پر گذارتے ہوئے وہ پانی پی لے اگرچہ مجاہد نے پلانے کا ارادہ نہ بھی کیا ہو تاہم اسے نیکیاں ملتی ہیں۔ پس یہ گھوڑا تو اس کے پالنے والے کے لیے بڑے اجرو ثواب کا ذریعہ ہے۔ اور جس شخص نے گھوڑا اس نیت سے پالا کہ وہ دوسروں سے بےنیاز ہوجائے پھر اللہ کا حق بھی اس کی گردن اور اس کی سواری میں نہیں بھولا یہ اس کے لیے جائز ہے یعنی نہ اسے اجر نہ اسے گناہ۔ تیسرا وہ شخص جس نے فخر و ریا کے طور پر پالا اور مسلمانوں کے مقابلے کے لیے وہ اس کے ذمے و بال ہے اور اس کی گردن پر بوجھ ہے آپ سے دریافت کیا گیا کہ اچھاگدھوں کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ فرمایا اس کے بارے میں کوئی آیت تو اتری نہیں ہاں یہ جامع عام آیت موجود ہے کہ جو شخص ایک ذرے کے برابر نیکی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا اور جو کوئی ایک ذرے کے برابر بھی برائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے اور حدیث میں یہ الفاظ ہیں گھوڑے تین طرح کے ہیں۔ رحمان کے شیطان کے اور انسان کے۔ اس میں ہے کی شیطانی گھوڑے وہ ہیں جو گھوڑ دوڑ کی شرطیں لگانے اور جوئے بازی کرنے کے لیے ہوں۔ اکثر علماء کا قول ہے کہ تیر اندازی گھوڑ سواری سے افضل ہے۔ امام مالک اس کے خلاف ہیں لیکن جمہور کا قول قوی ہے کہ کیونکہ حدیث میں آچکا ہے۔ حضرت معاویہ بن خدیج حضرت ابوذر کے پاس گئے اس وقت وہ اپنے گھوڑے کی خدمت کر رہے تھے پوچھا تمہیں یہ گھوڑا کیا کام آتا ہے ؟ فرمایا میرا خیال ہے کہ اس جانور کی دعا میرے حق میں قبول ہوگی۔ کہا جانور اور دعا ؟ فرمایا ہاں اللہ کی قسم ہر گھوڑا ہر صبح دعا کرتا ہے کہ اے اللہ تو نے مجھے اپنے بندوں میں سے ایک کے حوالے کیا ہے تو مجھے اس کی تمام اہل سے اور مال سے اور اولاد سے زیادہ محبوب بنا کر اس کے پاس رکھ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ہر عربی گھوڑے کو ہر صبح دو دعائیں کرنے کی اجازت ملتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں گھوڑوں کی پیشانیوں میں بھلائی بندھی ہوئی ہے گھوڑوں والے اللہ کی مدد میں ہیں اسے نیک نیتی سے جہاد کے ارادے سے پالنے والا ایسا ہے جیسے کوئی شخص ہر وقت ہاتھ بڑھاکر خیرات کرتا ہے۔ اور بھی حدیثیں اس بارے میں بہت سی ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں بھلائی کی تفصیل ہے کہ اجر اور غنیمت۔ فرماتا ہے اس سے تمہارے دشمن خوف زدہ اور ہیبت خوردہ رہیں گے ان ظاہری مقابلے کے دشمنوں کے علاوہ اور دشمن بھی ہیں یعنی بنو قریظہ، فارس اور محلوں کے شیاطین۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ اس سے مراد جنات ہیں۔ ایک منکر حدیث میں ہے جس گھر میں کوئی آزاد گھوڑا ہو وہ گھر کبھی بدنصیب نہیں ہوگا لیکن اس روایت کی تو سند ٹھیک ہے نہ یہ صحیح ہے۔ اور اس سے مراد منافق بھی لی گئی ہے۔ اور یہی قول زیادہ مناسب بھی ہے جیسے فرمان الٰہی ہے ( وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ړ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِيْنَةِ ڀ مَرَدُوْا عَلَي النِّفَاقِ ۣ لَا تَعْلَمُھُمْ ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ ۭ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ01001ۚ ) 9۔ التوبة:101) تمہارے چاروں طرف دیہاتی اور شہری منافق ہیں جنہیں تم نہیں جانتے لیکن ہم ان سے خوب واقف ہیں۔ پھر ارشاد ہے کہ جہاد میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا بدلہ پاؤ گے۔ ابو داؤد میں ہے کہ ایک درہم کا ثواب سات سو گنا کر کے ملے گا جیسے کہ ( مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۭوَاللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ02601 ) 2۔ البقرة :261) اتری تو آپ نے فرمایا کہ وہ بھی جو سوال کرے چاہے وہ کسی دین کا ہو اس کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ یہ روایت غریب ہے ابن ابی حاتم نے اسے روایت کیا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 60 وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ یہاں مسلمانوں کو واضح طور پر حکم دیا جا رہا ہے کہ اب جبکہ تمہاری تحریک تصادم کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے تو تم لوگ اپنے وسائل کے مطابق ‘ مقدور بھر فن حرب کی صلاحیت و اہلیت ‘ اسلحہ اور گھوڑے وغیرہ جہاد کے لیے تیار رکھو۔ اگرچہ ایک مؤمن کو اللہ کی نصرت پر توکل کرنا چاہیے ‘ مگر توکل کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اور امید رکھے کہ سب کچھ اللہ کی مدد سے ہی ہوجائے گا۔ بلکہ توکل یہ ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنے تمام ممکنہ مادی اور تکنیکی وسائل مہیا رکھے جائیں اور پھر اللہ کی نصرت پر توکل کیا جائے۔یہاں مسلمانوں کو اپنے دشمنوں کے خلاف بھر پور دفاعی صلاحیت حاصل کرنے کی حتی الوسع کوشش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تیاری کا یہ حکم ہر دور کے لیے ہے۔ آج اگر اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے نوازا ہے تو یہ صلاحیت ملک و قوم کی قوت و طاقت کی علامت بھی ہے اور تمام عالم اسلام کی طرف سے پاکستان کے پاس ایک امانت بھی۔ اگر اس سلسلے میں کسی دباؤ کے تحت ‘ کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتہ compromise کیا گیا تو یہ اللہ ‘ اس کے دین اور تمام عالم اسلام سے ایک طرح کی خیانت ہوگی۔ لہٰذا آج وقت کی یہ اہم ضرورت ہے کہ پاکستانی قوم اپنے دشمنوں سے ہوشیار رہتے ہوئے اس سلسلے میں جرأت مندانہ پالیسی اپنائے ‘ تاکہ اس کے دشمنوں کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کی صورت میں قوت مزاحمت کا توازن deterrence قائم رہے۔ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ ج لاَ تَعْلَمُوْنَہُمْ ج اَللّٰہُ یَعْلَمُہُمْ ط یعنی تمہاری آستینوں کے سانپ منافقین جو درپردہ تمہاری تباہی اور بربادی کے درپے رہتے ہیں۔ تمہاری نظروں سے تو وہ چھپے ہوئے ہیں مگر اللہ تعالیٰ ان کو خوب جانتا ہے۔وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لاَ تُظْلَمُوْنَ یعنی اگر اسلحہ خریدنا ہے ‘ سازو سامان فراہم کرنا ہے ‘ گھوڑے تیار کرنے ہیں تو اس سب کچھ کے لیے اخراجات تو ہوں گے۔ لہٰذا جنگی تیاری کے ساتھ ہی انفاق فی سبیل اللہ کا حکم بھی آگیا ‘ اس ضمانت کے ساتھ کہ جو کوئی جتنا بھی اس سلسلے میں اللہ کے رستے میں خرچ کرے گا اس کو وعدے کے مطابق پورا پورا اجر دیا جائے گا اور کسی کی ذرّہ برابر بھی حق تلفی نہیں ہوگی۔ یہاں انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں سورة البقرة کے رکوع 36 اور 37 میں دیے گئے اَحکام کو ذہن میں دوبارہ تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو ! اب تمہاری تحریک کا وہ مرحلہ شروع ہوچکا ہے جہاں تمہارا جنگ کے لیے ممکن حد تک تیاری کرنا اور کیل کانٹے سے لیس ہونا نا گزیر ہوگیا ہے۔ لہٰذا اب آگے بڑھو اور اس عظیم مقصد کے لیے دل کھول کر خرچ کرو۔ اللہ تمہیں ایک کے بدلے سات سو تک دینے کا وعدہ کرچکا ہے ‘ بلکہ یہ بھی آخری حد نہیں ہے۔ جذبۂ ایثارو خلوص جس قدر زیادہ ہوگا یہ اجر وثواب اسی قدر بڑھتا چلا جائے گا۔ لہٰذا اپنا مال سینت سینت کر رکھنے کے بجائے اللہ کی راہ میں خرچ کر ڈالو ‘ تاکہ دنیا میں اللہ کے دین کے غلبے کے لیے کام آجائے اور آخرت میں تمہاری فلاح کا ضامن بن جائے۔
وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة ومن رباط الخيل ترهبون به عدو الله وعدوكم وآخرين من دونهم لا تعلمونهم الله يعلمهم وما تنفقوا من شيء في سبيل الله يوف إليكم وأنتم لا تظلمون
سورة: الأنفال - آية: ( 60 ) - جزء: ( 10 ) - صفحة: ( 184 )Surah Anfal Ayat 60 meaning in urdu
اور تم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دُوسرے اعداء کو خوف زدہ کرو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہوگا
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- کہہ دو کہ خدا ہی کی حجت غالب ہے اگر وہ چاہتا تو تم سب
- تو جن کے (عملوں کے) بوجھ بھاری ہوں گے۔ وہ فلاح پانے والے ہیں
- اگر تمہارے پروردگار کی مہربانی ان کی یاوری نہ کرتی تو وہ چٹیل میدان میں
- کہیں گے کیا تم ہی ہمارے پاس دائیں (اور بائیں) سے آتے تھے
- (اے محمدﷺ) ہم تمہارا آسمان کی طرف منہ پھیر پھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں۔
- اگر ہم چاہیں تو ہم اسے کھاری کردیں پھر تم شکر کیوں نہیں کرتے؟
- اور صبر کیے رہو کہ خدا نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا
- پھر ان کے بعد ہم نے اور جماعتیں پیدا کیں
- اور (خدائے) پاک (ذات) کا ذکر کرتے رہتے ہیں
- تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے
Quran surahs in English :
Download surah Anfal with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Anfal mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Anfal Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers