Surah baqarah Ayat 124 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 124 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah baqarah ayat 124 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿۞ وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ﴾
[ البقرة: 124]

Ayat With Urdu Translation

اور جب پروردگار نے چند باتوں میں ابراہیم کی آزمائش کی تو ان میں پورے اترے۔ خدا نے کہا کہ میں تم کو لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ (پروردگار) میری اولاد میں سے بھی (پیشوا بنائیو) ۔ خدا نے فرمایا کہ ہمارا اقرار ظالموں کے لیے نہیں ہوا کرتا

Surah baqarah Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) کلمات سے مراد احکام شریعت، مناسک حج، ذبح پسر، ہجرت، نارنمرود وغیرہ وہ تمام آزمائشیں ہیں، جن سے حضرت ابراہیم ( عليه السلام ) گزارے گئے اور ہر آزمائش میں کامیاب وکامران رہے، جس کے صلے میں امام الناس کے منصب پر فائز کئے گئے، چنانچہ مسلمان ہی نہیں، یہودی عیسائی حتیٰ کہ مشرکین عرب سب ہی میں ان کی شخصیت محترم اور پیشوا مانی اور سمجھی جاتی ہے۔
( 2 ) اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ( عليه السلام ) کی اس خواہش کو پورا فرمایا، جس کا ذکر قرآن مجید میں ہی ہے: «وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ»۔ ( العنکبوت: 27 ) ” ہم نے نبوت اور کتاب کو اس کی اولاد میں کردیا۔ “ پس ہر نبی جسے اللہ نے مبعوث کیا اور ہر کتاب جو ابراہیم ( عليه السلام ) کے بعد نازل فرمائی، اولاد ابراہیم ہی میں یہ سلسلہ رہا۔ ( ابن کثیر ) اس کے ساتھ ہی یہ فرما کر کہ ( میرا وعدہ ظالموں سے نہیں ) اس امر کی وضاحت فرمادی کہ ابراہیم کی اتنی اونچی شان اور عنداللہ منزلت کے باوجود، اولاد ابراہیم میں سے جو ناخلف اور ظالم ومشرک ہوں گے، ان کی شقاوت ومحرومی کو دور کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں پیمبر زادگی کی جڑ کاٹ دی ہے۔ اگر ایمان وعمل صالح نہیں، تو پیرزادگی اور صاحبزادگی کی بارگاہ الٰہی میں کیا حیثیت ہوگی؟ نبی ( صلى الله عليه وسلم ) کا فرمان ہے : «مَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِه نَسَبُه» ( صحيح مسلم ، كتاب الذكر والدعاء ...
باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن ... )
” جس کو اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا، اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکے گا۔ “

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


امام توحید اس آیت میں خلیل اللہ حضرت ابراہیم ؑ کی بزرگی کا بیان ہو رہا ہے جو توحید میں دنیا کے امام ہیں انہوں نے تکالیف پر صبر کر کے اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری میں ثابت قدمی اور جوان مردی دکھائی فرماتا ہے اے نبی ﷺ تم ان مشرکین اور اہل کتاب کو جو ملت ابراہیم کے دعویدار ہیں ذرا ابراہیم ؑ کی فرماں برداری اور اطاعت گزاری کے واقعات تو سناؤ تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ دین حنیف پر اسوہ ابراہیمی پر کون قائم ہے وہ یا آپ اور آپ کے اصحاب ؟ قرآن کریم کا ارشاد ہے آیت ( وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّيٰٓ ) 53۔ النجم:37) ابراہیم وہ ہیں انہوں نے پوری وفاداری دکھائی اور فرمایا آیت ( اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا ۭ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ) 16۔ النحل:120) ابراہیم لوگوں کے پیشوا اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار مخلص اور نعمت کے شکر گزار تھے جنہیں اللہ عزوجل نے پسند فرما کر راہ راست پر لگا دیا تھا جنہیں ہم نے دنیا میں بھلائی دی تھی اور آخرت میں بھی صالح اور نیک انجام بنایا تھا پھر ہم نے تیری طرف اے نبی وحی کی کہ تو بھی ابراہیم حنیف کی ملت کی پیروی کر جو مشرکین میں سے نہ تھے اور جگہ ارشاد ہے کہ ابراہیم ؑ نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی تھے نہ مشرک تھے بلکہ خالص مسلمان تھے ان سے قربت اور نزدیکی والا وہ شخص ہے جو ان کی تعلیم کا تابع ہو اور یہ نبی اور ایمان والے ان ایمان والوں کا دوست اللہ تعالیٰ خود ہے ابتلاء کے معنی امتحان اور آزمائش کے ہیں۔ کلمات سے مراد شریعت حکم اور ممانعت وغیرہ ہے کلمات سے مراد کلمات تقدیریہ بھی ہوتی ہے جیسے مریم ( علیہما السلام ) کی بابت ارشاد ہے صدقت بکلمات ربھا یعنی انہوں نے اپنے رب کے کلمات کی تصدیق کی۔ کلمات سے مراد کلمات شرعیہ بھی ہوتی ہے۔ آیت ( وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۭلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ )الأنعام:115) یعنی اللہ تعالیٰ کے شرعی کلمات سے سچائی اور عدل کے ساتھ پورے ہوئے یہ کلمات یا تو سچی خبریں ہیں یا طلب عدل ہے غرض ان کلمات کو پورا کرنے کی جزا میں انہیں امامت کا درجہ ملا، ان کلمات کی نسبت بہت سے اقوال ہیں مثلاً احکام حج، مونچھوں کو کم کرنا، کلی کرنا، ناک صاف کرنا، مسواک کرنا، سر کے بال منڈوانا یا رکھوانا تو مانگ نکالنا، ناخن کاٹنا، زیر ناف کے بال کاٹنا، ختنہ کرانا، بغل کے بال کاٹنا، پیشاب پاخانہ کے بعد استنجا کرنا، جمعہ کے دن غسل کرنا، طواف کرنا، صفا ومروہ کے درمیان سعی کرنا، رمی جمار کرنا، طواف افاضہ کرنا۔ مکمل اسلام حضرت عبداللہ فرماتے ہیں اس سے مراد پورا اسلام ہے جس کے تیس حصے ہیں دس کا بیان سورة برائت میں ہے آیت ( التائبون العابدون ) سے مومنین تک یعنی توبہ کرنا عبادت کرنا حمد کرنا اللہ کی راہ میں پھرنا رکوع کرنا سجدہ کرنا بھلائی کا حکم دینا برائی سے روکنا اللہ کی حدود کی حفاظت کرنا ایمان لانا دس کا بیان " قد افلاح " کے شروع سے یحافظون تک ہے اور سورة معارج میں ہے یعنی نماز کو خشوع خضوع سے ادا کرنا لغو اور فضول باتوں اور کاموں سے منہ پھیرلینا زکوٰۃ دیتے رہا کرنا، شرمگاہ کی حفاظت کرنا، امانت داری کرنا، وعدہ وفائی کرنا، نماز پر ہمیشگی اور حفاظت کرنا قیامت کو سچا جاننا عذابوں سے ڈرتے رہنا سچی شہادت پر قائم رہنا اور دس کا بیان سورة احزاب میں آیت ( اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِيْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِيْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّاۗىِٕـمِيْنَ وَالـﮩـىِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا ) 33۔ الأحزاب:35) تک ہے یعنی اسلام لانا، ایمان رکھنا، قرآن پڑھنا، سچ بولنا، صبر کرنا، عاجزی کرنا، خیرات دینا، روزہ رکھنا، بدکاری سے بچنا، اللہ تعالیٰ کا ہر وقت بکثرت ذکر کرنا، ان تینوں احکام کا جو عامل ہو وہ پورے اسلام کا پابند ہے اور اللہ کے عذابوں سے بری ہے۔ کلمات ابراہیمی میں اپنی قوم سے علیحدگی کرنا بادشاہ وقت سے نڈر ہو کر اسے بھی تبلیغ کرنا پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو مصیبت آئے اس پر صبر کرنا سہنا پھر وطن اور گھر بار کو اللہ کی راہ میں چھوڑ کر ہجرت کرنا مہمانداری کرنا اللہ کی راہ میں جانی اور مالی مصیبت راہ اللہ برداشت کرنا یہاں تک کہ بچہ کو اللہ کی راہ قربان کرنا اور وہ بھی اپنے ہی ہاتھ سے یہ کل احکام خلیل الرحمٰن ؑ بجا لائے۔ سورج چاند اور ستاروں سے بھی آپ کی آزمائش ہوئی امامت کے ساتھ بیت اللہ بنانے کے حکم کے ساتھ حج کے حکم اور مقام ابراہیم کے ساتھ بیت اللہ کے رہنے والوں کی روزیوں کے ساتھ حضرت محمد صلعم کو آپ کے دین پر بھیجنے کے ساتھ بھی آزمائش ہوئی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے خلیل میں تمہیں آزماتا ہوں دیکھتا ہوں تم کیا ہو ؟ تو آپ نے فرمایا مجھے لوگوں کا امام بنا دے، اس کعبہ کو لوگوں کے ثواب اور اجتماع کا مرکز بنا دے، یہاں والوں کو پھلوں کی روزیاں دے یہ تمام باتیں عزوجل نے پوری کردیں اور یہ سب نعمتیں آپ کو عطا ہوئیں صرف ایک آرزو پوری نہ ہوئی وہ یہ کہ میری اولاد کو بھی امامت ملے تو جواب ملا ظالموں کو میرا عہد نہیں پہنچتا کلمات سے مراد اس کے ساتھ کی آیتیں بھی ہیں موطا وغیرہ میں ہے کہ سب سے پہلے ختنہ کرانے والے سب سے پہلے مہمان نوازی کرنے والے سب سے پہلے ناخن کٹوانے والے سب سے پہلے مونچھیں پست کرنے والے سب سے پہلے سفید بال دیکھنے والے حضرت ابراہیم ہی ہیں ﷺ سفید بال دیکھ کر پوچھا کہ اے اللہ یہ کیا ہے ؟ جواب ملا وقار و عزت ہے کہنے لگے پھر تو اے اللہ اسے اور زیادہ کر۔ سب سے پہل منبر پر خطبہ کہنے والے، سب سے پہلے قاصد، بھیجنے والے، سب سے پہلے تلوار چلانے والے، سب سے پہلے مسواک کرنے والے سب سے پہلے پانی کے ساتھ استنجا کرنے والے، سب سے پہلے پاجامہ پہننے والے حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑ ہیں۔ ایک غیر ثابت حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر میں منبر بناؤں تو میرے باپ ابراہیم نے بھی بنایا تھا اور اگر میں لکڑی ہاتھ میں رکھوں تو یہ بھی میرے باپ ابراہیم کی سنت ہے مختلف بزرگوں سے کلمات کی تفسیر میں جو کچھ ہم نے نقل کردیا اور ٹھیک بھی یہی ہے کہ یہ سب باتیں ان کلمات میں تھیں کسی خاص تخصیص کی کوئی وجہ ہمیں نہیں ملی واللہ صحیح مسلم شریف میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے دس باتیں فطرت کی اور اصل دین کی ہیں مونچھیں کم کرنا، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی دینا، ناخن لینا، پر یان دھونی، بغل کے بال لینا، زیر ناف کے بال لینا، استنجا کرنا راوی کہتا ہے میں دسویں بات بھول گیا شاید کلی کرنا تھی۔ صحین میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں پانچ باتیں فطرت کی ہیں ختنہ کرانا، موئے ( بال ) زہار لینا، مونچھیں کم کرنا، ناخن لینا، بغل کے بال لینا ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابراہیم کو وفا کرنے والا اس لئے فرمایا ہے کہ وہ ہر صبح کے وقت پڑھتے تھے آیت ( فَسُـبْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ 17؀ وَلَهُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـيًّا وَّحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ 18؀ يُخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْـحَيِّ وَيُـحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ وَكَذٰلِكَ تُخْرَجُوْنَ 19ۧ ) 30۔ الروم:17) ایک اور روایت میں ہے کہ ہر دن چار رکعتیں پڑھتے تھے لیکن یہ دونوں حدیثیں ضعیف ہیں اور ان میں کئی کئی راوی ضعیف ہیں اور ضعف کی بہت سی وجوہات ہیں بلکہ ان کا بیان بھی بےبیان ضعف جائز نہیں متن بھی ضعف پر دلالت کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ اپنی امت کی خوشخبری سن کر اپنی اولاد کے لئے بھی یہی دعا کرتے تھے جو قبول تو کی جاتی ہے لیکن ساتھ ہی خبر کردی جاتی ہے کہ آپ کی اولاد میں ظالم بھی ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ کا عہد نہ پہنچے گا وہ امام نہ بنائے جائیں گے نہ ان کی اقتدار اور پیروی کی جائے گی سورة عنکبوت کی آیت میں اس مطلب کو واضح کردیا گیا ہے کہ خلیل اللہ کی یہ دعا بھی قبول ہوئی وہاں ہے آیت ( وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ وَاٰتَيْنٰهُ اَجْرَهٗ فِي الدُّنْيَا ) 29۔ العنكبوت:27) یعنی ہم نے ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھ دی۔ حضرت ابراہیم کے بعد جتنے انبیاء اور رسول آئے وہ سب آپ ہی کی اولاد میں تھے اور جتنی کتابیں نازل ہوئیں سب آپ ہی کی اولاد میں ہوئی دعا ( صلوات اللہ وسلامہ علیھم اجمعین ) یہاں یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ آپ کی اولاد میں ظلم کرنے والے بھی ہوں گی، ظالم سے مرد بعض نے مشرک بھی لی ہے عہد سے مراد امر ہے ابن عباس فرماتے ہیں ظالم کو کسی چیز کا والی اور بڑا نہ بنانا چاہئے گو وہ اولاد ابراہیم میں سے ہو، حضرت خلیل کی دعا ان کی نیک اولاد کے حق میں قبول ہوئی ہے یہ بھی معنی کئے گئے ہیں کہ ظالم سے کوئی عہد نہیں کہ اس کی اطاعت کی جائے اس کا عہد توڑ دیا جائے پورا نہ کیا جائے اور یہ بھی مطلب ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے اسے کچھ دینے کا عہد نہیں کیا دنیا میں تو کھا پی رہا ہے اور عیش و عشرت کر رہا ہے۔ بس یہی ہے عہد سے مراد دین بھی ہے یعنی تیری کل اولاد دیندار نہیں جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَمِنْ ذُرِّيَّـتِهِمَا مُحْسِنٌ وَّظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ مُبِيْنٌ ) 37۔ الصافات:113) یعنی ان کی اولاد میں بھلے بھی ہیں اور برے بھی اطاعت کے معنی بھی کئے گئے ہیں یعنی اطاعت صرف معروف اور بھلائی میں ہی ہوگی اور عہد کے معنی نبوت کے بھی آئے ہیں ابن خویز منذاذ مالکی فرماتے ہیں ظالم شخص نہ تو خلیفہ بن سکتا ہے نہ حاکم نہ مفتی نہ گواہ نہ راوی۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


سورة البقرة کے ابتدائی اٹھارہ رکوعوں میں روئے سخن مجموعی طور پر سابقہ امت مسلمہ یعنی بنی اسرائیل کی جانب ہے۔ ابتدائی چار رکوع اگرچہ عمومی نوعیت کے حامل ہیں ‘ لیکن ان میں بھی یہود کی طرف روئے سخن کے اشارے موجود ہیں۔ چوتھے رکوع کے آغاز سے پندرہویں رکوع کی ابتدائی دو آیات تک ‘ ان دس رکوعوں میں ساری گفتگو صراحت کے ساتھ بنی اسرائیل ہی سے ہے ‘ اِلّا یہ کہ ایک جگہ اہل ایمان سے خطاب کیا گیا اور کچھ مشرکین مکہ کا بھی تعریض کے اسلوب میں تذکرہ ہوگیا۔اس کے بعد اب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر شروع ہو رہا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل دو شاخیں ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ سے اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے ‘ جو بڑے تھے ‘ جبکہ دوسری بیوی حضرت سارہ سے اسحاق علیہ السلام پیدا ہوئے۔ ان کے بیٹے یعقوب علیہ السلام تھے ‘ جن کا لقب اسرائیل تھا۔ ان کے بارہ بیٹوں سے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے وجود میں آئے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کے پاس ‘ وادئ غیر ذی زرع میں آباد کیا تھا ‘ جن سے ایک نسل بنی اسماعیل چلی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد نبوت حضرت اسماعیل علیہ السلام کو تو ملی ‘ لیکن اس کے بعد تقریباً تین ہزار سال کا فصل ہے کہ اس شاخ میں کوئی نبوت نہیں آئی۔ نبوت کا سلسلہ دوسری شاخ میں چلا۔ حضرت اسحاق کے بیٹے حضرت یعقوب اور ان کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام سب نبی تھے۔ پھر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام سے شروع ہو کر حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ علیہ السلام تک چودہ سو برس مسلسل ایسے ہیں کہ بنی اسرائیل میں نبوت کا تار ٹوٹا ہی نہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ایک تیسری شاخ بنی قطورہ بھی تھی۔ یہ آپ علیہ السلام کی تیسری اہلیہ قطورہ سے تھی۔ ان ہی میں سے بنی مدین یا بنی مدیان تھے ‘ جن میں حضرت شعیب علیہ السلام کی بعثت ہوئی تھی۔ اس طرح حضرت شعیب علیہ السلام بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا گیا ‘ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بعد بنی اسماعیل میں نبوت کا سلسلہ منقطع رہا۔ یہاں تک کہ تقریباً تین ہزار سال بعد محمد عربی ﷺ کی بعثت ہوئی۔ آپ ﷺ کی بعثت کے بعد امامت الناس سابقہ امت مسلمہ بنی اسرائیل سے موجودہ امت مسلمہ اُمت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کو منتقل ہوگئی۔ اس انتقال امامت کے وقت بنی اسرائیل سے خطاب کرتے ہوئے ان کے اور بنی اسماعیل کے مابین قدر مشترک کا تذکرہ کیا جا رہا ہے تاکہ ان کے لیے بات کا سمجھنا آسان ہوجائے۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ تمہارے جدامجد بھی ابراہیم علیہ السلام ہی تھے اور یہ دوسری نسل بھی ابراہیم علیہ السلام ہی کی ہے۔ اس حوالے سے یہ سمجھ لیا جائے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی اور اب اسے اہل توحید کا مرکز بنایا جا رہا ہے ‘ چناچہ پندرہویں رکوع سے اٹھارہویں رکوع تک یہ ساری گفتگو جو ہو رہی ہے اس کا اصل مضمون تحویل قبلہ ہے۔آیت 124 وَاِذِ ابْتَلآی اِبْرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ط عید الاضحی اور فلسفۂ قربانی کے عنوان سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیتّ پر میرا ایک کتابچہ ہے جو میری ایک تقریر اور ایک تحریر پر مشتمل ہے۔ تحریر کا عنوان ہے : حج اور عید الاضحی اور ان کی اصل روح۔ اپنی یہ تحریر مجھے بہت پسند ہے۔ اس میں میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے امتحانات اور آزمائشوں کا ذکر کیا ہے۔ آپ علیہ السلام کے طویل سفر حیات کا خلاصہ اور لب لباب ہی امتحان و آزمائش ہے ‘ جس کے لیے قرآن کی اصطلاح ابتلاء ہے۔ اس آیت مبارکہ میں ان کی پوری داستان ابتلا کو چند الفاظ میں سمو دیا گیا ہے ‘ اور فَاَتَمَّہُنَّ کا لفظ ان تمام امتحانات کا نتیجہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ ان سب میں پورا اترے ‘ ان سب میں پاس ہوگئے ‘ ہر امتحان میں نمایاں حیثیت سے کامیابی حاصل کی۔قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ للنَّاسِ اِمَامًا ط قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ ط یعنی میری نسل کے بارے میں بھی یہ وعدہ ہے یا نہیں ؟قَالَ لاَ یَنَالُ عَہْدِی الظّٰلِمِیْنَ یعنی تمہاری نسل میں سے جو صاحب ایمان ہوں گے ‘ نیک ہوں گے ‘ سیدھے راستے پر چلیں گے ‘ ان سے متعلق ہمارا یہ وعدہ ہے۔ لیکن یہ عہد نسلیت کی بنیاد پر نہیں ہے کہ جو بھی تمہاری نسل سے ہو وہ اس کا مصداق بن جائے۔

وإذ ابتلى إبراهيم ربه بكلمات فأتمهن قال إني جاعلك للناس إماما قال ومن ذريتي قال لا ينال عهدي الظالمين

سورة: البقرة - آية: ( 124 )  - جزء: ( 1 )  -  صفحة: ( 19 )

Surah baqarah Ayat 124 meaning in urdu

یاد کرو کہ جب ابراہیمؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزما یا اور وہ اُن سب میں پورا اتر گیا، تو اس نے کہا: "میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں" ابراہیمؑ نے عرض کیا: "اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟" اس نے جواب دیا: "میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے"


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. بےشک نیک لوگ چین میں ہوں گے
  2. وہ جس کو چاہتا ہے دانائی بخشتا ہے۔ اور جس کو دانائی ملی بےشک اس
  3. وہ کہنے لگے کہ اگر ہماری موجودگی میں کہ ہم ایک طاقتور جماعت ہیں، اسے
  4. (اے پیغمبر) جس (خدا) نے تم پر قرآن (کے احکام) کو فرض کیا ہے وہ
  5. وہ اس سے (اوروں کو بھی) روکتے ہیں اور خود بھی پرے رہتے ہیں مگر
  6. اور جنہوں نے برے کام کیے پھر اس کے بعد توبہ کرلی اور ایمان لے
  7. اور یہ بھی مقصود تھا کہ خدا ایمان والوں کو خالص (مومن) بنا دے اور
  8. اور جو لوگ ایمان نہیں لائے ان سے کہہ دو کہ تم اپنی جگہ عمل
  9. اور اپنے ہاتھ میں جھاڑو لو اور اس سے مارو اور قسم نہ توڑو۔ بےشک
  10. (اس وقت) خدا کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوئی اور نہ وہ

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :

surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
surah baqarah Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah baqarah Bandar Balila
Bandar Balila
surah baqarah Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah baqarah Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah baqarah Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah baqarah Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah baqarah Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah baqarah Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah baqarah Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah baqarah Fares Abbad
Fares Abbad
surah baqarah Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah baqarah Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah baqarah Al Hosary
Al Hosary
surah baqarah Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah baqarah Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Monday, November 4, 2024

Please remember us in your sincere prayers